Tag: مولوی وحید الدّین سلیم

  • ایک وصیت کی تعمیل!

    ایک وصیت کی تعمیل!

    خدا بخشے مولوی وحید الدّین ‘سلیم’ بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھیے کہ برسوں ناتراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا۔ پھل نکلے، چمک بڑھی، اہلِ نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔

    شہرت بھی ‘غالب’ کے قصیدے کی طرح آج کل کسی کو راس نہیں آتی۔ ادھر نام بڑھا اور ادھر مرا۔ صف سے آگے نکلا اور تیر قضا کا نشانہ ہوا، چلچلاؤ کا زور ہے۔ آج یہ گیا، کل وہ گیا، مولوی نذیر احمد گئے۔ شبلی گئے، حالی گئے، وحید الدّین گئے۔ اب بڑوں میں مولوی عبدالحق رہ گئے۔ ان کو بھی شہرت کی ریا لگ گئی ہے۔ سوکھے چلے جا رہے ہیں۔ کسی دن یہ بھی خشک ہو کر رہ جائیں گے۔

    یہ تو جو کچھ تھا، سو تھا، ایک نئی بات یہ ہے کہ آج کل کا مرنا بھی کچھ عجب مرنا ہو گیا ہے۔ پہلے زندگی کو چراغ سے تشبیہ دیتے تھے، بتی جلتی، تیل خرچ ہوتا، تیل ختم ہونے کے بعد چراغ جھلملاتا، تمٹماٹا، لو بیٹھنی شروع ہوتی اور آخر رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو جاتا۔ اب چراغ کی جگہ زندگی، بجلی کا لیمپ ہو گئی ہے۔ ادھر بٹن دبایا، ادھر اندھیرا گھپ۔ عظمت اللہ خان، اسی طرح مرے، مولوی وحید الدّین اسی طرح رخصت ہوئے، اب دیکھیں کس کی باری ہے۔ اردو کی مجلس میں دو چار لیمپ جل رہے ہیں۔ وہ بھی کسی وقت کھٹ سے گُل ہوجائیں گے۔ اس کے بعد بس اللہ ہی اللہ ہے۔

    میں مدت سے حیدرآباد میں ہوں۔ مولوی وحید الدّین بھی برسوں سے یہاں تھے، لیکن کبھی ملنا نہیں ہوا۔ انہیں ملنے سے فرصت نہ تھی۔ مجھے ملنے کی فرصت نہ تھی۔ آخر ملے تو کب ملے کہ مولوی صاحب مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔

    گزشتہ سال کالج کے جلسہ میں مولوی عبدالحق صاحب نے مجھے اورنگ آباد کھینچ بلایا۔ روانہ ہونے کے لیے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیشن کا اسٹیشن اورنگ آباد جانے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ طالبِ علم بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں۔ کچھ ضرورت سے جا رہے ہیں، کچھ بےضرورت چلے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعی مہمان ہیں، کچھ بن بلائے مہمان ہیں۔ غرض یہ کہ آدھی ریل انہی اورنگ آباد کے مسافروں نے گھیر رکھی ہے۔ ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پرکھڑے گپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ کو چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔ متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفید پائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔

    حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ کیا امیر حبیب اللہ خان اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں۔ اس وقت انہوں نے فرمایا:

    "میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے ۔ کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آکر ملوں۔ مگر موقع نہ ملا۔ قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔”

    میں پریشان تھا کہ یااللہ یہ ہیں کون اور کیا کہہ رہے ہیں؟ مگر میری زبان کب رکتی ہے، میں نے کہا:

    "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، مر جائیے، مضمون میں لکھ دوں گا۔”

    کیا خبر تھی کہ سال بھر کے اندر ہی اندر مولوی صاحب مر جائیں گے۔ اور مجھے ان کی وصیت کو پورا کرنا پڑے گا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ مولوی وحید الدّین سلیم ہیں تو واقعی مجھے بہت پشیمانی ہوئی۔ میں نے معذرت کی، وہ خود شگفتہ طبیعت لے کر آئے تھے، رنج تو کجا بڑی دیر تک ہنستے اور اس جملے کے مزے لیتے رہے۔ سر ہو گئے کہ جس گاڑی میں تُو ہے میں بھی اسی میں بیٹھوں گا۔

    شاگردوں کی طرف دیکھا، انہوں نے ان کا سامان لا، میرے درجے میں رکھ دیا۔ ادھر ریل چلی، اور ادھر ان کی زبان چلی۔ رات کے بارہ بجے، ایک بجا، دو بج گئے، مولوی صاحب نہ خود سوتے ہیں اور نہ سونے دیتے ہیں۔ درجۂ اوّل میں ہم تین آدمی تھے۔ مولوی صاحب اور رفیق بیگ۔ رفیق بیگ تو سو گئے، ہم دونوں نے باتوں میں صبح کر دی۔ اپنی زندگی کے حالات بیان کیے اپنے علمی کارناموں کا ذکر چھیڑا، اصطلاحاتِ زبانِ اردو پر بحث ہوتی رہی، شعر و شاعری ہوئی، دوسروں کی خوب خوب برائیاں ہوئیں، اپنی تعریفیں ہوئیں۔ مولوی عبدالحق کو برا بھلا کہا کہ اس بیماری میں مجھے زبردستی کھینچ بلایا۔ غرض چند گھنٹے بڑے مزے سے گزر گئے۔

    صبح ہوتے ہوتے کہیں جاکر آنکھ لگی۔ شاید ہی گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے کہ ان کے شاگردوں اور ساتھیوں نے گاڑی پر یورش کر دی۔ پھر اٹھ بیٹھے اور پھر وہی علمی مباحث شروع ہوئے، پھبتیاں اڑیں، اس کو بے وقوف بنایا، اس کی تعریف کی، ہنسی اور قہقہوں کا وہ زور تھا کہ درجہ کی چھت اڑی جاتی تھی۔

    (ایک وصیت کی تعمیل از مرزا فرحت اللہ بیگ)

  • کیا اصطلاحات سے حافظے پر بار پڑتا ہے؟

    کیا اصطلاحات سے حافظے پر بار پڑتا ہے؟

    اصطلاح کی ضرورت ایسی نہیں ہے جس سے لوگ آگاہ نہ ہوں۔ اگر اصطلاحیں نہ ہوں تو ہم علمی مطالب کے ادا کرنے میں طولِ لاطائل سے کسی طرح نہیں بچ سکتے۔ جہاں ایک چھوٹے سے لفظ سے کام نکل سکتا ہے، وہاں بڑے بڑے لمبے جملے لکھنے پڑتے ہیں اور ان کو بار بار دہرانا پڑتا ہے۔ لکھنے والے کا وقت جدا ضایع ہوتا ہے اور پڑھنے والے کی طبیعت الگ ملول ہوتی ہے۔

    اصطلاحیں درحقیقت اشارے ہیں جو خیالات کے مجموعوں کی طرف ذہن کو فوراً منتقل کر دیتے ہیں۔ بعض حضرات کی رائے ہے کہ اصطلاحیں وضع کرنے سے حافظہ پر بار پڑتا ہے۔ سہولت اسی میں ہے کہ ہر اصطلاح سے جو معنی مطلوب ہیں، وہ تشریح و تفصیل کے ساتھ بیان کر دیے جائیں مگر ایسا کرنے میں یہی دقت ہے کہ لکھنے والے اور پڑھنے والے دونوں کا وقت ضایع ہوتا ہے اور کاغذ کا صرفہ جدا ہوتا ہے۔

    حافظہ پر بار پڑنے کی شکایت جو اِن حضرات نے کی ہے وہ بھی صحیح نہیں ہے، کیوں کہ جو شخص کسی علم یا فن کو سیکھنا چاہتا ہے، بس اسی علم یا فن کی اصطلاحیں اسے یاد کرنی پڑتی ہیں۔ اس سے یہ باز پرس نہیں کی جاتی کہ وہ تمام علوم و فنون کی اصطلاحیں کیوں نہیں جانتا؟

    یورپ میں بھی جہاں تعلیم عام اور جبری ہے کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا جو دنیا بھر کے علوم و فنون کی اصطلاحیں ازبر رکھتا ہو۔ ہر صاحبِ فن صرف اپنے فن کی اصطلاحات اور اس فن کی معلومات سے آگاہ ہوتا ہے۔

    اصطلاحات ہی پر کیا موقوف ہے۔ اگر آپ عام زبان پر غور کریں تو ہر لفظ ایک آوازی اشارہ ہے جو خیالات کے ایک بڑے مجموعے کی طرف راہ نمائی کرتا ہے، لفظوں کے بنانے کی ضرورت ہی اس بنا پر پیش آئی کہ خیالات کے مجموعوں کو بول چال میں بار بار دہرانا نہ پڑے تاکہ بولنے والے اور سننے والے کا وقت ضایع نہ ہو اور ایک شخص کا مافی الضمیر دوسرے شخص کے دل میں آسانی سے اتر جائے۔

    ان آوازی اشاروں سے جن کے مجموعے کا نام "زبان” ہے، بلاشبہ حافظہ پر کسی قدر بار پڑتا ہے، مگر یہ تھوڑی تکلیف، اُس بڑی تکلیف سے بچنے کے لیے گوارا کی گئی ہے جو اعضائی اشاروں سے کام لینے میں برداشت کرنی پڑتی تھی۔

    جب زبان ایجاد نہیں ہوئی تھی تو آوازوں کی جگہ اعضائی اشاروں سے کام لیا جاتا تھا۔ ہر شخص اپنے دل کا مطلب دوسرے شخص کو سمجھانے کے لیے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں کے اشاروں سے کام لیتا تھا۔ یہ اشارے عجیب و غریب اور مختلف قسم کے ہوتے تھے۔

    چوں کہ آوازی اشاروں میں اعضائی اشاروں کی نسبت بہت کم تکلیف ہے، اس لیے الفاظ کی تعداد زبانوں میں رفتہ رفتہ بڑھتی گئی ہے اور ان کے یاد رکھنے کی کوشش برابر ہوتی رہی ہے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ الفاظ کے یاد رکھنے میں حافظہ پر جو بار پڑتا تھا، وہ بھی متواتر یاد کرنے کی مشق سے کم ہوتا گیا اور خود حافظے بھی قوی ہوتے گئے۔

    چناں چہ مؤرخوں نے بیان کیا ہے کہ دنیا کی وہ قدیم قومیں جو سنسکرت، لاطینی، یونانی اور عربی زبان بولتی تھیں، ان کے حافظے بمقابلہ دیگر ہم عصر اقوام کے نہایت قوی تھے۔ یہ وہ زبانیں ہیں جن میں الفاظ کی تعداد بمقابلہ دیگر قدیم زبانوں کے بہت زیادہ ہے۔

    اس کے علاوہ ہم کو ایک اور اہم بات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ الفاظ معلومات پر دلالت کرتے ہیں، اور الفاظ کی بہتات معلومات کی بہتات پر دلالت کرتی ہے۔ پس جس قوم کی زبان میں الفاظ کی تعداد کثیر ہے، اس کی معلومات کا دائرہ بھی بمقابلہ اس قوم کے جس کی زبان میں الفاظ کی قلت ہے نہایت وسیع ہوگا۔ اس بنا پر پہلی قوم بمقابلہ دوسری قوم لازمی طور پر زیادہ مہذب ہوگی۔

    اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو حضرات الفاظ کی افزائش کے شاکی ہیں اور حافظہ پر بار پڑنے کا عذر پیش کرتے ہیں، وہ گویا اپنی قوم کو تہذیب و تمدن سے دور بھگانے اور وحشت و بربریت کی طرف گھسیٹ کر لے جانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ وہ اپنے ابنائے جنس کو ترقی کی بلندی سے نیچے اتار کر تنزل کے غار میں ڈھکیلنا چاہتے ہیں۔

    حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم شائستہ اور مہذّب قوموں کی صف میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور اگر ہم علوم و فنون حاصل کرنا زندگی کا اہم مقصد جانتے ہیں تو زبان میں جدید الفاظ اور اصطلاحات کے اضافہ سے ہم کو ڈرنا نہیں چاہیے کیوں کہ ترقی کے لیے اس بوجھ کا برداشت کرنا ناگزیر ہے۔

    (مولوی وحید الدّین سلیم کی کتاب "وضعِ اصطلاحات” کے ایک باب سے اقتباسات، یہ کتاب 1954 میں شایع ہوئی تھی)