Tag: مولانا محمد علی جوہر

  • ہندوستان کی آزادی کے متوالے مولانا محمد علی جوہر کی برسی

    ہندوستان کی آزادی کے متوالے مولانا محمد علی جوہر کی برسی

    آج مولانا محمد علی جوہر کا یومِ وفات ہے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے بے لوث خدمت گار، تحریکِ خلاف کے متوالے اور جدوجہدِ آزدی کے راہ نما تھے۔

    4 جنوری 1931ء کو وفات پانے والے مولانا محمد علی جوہر کا تعلق رام پور سے تھا۔ وہ 10 دسمبر 1878ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1898ء میں گریجویشن اور اوکسفرڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے جہاں سیاسی اور سماجی میدان میں تبدیلیاں اور مختلف تحاریک کا زور تھا۔ اس وقت انھیں محسوس ہوا کہ قلم کی طاقت اور اخبار کے زور پر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنا ہو گی اور تب انھوں نے صحافت کا آغاز کیا۔ ان کے انگریزی اخبار کامریڈ کو کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی۔

    اسی زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو مولانا محمد علی جوہر اس سے وابستہ ہوگئے اور عملی سیاست شروع کی۔

    مولانا کی قابلیت اور ان کے فہم و تدبر نے انھیں اس تنظیم کا دستور مرتب کرنے کا موقع بھی دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مولانا محمد علی جوہر نے اپنے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ اس وقت زور پکڑنے والی تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترک موالات میں بڑا فعال کردار ادا کیا۔ مولانا جوہر کی والدہ اماں‌ بی کے نام سے مشہور تھیں۔ انھوں‌ نے ہندوستان میں‌ آزادی کی جدوجہد میں‌ مسلم لیگ کے لیے جلسے اور اس پلیٹ فارم پر خواتین کو اکٹھا کرنے میں‌ اہم کردار ادا کیا اور اپنے بیٹوں‌ کو بھی اسلام اور پاکستان کے نام پر مر مٹنے کا درس دیا۔

    تحریکِ خلافت کے دوران مولانا جوہر پر بغاوت کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔ بظاہر تحریک خلافت ناکام رہی، لیکن اس تحریک کے برصغیر اور یہاں کے مسلمانوں کے مستقبل پر ضرور اثرات مرتب ہوئے۔

    1928ء میں مولانا محمد علی جوہر نے نہرو رپورٹ کے جواب میں تیار کیے جانے والے قائداعظم کے چودہ نکات کی تیاری میں ان کی معاونت کی۔

    وہ ایک انقلابی اور سیاسی راہ نما ہی نہیں‌ بلکہ علم و ادب کے میدان میں‌ بھی اپنی انشا پردازی اور مختلف اصنافِ ادب میں‌ تخلیقات کی وجہ سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ انھیں شعر و ادب سے دلی شغف تھا۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں آزادی کے مضامین اور مجاہدانہ رنگ نظر آتا ہے۔ صحافت، علم و ادب اور جدوجہدِ آزادی کے اس عظیم راہ نما کو بیت المقدس میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے۔

    قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

  • بیگم محمد علی جوہر کی وفات

    بیگم محمد علی جوہر کی وفات

    بیگم محمد علی جوہر تحریکِ آزادی کی نام ور خاتون راہ نما تھیں جنھوں نے خواتین کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کیا اور خواتین کے دلوں میں آزادی کے جذبے کو اُبھارا۔ وہ ایک نڈر اور سمجھ دار خاتون تھیں جنھوں نے اس وقت کی سیاست میں‌ اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کی یہ خاتون راہ نما 1947ء میں وفات پاگئی تھیں۔

    28 مارچ کو دنیا سے رخصت ہوجانے والی بیگم محمد علی جوہر کا اصل نام امجدی بانو تھا۔ وہ 1885ء میں ریاست رام پور میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 5 فروری 1902ء کو ہندوستانی مسلمانوں کے خیر‌خواہ اور آزادی کے متوالے اور تحریکِ‌ خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔

    1919ء میں جب مولانا محمد علی جوہر کو تحریکِ‌ خلافت کے حوالے سے جیل بھیجا گیا تو بیگم محمد علی جوہر میدانِ عمل میں اتریں۔ اسی برس انہیں خود بھی قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کرنی پڑی۔ رہائی کے بعد وہ عملی سیاست میں مکمل طور پر فعال ہوگئیں اور 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد سیاسی میدان میں ان کی نیابت کرنے لگیں۔

    23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں انہوں نے ہندوستان کی مسلمان خواتین کی جانب سے قرار دادِ لاہور کی تائید میں تقریر کی۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی راہ نما تھیں جنہوں نے اس قرار داد کو قرار دادِ پاکستان کا نام دیا۔ ہندوستانی پریس نے طنز کے طور پر اس نام کو ایسا اچھالا کہ لفظ پاکستان زبان زدِ خاص و عام ہو گیا اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی طویل جدوجہد سے جو وطن حاصل کیا اس کا نام پاکستان رکھا گیا۔

    مسلم لیگ کے تمام بڑے بڑے راہ نما اور خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح اُن کی بے حد عزّت کرتے تھے اور اُن کی تجاویز اور آرا کو اہمیت دیتے تھے۔

  • ‘رئیس الاحرار’ مولانا محمد علی جوہر کا یومِ وفات

    ‘رئیس الاحرار’ مولانا محمد علی جوہر کا یومِ وفات

    برصغیر میں‌ مسلمانوں کے راہ بَر، تحریکِ خلاف کے متوالے اور جدوجہدِ آزدی کے عظیم راہ نما مولانامحمد علی جوہر 4 جنوری 1931ء کو وفات پاگئے تھے۔

    مولانا محمد علی جوہر جن کی آج برسی منائی جارہی ہے، ان کا تعلق رام پور سے تھا جہاں انھوں نے 10 دسمبر 1878ء کو آنکھ کھولی تھی۔ 1898ء میں نے گریجویشن کیا اور اوکسفرڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے تو یہاں صحافت کا آغاز کیا۔ ان کے انگریزی اخبار کامریڈ کو کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی۔ اسی زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا محمد علی جوہر اس سے فعال راہ نما کے طور پر جڑ گئے۔

    مولانا کی قابلیت اور ان کے فہم و تدبر کا نتیجہ تھا کہ انھیں اس تنظیم کا دستور مرتب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور انہی کی کوششوں سے قائداعظم محمد علی جناح بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے رکن بنے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مولانا محمد علی جوہر نے اپنے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ اس وقت زور پکڑنے والی تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترک موالات میں بڑا فعال کردار ادا کیا۔ تحریکِ خلافت کے دوران ان پر بغاوت کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔ بظاہر تحریکَِ خلافت ناکام رہی، لیکن اس تحریک کے برصغیر اور یہاں کے مسلمانوں کے مستقبل پر ضرور اثرات مرتب ہوئے۔

    1928ء میں مولانا محمد علی جوہر نے نہرو رپورٹ کے جواب میں تیار کیے جانے والے قائداعظم کے چودہ نکات کی تیاری میں ان کی معاونت کی۔

    وہ ایک انقلابی اور سیاسی راہ نما ہی نہیں‌ بلکہ علم و ادب کے میدان میں‌ بھی اپنی انشا پردازی اور مختلف اصنافِ ادب میں‌ تخلیقات کی وجہ سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ انھیں شعر و ادب سے دلی شغف تھا۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں آزادی کے مضامین اور مجاہدانہ رنگ نظر آتا ہے۔ صحافت، علم و ادب اور جدوجہدِ آزادی کے اس عظیم راہ نما کو بیت المقدس میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے

    قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد