Tag: مولانا آزاد

  • پاکستان اور ابوالکلام آزاد کی برہمی

    پاکستان اور ابوالکلام آزاد کی برہمی

    مولانا ابوالکلام آزاد کو ہندوستان بھر میں بے پناہ شہرت اور عزت ملی۔ وہ ایک قوم پرست ہندوستانی تھے۔

    مولانا آزاد کو ان کی سیاسی بصیرت، دینی فہم، علمی و ادبی کاوشوں کی وجہ سے بھی شہرت ملی۔ وہ سعودی عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ عربی زبان پر عبور رکھنے والے مولانا آزاد کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ آزاد، ان چند بڑے ہندوستانی لیڈروں میں سے تھے جن کو مسلم لیڈر کہلوانا پسند نہیں تھا اور انھیں ایک قوم پرست کے طور پر پہچانا گیا۔ تقسیمِ ہند کی مخالفت کرنے والے مولانا آزاد نے بٹوارے کے اعلان کے بعد ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو بھی پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا لیکن بعد میں انھوں نے پاکستان کو ایک مملکت اور خودمختار ریاست کی حیثیت سے دیکھا اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تو کئی لیڈر اور عام مسلمان بھی جو ان کے مخالف ہوچکے تھے، حیران رہ گئے۔ تحریکِ آزادی کے اس مقبول لیڈر کی جماعت کانگریس تھی اور وہ گاندھی کے ساتھ رہے تھے۔ پاکستان کے متعلق مولانا آزاد کی رائے اور ان کے جذبات کیا تھے، یہ ایک واقعہ کی شکل میں پیشِ‌ خدمت ہے۔

    پنجاب یونیورسٹی نے ان دنوں جرمن اور فرانسیسی پڑھانے کے لیے شام کی کلاسیں شروع کی ہوئی تھیں۔ میں نے اور میرے رفیقِ کار محمد اجمل نے جرمن کلاس میں داخلہ لے لیا۔

    ڈاکٹر بی اے قریشی جو اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل رہ چکے تھے، ہمارے استاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب جو غازی آباد کے رہنے والے تھے خاصا عرصہ برلن میں گزار چکے تھے۔ ایک مرتبہ کئی روز بعد کلاس میں آئے۔ واپسی پر ہم نے سبب پوچھا۔ تو کہنے لگے ”دلّی چلا گیا تھا۔“

    دلّی ان دنوں آنا جانا روز کا معمول تھا۔ لوگ احتیاطاً صرف اتنا دیکھ لیتے کہ امن و امان کی صورت کیا ہے؟ کیوں کہ وہاں سے اچھی خبریں نہیں آ رہی تھیں۔ اس لیے ہم نے پوچھا، ”دلّی میں قیام کہاں رہا…؟“ کہنے لگے، ”مولانا آزاد کے ہاں…“

    یہ سن کر اشتیاق بڑھا، تو میں نے پوچھا: ”مولانا کا خیال پاکستان کے بارے میں کیا ہے؟“ کہنے لگے: ”میرے روبرو ایک صاحب لاہور سے وارد ہوئے تھے۔ مولانا نے ان سے پوچھا ’کہیے لاہور ان دنوں کیسا ہے…؟‘ تو وہ صاحب کہنے لگے، بڑی ناگفتہ بہ حالت ہے، ہمیں تو پاکستان چلتا دکھائی نہیں دیتا…‘ ان کے اتنا کہنے پر مولانا کا مزاج برہم ہو گیا اور وہ جوش میں آ کے کہنے لگے، ’جائیے واپس، لاہور اور پاکستان کو چلائیے۔ اب اگر پاکستان مٹ گیا، تو ایشیا سے مسلمان کا نام مٹ جائے گا۔“

