Tag: مولانا ابوالکلام آزاد

  • امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

    امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

    غبارِ خاطر ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ایک انشاء پرداز، صاحبِ اسلوب ادیب تھے جن کا تحریر و تقریر میں کوئی ثانی نہیں۔ ان کی تصنیف غبارِ خاطر کا کی نثر شگفتہ اور پیرایہ دلنشیں ہے۔

    مختار مسعود بھی اردو ادب میں‌ اپنے اسلوب اور تصانیف کی وجہ سے شہرت اور مقام رکھتے ہیں۔ اپنے عہد کی ممتاز ادبی شخصیات اور بڑے بڑے قلم کاروں‌ کی طرح‌ مختار مسعود بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کی تحریروں میں سحر میں‌ رہے اور اس کا تذکرہ اپنی کتابوں‌ میں‌ کیا ہے۔ یہاں‌ ہم مولانا آزاد کے تعلق سے مختار مسعود کے قلم سے نکلے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    بی اے کا امتحان شروع ہونے سے پانچ دن قبل مولانا آزاد کی ’غبارِ خاطر ‘ ہاتھ آگئی جسے پڑھنا شروع کیا تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ پانچ روز بعد بی اے کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ چوبیس گھنٹے بعد جب یہ کتاب پڑھ کے رکھی تو اُس کا جادو پوری طرح چڑھ چکا تھا۔

    مختار مسعود لکھتے ہیں: ’’غبارِ خاطر ختم ہوئی۔ میں نے اُسے جہاں سے اُٹھایا تھا وہاں واپس رکھنا چاہا (تو) کتاب نے کہا (کہ اب) باقی باتیں امتحان کے بعد ہوں گی۔ اِس وقت تو (مجھے) تم سے ایک عہد لینا ہے کہ ’’میں مسمٰی مختار مسعود متعلم بی اے (سال آخر) بقائمی ہوش و حواس اور بہ رضا و رغبت یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر حالات سازگار ہوئے اور زندگی نے موقع دیا تو میں بالیدگی، شائستگی اور حکمت کے اِس سبق کو جو مجھے اردو اور فارسی کی اِس (لازوال) نثر نے دیا ہے قرضِ حسنہ سمجھتے ہوئے بقلم خود قسط وار اُتارنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔

    وہ اس کتاب کے مطالعہ کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’امتحان کا خوف دل سے جاتا رہا۔ جامعاتی اور رسمی تعلیم کا حکمت اور دانش سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ (اسی طرح ) فکر و نظر کا بھی تعلیمی اسناد (ڈگریوں) سے کوئی علاقہ نہیں۔ (اس) زور پر نہ کوئی اچھا شعر کہہ سکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔ نہ اچھی کہانی کہہ سکتا ہے اور نہ اچھی تصویر بنا سکتا ہے۔ اِن منزلوں کے راستے اور (ہی) ہیں۔ سنگلاخ اور دشوار گزار۔ تلوے چھلنی ہو جاتے ہیں۔ جسم پسینے پسینے اور چور چور ہو جاتا ہے (کیونکہ ) جسم ایک آرام طلب ذات ہے۔ ’کسب ِ کمال‘ کے لیے اُسے بہت بے آرام ہونا پڑتا ہے۔ تب جاکر ’عزیز جہاں شوی ‘ کی منزل آتی ہے۔ اور آدمی مڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ ذرا سی بے آرامی اور اس کا اتنا بڑا صلہ!قدرت کتنی فیاض ہے۔ اور انسان کتنا نا سمجھ۔۔‘‘(حرفِ شوق)

  • بھارتی نصاب سے مغلوں کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی نکال دیا گیا

    بھارتی نصاب سے مغلوں کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی نکال دیا گیا

    نئی دہلی: بھارت میں مرکزی وزرات تعلیم نے 11ویں جماعت  میں پڑھائے جانے والے نصاب پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں تمام اسباق خارج کردیے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کے مرکزی وزارت تعلیم کے محکمہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے سیاسیات کی 11ویں جماعت کی نصابی کتابوں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے حوالہ جات کو حذف کر دیا ہے۔

    یاد رہے کہ مولانا آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم تھے، جو تحریک آزادی کے دوران اپنی جد و جہد کے لیے مشہور ہیں،  انہوں نے تقسیم ہند کے بھی سخت مخالف کی تھی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کے بھی مخالف تھے۔

