Tag: مولانا مودودی

  • غالب کی شاعری اور مولانا مودودی

    غالب کی شاعری اور مولانا مودودی

    غالب اردو کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کا کلام اور جن کی شخصیت برصغیر میں ہر خاص و عام اور ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں میں مقبول ہے۔ اپنے زمانے کے مشہور اسلامی مفکّر اور جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی بھی مرزا غالب کے پرستاروں میں سے ایک تھے۔

    مولانا مودودی نے اپنی کتاب "شخصیات” میں خود کو مرزا غالب کی شاعری کا مداح لکھا ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس طرح غالب سے ایک قسم کا ذاتی تعلق بھی رکھتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام ہی کا مداح نہیں ہوں، بلکہ ان سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ میرے نانا، مرزا قربان علی بیگ سالک مرحوم، ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا مکان بھی دہلی میں میری ننھیال کے مکان سے بالکل متصل واقع تھا۔ اس طرح میں نے آنکھیں ہی ایک ایسے خاندان میں کھولی ہیں جو ان کے کلام ہی سے نہیں، ان کی ذات سے بھی بہت قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ مجھے بچپن سے ان کے کلام کے ساتھ عشق رہا ہے اور میں ان کو ہند و پاکستان ہی کے نہیں، دنیا کے شعراء کی صفِ اوّل کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخن ور پیدا ہوا، اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ ایک پس ماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے دنیا نے شعر و ادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فرو تر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جان دار قوم میں پیدا ہوئے تھے۔”

    (اقتباس)

  • ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ وہ تصنیف جس نے مارگریٹ مارکیوس کی زندگی بدل دی

    ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ وہ تصنیف جس نے مارگریٹ مارکیوس کی زندگی بدل دی

    مارگریٹ مارکیوس وہ نام تھا جو مریم جمیلہ کو ان کے والدین نے دیا تھا۔ 24 مئی 1961ء کو جب وہ اپنے آبا و اجداد اور والدین کا مذہب ترک کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئیں تو یہ نام اپنا لیا۔

    22 مئی 1934ء کو امریکا میں آنکھ کھولنے والی مارگریٹ مارکیوس کا اصل وطن جرمنی تھا۔ ان کا خاندان 1848ء میں امریکا آگیا تھا اور یہ لوگ نیوروشیل میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اسکول کے ذہین بچّوں میں شمار ہوتی تھیں‌۔ ہائی اسکول سے فارغ ہوکر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر انھیں ایک بیماری کی وجہ سے مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی زمانے میں‌ مارگریٹ کا رجحان مذہب کی طرف ہوگیا۔

    1953ء میں وہ نیویارک یونیورسٹی میں داخل ہوئیں جہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کو کتابوں اور مختلف اسکالرز کی مدد سے سمجھنا شروع کیا تو 1956ء میں ایک مرتبہ پھر بیماری نے حملہ کر دیا اور انھیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار علالت اور بیماری کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کے ساتھ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن متعدد مذاہب اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے پر ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کو ملی۔ اس کے علاوہ وہ قرآن کے تراجم بھی پڑھ رہی تھیں اور انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ اسپتال سے فراغت کے بعد اپنا مذہب ترک کردیں‌ گی وہ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے وہاں کے اسلامک سینٹر میں جانے لگیں اور کچھ عرصے سے والدین سے جو اختلاف پیدا ہوگیا تھا، 1959ء میں کافی بڑھ گیا۔ اس کا سبب مذاہب کا مسلسل مطالعہ اور یہودیت سے متعلق سوالات تھے، والدین نے ان کو علیحدہ کردیا اور مریم جمیلہ کو ملازمت کرنا پڑی۔

    اسی دوران انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ کے عنوان سے پڑھنے کا موقع ملا اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئیں۔ 1960ء کے آخر میں وہ مولانا سے خط و کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوگئیں۔ وہ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    بعد کے عرصہ میں‌ وہ مغرب میں ایک نامور مبلغۂ اسلام کے طور پر مشہور ہوئیں۔ قبولِ اسلام کے بعد مریم جمیلہ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آکر تہذیب و معاشرت کو قبول کر لیا۔ انھوں نے اردو زبان بھی سیکھ لی تھی۔ 1963ء کو ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔

    مریم جمیلہ نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر انگریزی میں چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں از ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

    عرب معاشرت اور اسلام میں نوعمری ہی میں کشش محسوس کرنے والی مریم جمیلہ نے پاکستان میں 31 اکتوبر 2012ء کو سفرِ‌ آخرت اختیار کیا۔

  • بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    زمینداروں کے شرعی حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیم سازی سے لے کر راہ نماﺅں کے اتحاد کی تشکیل تک طویل سیاسی سفر طے کر کے نواب زادہ نصر ﷲ خان اس دُنیا سے چلے گئے تھے، لیکن گذشتہ رات اچانک ہمارے خواب میں آگئے۔

    کیا دیکھتے ہیں کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ حقّہ پیتے عالمِ بالا میں پہنچے اور ڈھونڈتے ڈھانڈتے پاکستانی زعماء کی محفل میں وارد ہوگئے۔ یہاں دیگر کے ساتھ ساتھ آپ کی ملاقات بانیٔ پاکستان اور مصوّرِ پاکستان سے بھی ہوئی، جنھوں نے اپنے تصور و تخلیق کردہ ملک کے بارے میں سوالات کرکے نواب زادہ کو اس مشکل میں ڈال دیا کہ حقائق بتا کر اپنے ان محسنوں کو خون کے آنسو رلائیں یا جھوٹ بولنے کی گستاخی کریں۔ بہرحال زیرک سیاست داں نے بیچ کا راستہ نکال لیا، یوں کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، یہ خواب منظر کی صورت نذرِ قارئین ہے۔

    ہم نے دیکھا کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان جیسے ہی زعماء کی محفل کے قریب پہنچے، کئی حضرات استقبال کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آوازیں بلند ہوئیں:

    حسین شہید سہروردی، مولانا مودودی، مفتی محمود: آئیے آئیے خوش آمدید بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے؟

    جنرل ضیاءُ الحق! آگئے…

    قائدِ اعظمؒ: (علّامہ اقبال سے مخاطب ہو کر) ”کون صاحب ہیں؟“

    علامہ اقبالؒ: ترکی ٹوپی تو بتا رہی ہے کہ ہمارے زمانے کے ہیں اور یہ کہ ترک قطعاً نہیں ہیں… سہروردی کو بلا کر پوچھ لیجیے، وہ جانتے ہوں گے۔

    قائد: کیا سہروردی اب ویزے کے بغیر مجھ سے مل سکتے ہیں؟

    علّامہ اقبال: خوش قسمتی سے آپ دونوں عالمِ ارواح میں ہیں ورنہ یہ ممکن نہ تھا۔

    قائد: مسٹر سہروردی! ذرا یہاں تشریف لائیے (ان کے نزدیک آتے ہی قائد پوچھتے ہیں) کون ہیں یہ نووارد؟ تعارف تو کرائیے؟

    سہروردی: (نواب زادہ کو قائد سے متعارف کراتے ہیں) سر! یہ ہیں نواب زادہ نصر ﷲ خان، جو ووٹ کی طاقت سے بنائے گئے آپ کے پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لیے پچاس سال سے…(کہتے کہتے رک گئے پھر گویا ہوئے) بڑی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

    قائد: تو جمہوریت آئی؟

    نواب زادہ نصر ﷲ: جی… کئی مرتبہ۔

    قائد: کیا مطلب۔

    نواب زادہ: دراصل ہمارے یہاں خوب سے خوب تر کی تلاش میں جمہوریت بار بار نئے سرے سے لائی جاتی ہے، پھر کبھی سوئے دار اور کبھی کوئے یار روانہ کر دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد سنوار کر پھر لے آیا جاتا ہے۔

    قائد: ان کوششوں کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہوئی؟

    نواب زادہ: صرف مضبوط ہی نہیں بلکہ موٹی تازی، لحیم شحیم اور دیوہیکل ہوچکی ہے۔

    قائد: (تشویش ناک لہجے میں) اب تو نہیں جائے گی۔

    نواب زادہ: کیسے جائے گی، اس بھاری بھر کم جمہوریت کے لیے چلنا تو کجا اُٹھنا بیٹھنا محال ہے۔

    قائد: تو گویا جمہوریت کے لیے آپ کی جدوجہد کام یاب ہوگئی، یقیناً آپ اور قوم نے میرے دیے ہوئے اصولوں، ایمان، اتحاد اور تنظیم پر عمل کیا ہوگا۔

    نواب زادہ: جی ہاں، بالخصوص اتحاد پر، میری تو ساری عمر گزری ہی اتحاد کی سیاست میں۔

    قائد: اس سیاست کے مثبت نتائج نکلے؟

    نواب زادہ: بالکل! یہاں تک کہ جس حکم راں کے خلاف اتحاد بنایا کچھ عرصے بعد وہ خود میرے ساتھ نئے اتحاد میں شریک تھا۔

    قائد: اور ڈسپلن؟

    نواب زادہ: حضرت! ہماری قوم نے تو ڈسپلن کے زیرِ سایہ ہی زندگی گزاری ہے، ہم بڑے منظم انداز میں لیفٹ رائٹ اور نہایت سرعت کے ساتھ اباﺅٹ ٹرن کر لیتے ہیں۔

    قائد: اور ایمان کا کیا کیا؟

    نواب زادہ: بُرے وقتوں کے لیے بچا رکھا ہے، اس کے سہارے خراب حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، پھر سنبھال کر رکھ دیتے ہیں۔

    علّامہ اقبال: یہ تو بتائیے کہ پاکستان کی سلطانیٔ جمہور میں بندے گنے جاتے ہیں یا انھیں تولا جاتا ہے۔

    نواب زادہ: چُنے جاتے ہیں… پھر گنتی پوری کر دی جاتی ہے۔ ویسے اس مرتبہ چُننے کے ساتھ ساتھ تولا بھی گیا ہے۔

    اقبال: نقشِ کُہن مٹے؟

    نواب زادہ: منٹو پارک اب اقبال پارک اور گاندھی گارڈن جناح گارڈن ہوگیا ہے۔

    اقبال: بھئی میں جمہوریت کے حوالے سے پوچھ رہا ہوں؟

    نواب زادہ: کیوں نہیں ہر حکم راں نے مٹائے۔ بعض نے تو اپنے پیش رو کو بھی نقشِ کہن سمجھ کر مٹا دیا۔

    قائد: فوج کا کیا حال ہے۔

    نواب زادہ: جو ماضی میں تھا۔

    قائد: ”ماضی میں جنرل گریسی نے میرا حکم نہیں مانا تھا، اب تو جنرلوں میں تبدیلی آگئی ہوگی۔

    نواب زادہ: الحمدُ للہ اب سارے مسلمان ہیں۔

    اقبال: کیا یہ جنرل شاہین صفت ہیں۔

    نواب زادہ: کسی حد تک، یعنی جھپٹتے تو ضرور ہیں مگر پھر پلٹتے نہیں۔

    قائد: جمہوریت کو کوئی خطرہ تو نہیں؟

    نواب زادہ: (چند لمحے توقف کے بعد رندھی ہوئی آواز میں) نہیں جناب جمہوریت بڑے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

    یہ سُن کر قائد اور اقبال کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے، نواب زادہ پُر نم آنکھیں جھکائے اُٹھ کر کسی طرف چل دیے اور ہمارا خواب ٹوٹ گیا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر”‌ سے انتخاب)

  • دِلَدّر   دُور  ہو گئے!

    دِلَدّر دُور ہو گئے!

    مولانا سید مودودی کی شخصیت اور ان کے کارنامے کسی سند یا تعارف کے محتاج نہیں۔

    ان کے مختلف مضامین، خطوط، عربی سے اردو تراجم ان کی زبان و بیان پر گرفت اور وسیع مطالعہ کا ثبوت ہیں۔

    ادبی تذکروں میں مولانا مودودی اور مشہور شاعر ماہر القادری سے متعلق ایک واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے۔

    اس واقعے کا لطف اٹھانے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ لفظ دِلدّر کیا ہے؟

    اس کا مطلب افلاس، تنگ دستی ہے اور اکثر یہ لفط نحوست کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

    یہ لفط سنسکرت زبان سے ماخوذ اور اسم ہے۔ اسے اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال کیا گیا ہے۔

    ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ محاورے کے طور پر ہمارے ہاں بولا جاتا ہے، لیکن سید مودودی نے اسے ’’دِلَدّر پار ہو گئے‘‘ لکھا ہے۔

    ایک بار ماہر القادری نے مولانا مودودی کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حضرت لغت میں تو اسے ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ لکھا گیا ہے، مگر آپ نے اس طرح برتا ہے۔ اس پر مولانا نے اطمینان سے جواب دیا،

    ’’لغت میں تصحیح کر لیں۔‘‘

  • آج جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کی 35ویں برسی ہے

    آج جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کی 35ویں برسی ہے

    کراچی: نامور عالم دین، مفسر قرآن، دانشور، متعدد کتابوں کے مصنف اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی آج پینتیسویں برسی ہے۔

    مولانا ابوالاعلیٰ مودودی پچیس ستمبر انیس سو تین کو اورنگ آباد حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے، انیس سوبتیس میں آپ نے ترجمان القرآن جاری کیا، علامہ اقبال کی خواہش پرمولانا مودودی نے پنجاب کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اورچھبیس اگست انیس سو اکتالیس کو لاہور میں کے اجتماع میں جماعت اسلامی قائم کی۔

    قیام پاکستان کے بعدمولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے لاہور میں رہائش اختیار کی، انیس سو ترپن میں تحریک ختم نبوت چلانے پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کو سزائے موت سنائی گئی جو بعدازاں منسوخ کردی گئی، انیس سو باہترمیں آپ کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن مکمل ہوئی، یکم مارچ انیس سو اناسی کومولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو پہلاشاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا،مولانا مودودی بائیس ستمبرانیس سو اناسی کوامریکا میں دوران علاج اسی برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے، مولانا مودودی آپ ذیلدار پارک منصورہ میں آسودہ خاک ہیں۔