    یہ گفتگو ہمارے لیے تعجب کا باعث تھی، اس لیے کہ ہم مولانا کو اور ہی رنگ میں دیکھنے کے عادی تھے۔ کئی برس گزرے ایک محفل میں، میں نے اس واقعہ کو دہرایا۔ وہاں اتفاق سے ہمارے دفتر کے فورمین محمد عثمان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ عثمان ہمارے ساتھ ’ڈان‘ (دلّی) میں کام کر چکے تھے۔ ان کی ہمدردیاں جمعیت علمائے ہند کے ساتھ تھیں۔ اس لیے وہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ دلّی میں ٹھیرے رہے۔ پہلی عید الفطر کے روز وہ آصف علی کے مکان پر قوم پرست، مسلمان راہ نماؤں سے عید ملنے گئے۔ مولانا بھی وہاں موجود تھے۔ پاکستان کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ”مسلمانانِ عالم کی فلاح اسی میں ہے کہ پاکستان مستحکم ہو اور پھلے پھولے۔“

    (مولوی محمد سعید کی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے ماخوذ)

  • "ہم اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے!”

    "ہم اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے!”

    جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرند ہر صبح و شام چہکیں، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟

    مصیبت ساری یہ ہے کہ خود ہمارا دل و دماغ ہی گم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے سے باہر ساری چیزیں ڈھونڈتے رہیں گے، مگر اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے۔ حالانکہ اگر اسے ڈھونڈ نکالیں تو عیش و مسرت کا سارا سامان اسی کوٹھڑی کے اندر سمٹا ہوا مل جائے۔ ایوان و محل نہ ہوں تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں، دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے تو سبزۂ خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں، اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں ہیں تو آسمان کی قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے۔ اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہو گئیں ہیں تو ہو جائیں، صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی، چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی، لیکن اگر دل زندہ پہلو میں نہ رہے، تو خدارا بتلائیے اس کا بدل کہاں ڈھونڈیں؟ اس کی خالی جگہ بھرنے کے لیے کس چولھے کے انگارے کام دیں گے۔

    میں آپ کو بتلاؤں اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا۔ کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ دھیمی نہیں پڑے گی، میں جانتا ہوں کہ جہاں زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدۂ خلوت کے دم سے ہیں۔ یہ اجڑا اور ساری دنیا اجڑ گئی۔

    (انشاء پرداز مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب غبارِ خاطر سے اقتباس)

  • آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

    آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

    دنیائے فانی میں کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جنہیں تاریخ بناتی ہے اور کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جو خود تاریخ بناتے ہیں جنہیں تاریخ ساز کہا جاتا ہے۔ بے شک مولانا آزاد ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔

    ایک روز میں اور جوش صاحب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے، جوش صاحب کو کچھ کام تھا لیکن میں یوں ہی ساتھ ہو لیا۔ مولانا ملاقاتیوں میں گھرے ہوئے تھے، جب کچھ دیر رکنے کے بعد بھی ہماری باریابی نہ ہوسکی تو جوش صاحب کہنے لگے، بھئی ہم تو اب چلتے ہیں۔ میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ مولانا نے تو آپ کو نہیں وقت دیا، آپ خود ہی تشریف لائے ہیں، ذرا اور انتظار کیجیے۔ جوش صاحب ان معاملات میں ضرورت سے زیادہ حساس تھے چنانچہ انہوں نے فوراً ہی یہ شعر لکھ کر چپڑاسی کے حوالے کیا اور چل پڑے:

    نامناسب ہے خون کھولانا
    پھر کسی اور وقت مولانا

    ابھی ہم دس بیس قدم ہی گئے ہوں گے کہ اجمل خاں ہانپتے ہانپتے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ مولانا کو تو آپ کے آنے کا علم ہی اب ہوا ہے، آپ آئیے مولانا یاد فرمارہے ہیں۔ چنانچہ ہم لوٹ آئے اور مولانا نے ہمیں بلا لیا اور معذرت کی کہ ہمیں انتظار کرنا پڑا۔

