Tag: موسیقی

  • بارشوں کے موسم میں موڈ کو مزید خوشگوار بنانے والے گیت

    بارشوں کے موسم میں موڈ کو مزید خوشگوار بنانے والے گیت

    کراچی : ساؤن کا موسم آیا، بادل گرج بھی رہے ہیں اوربرس بھی رہےہیں، ملک بھر کے علاقوں میں مون سون کی بارشوں نے موسم دلفریب کر دیا۔

    برکھارت کی جھڑی کیساتھ جہاں موسم بدلنے لگتا ہے وہاں موڈ بھی اچھا ہونے لگتا ہے ایسے میں ہمارے پرانے موسیقاروں کے گیت اگر یاد آنے لگے تو انکی آوازیں کانوں میں جیسے رس گھولنے لگتی ہیں۔

    بارشوں میں موسم کیساتھ ساتھ موڈ بھی خوشگوار ہوجاتا ہے ایسے میں موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

    برکھارت میں موسم سہانا ہوگیا، گھنگھور گھٹائیں کیا برسیں، ہر چیزنکھری نکھری اور دلفریب نظرآنے لگی،بھیگا بھیگا موسم منچلا ہوگیا، جہاں پھول پتوں اور درختوں نےساون میں جھومنا شروع کیا وہیں لبوں پر خود بخود ساون کے گیت آنے لگے۔

    کالے بادلوں کے برستے ہی موسم جیسے نکھرسا گیا ہو، بارش کی بوُندوں کا مٹی کو مہکانا، بجلی کا چمکنا اور بادلوں کا گرجنا یہ تمام چیزیں جب سامنے ہوں تو ایسے میں ہمارے موسیقاروں کے گیت کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں جیسے ناہید اختر کا خوبصورت گیت ’ساون کے دن آئے‘ ۔

     نیرہ نور کی اس گیت کی کیا ہی بات ہے کہ ’پھر ساون رت کی‘۔

     ملکہ ترنم نور جہاں نے کچھ یوں سر بکھیرے ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘۔

     اخلاق احمد ساون میں کچھ یوں گنگناتے ہیں کہ ’ساون آئے ساون جائے‘۔

    بارش کے موسم میں احمد رشدی کا یہ گانا بھلا کسے یاد نہ آئے گا کہ ’اے ابر کرم آج اتنا برس‘ـ

    ایسے میں نئے گلوکار بھی پیچھے نہیں ہیں علی حیدر کا یہ گیت کیا خوب یاد آیا، ’بارش کا ہے موسم چلے ٹھنڈی ہوا‘۔

     سلیم جاوید نےبھی بارش کی منظر کشی ان الفاظ میں کی کہ ’بارش کی چند بوندیں میرے دل کو ڈبوئے جائیں‘۔

    علی عظمت بادلوں کی گرج برس کے گیت کو کچھ یوں گایا، ’گرج برج ساون گھِر آیو‘۔

  • نقاب پہن کر گٹار بجانے والی فنکارہ

    نقاب پہن کر گٹار بجانے والی فنکارہ

    کیا آپ نے کبھی کسی باحجاب فنکار کو دیکھا ہے جو نقاب کے پیچھے چھپ کر گانا گائے یا گٹار بجائے؟

    یقیناً یہ ایک حیرت انگیز بات اور روایتی تصور کے خلاف ہوگی۔

    لیکن برازیل کی گزیل میری اسی روایتی اور فرسودہ تصور کو پاش پاش کر چکی ہیں جو نقاب پہن کر گٹار بجاتی ہیں۔

    5

    ساؤ پاؤلو کی رہائشی 42 سالہ میری عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں، لیکن 2009 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔

    لیکن انہوں نے اپنا پیشہ، جو کہ ان کا شوق بھی ہے نہیں چھوڑا۔ وہ ایک پروفیشنل موسیقار ہیں اور گٹار بجاتی ہیں۔ میری اور ان کے بھائی نے مل کر ایک میوزک بینڈ بھی بنایا تھا جس میں میری گٹار بجایا کرتی تھیں۔ تاہم ذاتی اختلافات کی وجہ سے وہ بینڈ ٹوٹ گیا۔