    بھارتی نصاب سے مغل دور حکومت خارج کردیا گیا

    اس سیاسیات سے متعلق نصابی کتاب کے پہلے باب کا عنوان ہے آئین، کیوں اور کیسے بنا۔ اس باب میں ترمیم کی گئی ہے اور جہاں دستور ساز اسمبلی کی کمیٹی کے اجلاسوں میں مولانا آزاد کی شمولیت اور ان کے اہم کردار کے لیے ان کا نام کا درج تھا، اب اسے ہٹا دیا گیا ہے۔

    نئی لائن ان لچھ اس طرح ہے ’’عام طور پر، جواہر لال نہرو، راجندر پرساد، سردار پٹیل یا بی آر امبیڈکر ان کمیٹیوں کی صدارت کیا کرتے تھے۔‘‘ اس سے پہلے اس فہرست میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی سر فہرست تھا۔

    واضح رہے کہ مولانا آزاد نے سن 1946 میں آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے بھارت کی نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس کی قیادت کی تھی اور اس میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

     مسلسل چھ برس تک کانگریس کے صدر کے طور کام کے دوران مولانا آزاد نے برطانوی کابینہ مشن کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک وفد کی قیادت بھی کی تھی۔

    بھارت : تعلیمی نصاب سے آر ایس ایس کی مجرمانہ تاریخ حذف کرنے کا منصوبہ بے نقاب

    اسی نصابی کتاب سے بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر سے متعلق حوالے بھی حذف کر دیے گئے ہیں۔ کتاب کے دسویں باب میں ‘آئین کا فلسفہ’ کے عنوان میں ایک جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ دفعہ 370 کو مودی کی حکومت نے اگست 2019 میں منسوخ کر دیا تھا، جس سے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم ہو گئی۔

    اس کے علاوہ بھارت کے بابائے قوم مہتما گاندھی کو سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس، جو بی جے پی کی مربی تنظیم ہے، سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے قتل کر دیا تھا،  اسی لیے آر ایس ایس پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی تاہم اب حکومت نے نصابی کتابوں سے اس باب کو ہی ختم کر دیا ہے۔

    مودی حکومت نے نصابی کتاب میں سن 2002 میں ہونے والے گجرات کے مسلم کش فسادات کا حوالہ نکال دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور ہندوؤں کی سخت گیر تنظیم آر ایس ایس پر عائد کی گئی پابندی کے اقتباسات کو بھی نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • ابوالکلام آزاد: جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے

    ابوالکلام آزاد: جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے

    مولانا آزاد محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتہ کر لیتے، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متبحر۔ ان لوگوں میں سے نہیں تھے، جو اپنے لیے سوچتے ہیں، وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے۔

    یہ سطور آغا شورش کاشمیری کے مضمون سے نقل کی گئی ہیں جو انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی وفات کے بعد رقم کیا تھا۔ آج آزاد کی برسی ہے۔ وہ 22 فروری 1958ء کو دہلی میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    کاشمیری صاحب مزید لکھتے ہیں، انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کے لیے جی رہے تھے۔ ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے، اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا، انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گزارتے رہے۔

    آزادی کے بعد یہی سانچے دس سال کی مسافت میں ان کے لیے جان لیوا ہو گئے۔ 12 فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہو گئے ہیں۔ اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی۔ مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد وہ رائے دے سکیں گے کہ مولانا خطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں۔

    ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تأثر عام ہو گیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا، مولانا کے بنگلہ میں ڈاکٹر راجندر پرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہرلال نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علماء کے علاوہ ہزار ہا انسان جمع ہو گئے۔

    جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی۔ عشاء کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی، مولانا حفیظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا محمد میاں، مفتی عتیق الرحمٰن، سید صبیح الحسن، مولانا شاہد فاخری اور بیسیوں علماء و حفاظ تلاوتِ کلام الہیٰ میں مشغول تھے۔ آخر ایک بجے شب سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22 فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔

    اس وقت بھی سیکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے۔ جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا۔

    دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے۔ تمام ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہو گئی، دہلی میں ہُو کا عالم تھا حتّٰی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی، ایک ہی شخص تھا جس کے لیے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے، باالفاظِ دیگر مولانا تاریخِ انسانی کے تنہا مسلمان تھے، جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے، پنڈت جواہر لال نہرو موت کی خبر سنتے ہی دس منٹ میں پہنچ گئے اور بچّوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں "اچھا بھائی خدا حافظ "کہا تھا۔

    ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیونکر 24 گھنٹے زندہ رہا۔

    ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا "ڈاکٹر صاحب اللہ پر چھوڑیے۔”اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے؟ اب معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔”

    میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے۔ ایک آدھ منٹ کے لیے ہوش میں آئے۔ کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں، پنڈت نہرو کے دو منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے، ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے۔ آنِ واحد میں ہندوستانی کابینہ کے شہ دماغ پہنچ گئے، ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں۔

    پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھنچے رہے، ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہو گی۔ لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے۔

    مختصر … یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کیے گئے، مزار کھلا ہے، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرّہ ہے اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں۔

    مولانا ابوالکلام آزاد کا سفرِ آخرت کے عنوان سے اس مضمون کے بعد اب مرحوم کے حالاتِ زیست اور ان کی سیاسی اور علم و ادب سے وابستگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    ابوالکلام آزاد کی پیدائش 1888 میں عرب کے شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ابوالکلام آزاد کی والدہ عالیہ بنت محمد کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ آزاد کے نانا مدینہ کے ایک مستند عالم تھے جن کا شہرہ دور دور تک تھا۔ اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آزاد نے مصر کی مشہور درس گاہ جامعہ ازہر سے مشرقی علوم کی تکمیل کی۔

    عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان آنے والے آزاد نے یہاں کلکتہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ یہیں سے ان کی صحافتی اور سیاسی زندگی کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ کلکتہ سے 1912 میں انھوں‌ نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا جو پہلا با تصویر سیاسی اخبار تھا۔ اس کی اشاعت میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے جس پر 1914 میں اخبار پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد مولانا نے ’البلاغ‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا اور یہ بھی انگریز مخالف پالیسی کے مطابق چلایا جاتا رہا۔

    مولانا آزاد اوران کے ہم خیال جہاں انگریزوں کے مخالف تھے، وہیں قومی ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد پر ان کا پورا زور تھا۔ اس اخبار کے ذریعے آزاد نے قومی جذبات اور ملّی وحدت کے تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اس دور میں‌ مختلف اخبارات سے بھی آزاد کی وابستگی رہی جن میں ’وکیل‘ اور ’امرتسر‘ قابلِ ذکر ہیں۔

    مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی سرگرمیوں میں ان کا ’تحریک عدم تعاون‘ ’ہندوستان چھوڑو‘ اور ’خلافت تحریک‘ میں حصّہ لینا اور اپنے وقت کے نام ور اور نہایت بلند پایہ سیاست دانوں اور انگریز مخالف راہ نماؤں کے ساتھ کام کرنا شامل ہے، ان شخصیات میں گاندھی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں اور علی برادران سے ان کے بہت اچھے اور گہرے مراسم رہے۔ وہ گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے بہت متاثر تھے اور ان کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے۔

    مولانا آزاد اپنے زمانے میں ایک اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے اور ان کی گاندھی اور کانگریس پارٹی کے حق میں سرگرمیوں نے انھیں‌ جیل کا منہ بھی دکھایا۔ وہ پارٹی کے صدر بھی رہے اور تحریک آزادی کے دوران جیل کی صعوبتیں‌ اٹھائیں۔

    تقسیم ہند کے بعد بھارت میں مولانا آزاد کو وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا قیام اور دیگر تکنیکی، تحقیقی اور ثقافتی اداروں کی بنیاد رکھنا انہی کا کارنامہ ہے۔

    مولانا آزاد ہمہ اوصاف اور ایک ایسی شخصیت تھے جو بیک وقت سیاست اور ادب کے محاذ پر اپنے افکار اور قلم کے زور پر آگے رہے۔ وہ ایک صاحب طرز ادیب، شاعر، جیّد صحافی اور مفسر بھی تھے۔ ان کا اسلوب نہایت شان دار اور قابلِ‌ تقلید تھا۔ ان کے انشائیے اور فلسفہ و سائنسی موضوعات پر مضامین کے علاوہ علمی و تحقیقی مقالات اور قرآن کی تفسیر بہت مشہور ہے۔