    فرمانے لگے کہ تمام وقت سیاسی لوگوں کی صحبت میں گزر جاتا ہے، جی بہت چاہتا ہے کہ کبھی کبھار علمی صحبت بھی میسر ہوتی رہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دو چار دس دن میں کبھی تشریف لے آیا کریں تو کچھ راحت ملے۔ جوش صاحب نے وعدہ فرما لیا، میں تو چونکہ جوش صاحب کے ساتھ تھا، مولانا نے مجھے بھی یہ دعوت دی حالانکہ ان دونوں حضرت کے سامنے میری حیثیت ایک طفلِ مکتب کی بھی نہیں تھی۔

    اسی سلسلے میں ہم ایک شام آٹھ بجے کے قریب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اجمل خاں آئے اور کہنے لگے کہ مولانا پنڈت جواہر لال نہرو جی کا فون آیا ہے، کسی ضروری مشورے کے لئے آپ کے پاس آرہے ہیں۔ یہ سن کر مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو فون کر دو کہ میں ابھی فارغ نہیں ہوں۔ میں نے اور جوش صاحب نے لاکھ کہا کہ ہمارا تو کوئی خاص کام تھا ہی نہیں، یوں ہی چلے آئے تھے، آپ ہماری وجہ سے پنڈت جی کو نہ روکیں، لیکن مولانا نہیں مانے۔ اتنے میں پھر اجمل خاں آگئے اور کہنے لگے کہ پنڈت تو گھر سے چل پڑے ہیں اور دو چار منٹ میں آتے ہی ہوں گے۔ ہم نے پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن مولانا نہیں مانے، اتنے میں پنڈت جی آگئے تو مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دو۔ اس کے بعد بھی مولانا نے پانچ سات منٹ ہم لوگوں کے ساتھ گزارے، لیکن جب انہیں احساس ہوگیا کہ ہمیں سخت کوفت ہورہی ہے تو فرمانے لگے آپ ابھی جائیے نہیں، میں پنڈت جی سے بات کر کے آتا ہوں۔ چنانچہ دس بیس منٹ کے بعد مولانا تشریف لائے اور آدھ پون گھنٹہ ہمارے ساتھ باتیں کرتے رہے، اس واقعے کا ذکر کرنے سے مولانا کی عظمت، خود داری، مہمان نوازی اور وقار کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔ ورنہ کتنے آدمی ایسے ہوں گے جو پنڈت جی کو آنے سے روک دیتے؟

    جوش صاحب اردو شاعری کے بادشاہ تھے۔ جتنا ذخیرۂ الفاظ ان کے پاس تھا شاید کسی اور کو نصیب نہ ہوا ہو، لیکن صرف دو ایسی ہستیاں تھیں جن کے سامنے جوش صاحب خاموش رہنا زیادہ مناسب سمجھتے اور وہ تھے مولانا آزاد اور مولانا عبدالسّلام نیازی۔ ایک روز میں نے جوش صاحب سے پوچھا کہ جب کبھی آپ مولانا آزاد یا مولانا عبدالسّلام نیازی سے ملتے ہیں تو اکثر خاموش ہی رہتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ تو جوش صاحب کہنے لگے کہ یہ دونوں حضرات اسی قدر پڑھے لکھے اور عالم ہیں کہ ان کے سامنے منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔

    (اردو کے معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے مضمون سے اقتباسات)

  • مولانا ابو الکلام آزاد کی ”انا“

    مولانا ابو الکلام آزاد کی ”انا“

    یہ تذکرہ ہے برصغیر کی دو علمی اور ادبی شخصیات کا جن کے افکار اور کردار کی ہندوستان کی تہذیب اور سیاست پر گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ایک تھے انشاء پرداز اور صاحبِ اسلوب ادیب آزاد اور دوسرے بے مثل خطیب اور شعلہ بیاں مقرر نواب بہادر یار جنگ۔

    ان دونوں کا تذکرہ ہندوستان کی سبھی ممتاز اور قابل شخصیات نے بڑی عقیدت اور محبّت سے کیا ہے۔ یہ اقتباس ملّا واحدی کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب بہادر یار جنگ سے بھی ’نظام المشائخ‘ کے ابتدائی زمانے میں نواب بدھن کے کمرے میں ہی ملاقات ہو گئی تھی۔ یہ دونوں میرے ہم عمر تھے۔ ”