    7

    6

    اب میری مکمل برقعہ اور نقاب میں ملبوس، گٹار بجاتی ہیں اور کچھ گلوکاروں کے ساتھ مل کر بہت جلد ایک البم بھی ریلیز کرنے والی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’اسلام میرا مذہب ہے اور موسیقی میرا شوق۔ مذہب مجھے میرے شوق کی تکمیل سے کسی صورت نہیں روکتا‘۔

    4

    میری کو شعبہ موسیقی اور مذہبی افراد دونوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ مذہبی افراد ان کے گٹار بجانے پر تنقید کرتے ہیں، جبکہ موسیقاروں اور دیگر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس بات پر اعتراض ہے کہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہ مناسب لباس نہیں ہے۔

    تاہم میری کو اس بات کی چنداں فکر نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کسی کا پیشہ، اور اس کا مذہب بالکل ذاتی معاملات ہیں اور کسی کو اس پر رائے زنی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ’مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مجھے برقعہ میں ملبوس، یا گٹار بجاتے دیکھ کر کیا سوچتے ہیں‘۔

    3

    البتہ ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو میری کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں اور اس کی فنکارانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہیں۔

    اپنے قبول اسلام کے بارے میں میری کا کہنا ہے، ’میرا تعلق ایک کٹر عیسائی گھرانے سے ہے۔ لیکن جب میں نے اسلام قبول کیا تو میرے خاندان نے اسے کھلے دل سے قبول کیا۔ یہی نہیں انہوں نے میرے باحجاب لباس پر بھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا‘۔

    2

    1

    میری اکثر کنسرٹس میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں جہاں انہیں تعریف و تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    میری کا ماننا ہے کہ ایک باعمل مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے شوق کی تکمیل سے وہ اسلام کا ایک مثبت تشخص اجاگر کرنا چاہتی ہیں کہ، اسلام شدت پسند مذہب ہرگز نہیں اور اس میں فنون لطیفہ کی بھی گنجائش ہے۔

  • پیانو بجانے کا ماہر 5 سالہ ننھا فنکار

    پیانو بجانے کا ماہر 5 سالہ ننھا فنکار

    آپ نے بے شمار باصلاحیت فنکاروں کو دیکھا ہوگا جو گٹار، پیانو یا کوئی اور آلہ موسیقی بجانے کی شاندار صلاحیت رکھتا ہوگا۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک پیانسٹ سے ملواتے ہیں جس کی عمر صرف 5 سال ہے۔

    piano-4

    ایوان لے امریکی شہر کیلیفورنیا میں رہائش پذیر ہے۔ وہ حیران کن صلاحیتوں کا مالک بچہ ہے۔ ابتدا میں جب وہ کوئی اچھی دھن سنتا تو ایک بار سننے کے بعد ہی وہ اسے یاد ہوجاتی اور وہ اسے گنگنانے لگتا۔

    piano-3

    صرف 3 سال کی عمر میں اس نے پیانو بھی بجانا شروع کردیا اور پیانو پر اپنی پسندیدہ دھنیں بجا کر سب کو حیران کردیا۔

    اس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس کے والدین نے اسے باقاعدہ پیانو بجانے کی تربیت دلوانی شروع کی اور 5 سال کی عمر میں وہ خود اپنی موسیقی تخلیق کرنے لگا۔

    ایوان اب تک کئی ٹی وی پروگرامز میں پرفارم کرچکا ہے۔ پیانو پر اس کی ننھی ننھی انگلیاں اس قدر ماہرانہ انداز میں حرکت کرتی ہیں کہ سب ہی دنگ رہ جاتے ہیں۔

  • کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    آپ نے کچرے سے بہت سی چیزیں بنتی دیکھی ہوں گی، لوگ کچرے کو ری سائیکل کر کے ان سے کئی کارآمد چیزیں بنا لیتے ہیں۔ چین میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو کچرے سے موسیقی کے آلات بناتا ہے۔

    چین کے گونگ شی شہر سے تعلق رکھنے والے گلن لی کچرے سے غیر روایتی آلات بناتے ہیں اور یہ ان کا مشغلہ ہے۔ وہ ایک ادارے میں سیکیورٹی گارڈ کی ملازمت کرتے ہیں اور ملازمت ختم ہونے کے بعد کارآمد چیزوں کی تلاش میں کچرا کنڈیوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

    m3

    m2

    وہ کچرے سے اپنے لیے کارآمد چیزیں جیسے بالٹیاں وغیرہ جمع کرلیتے ہیں۔

    ان کے بنائے ہوئے آلات موسیقی چینی اور مغربی آلات کا مجموعہ ہوتے ہیں جو غیر روایتی ہوتے ہیں مگر خوبصورت دھنیں تخلیق کرتے ہیں۔

    موسیقی کی دھنیں بکھیرتا مندر *

    کروشیا میں سمندر کی لہروں سے موسیقی *

    کوک اسٹوڈیو کی سماعت سے محروم بچوں کے لیے موسیقی *

    لی کو موسیقی کا شوق اپنے بھائی کو دیکھ کر ہوا جو چینی آرمی کے لیے پرفارم کیا کرتے تھے۔

    m5

    m6

    m7

    انہوں نے ایک روایتی چینی آلہ موسیقی ’یرہوا‘ بھی تیار کیا ہے جو دنیا میں سب سے بلند ہے اور اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہے۔

  • کروشیا میں سمندر کی لہروں سے موسیقی

    کروشیا میں سمندر کی لہروں سے موسیقی

    اگر آپ کبھی کروشیا کا سفر کریں تو سمندر کی سحر انگیز موسیقی ضرور سنیں جو ایک 230 فٹ آرگن پر بجائی جاتی ہے۔

    حیران مت ہوں۔ دراصل یہ کروشیا کے شہر زدار میں سمندر کنارے تعمیر کی گئی سیڑھیاں ہیں جنہیں موسیقی کے آلہ آرگن کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔

    crotia-2

    اس میں آرگن ہی کی طرح سوراخ ہیں جبکہ اس کے اندر مختلف چیمبرز بنائے گئے ہیں۔

    crotia-4

    جب پانی ان سیڑھیوں سے ٹکراتا ہے تو وہ ان سوراخوں کے اندر داخل ہوجاتا ہے، جو ہوا کے ساتھ مل کر ایک سحر انگیز اور پراسرار سی موسیقی تخلیق کرتا ہے۔

    crotia-3

    چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فطرت کی تخلیق کی جانے والی موسیقی ہے۔

    اس وسیع آرگن کو ایک مقامی ماہر تعمیر نکولا بیسک نے 2005 میں بنایا تھا۔

    سی آرگن کے نام سے مشہور یہ جگہ فطرت کے دلدادہ افراد کا پسندیدہ مقام ہے۔

  • آج دنیا بھر میں موسیقی کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج دنیا بھر میں موسیقی کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ورلڈ میوزک ڈے کا آغاز انتیس سال پہلے فرانس کے شہر پیرس سے ہوا۔ چند سالوں سے یہ دن پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے۔

    موسیقی کی روایت برصغیر میں بہت پرانی ہے اور برصغیرکی کلاسیکل موسیقی سننے والوں پر مختلف کیفیات طاری کرتی ہے۔ اس کے علاوہ غزل ، گیت ، فوک اور پلے بیک سنگنگ وغیرہ بھی یہاں کے لوگوں میں انتہائی مقبول ہے۔

    قیام پاکستان کے بعد نورجہاں، مہدی حسن، احمد رشدی، مسعود رانا اور دیگر متعدد افراد نے اپنے سریلے گیتوں سے کروڑوں افراد کو اپنا دیوانہ بنایا۔مثال کے طور پر جیسے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے۔

