Tag: مولوی عبدالحق

  • میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی زبان میں۔ اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میرؔ کا نام اس فہرست میں ضرور داخل کرنا ہو گا۔

    یہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جنھوں نے موزونی طبع کی وجہ سے یا اپنا دل بہلانے کی خاطر یا دوسروں سے تحسین سننے کے لیے شعر کہے ہیں، بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمہ تن شعر میں ڈوبے ہوئے تھے اور جنھوں نے اپنے کلام سے اردو کی فصاحت کو چمکایا اور زبان کو زندہ رکھا۔

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    یہ شعر کس قدر سادہ ہے، اس سے زیادہ آسان، عام اور معمولی الفاظ اور کیا ہوں گے لیکن اندازِ بیان درد سے لبریز ہے اور لفظ لفظ سے حسرت و یاس ٹپکتی ہے۔ اردو کیا مشکل سے کسی زبان میں اس پائے کا اور ایسا درد انگیز شعر ملے گا۔ ایک دوسری بات اس شعر میں قابلِ غور یہ ہے کہ جو شخص دوسروں کو غل نہ کرنے اور آہستہ بولنے کی ہدایت کر رہا ہے، وہ بھی بیمار کے پاس بیٹھا ہے، اور اس پر لازم ہے کہ یہ بات آہستہ سے کہے۔ اس کے لئے یہ ضرور ہے کہ لفظ ایسے چھوٹے، دھیمے اور سلیس ہوں کہ دھیمی آواز میں ادا ہو سکیں۔ اب اس شعر کو دیکھیے کہ لفظ تو کیا ایک حرف بھی ایسا نہیں جو کرخت ہو یا ہونٹوں کے ذرا سے اشارے سے بھی ادا نہ ہو سکتا ہو۔

    جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
    تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا

    اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں، مگر شعر کس قدر پُر درد ہے، دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیز بنا دیا ہے۔ یہ سلاست اور یہ اندازِ بیان اور اس میں یہ درد میرؔ صاحب کا حصہ ہے، ان اشعار کے سامنے صنائع و بدائع، تکلف و مضمون آفرینی، فارسی، عربی ترکیبیں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔

    (مقدمۂ انتخابِ میر از مولوی عبدالحق سے اقتباس)

  • مولوی عبدالحق اور فلم ”ہماری زبان”

    مولوی عبدالحق اور فلم ”ہماری زبان”

    مولوی عبدالحق کی خدمات کے بارے میں ممتاز فکشن نگار کرشن چندر نے کہا تھاکہ "جو کام مہاتما گاندھی نے ہندوستان کے لیے اور قائدِ اعظم نے پاکستان کے لیے کیا وہی کام مولوی عبدالحق نے اردو کے لیے کیا ہے۔” مولوی عبدالحق ماہرِ لسانیات، محقق اور ادیب تھے جنھیں بابائے اردو بھی کہتے ہیں۔ آج مولوی عبدالحق کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بابائے اردو کے لقب سے مشہور مولوی عبدالحق نے 20 اپریل 1870 کو متحدہ ہندوستان کے ایک ضلع میرٹھ کے قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور 1894 میں عبدالحق نے علی گڑھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی۔ یہ وہی علی گڑھ تھا جس میں انھیں سَر سید احمد خان جیسے عالی مرتبت کا قرب نصیب ہوا اور مولوی عبدالحق نے اُن کے افکار اور نظریات کا گہرا اثر لیا۔ علم و ادب میں مولوی صاحب کی دل چسپی اور انہماک اس قدر بڑھا کہ جس کے باعث مرفہ الحال ریاست دکن کے فرماں روا میر عثمان علی خان نے اردو کی تعلیم و فروغ، زبان و ادب کی ترویج اور اشاعت سے متعلق ذمہ داریاں سونپتے ہوئے خطیر رقم بھی ان علمی و ادبی کاموں کے لیے ان کو دی۔