    "مولانا ابو الکلام سے میں ایک دفعہ پہلے بھی مل چکا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ کان پور کے اسٹیشن پر اور حافظ محمد حلیم، تاجر چرم کان پور کی کوٹھی میں اور پھر 1947 تک ملتا رہا۔ وہ میرے ہاں بیسیوں مرتبہ تشریف لائے اور آخر میں تو مسٹر آصف علی کا گھر ان کا گھر بن گیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ سے جہاں تک یاد پڑتا ہے، دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ البتہ ان کی دین داری اور ان کے اخلاص کی تعریفیں ہر شخص سے سنتا رہا۔”

    "مولانا ابوالکلام کو تو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحریر کیسی تھی، اس کا علم نہیں ہے۔ تقریر میں وہ مولانا ابوالکلام کے مقابلے کے بتائے جاتے تھے۔ گویا اردو زبان کے مقرروں میں صف اوّل کے مقرر تھے۔”

    "مولانا ابوالکلام کو انڈین نیشنل کانگریس میں جو مقام حاصل تھا، وہی مقام آل انڈیا مسلم لیگ میں نواب بہادر یار جنگ کا تھا۔”

    "مولانا ابو الکلام اور نواب بہادر یار جنگ کی بات چیت بھی غیر معمولی پرکشش ہوتی تھی۔ مولانا ابوالکلام اپنی مشہور ”انا“ کے باوجود مخاطب کو متاثر کرلیتے تھے اور نواب بہادر یار جنگ کی زبان کا جادو بھی مجھے یاد ہے۔ 1911ء میں نواب صاحب نواب بہادر خان تھے۔ ’نواب بہادر یار جنگ‘ کا خطاب بعد میں ملا تھا۔”

    "مولانا ابوالکلام کی ”انا“ مغروروں اور متکبّروں کی سی ”انا“ نہیں تھی۔ وہ بس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں تھے۔ تو یہ تو قابل ستائش ”انا“ ہے۔ یا اپنے علم و فضل اور اپنی ذہانت و طباعی کا انھیں احساس تھا، تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ تھے ہی مولانا واقعی جینئس۔ مغرور اور متکبّر وہ قطعی نہیں تھے۔ میں نے ان کی حالت میں کبھی فرق نہیں پایا۔ مولانا ابو الکلام جیسے 1910ء میں تھے 1947ء تک مجھے تو ویسے ہی نظر آئے۔ اقتدار نے ان کے دماغ اور زبان پر کوئی خراب اثر نہیں کیا تھا۔ وہ گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ہم معمولی ملنے والوں پر دھونس نہیں جماتے تھے۔”

  • آزاد اور شبلی کی پہلی ملاقات کا دل چسپ قصّہ

    آزاد اور شبلی کی پہلی ملاقات کا دل چسپ قصّہ

    یہ ہندوستان کے اُن دو نابغانِ عصر اور اصحابِ علم و ادب کا تذکرہ ہے جن کی عمروں‌ میں‌ بڑا تفاوت تھا، مگر جب باہم تعلق استوار ہوا اور ملاقات ہوئی تو اس بندھن میں عقیدت و ارادت کے پھول کھلے اور شفقت کی خوش بُو گھلتی گئی، ان کا یہ تعلق احترام کے ساتھ دوستانہ بے تکلفّی تک بھی پہنچا۔

