Tag: مولوی ذکاء اللہ دہلوی

  • وارن ہیسٹنگز: وہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا!

    پروانۂ تجارت حاصل کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے جس طرح ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کر کے کروڑوں لوگوں پر راج کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں‌ ملتی۔ کمپنی نے فوج کی مدد سے ایک قوم کو غلام بنا لیا تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوگئی اور بظاہر اقتدار مقامی حکم رانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر آمدن و محصول سے برطانیہ مستفید ہو رہا تھا۔

    ہندوستان کے مشرقی صوبوں میں ٹیکس وصول کرنے اور انتظامی معاملات چلانے کا معاہدہ کرنے والے انگریزوں نے خود کو ہندوستان کے عوام کا خیر خواہ اور ان کی فلاح و بہبود کا خواہاں‌ ثابت کرنے کے لیے یہاں سڑکیں، پُل، سرائے تعمیر کروائے، درس گاہیں اور مدارس قائم کیے جہاں عربی بھی سکھائی جاتی تھی، اور ہندوستان کو ریل کا ذریعۂ سفر بھی دیا، لیکن اس ملک کی آزادی ختم ہو چکی تھی اور صوبوں کا انتظام انگریز منتظمین چلا رہے تھے۔

    یہاں ہم وارن ہیسٹنگز (Warren Hastings) جو گورنر جنرل بنگال تھا، کے بارے میں‌ مولوی ذکاءُ اللہ کے مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ اس انگریز صوبہ دار کے سیاسی تدبّر، فہم و فراست اور بحیثیت منتظم اس کی خوبیوں کے معترف ہیں، لیکن کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سنہ 1773ء سے بدعنوانی کے الزام میں اپنے مواخذے کی کارروائی تک یہ انگریز افسرِ اعلیٰ عوام کو اپنے حُسنِ‌ انتظام کا یقین دلاتے ہوئے انگریزوں کو ان کا محسن بتانے کے لیے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ مؤرخین نے اسے ذہین اور چالاک بھی لکھا ہے۔

    مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ کو مولوی ذکاءُ‌ اللہ نے سلطنتِ انگلیشیہ کے نام سے مضامین کو بہم کیا ہے۔ وہ مؤرخ اور مترجم مشہور تھے جن کے کئی مضامین یادگار ہیں۔

    وارن ہیسٹنگز کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
    شاید ہی کوئی دوسرا مدبّر و منتظمِ ملکی ایسا گزرا ہو کہ جس کی تفضیح اور ہجو اس مبالغہ سے اور تعریف اس شد و مد سے ہوئی ہو اور اس کی ساری زندگی کے افعال اور اعمال کی تحقیقات ایسی شہادتِ تحریری سے ہوئی ہو۔ مگر اس کی نسبت لکھنے والے طرف دار اور متعصب تھے۔

    اگر نظرِ انصاف سے دیکھیے تو اس کی یہ بھلائیاں اور برائیاں معلوم ہوں گی جو ہم نیچے لکھتے ہیں۔ اس کی فطانت اور فراست و ذہانت کے سب دوست دشمن قائل ہیں۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا کہ وہ بیدار مغز اور ہوشیار دل ایسا تھا کہ امورِ خطیر اور معاملاتِ عظیم کے انصرام اور سر انجام کرنے کی اس میں قابلیت اور لیاقت تھی۔ برسوں تک اس نے ایک سلطنتِ بزرگ اور مملکتِ عظیم کا نظم و نسق کیا۔ سوائے ذہین اور قابل ہونے کے وہ محنت شعار اور جفاکش پرلے درجہ کا تھا۔ کاہلی اس سے کروڑوں کوس دور رہتی تھی۔

    اس کے جانشین جو ہوئے ان میں دو چار قابلیت اور لیاقت میں تو ہم پلہ ہوئے مگر محنت مشقت و کار گزاری میں اس سے کہیں ہلکے تھے۔ یہی پہلا عالی دماغ تھا۔ جس نے یہ سوچا کہ انگریزی گورنمنٹ سب سے علیحدہ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اور ہندوستانی رئیسوں سے آمیزش اور سازش کرے۔ یہی باب فتح و نصرت کی کنجی ہے۔ یہی وہ روشن عقل تھا کہ اس شاہراہ پر انگریزی گورنمنٹ کو رستہ دکھایا۔ جس پر چلنے سے وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئی۔ گو یہ خیالات اس وقت انگلستان میں عام نہ تھے مگر بری بھلی طرح سے تجربہ ہو کر آخر کار وہی صحیح ثابت ہو گئے۔

    اس نے انگریزی صوبوں کے حسنِ انتظام میں اپنی عقل و ذہن کو بہت خرچ کیا۔ انقلابوں کے طوفان نے سارے ملک میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ کسی سلطنت کا چراغ روشن نہ تھا۔ شمعِ افسردہ کی طرح سب میں دھواں نکل رہا تھا۔ مالی اور دیوانی عدالتوں کا بہت برا حال تھا۔ وہ نام کی عدالتیں تھیں۔ حقیقت میں اس کے طفیل وہ ظلم و ستم ہوتے تھے کہ قلم لکھ نہیں سکتا۔

    غرض سارے زمانے کی عافیت تنگ تھی۔ اس نے ان سب عدالتوں کی اصلاح کی۔ گو ان کو ان کے درجۂ کمال تک نہیں پہنچایا اور نہ ان کو اچھا بنایا۔ مگر وہ ایک بنیاد اس کی ایسی ڈال گیا کہ پھر اس پر اوروں کو ردے لگا کر عمارت بنانی آسان ہو گئی۔ کوئی حکومت کا کارخانہ ایسا نہ تھا کہ جس کی طرف اس نے توجہ نہ کی ہو اور ان میں بہت سی مفید باتوں کا موجد نہ ہو۔

    اس نے اپنی سرکار کی ہوا خواہی اور خیر اندیشی میں بھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ مگر اس میں اس نے اخلاق کی نیکی پر خیال نہیں کیا۔ جس وقت سرکار نے روپیہ مانگا۔ تو اس کے سر انجام کرنے میں کسی بات کا آگا پیچھا نہیں سوچا۔ از راہِ ظلم و تعدی جو دولت کا سامان کیا اہلِ انگلستان نے اس کو سر بے سامانی سمجھا۔ اس کی طبیعت کا خمیر ایسا تھا کہ وہ عدالت اور صداقت کو ضرورت کے وقت کچھ چیز نہیں سمجھتا تھا اور مروت و فتوت کو انسانیت میں داخل نہیں جانتا تھا۔ "گر ضرورت بود روا باشند” پر عمل تھا۔ وہ خود رائی کے سبب بر خود غلط اتنا تھا کہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ ہر کام اس کا ایک راز سر بستہ اور سر پوشیدہ تھا۔ کسی کام کی اصل و حقیقت کھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ گو اس کے ظاہر ہو جانے سے نقصان نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہر کام کو بڑے پیچ پاچ سے کرتا تھا۔ غرض اس میں جو خوبیاں تھیں، وہ تحسین کے قابل تھیں اور جو برائیاں تھیں وہ نفریں کے لائق۔

    یوں سمجھنا چاہیے کہ رعایا پروری۔ سپاہ کی دلداری۔ لوگوں کو اپنا کر لینا۔ رفاہیتِ عباد اور معموریٔ بلاد کا خیال یہ سب خوبیاں اس میں ایسی تھیں کہ وہ ایک طوطیِ خوش رنگ کی طرح خوش نما معلوم ہوتی تھیں۔ مگر اپنی سرکار کی نمک شناسی کے سبب سے اس کی گنجینہ آزمائی، دولت افزائی ایسی ایک بلّی اس میں تھی کہ وہ اس طوطیِ خوش رنگ کو نوچے کھاتی تھی۔ مگر اس بلّی کے بھنبھوڑنے کے لیے اس کے پاس ایک کتّا بھی موجود تھا، جو اس کی خود پرستی و خود رائی تھی۔

    غرض یہ فضائل اور رذائل اس میں کام کر رہے تھے جو ایک بڑے بند مکان میں طوطی اور بلّی اور کتّا کام کریں۔ ہیسٹنگز صاحب کی سب سے زیادہ تعریف اس بات میں تھی کہ اس نے سارے کارخانوں اور کاموں کے لیے خود ہی مقدمات کو ترتیب دیا اور اس بات کو سر انجام کیا۔ جب وہ ولایت سے ہندوستان آیا تو طفلِ مکتب تھا۔ نوکری ملی تو تجارت کے کارخانے میں۔ کبھی اس کو اہلِ علم اور منتظمانِ ملکی کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی۔ جتنے اس کے یہاں جلیس و انیس تھے، ان میں کوئی اس سے زیادہ صاحبِ لیاقت نہ تھا کہ اپنی لیاقت کو بڑھاتا بلکہ اس کو خود استاد بن کر سب کو لیاقت کا سبق پڑھانا پڑا۔ وہ سب کا راہ نما تھا اور اس کا راہ نما فقط اس کی عقل و دانش کا نور تھا۔

  • اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    انیسویں صدی میں اپنے علمی، ادبی مشاغل کے سبب نمایاں‌ اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ممتاز ہونے والوں میں سے ایک شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ اردو زبان اور تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی بھی تھے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اثرانداز ہو رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب و تعلیم کی بنیاد پڑ رہی تھی جس میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے اور علم و ادب کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

    اس نابغہ روزگار شخصیت سے متعلق ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی۔ 1832ء ان کا سنِ پیدائش ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ سے حاصل کی۔ کم عمری ہی میں عربی و فارسی کتابیں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔

    دہلی کالج میں داخلہ لیا تو دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون۔ اس مضمون سے شغف اور اس میں مہارت ایسی بڑھی ہی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے جب کہ دہلی کالج ہی میں ریاضی کے مضمون میں مدرس کی حیثیت عملی زندگی کا آغاز کردیا۔ اس کے بعد آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

    وہ دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کے استاد بھی رہے۔ اور بعد میں
    میور سنٹرل کالج میں عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ الغرض اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم جانے گئے۔ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ انھیں برطانوی سرکار نے شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا۔ وہ تعلیمِ نسواں کے حامی تھے اور اس ضمن میں کاوشوں پر انھیں‌ سرکار نے خلعت سے نوازا۔

    اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا اور مولوی صاحب کو علمی خدمات پر انعامات سے نوازا گیا۔

    مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور مصلح تھے جنھوں اپنے موضوعات کو دوسروں کے لیے افادی اور کارآمد بنایا۔

    7 نومبر 1910ء کو علم و فنون کے شیدائی، ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف مولوی ذکاءُ اللہ نے دہلی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