Tag: مولانا ظفر علی خان

  • جیّد صحافی اور ادیب مولانا ظفر علی خان کا یومِ وفات

    جیّد صحافی اور ادیب مولانا ظفر علی خان کا یومِ وفات

    برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں مولانا ظفر علی خان کو ایک جیّد صحافی، ادیب اور تحریر و تقریر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے قلم کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ 27 نومبر 1956ء کو اردو زبان و ادب کے اس نام ور کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا تھا۔ آج مولانا ظفر علی خان کی برسی ہے۔

    1873ء میں ضلع سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہونے والے ظفر علی خان نے علی گڑھ سے اس وقت گریجویشن کیا جب سرسیّد، شبلی، حالی جیسے کئی نہایت قابل اور فکر و نظر کے اعتبار سے زرخیز ذہن اس درس گاہ سے وابستہ تھے۔ اسی فضا نے ظفر علی خان کی فکر اور ان کی صلاحیتوں کو اجالا اور علمی و ادبی میدان میں متحرک ہونے پر آمادہ کیا۔

    1909ء میں مولانا ظفر علی خان وطن تعلیم مکمل کرکے وطن لوٹے اور جب ان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے ایک ہفت روزہ اخبار زمیندار جاری کیا تو ان سے‌ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ والد کی وفات کے بعد ظفر علی خان نے زمیندار سنبھالا اور لاہور آگئے۔ یہاں علم و ادب سے وابستہ شخصیات اور ایسا حلقہ میسر آیا جس کی مدد ظفر علی خان کا ادبی اور صحافتی سفر بامِ عروج کو پہنچا۔

    انگریز دور میں سیاست کے میدان میں‌ مختلف تحاریک، مزاحمتی سرگرمیوں کے علاوہ قلم کے ذریعے آزادی اور حقوق کی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری تھا اور اسی دوران مولانا ظفر علی خان آزادی بھی اپنے اداریوں اور مضامین کی وجہ سے معتوب ہوئے۔ انھیں اپنی تحریر و تقریر کی وجہ سے کئی مشکلات جھیلنا پڑیں اور ان کے اخبار زمیندار کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں‌ تھا بلکہ مولانا نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں‌ ہٹے۔ مولانا نے اپنے اخبار زمیندار کے ذریعے تحریکِ پاکستان کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔

    مولانا ظفر علی خان ایک بہترین خطیب، باکمال شاعر اور انشا پرداز بھی تھے۔ ان کے اداریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کرتے تھے۔ ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں جن میں نثری اور شعری کے مجموعے شامل ہیں۔

    ظفر علی خان کا مدفن ان کے آبائی علاقے کرم آباد میں‌ ہے۔ انھیں بابائے صحافت بھی کہا جاتا ہے۔

  • پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    ہندوستان میں آزادی کی تحریک، مسلمانوں کی فکری راہ نمائی اور تربیت کے ساتھ اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کے حوالے سے جن شخصیات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ان میں سے ایک مولانا ظفرعلی خان بھی ہیں۔

    صحافت کی دنیا میں ان کی خدمات اور ادبی کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ وہ ایک ادیب، شاعر اور جید صحافی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ مولانا کی علمی و صحافتی خدمات اور کارناموں سے متعلق تذکروں میں ان کی زندگی اور معمولات سے متعلق یادیں بھی محفوظ ہیں۔ وہ برجستہ گو اور نکتہ آفریں ہی نہیں بذلہ سنج اور طباع بھی تھے۔ ان سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    ایک محفل میں مولانا آزاد اور مولانا ظفر علی خان اکٹھے تھے۔ مولانا آزاد کو پیاس محسوس ہوئی، انھوں نے اس کا اظہار کیا تو ایک بزرگ جلدی سے پانی کا پیالہ لے آئے۔ مولانا آزاد نے مسکرا کر کہا:

    لے کے اک پیرِ مُغاں ہاتھ میں مینا، آیا

    مولانا ظفر علی خان جو ان کے ساتھ ہی موجود تھے، یہ سنا تو برجستہ دوسرا مصرع کہا اور شعر مکمل کر دیا:

    مے کشو! شرم، کہ اس پر بھی نہ پینا آیا

  • ظفر علی خاں: حقے اور چائے کے شیدا

    ظفر علی خاں: حقے اور چائے کے شیدا

    مولانا ظفر علی خاں ساری زندگی سیاست اور صحافت کے میدان میں سرگرم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات و واقعات کے زیر اثر ان کے مضامین اور نظم و نثر کے موضوعات کی نوعیت سیاسی ہوتی تھی، مگر بنیادی طور پر وہ ایک شاعر اور ادیب تھے۔

    ان کا نظریہ، فکر اور صحافت کا ڈھب ہی نرالا تھا۔ نظم و نثر میں سبھی ان کے کمال کے معترف ہیں۔ حاضر دماغ، طباع اور خوش مذاق تھے۔ کہتے ہیں چائے اور حقہ دونوں ان کے پسندیدہ تھے۔ گویا دھواں اور بھاپ ان کے ذہن کی مشین کو متحرک رکھتا تھا اور ان کا قلم اداریے، نظمیں لکھتا اور مختلف موضوعات پر تحاریر کو ان کی نظر سے گزار کر اشاعت کے قابل بناتا تھا۔

    تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ حقے کی نے منہ میں ڈالے، اس کے ہر کش پر ایک شعر کہہ دیا کرتے تھے۔ حقے کے کش کا دھواں ان کے منہ سے ایک شعر تر ساتھ لے کر نکلتا تھا۔

    حقے اور چائے پر فدا تھے اور فرماتے تھے، زندگانی کے لطف دو ہی تو ہیں، صبح کی چائے اور شام کا حقہ، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کے ہاں حقے اور چائے میں صبح و شام کی کوئی قید نہ تھی۔ ان کا ذہن رواں ہی حقے کے کش کے ساتھ ہوتا تھا۔ اسی طرح چائے کے بارے میں ان کا نعرۂ مستانہ شعر کا روپ یوں دھارتا ہے۔

    چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
    جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے

    شیخ کرامت ﷲ گجراتی سے مروی ہے کہ مولانا ظفر علی خاں ایک دفعہ اتحاد ملت کے جلسے منعقدہ گجرات میں جب رات کے ایک بجے صدارتی تقریر سے فارغ ہوئے تو چائے کی فرمائش کردی۔ اس وقت دیگچی کا ابلا ہوا دودھ ملنا مشکل تھا، جسے وہ چائے کے لیے بہ طور خاص پسند کرتے تھے۔

    شیخ کرامت ﷲ کہیں سے دودھ منگوانے میں کام یاب ہو گئے اور مولانا کی دل پسند چائے تیار کروا کر ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ مولانا نے جونہی چائے کی چسکی لی، ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ چائے کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