    بات ہو رہی ہے مولانا ابوالکلام آزاد اور علّامہ شبلی نعمانی کی جو برطانوی دور کے عوام بالخصوص مسلمانانِ ہند کے بڑے خیر خواہ اور مصلحِ قوم گزرے ہیں۔ شبلی 1914ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے جب کہ آزاد نے 1958ء میں دارِ فانی سے کوچ کیا۔ ان نادرِ روزگار شخصیات کے درمیان خط کتابت کا آغاز اور اوّلین ملاقات سے متعلق ہم ظفر احمد صدیقی کے ایک تحقیقی مضمون سے چند اقتباسات نقل کر رہے ہیں جس سے ان دونوں‌ شخصیات کے علمی مرتبہ اور اوصاف کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مولانا ابو الکلام آزاد بلاشبہ نابغۂ روزگار تھے۔ ان کی غیر معمولی ذہانت و ذکاوت، مسحور کن خطابت، بے مثال انشا پردازی، اس کے ساتھ ہی دانش وری اور سیاسی بصیرت کو اب مسلّمات کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی وسعتِ مطالعہ، قوتِ حافظہ اور جامعیت بھی عجیب و غریب تھی۔ اسلامیات، شعر و ادب، تاریخ و جغرافیہ اور طب جیسے متنوع اور مختلف الجہات علوم و فنون سے وہ نہ صرف واقف تھے، بلکہ ان کی جزئیات بھی اکثر و بیشتر انھیں مستحضر رہتی تھیں۔ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر انھیں کامل عبور تھا۔ انگریزی کتابوں کے مطالعے میں بھی انھیں کوئی زحمت محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    انھوں نے علّامہ (شبلی نعمانی) کے نام پہلا خط 1901ء میں لکھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ دوسری جانب علامہ شبلی اس وقت اپنی عمر کی 44 ویں منزل میں تھے۔ ان کی تصانیف میں مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم، المامون، سیرةُ‌ النّعمان، رسائلِ شبلی اور الفاروق منظرِ عام پر آچکی تھیں۔ اس لحاظ سے وہ ملک کے طول و عرض میں ہر طرف مشہور ہوچکے تھے اور قیامِ علی گڑھ کا دور ختم کر کے ناظم سر رشتۂ علوم و فنون کی حیثیت سے ریاست حیدرآباد سے وابستہ اور شہر حیدرآباد میں مقیم تھے۔ اِدھر مولانا آزاد کا یہ حال تھاکہ باوجود کم سنی وہ نصابی و درسی تعلیم سے گزر کر اب علوم جدیدہ کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں پہلے انھوں نے انگریزی، عربی اور فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد ان کی خواہش ہوئی کہ عربی میں ترجمہ شدہ علومِ جدیدہ کی کتابوں سے استفادہ کریں۔ غالباً وہ علامہ شبلی کی تصانیف سے واقف تھے۔ اس لیے انھیں خیال آیا کہ اس سلسلے میں علاّمہ ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ’’آزاد کی کہانی‘‘ میں فرماتے ہیں،

    اب مصر و شام کی کتابوں کا شوق ہوا۔ مولانا شبلی کو ایک خط لکھا اور ان سے دریافت کیا کہ علومِ جدیدہ کے عربی تراجم کون کون ہیں اور کہاں کہاں ملیں گے؟ انھوں نے دو سطروں میں یہ جواب دیا کہ مصر و بیروت سے خط کتابت کیجیے۔

    جنوری 1903ء میں علّامہ شبلی انجمن ترقی اردو کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے۔ اسی سال کے آخر میں مولانا آزاد نے کلکتہ سے ’’لسان الصّدق‘‘ جاری کیا۔ یہ علمی و ادبی رسالہ تھا۔ یہ علّامہ شبلی سے مولانا آزاد کے غائبانہ تعارف اور قربت کا ذریعہ بنا۔ کیونکہ مولانا اس میں انجمن سے متعلق خبریں، رپورٹیں اور اس کی کار گزاریوں کی تفصیلات وغیرہ شائع کرتے رہتے تھے، جو علّامہ شبلی انھیں وقتاً فوقتاً بھیجتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا کی دل چسپی اور مستعدی کو دیکھ کر علّامہ نے کچھ دنوں بعد انھیں انجمن کے ارکان انتظامیہ میں شامل کرلیا اور لسانُ الصّدق کو ایک طرح انجمن کا ترجمان بنا لیا۔ اس پورے عرصے میں ان دونوں شخصیتوں کے درمیان مراسلت کا سلسلہ تو جاری رہا، لیکن ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔

    مولانا آزاد کی علّامہ شبلی سے پہلی ملاقات غالباً 1904ء کے اواخر یا 1905ء کے اوائل میں بمبئی میں ہوئی۔ اب مولانا سولہ سال کے تھے اور علامہ کی عمر 47 سال تھی۔ اس دوران ان کی تصانیف میں الغزالی، علم الکلام، الکلام اور سوانح مولانا روم بھی شائع ہوچکی تھیں۔ اس پہلی ملاقات میں جو لطیفہ پیش آیا، اس کا بیان مولانا آزاد کی زبانی ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں،

    مولانا شبلی سے میں 1904ء میں سب سے پہلے بمبئی میں ملا۔ جب میں نے اپنا نام ظاہر کیا تو اس کے بعد آدھا گھنٹے تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور چلتے وقت انھوں نے مجھ سے کہا تو ابوالکلام آپ کے والد ہیں؟ میں نے کہا نہیں میں خود ہوں!

    علّامہ شبلی کے لیے دراصل باعث ِ استعجاب یہ تھا کہ یہ کم سن لڑکا ’لسان الصّدق‘ جیسے علمی و ادبی رسالے کا مدیر کیوں کر ہو سکتا ہے؟ علّامہ ان دنوں دو تین ہفتے تک بمبئی میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران مولانا کی ان سے بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں میں علّامہ ان سے حد درجہ متاثر ہوئے۔ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں، جب چند دنوں میں گفتگو و صحبت سے انھیں میرے علمی شوق کا خوب اندازہ ہوگیا تو وہ بڑی محبت کرنے لگے۔ بار بار کہتے کہ مجھے ایک ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے۔ تم اگر کسی طرح حیدرآباد آسکو تو ’’النّدوہ‘‘ اپنے متعلق کر لو اور وہاں مزید مطالعہ و ترقی کا بھی موقع ملے گا۔

    اسی سلسلے میں مزید فرماتے ہیں، سب سے زیادہ مولانا شبلی پر میرے شوقِ مطالعہ اور وسعتِ مطالعہ کا اثر پڑا۔ اس وقت تک میرا مطالعہ اتنا وسیع ہوچکا تھا کہ عربی کی تمام نئی مطبوعات اور نئی تصنیفات تقریباً میری نظر سے گزر چکی تھیں اور بہتیر کتابیں ایسی بھی تھیں کہ مولانا ان کے شائق تھے اور انھیں معلوم نہ تھا کہ چھپ گئی ہیں، مثلاً محصل امام رازی۔

    انہی ملاقاتوں کے دوران فنِ مناظرہ سے متعلق ایک صاحب کی کج بحثی کا جواب دیتے ہوئے مولانا آزاد نے جب ایک مدلّل تقریر کی تو اسے سن کر علّامہ(شبلی نعمانی) نے فرمایا، تمہارا ذہن عجائبِ روزگار میں سے ہے۔ تمھیں تو کسی علمی نمائش گاہ میں بہ طورایک عجوبے کے پیش کرنا چاہیے۔

  • ’پاکستان کا استحکام ضروری ہے!‘

    ’پاکستان کا استحکام ضروری ہے!‘

    پنجاب یونیورسٹی نے ان دنوں جرمن اور فرانسیسی پڑھانے کے لیے شام کی کلاسیں شروع کی ہوئی تھیں۔ میں نے اور میرے رفیقِ کار محمد اجمل نے جرمن کلاس میں داخلہ لے لیا۔

    ڈاکٹر بی اے قریشی جو اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل رہ چکے تھے، ہمارے استاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب جو غازی آباد کے رہنے والے تھے خاصا عرصہ برلن میں گزار چکے تھے۔ ایک مرتبہ کئی روز بعد کلاس میں آئے۔ واپسی پر ہم نے سبب پوچھا۔ تو کہنے لگے، ’’دلّی چلا گیا تھا۔‘‘