    بھارت کی بات کی جائے تو وہاں لتا منگیشکر، محمد رفیع، کشور کمار اور مکیش جیسے گلوکار موسیقی کی دنیا میں دھوم مچاتے رہے اور ان کے گائے ہوئے گیت برسوں بعد بھی بالکل تازہ محسوس ہوتے ہیں، مگر موجودہ عہد پاپ اور دیگر جدید طرز موسیقی کا ہے جس پر امریکہ و برطانیہ کے گلوکار چھائے ہوئے ہیں۔

    مائیکل جیکسن سے شروع ہونے والا یہ سفر اب لیڈی گاگا، جسٹن بائبر اور کیٹی پیری جیسے سنگرز تک پھیل چکا ہے جنھیں دنیا بھر میں انتہائی مقبولیت حاصل ہے۔

    ورلڈ میوزک ڈے دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کو موسیقی کے ذریعے امن ، محبت اور بھائی چارے کی زنجیر میں باندھنے کی ایک خوبصورت کوشش ہے۔

  • برسات کے موسم میں موسیقی موڈ کو مزید خوشگوار بنادیتی ہے

    برسات کے موسم میں موسیقی موڈ کو مزید خوشگوار بنادیتی ہے

    کراچی : ساؤن کا موسم آیا،بادل گرج بھی رہے ہیں اوربرس بھی رہےہیں، ملک بھر کے علاقوں میں مون سون کی بارشوں نے موسم دلفریب کردیا۔

    برکھارت کی جھڑی کیساتھ جہاں موسم بدلنے لگتا ہے وہاں موڈ بھی اچھا ہونے لگتا ہے ایسے میں ہمارے پرانے موسیقاروں کے گیت اگر یاد آنے لگے تو انکی آوازیں کانوں میں جیسے رس گھولنے لگتی ہیں۔

    بارشوں میں موسم کیساتھ ساتھ موڈ بھی خوشگوار ہوجاتا ہے ایسے میں موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

    برکھارت میں موسم سہانا ہوگیا، گھنگھور گھٹائیں کیا برسیں، ہر چیزنکھری نکھری اوردلفریب نظرآنےلگی،بھیگا بھیگا موسم منچلا ہوگیا، جہاں پھول پتوں اور درختوں نےساون میں جھومنا شروع کیا وہیں لبوں پر خود بخود ساون کے گیت آنے لگے۔

    کالےبادلوں کےبرستے ہی موسم جیسےنکھرساگیاہو، بارش کی بوُندوں کا مٹی کو مہکانا، بجلی کا چمکنا اور بادلوں کا گرجنا یہ تمام چیزیں جب سامنے ہوں تو ایسے میں ہمارے موسیقاروں کے گیت کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں جیسے ناہید اختر کا خوبصورت گیت ’ساون کے دن آئے‘ ۔

     نیرہ نور کی اس گیت کی کیا ہی بات ہے کہ ’پھر ساون رت کی‘۔

     ملکہ ترنم نور جہاں نے کچھ یوں سر بکھیرے ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘۔

     اخلاق احمد ساون میں کچھ یوں گنگناتے ہیں کہ ’ساون آئے ساون جائے‘۔

    بارش کے موسم میں احمد رشدی کا یہ گانا بھلا کسے یاد نہ آئے گا کہ ’اے ابر کرم آج اتنا برس‘ـ

    ایسےمیں نئے گلوکار بھی پیچھے نہیں ہیں علی حیدر کایہ گیت کیا خوب یاد آیا، ’بارش کا ہے موسم چلے ٹھنڈی ہوا‘۔

     سلیم جاوید نےبھی بارش کی منظر کشی ان الفاظ میں کی کہ ’بارش کی چند بوندیں میرے دل کو ڈبوئے جائیں‘۔

    علی عظمت بادلوں کی گرج برس کے گیت کو کچھ یوں گایا، ’گرج برج ساون گھِر آیو‘۔