    1895ء میں مولوی صاحب کو حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت ملی اور وہ استاد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور بعد میں صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد بھیج دیے گئے۔ اس ملازمت کو ترک کرکے عثمانیہ کالج، اورنگ آباد کے پرنسپل ہوئے اور 1930ء میں اس عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    فارسی اور اُردو ادب کے علاوہ انھیں تاریخ و فلسفہ میں گہری دل چسپی نے مطالعہ کی طرف راغب کیا اور عبدالحق کی کتابوں سے گہری دوستی ہوگئی جس نے وقت کے ساتھ انھیں غور و فکر کا عادی بنایا اور وہ نثر و نظم کو بحیثیت نقاد اور محقق پرکھنے لگے۔
    اس کے ساتھ مولوی صاحب نے خود بھی لکھنا شروع کردیا اور انھیں املا انشاء اور زبان و بیان پر عبور کی بدولت ماہرِ لسانیات کے طور پر پہچان ملی۔ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے یوں تو متعدد علمی اور ادبی کارنامے گنوائے جاسکتے ہیں، لیکن اردو زبان کے لیے ان کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کی وجہ سے انھیں‌ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    ان کے ایک مضمون سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے جس میں وہ مطالعہ اور مفید اور معلوماتی کتب کے بارے میں لکھتے ہیں، پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے، لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اور کتاب کتاب میں فرق ہے۔

    اس تحریر میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں، بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنیٰ مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔

    مولوی عبدالحق نے اردو میں تنقید و مقدمہ نگاری کے علاوہ مختلف تصانیف، تالیفات پر تبصرہ اور جائزہ لینے کے فن کو ایک نیا ڈھنگ عطا کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بابائے اردو نے انجمن ترقیِ اردو کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے ایک فعال ترین تنظیم اور علمی ادارہ بنایا اور اس انجمن کے تحت لسانیات اور جدید علوم سے متعلق کتابوں کی اشاعت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اسی انجمن کی تحریک اور کوششوں کی بدولت اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لا کالج قائم کیے گئے۔

    مولوی عبدالحق نے نظام میر عثمان علی خان کی ذاتی دل چسپی سے قائم کردہ جامعہ عثمانیہ جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا، کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں اور اردو لغت، فنون و سائنسی اصطلاحات کے اردو تراجم کا ایک بڑا اثاثہ ہمارے لیے چھوڑ گئے۔

    یہاں ہم ایک دل چسپ بات اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ مولومی صاحب نے ایک فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کراچی میں بننے والی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کا نام ”ہماری زبان” تھا۔ اس میں چند مناظر بہ طور اداکار مولوی عبدالحق نے بھی عکس بند کروائے تھے۔ اس وقت بھی ان کا نام زبان و ادب کے حوالے سے نہایت معتبر اور مشہور تھا۔ لوگ ان کی بڑی عزّت کرتے تھے اور اس موضوعاتی فلم کے تشہیری بورڈ پر بطور اداکار ان کا نام شامل ہونا عام لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ یہ ڈاکیومینٹری طرز کی فلم تھی جو یہ فلم 10 جون 1955ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم میں‌ اردو سے متعلق یہ نغمہ شامل تھا:

    ہماری زبان اردو، قومی زبان اردو
    اونچا رہے گا ہر دَم نام و نشان اردو

    بابائے اردو کی تصانیف، تالیف کردہ کتب میں چند ہم عصر(شخصی خاکے)، مخزنِ شعرا، اردو صرف و نحو، افکارِ حالی، سر سید احمد خان، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ بہت اہم ہیں‌۔

    16 اگست 1961 کو کراچی میں وفات پانے والے مولوی عبدالحق کو وفاقی اردو یونیورسٹی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کراچی میں بننے والی پہلی فلم اور بابائے اردو مولوی عبدُالحق

    کراچی میں بننے والی پہلی فلم اور بابائے اردو مولوی عبدُالحق

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں‌ فلمی صنعت کے قیام کے ساتھ ہی ایسے اسٹوڈیوز کی بھی ضرورت تھی جو فلم سازی کے جدید آلات اور مشینری کے ساتھ وسیع اور تمام سہولیات سے آراستہ ہوں۔ اس وقت کئی نام ور اور مال دار فلم سازوں نے اسٹوڈیو بنائے اور پاکستان میں فلمی صنعت کے سفر کا آغاز ہوا۔ یہاں ہم اُس فلم کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جسے عروسُ البلاد کراچی میں بننے والی پہلی فلم کہا جاتا ہے۔

    اس فلم کا نام ”ہماری زبان” تھا۔ اس فلم کی ایک اہم بات یہ تھی کہ اس کے چند مناظر میں‌ مولوی عبدالحق بھی بہ طور اداکار نظر‌ آئے۔ انھیں‌ بابائے اردو کہا جاتا ہے اور اس وقت بھی ان کا نام زبان اور ادب کے حوالے سے نہایت معتبر تھا۔ لوگ ان کی بڑی عزّت کرتے تھے اور اس موضوعاتی فلم میں بطور اداکار ان کا نام شامل ہونا عام لوگوں کے لیے ایک نہایت مختلف بات تھی۔