    دلّی ان دنوں آنا جانا روز کا معمول تھا۔ لوگ احتیاطاً صرف اتنا دیکھ لیتے کہ امن و امان کی صورت کیا ہے، کیوں کہ وہاں سے اچھی خبریں نہیں آ رہی تھیں۔ اس لیے ہم نے پوچھا، ’’دلّی میں قیام کہاں رہا۔۔۔؟‘‘

    کہنے لگے، ’’مولانا آزاد کے ہاں۔۔۔‘‘ یہ سن کر اشتیاق بڑھا، تو میں نے پوچھا: ’’مولانا کا خیال پاکستان کے بارے میں کیا ہے؟‘‘

    کہنے لگے: ’’میرے روبرو ایک صاحب لاہور سے وارد ہوئے تھے۔ مولانا نے ان سے پوچھا ’کہیے لاہور ان دنوں کیسا ہے۔۔۔؟‘ تو وہ صاحب کہنے لگے، بڑی ناگفتہ بہ حالت ہے، ہمیں تو پاکستان چلتا دکھائی نہیں دیتا۔۔۔‘ ان کے اتنا کہنے پر مولانا کا مزاج برہم ہو گیا اور وہ جوش میں آکے کہنے لگے، ’جائیے واپس، لاہور اور پاکستان کو چلائیے۔ اب اگر پاکستان مٹ گیا، تو ایشیا سے مسلمان کا نام مٹ جائے گا۔‘‘

    یہ گفتگو ہمارے لیے تعجب کا باعث تھی، اس لیے کہ ہم مولانا کو اور ہی رنگ میں دیکھنے کے عادی تھے۔ کئی برس گزرے ایک محفل میں، میں نے اس واقعہ کو دُہرایا۔ وہاں اتفاق سے ہمارے دفتر کے فورمین محمد عثمان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ عثمان ہمارے ساتھ ’ڈان‘ (دلّی) میں کام کر چکے تھے۔ ان کی ہمدردیاں جمعیت علمائے ہند کے ساتھ تھیں۔ اس لیے وہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ دلّی میں ٹھیرے رہے۔

    پہلی عیدُالفطر کے روز وہ آصف علی کے مکان پر قوم پرست، مسلمان راہ نماؤں سے عید ملنے گئے۔ مولانا بھی وہاں موجود تھے۔ پاکستان کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ’’مسلمانانِ عالم کی فلاح اسی میں ہے کہ پاکستان مستحکم ہو اور پھلے پھولے۔‘‘

    (مولوی محمد سعید کی خود نوشت ’آہنگِ بازگشت‘ سے لیا گیا)

  • پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    ہندوستان میں آزادی کی تحریک، مسلمانوں کی فکری راہ نمائی اور تربیت کے ساتھ اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کے حوالے سے جن شخصیات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ان میں سے ایک مولانا ظفرعلی خان بھی ہیں۔

    صحافت کی دنیا میں ان کی خدمات اور ادبی کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ وہ ایک ادیب، شاعر اور جید صحافی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ مولانا کی علمی و صحافتی خدمات اور کارناموں سے متعلق تذکروں میں ان کی زندگی اور معمولات سے متعلق یادیں بھی محفوظ ہیں۔ وہ برجستہ گو اور نکتہ آفریں ہی نہیں بذلہ سنج اور طباع بھی تھے۔ ان سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    ایک محفل میں مولانا آزاد اور مولانا ظفر علی خان اکٹھے تھے۔ مولانا آزاد کو پیاس محسوس ہوئی، انھوں نے اس کا اظہار کیا تو ایک بزرگ جلدی سے پانی کا پیالہ لے آئے۔ مولانا آزاد نے مسکرا کر کہا:

    لے کے اک پیرِ مُغاں ہاتھ میں مینا، آیا

    مولانا ظفر علی خان جو ان کے ساتھ ہی موجود تھے، یہ سنا تو برجستہ دوسرا مصرع کہا اور شعر مکمل کر دیا:

    مے کشو! شرم، کہ اس پر بھی نہ پینا آیا