    آزاد کی کتاب غبارِ خاطر کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم اہلِ قلم کے حصّے میں‌ آئی ہے۔ یہ ان کے خطوط پر مشتمل کتاب ہے جو قلعہ احمد نگر میں قید کے دوران انھوں نے تحریر کیے تھے۔

  • ”صرف چھے روپے بھیج دیں!“

    ستمبر 1913 میں ”الہلال“ سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی تھی جو نومبر 1914 میں ضبط کر لی گئی۔

    اس زمانے میں عام طریقہ یہ تھا کہ دو ہزار کی ضمانت ضبط کر لینے کے بعد 10 ہزار کی ضمانت مانگی جاتی تھی، چناں چہ ”الہلال“ سے بھی مانگی گئی۔ یہ ضمانت بھی شاید داخل کر دی جاتی، مگر چوں کہ اس کے بھی ضبط ہو جانے کا اندیشہ تھا، اس لیے ضمانت داخل کرنے کے بہ جائے ”الہلال“ بند کر کے دوسرا اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ نیا اخبار ”البلاغ“ کے نام سے جاری ہوا جس کا پہلا نمبر 12 نومبر 1915 کو شایع ہوا۔

    اس میں‌ مولانا ابوالکلام آزاد کا قارئین کے نام خط بھی شایع ہوا تھا جس کا متن باذوق قارئین کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
    یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس عاجز کی خدمات کی قبولیت کے لیے اپنے بندوں کے دل کھول دیے ہیں اور انہیں مقبول و محبوب بنا دیا ہے۔ اگر ”الہلال“ نے اپنی زندگی کے لیے دستِ سوال پھیلانا جائز سمجھا ہوتا تو 10، 20 ہزار کی فراہمی میں دو چار دن سے زیادہ مدت نہ لگتی، لیکن اس نے اسے پسند نہ کیا اور یہ تمام امر تمام بزرگوں پر روشن ہے۔

    ”الہلال“ کے دوبارہ جاری کرنے کے لیے اب تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اور صرف روپے کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے، اس لیے صرف اتنی تکلیف خریدارانِ ”الہلال“ کو دینا چاہتا ہوں کہ وہ چھے ماہ کی قیمت پیشگی مرحمت فرمائیں۔ جو دفتر ”الہلال“ کے ذمے ان کا قرضِ حسنہ ہوگا اور جسے خریداری کے حساب میں مجرا کیا جائے گا۔ ”الہلال“ کی شش ماہی قیمت اصل چھے روپے بارہ آنے ہے، لیکن وہ صرف چھے روپے بھیج دیں۔

    بعض خریداروں کی قیمت ختم ہونے کے قریب ہے، بعضوں کا سال شروع ہوا ہے، لیکن یہ درخواست تمام خریداروں سے ہے۔ انہیں اپنے حساب کا خیال نہ کرنا چاہیے، جس وقت ان کی پچھلی قیمت ختم ہو جائے گی، اس کے بعد ہی اس رقم کو ان کے حساب میں جمع کر لیا جائے گا، قیمت انہیں بہرحال آیندہ دینی ہی ہے۔ ”الہلال“ صرف اتنی ہی اعانت اپنے وسیع حلقۂ معاونین سے چاہتا ہے، اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس موقعے پر دفتر کو روپے کی دقت کا سامنا نہ ہوگا۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ مبتلائے مشکلات رہا ہے۔ اگر اس تحریر کو دیکھتے ہی روپیا آپ نے روانہ کر دیا تو ہفتے کے اندر ”الہلال“ شایع ہو جائے گا۔

    دوسری درخواست نئے خریداروں سے پیشگی قیمت بھجوانے کی ہے، جس سے بہتر، جائز طریقہ پریس کی اعانت کا اور کوئی نہیں۔

    فقیرابوالکلام
    14۔ میکلوڈ اسٹریٹ، کلکتہ

    (مکاتیبِ ابوالکلام آزاد، جلد اوّل سے لیا گیا، جو ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی جمع و مرتب کردہ کتاب کا حصّہ ہے)