Tag: مولانا وحید الدین خان

  • الیس ہووے: سلائی مشین کا موجد جسے خواب میں اپنی ایک مشکل کا حل ملا

    الیس ہووے: سلائی مشین کا موجد جسے خواب میں اپنی ایک مشکل کا حل ملا

    جدید دنیا میں ہم نے کئی ایسی شخصیات کا تذکرہ پڑھا ہے جو علم و ادب، ہنر و فنون میں اپنے کام اور کار ہائے نمایاں‌ کی بدولت مشہور ہوئے۔ گزشتہ چند صدیوں کے دوران اور خاص طور پر انیسویں صدی میں انسان نے بے پناہ ترقی کی اور کئی ایجادات انقلاب آفریں ثابت ہوئیں۔ سلائی مشین بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    آج اگرچہ کپڑے سینے کی اس مشین کو دیکھ ہم نہ تو حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی یہ ہمارے لیے بظاہر کوئی اہمیت رکھتی ہے، مگر لگ بھگ دو صدی قبل جب دنیا اس سے متعارف ہوئی تھی تو یہ ایک بڑی ایجاد اور قابلِ‌ ذکر مشین تھی۔ یہاں ہم معروف بھارتی مصنّف، دانش ور اور عالمِ دین مولانا وحید الدین کی زبانی اس مشین کے موجد الیس ہووے (Elias Howe) کے بارے میں جانیں گے۔ مولانا کی یہ مختصر تحریر دل چسپ انداز میں ہمیں انسانی سوچ اور عقل کے استعمال سے آگاہ کرتے ہوئے ایک ایسا سبق دیتی ہے جس میں ہماری ترقی پوشیدہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:‌

    الیس ہووے امریکا کے مشہور شہر مساچوچسٹ کا ایک معمولی کا ریگر تھا۔ وہ 1819 میں پیدا ہو ااور صرف 48 سال کی عمر میں 1867 میں اس کا انتقال ہوگیا۔ مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ یہ سلائی کی مشین تھی جو اس نے 1845 میں ایجاد کی۔

    الیس ہووے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لیے ابتداً سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آرہا تھا۔ اس لیے الیس ہووے نے جب سلائی مشین تیار کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا۔ اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی۔ شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتا تھا۔ کپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی۔

    الیس ہووے ایک عرصہ تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا۔ آخر کار اس نے ایک خواب دیکھا، اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کردیا۔

    اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے اس کو پکڑلیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ 24 گھنٹہ کے اندر سلائی کی مشین بنا کر تیار کرے۔ ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیار نہ کر سکا۔ جب وقت پورا ہوگیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھ میں برچھا تھا— ہووے نے غور سے دیکھا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا یہی دیکھتے ہوئے اس کی نیند کھل گئی۔

    ہووے کو آغاز مل گیا۔ اس نے برچھے کی طرح اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اور اس میں دھاگا ڈالا۔ اب مسئلہ حل تھا۔ دھاگے کا چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی۔

    ہووے کی مشکل یہ تھی کہ وہ رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے، وہ صحیح ہے۔ جب اس کے لاشعور نے اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملہ کو سمجھا اور فوراً حل کرلیا۔ جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے۔ تو وہ اسی طرح اس کے رازوں کو پا لیتا ہے جس طرح مذکورہ شخص نے پالیا۔

  • جنگیں حصولِ مقصد کا نتیجہ خیز ذریعہ نہیں!

    جنگیں حصولِ مقصد کا نتیجہ خیز ذریعہ نہیں!

    انسان کی تاریخ بہ ظاہر جنگوں کی تاریخ نظر آتی ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے یہ جنگ ایک زمانی ضرورت ہوسکتی تھی، مگر بیسویں صدی کے بعد انسانی زندگی میں جو انقلاب آیا ہے، اس کے بعد جنگ ایک غیر ضروری چیز بن چکی ہے۔

    اب جنگ ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) کام ہے۔ وہ سب کچھ، جس کو حاصل کرنے کے نام پر جنگ کی جاتی تھی، وہ اب جنگ کے بغیر زیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قدیم پُرتشدد ذرائع کے مقابلے میں جدید پُرامن ذرائع کہیں زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز حیثیت رکھتے ہیں۔

    قدیم زمانے میں اتنی زیادہ جنگ کیوں ہوتی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حوصلہ مند لوگوں کو اپنے حوصلے کے تسکین کے لیے اس کے سوا کوئی دیگر راستہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ لڑ کر اپنا مقصد حاصل کریں۔ وہ جنگ اس لیے کرتے تھے کہ ان کے سامنے بہ ظاہر جنگ کا کوئی متبادل (alternative) موجود نہ تھا۔

    اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں دو ایسی چیزیں موجود تھیں جو لوگوں کے لیے جنگ کو گویا ناگزیر بنائے ہوئے تھیں: ایک، خاندانی بادشاہت، اور دوسری، زرعی اقتصادیات۔

    قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے خاندان پر مبنی بادشاہت کا طریق چلا آ رہا تھا۔ اس نظام کے بنا پر ایسا تھا کہ کسی سیاسی حوصلہ مند کے لیے اپنے سیاسی حوصلے کی تسکین کی صرف ایک ہی صورت تھی؛ یہ کہ وہ موجود خاندانی حکم ران کو قتل یا معزول کر کے اس کے تخت پر قبضہ کر لے۔ اس طرح ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان کی حکومت کی حکومت کا نظام ہزاروں سال تک دنیا میں چلتا رہا۔

    موجودہ زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تاریخ میں ایسے انقلابات پیش آئے جن کے نتیجے میں خاندانی بادشاہت کا نظام ختم ہو گیا اور دنیا میں جمہوری حکم رانی کا نظام قائم ہوا۔

    اب سیاسی حکم ران دَوری انتخابات (periodical election) کے ذریعے چُنے جانے لگے۔ اس طرح ہر آدمی کے لیے اپنے سیاسی حوصلے کے نکاس (outlet) کا موقع مل گیا، ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ پُرامن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کرے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح مقرّر میعاد (term) کے لیے سیاسی اقتدار تک پہنچ جائے۔

    دوسرا بنیادی فرق وہ ہے جو اقتصادیات کے میدان میں ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے ایسا تھا کہ اقتصادیات کا سارا انحصار زمین پر مبنی ہوتا تھا۔ جس کے پاس زمین ہے وہ صاحبِ مال ہے، اور جس کے پاس زمین نہیں وہ صاحبِ مال بھی نہیں۔ مزید یہ کہ قدیم سیاسی نظام کے تحت، زمین کا اصل مالک بادشاہ ہوتا تھا، یا وہ جس کو بادشاہ جاگیر یا عطیہ کے زمین دے دے۔

    ایسی حالت میں کسی اقتصادی حوصلہ مند کو اپنے حوصلے کی تکمیل کی ایک ہی صورت نظر آتی تھی؛ یہ کہ وہ مالکِ زمین سے لڑ کر اس سے زمین چھیننے اور اس پر قابض ہو کر اپنے اقتصادی حوصلے کی تسکین حاصل کرے۔ قدیم زمانے میں اس اعتبار سے کسی آدمی کے لیے بہ ظاہر صرف دو میں سے ایک کا انتخاب تھا: یا تو مستقل اپنی غربت پر قانع رہے، یا جنگ کر کے زمین پر قبضہ حاصل کرے۔

    موجودہ زمانے میں اس پہلو سے ایک نیا واقعہ ظہور میں آیا ہے جس کو صنعتی انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس جدید انقلاب نے صورتِ حال کو یک سَر بدل دیا۔ اب ہزاروں بلکہ اَن گنت ایسے نئے اقتصادی ذرائع وجود میں آ گئے ہیں جن کو استعمال کر کے ہر آدمی بڑی سے بڑی کمائی کر سکتا ہے۔ زمین کا مالک بنے بغیر وہ دولت کا مالک بن سکتا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی زیادہ بڑی ہے کہ اس کو بہ جا طور پر معاشی انفجار (economic explosion) کہنا درست ہو گا۔

    یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے سیاسی اور معاشی نظام کو آخری حد تک بدل ڈالا ہے۔ جو کچھ پہلے بہ ظاہر نا ممکن تھا، وہ اب پوری طرح ممکن ہو چکا ہے۔ پہلے جو چیز خیالی نظر آتی تھی، وہ اب واقعہ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی اجارہ داری کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

    اس انقلابی تبدیلی کے بعد اب کسی کے لیے جنگ کا کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ کوئی شخص جس اقتصادی یا سیاسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کو وہ جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے، پُرامن طور پر حاصل کر سکتا ہے۔

    ایسی حالت میں جنگ کرنے کی کیا ضرورت۔ اب جنگ اور تشدّد کا طریقہ کسی آدمی کے لیے اپنی بے شعوری کا اعلان تو ہو سکتا ہے۔ مگر وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی نتیجہ خیز ذریعہ نہیں۔

    (از قلم: مولانا وحیدُ الدّین خان)

  • مولا بخش اور عصر کی نماز

    مولا بخش اور عصر کی نماز

    تقریباً 85 برس پہلے کی بات ہے۔ اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں ایک زمین دار مولا بخش نام کے رہتے تھے۔

    مولا بخش اپنے باپ کی تنہا اولاد تھے اور ان کے باپ ابھی زندہ تھے۔ ان کے رشتہ داروں نے سوچا کہ اگر مولا بخش کا خاتمہ کر دیا جائے، تو ان کی جو اولاد ہے وہ محجوب ہوجائے گی، کیوں کہ دادا زندہ ہوگا اور باپ مرچکا ہوگا، اس طرح ان کے حصّے کی ساری جائیداد ہم کو مل جائے گی، چنانچہ اُنہوں نے خفیہ طور پر مولا بخش کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

    بقر عید قریب تھی۔ مولا بخش اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر شہر روانہ ہوئے تاکہ وہاں سے عید کا سامان خرید کر لائیں۔ ان کے دشمن پہلے سے اس موقع کی تاک میں تھے۔ ادھر مولا بخش روانہ ہوئے اور اُدھر دشمنوں نے جمع ہو کر مشورہ کیا، پوری اسکیم طے ہوگئی۔

    عصر کا وقت تھا۔ مولا بخش کا گھوڑا گاؤں سے تین میل کے فاصلے پر ایک جنگل میں داخل ہوا۔ ‘‘ٹھہر جاؤ۔’’ اچانک ایک کرخت آواز نے مولابخش کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ دیکھا تو چار آدمی لاٹھیوں اور بلموں سے پوری طرح مسلّح ان کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک آدمی نے لپک کر گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔ اب مولا بخش کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ گھوڑے سے اُتر پڑیں۔

    ‘‘آخر تم لوگ کیا چاہتے ہو؟’’ مولا بخش نے اضطراب آمیز لہجے میں پوچھا۔

    ‘‘تمہاری جان!’’ بلم کے پیچھے کھڑے ہوئے خونخوار چہروں نے جواب دیا۔

    مولا بخش صورتِ حال کی نزاکت پوری طرح سمجھ چکے تھے۔ انہوں نے چند لمحے سوچا اور پھر جواب دیا: ‘‘اچھا عصر کا وقت ہوگیا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو۔’’

    ‘‘ہاں تم نماز پڑھ سکتے ہو۔’’ مولا بخش صاف زمین پر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ وہ ابھی سجدے میں تھے کہ ان میں سے ایک معمر شخص نے کہا:’’دیکھتے کیا ہو، اس سے بہتر وقت نہیں مل سکتا۔ اگر کہیں سے کوئی راہی آ نکلا، تو سارا منصوبہ دھرا رہ جائے گا۔ اس کی بات سب کی سمجھ میں آگئی اور فوراً ان میں سے دو طاقت ور آدمی مولا بخش کے دائیں اور بائیں کھڑے ہوگئے۔

    سجدے کی حالت ہی میں ایک لاٹھی گردن کے نیچے رکھی گئی اور دوسری گردن کے اوپر، اس کے بعد دونوں طرف سے چاروں آدمیوں نے مل کر دبایا، تو مولا بخش کی زبان نکل پڑی، تھوڑی دیر بعد وہ اس دنیا میں نہیں تھے۔ پھر دشمنوں نے گھوڑے کو بھی قتل کیا اور گھوڑے اور سوار دونوں کی لاشیں قریب کے دریا میں بہا دیں۔

    یہ برسات کا زمانہ تھا، اسی رات موسلا دھار بارش ہوئی اور قریباً ایک ہفتے تک جاری رہی۔ اس بارش میں نہ صرف قتل کے تمام ثبوت دُھل کر ختم ہوگئے، بلکہ طغیانی پر آئے ہوئے دریا میں لاش بھی ہمیشہ کے لیے غائب ہوگئی۔ مولا بخش کے صاحبزادے عبد الصمد اور ان کے داماد حامد حسین دو ہفتے تک بارش اور سیلاب میں مارے مارے پھرے، مگر مولا بخش کا کوئی سراغ نہ ملا۔

    جس وقت مولا بخش کا گھوڑا جنگل میں داخل ہوا اور چاروں آدمیوں نے مل کر اُنہیں گھیر لیا، تو مولا بخش کے پیچھے کچھ فاصلے پر گاؤں کا ایک بنیا بھی تھا، جو بازار سے آرہا تھا۔ اس نے جیسے ہی یہ منظر دیکھا، فوراً کھسک کر ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ وہ وہیں سے پورا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے بہت دنوں بعد مولا بخش کے وارثوں کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ رپورٹ ہوئی، پولیس آئی، مگر نہ لاش برآمد ہوئی اور نہ قتل کا کوئی ثبوت فراہم ہوا۔ اس وجہ سے مقدمہ قائم نہ ہوسکا۔ چاروں قاتل بہت خوش تھے کہ قتل بھی کیا اور سزا سے بھی بچے اور مقتول کی ساری جائیداد کا حق بھی مل گیا۔

    مگر آخری عدالت کا فیصلہ ابھی باقی تھا۔ اس کے بعد جلد ہی یہ واقعہ رونما ہوا کہ یکے بعد دیگرے وہ چاروں آدمی بیمار ہوئے جنہوں نے مولا بخش کو قتل کیا تھا اور ہر ایک کی بیماری موت کی بیماری تھی۔ پہلا شخص جب مرنے کے قریب ہوا تو لوگوں نے سُنا کہ وہ سخت اضطراب کی حالت میں کچھ کہہ رہا تھا۔ قریب آکر کان لگایا، تو صاف طور سے یہ الفاظ اس کی زبان سے نکل رہے تھے: ‘‘مولا بھائی اپنے گھوڑے سے ہم کو مت کچلیے، مولا بھائی اپنے گھوڑے سے ہم کو مت کچلیے۔’’

    اسی طرح چاروں قاتل بیمار ہوئے اور چاروں اپنے آخر وقت میں یہی کہتے ہوئے مر گئے۔ گویا مقتول اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے جسم کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند رہا تھا۔ موت کے بعد جب نہلانے کے لیے ان کے جسم کا کپڑا اتارا گیا، تو لوگوں نے دیکھا کہ ان کے جسم پر جگہ جگہ گھوڑے کے سموں کے نشان پڑے ہوئے ہیں، جیسے واقعی گھوڑے نے اپنے سُموں سے اُنہیں پامال کیا ہو۔ اس طرح چاروں آدمیوں کا خاتمہ ہوگیا اور وہ یا ان کی اولاد مولا بخش کی جائیداد بھی حاصل نہ کرسکی کیوں کہ دادا زندہ تھے اور اُنہوں نے مولا بخش کے لڑکوں کے نام ان کا پورا حصہ لکھ دیا۔

    (ہندوستان کے معروف عالمِ دین، مفکر اور مصنؑف وحید الدین خان کے قلم سے ایک واقعہ)

  • امنِ‌عالم: ایک کائناتی اصول توجہ چاہتا ہے!

    امنِ‌عالم: ایک کائناتی اصول توجہ چاہتا ہے!

    امن ( peace ) کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔

    اس دنیا کے پیدا کرنے والے نے دنیا کا نظام فطرت کے قانون کے تحت بنایا ہے۔ ہر معاملے کا ایک فطری قانون ہے۔ جو آدمی اس فطری قانون کا اتباع کرے گا، وہ کام یاب ہوگا۔ اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے گا، وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔

    اصل یہ ہے کہ دنیا کے خالق نے ہر انسان کو آزادی عطا کی ہے۔ ہر انسان پوری طرح آزاد ہے کہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے نہ کرے۔ اس بنا پر ہر سماج میں امکانی طور پر ٹکراؤ کا ماحول قائم ہو جاتا ہے۔ ایک شخص کی آزادی دوسرے شخص کی آزادی سے ٹکراتی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جو ہر سماج میں نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا کردیتی ہے۔

    اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ کوئی شخص اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ لوگوں سے ان کی آزادی چھین لے۔ ایسی حالت میں کسی سماج میں امن صرف اس وقت قائم ہو سکتا ہے، جب کہ لوگ ایسا فارمولا دریافت کریں جس میں آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، امن قائم ہو جائے۔

    یہ فارمولا صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے اعراض کا اصول ( principle of avoidance )۔ یعنی ٹکراؤسے ہٹ کر اپنا سفر طے کرنا۔

    اعراض کا اصول ایک کائناتی اصول ہے۔ کائنات اسی اصول پر قائم ہے۔ کائنات میں بے شمار ستارے اور سیّارے ہیں۔ ہر ایک مسلسل طور پر خلا میں حرکت کررہا ہے۔ مگر ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اصول اعراض کے مطابق، اپنے اپنے مدار (orbit) پر گردش کر رہا ہے۔ یہی اصول انسانوں کو بھی اپنی چوائس سے اختیار کرنا ہے۔

    اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جس کے ذریعے انسانی دنیا میں امن قائم ہوسکے۔ امن کا معاملہ مذہبی عقیدہ کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ فطرت کا معاملہ ہے۔ امن ہر ایک کی ضرورت ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان۔

    (نام ور عالم، دانش اور مصنّف مولانا وحید الدین خان کے قلم سے)