    اس فلم میں‌ پاکستان کی قومی زبان اردو سے متعلق یہ کلام شامل تھا:

    ہماری زبان اردو، قومی زبان اردو
    اونچا رہے گا ہر دم نام و نشانِ اردو

    یہ فلم 10 جون 1955ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم ساز کا نام ایم آر خان تھا جب کہ مصنّف اور ہدایت کار شیخ حسن تھے۔ کراچی میں بننے والی اس فلم کے اداکاروں میں بینا، شیخ حسن، نعیم ہاشمی، رشیدہ، لڈن اور بندو خان شامل تھے۔ بدقسمتی سے یہ ایک ناکام فلم ثابت ہوئی اور چند ہفتوں سے زیادہ اس کی نمائش جاری نہ رہ سکی، لیکن ہماری زبان نامی اس فلم نے شہر کراچی میں فلمی صنعت کی بنیاد ضرور رکھ دی۔

    یہ ڈاکیومینٹری کے طرز کی ایک فلم تھی، جس کا دورانیہ ایک عام فیچر فلم سے کم تھا۔ اوّلین ریلیز کے بعد یہ فلم دوبارہ پردے پر پیش نہیں کی جاسکی اور نہ ہی بعد میں‌ اس کا کوئی ذکر کہیں ہوا۔

  • اچھی کتاب…

    اچھی کتاب…

    پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اور کتاب کتاب میں فرق ہے۔

    میں ایک بدمعاش اور پاجی آدمی سے باتیں یا بے تکلّفی کرتے ہوئے جھپکتا ہوں اور آپ بھی میرے اس فعل کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں لیکن میں اس سے زیادہ تر بُری اور پاجی کتاب پڑھتا ہوں، نہ آپ کو ناگوار گزرتا ہے اور نہ مجھے ہی کچھ ایسی شرم آتی ہے بلکہ اس کی بات شربت کے گھونٹ کی طرح حلق سے اُترتی چلی جاتی ہے۔ پاجی آدمی کی شاید کوئی حرکت ناگوار ہوتی اور میں اس سے بیزار ہو جاتا مگر یہ چپکے چپکے دِل میں گھر کر رہی ہے اور اس کی ہر بات دلربا معلوم ہوتی ہے۔

    اگر میں کسی روز بازار جاؤں اور چوک میں سے کسی محض اجنبی شخص کو ساتھ لے آؤں اور اس سے بے تکلفی اور دوستی کی باتیں شروع کر دوں اور پہلے ہی روز اس طرح اعتبار کرنے لگوں جیسے کسی پرانے دوست پر، تو آپ کیا کہیں گے؟ لیکن ریل اگر کسی اسٹیشن پر ٹھہرے اور میں اپنی گاڑی سے اُتر کر سیدھا بک اسٹا ل (کتب فروش کی الماری) پر پہنچوں اور پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگے وہ خرید لاؤں اور کھول کر شوق سے پڑھنے لگوں تو شاید آپ کچھ نہ کہیں گے۔ حالانکہ یہ فعل پہلے فعل سے زیادہ مجنونانہ ہے۔

    میں ایک بڑے شہر یا مجمع میں جاتا ہوں۔ کبھی ایک طرف نکل جاتا ہوں اور کبھی دوسری طرف جا پہنچتا ہوں اور بغیر کسی مقصد کے اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہوں۔ افسوس کہ باوجود آدمیوں کی کثرت کے میں وہاں اپنے تئیں اکیلا اور تنہا پاتا ہوں اور اس ہجوم میں تنہائی کا بار اور بھی گراں معلوم ہوتا ہے۔ میرے کتب خانے میں بیسوں الماریاں کتابوں کی ہیں میں کبھی ایک الماری کے پاس جا کھڑا ہوتا ہوں اور کوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں۔ میں اس طرح سیکڑوں کتابیں پڑھ جاتا ہوں لیکن اگر میں غور کروں تو دیکھوں گا کہ میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔ اس وقت میری آوارہ خوانی مجھے ستائے گی اور جس طرح ایک بھرے پرے شہر میں میری تنہائی میرے لیے وبال ہوگی۔ اسی طرح اس مجمع شرفا و علما ادبا شعرا میں یکہ و تنہا و حیران ہوں گا۔

    بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں، مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنی مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔

    ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔ لو گ کیوں فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں پڑھتے ہیں، کچھ تو اس لیے کہ ان میں نیا پن ہے، کچھ اس خیال سے کہ ایسا کرنا داخل فیشن ہے اور کچھ اس غرض سے کہ اس سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

    پہلی دو وجہیں تو طفلانہ ہیں، تیسری وجہ بظاہر معقول ہے لیکن اس کے یہ معنٰی ہوں گے کہ ہم معمولی، ذلیل اور ادنیٰ معلومات کو اپنے دماغ میں بھرتے ہیں تاکہ اعلیٰ معلومات کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اگر ہم اپنے مطالعہ کا ایک سیاہہ تیار کریں اور اس میں صبح و شام تک جو کچھ پڑھتے ہیں لکھ لیا کریں اور ایک مدّت کے بعد اسے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم کیا کیا کر گزرے۔ اس میں ہم بہت سی ایسی تحریریں پائیں گے جن کا ہمیں مطلق خیال نہیں۔

    بہت سے ایسے ناول ہوں گے جس کے ہیروؤں تک کے نام یاد نہیں۔ بہت سے ایسی کتابیں ہیں کہ جن کی نسبت اگر ہم سے کوئی کہتا کہ یہ ہم پڑھ چکے ہیں تو ہمیں کبھی یقین نہ آتا۔ بہت سی ایسی تاریخیں، سفر نامے، رسالے وغیرہ ہوں گے جنھیں پڑھ کر خوش تو کیا ہوتے پچھتائے ہی ہوں گے۔

    اگر ہم علی گڑھ کے کالج کے طالب علموں کے نام، ان کے حلیے، ان کے وطن، ان کے محلّے، ان کی کتب، نصاب تعلیم اور ان کے شجرے یاد کرنے شروع کر دیں اور اسے معلومات کے نام سے موسوم کریں تو لوگ کیا کہیں گے۔

    غرض ایسا ہی کچھ حال اس سیاہہ کا ہوگا۔ اس کا اکثر حِصّہ خرافات کی ایک عجیب فہرست اور ہماری ورق گردانی اور تضیعِ وقت و دماغ کی ایک عمدہ یادگار ہوتی ہے۔

    ملٹن نے کیا خوب کہا ہے۔ ’’عمدہ کتاب حیات ہی نہیں بلکہ وہ ایک لافانی چیز ہے۔‘‘ اس قول میں مطلق مبالغہ نہیں۔

    (از قلم مولوی عبدُالحق)

  • میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    1957 میں مشہور امریکی ادارے پی، ای، این نے مخصوص رقم ایشیائی ممالک کی ہر زبان کے لیے، پانچ سال کے بہترین مطبوعہ افسانے پر انعام کے لیے مختص کی اور دو ہزار روپے پاکستان اور ہزار اُردو کے حصے میں پڑے۔

    مقابلے کا اعلان ہوا۔ ججوں کے نام سنے تو بڑے ہی ثقہ تھے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر مرزا محمد عسکری اور مولانا صلاح الدین احمد۔ چنانچہ میں نے بھی اللہ کا نام لے کر اکھاڑے میں اپنا مطبوعہ ناولٹ ”چڑھتا سورج“ اتار دیا۔

    کچھ عرصے بعد اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ بالاتفاق رائے انعام کا حق دار میرا ناولٹ قرار پایا۔ دل میں سوچا کہ مولانا صلاح الدین احمد میرے قدیمی مداحوں اور قدر دانوں میں تھے ہی، یقیناً انھوں نے اپنی رائے تو میرے حق میں دی ہی ہوگی بلکہ ان دونوں بزرگوں کو بھی میرے ناولٹ کے محاسن کی نشان دہی کی ہوگی۔

    تقریباً سال بھر بعد میں لاہور گیا، اور حسبِ معمول مولانا سے ملنے پہنچا، پہلے تو منتظر رہا کہ خود ہی کچھ ذکر چھیڑیں، جب ادھر ادھر کی خاصی باتیں ہوئیں تو پھر میں نے ہی لجائے لجائے انداز اور دبے دبے لہجے میں اس بندہ نوازی کو یاد دلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

    مگر وہ مخصوص میٹھی میٹھی، سریلی سریلی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔

    ”میاں میرا شکریہ مفت میں ادا کررہے ہو، تراشوں کا وہ بنڈل میرے پاس آیا ضرور تھا اور پھر پیہم تقاضے بھی آتے رہے، مگر میں بہت عدیم الفرصت تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی۔

    آخر تابکے، ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع ملی کہ مولوی عبدالحق اور پروفیسر مرزا محمد عسکری نے بالاتفاق رائے فیصلہ آپ کے حق میں دے دیا تو پھر جب کثرتِ رائے کا اظہار ہوگیا تو میری رائے اگر ان سے متفق ہوتی تو بھی کارِ فضول تھی اور مخالف ہوتی تو بھی تحصیل لاحاصل۔

    ہاں البتہ آپ کے اس مفت کے شکریے کا شکریہ۔

    (ممتاز ادیب، مترجم اور محقق ابوالفضل صدیقی کی کتاب ”عہد ساز لوگ“ سے ایک ورق)

  • کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!

    کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!

    اردو ادب میں خاکہ نگاری باقاعدہ صنف کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ دراصل کسی شخصیت کی لفظی تصویر ہوتی ہے جس میں خاکہ نویس اس کی زندگی سے متعلق اہم اور مخصوص حالات و واقعات بیان کرتا ہے۔ اس کا حلیہ، حرکات و سکنات، عادات و اطوار، اس کے ظاہری و باطنی اوصاف اور طرزِ گفتگو کو اپنے مشاہدات کی گرہ لگا کر اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

    اس فن میں باکمال نثر نگار یوں قلم اٹھاتا ہے کہ کسی کی جیتی جاگتی، چلتی پھرتی تصویر قاری کے سامنے آجاتی ہے۔ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین نے مختلف نثر نگاروں کے تحریر کردہ مشہور اور اہم شخصیات کے خاکے پڑھے ہوں گے، لیکن یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ کیا نام ور اور مشہور شخصیات ہی کا خاکہ لکھا جاسکتا ہے؟

    ہمارے ہاں زیادہ تر خاکہ نویسوں نے فنونِ لطیفہ سے وابستہ معروف شخصیات اور دیگر شعبوں کے اہم ناموں کو ہی اس فن میں سمیٹا ہے، مگر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ‘‘نور خان’’ جیسے ایک عام انسان کو جو حیدرآباد دکن کے ایک باغ کا مالی تھا، اپنے خاکوں کی مشہور کتاب ‘‘چند ہم عصر’’ نہایت خوب صورتی سے ہمارے لیے مثال بنا کر پیش کیا ہے۔

    اس خاکے کی ابتدائی سطور جہاں اس فن سے متعلق بابائے اردو کے خیالات سے آگاہی دیتی ہیں، وہیں خاکہ نگاروں کے لیے اس فن میں راہ نما بھی ہیں۔

    مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں۔ نام ور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں، اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں کے ہی حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہوسکتی ہے۔

    مولوی عبدالحق کے اس خاکے کا عنوان‘‘ گدڑی کا لال، نور خان’’ ہے جس کی چند جھلکیاں آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہیں۔
    یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ سچائی، بات کی اور معاملے کی، ان کی سرشت میں تھی اور خواہ جان ہی پر کیوں نہ بن جائے، وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ اسی میں انہیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کرلیتے تھے۔

    مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ دن ہو، رات ہو، ہر وقت کام کرنے کو تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے۔ کسی کام کو کہیے تو ایسی خوشی سے کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔

    دوستی کے بڑے پکے اور بڑے وضع دار تھے، چونکہ ادنی اعلیٰ سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے ان کے غریب دوستوں سے بہت سے کام نکلتے تھے۔
    خود دار ایسے کہ کسی سے ایک پیسے کے روادار نہ ہوتے تھے۔ مجھ سے انہیں خاص انس تھا، میں کوئی چیز دیتا تھا تو کبھی انکار نہ کرتے تھے، بلکہ کبھی کبھی خود فرمائش کرتے تھے، مٹھاس کے بے حد شائق تھے۔ ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا مجبوری سے کھاتا ہوں، مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ نہ لگاؤں۔

    وہ حساب کے کھرے، بات کے کھرے، اور دل کے کھرے تھے۔ مہرو وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہم درد، مرنج و مرنجان اور وضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں۔ ان کے بڑھاپے پر لوگوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔

    مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں۔ کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے!