Tag: مومن خان مومن

  • حكیم مومن دہلوی، شاعر یا زبردست منجم؟

    حكیم مومن دہلوی، شاعر یا زبردست منجم؟

    اعتراضات کا پہلا رُخ صاحبِ آبِ حیات کے حق میں جاتا ہے کہ جنھوں نے آپ کا ذکر لائقِ تذکرہ ہی نہ جانا۔

    پھر طباعتِ ثانی میں شامل روایات و لطائف کا کوئی حوالہ دینا تو دور مکتوب نگار کا نام لینا بھی گوارا نہ کیا۔ پھر ایک اور فاش غلطی یہ کی کہ آپ کو دو دو شخصیات کا مرید ٹھہرایا، پہلے اپنے سسر خواجہ محمد نصیر رنج کا، پھر سید احمد شہید کا۔ مومن کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ آپ نے سید احمد شہید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی تھی، لہٰذا آپ کو خواجہ نصیر کی بیعت سے منسوب کرنا لاعلمی سے زیادہ کئی امور کی غمازی کرتا ہے جس کا محققین بادلائل کئی جگہ ذکر کر چکے ہیں۔

    واضح ہے کہ مومن کے مزاج میں رمل، نجوم اور شطرنج جیسی چند ایسی چیزیں شامل تھیں کہ جو ادبا کے ہاں مذموم نہیں مانی جاتیں، مگر سبھی تذکرہ نگاروں نے جتنی طوالت آپ کے ہنر کو دی ہے، اتنے ہی مباحثے آپ کے مزاج میں موجود ان خامیوں کو اجاگر کرنے میں رقم کر ڈالے۔ مومن پر لکھے گئے تمام تذکرے اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ سبھی آپ کے ہاں ادب سے زیادہ مذہب پر مباحث پیش کرنے اور آپ کی شخصیت کو مسخ کرنے میں مگن نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً مومن جیسی عظیم شخصیت اپنے حق سے محروم ہو کر رہ گئی۔

    مومن کے بارے میں یہ تو طے ہے کہ آپ کا جنّات یا مؤکلات سے کچھ واسطہ نہ تھا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ آپ نجوم شناس تھے۔ ایسے میں آپ کے اس فن کا یوں بیان کرنا کہ جیسے کوئی طبیب کسی مریض کی نبض پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہو اور اس کو اُسی کی علاماتِ مرض مسلسل بتاتا چلا جائے؛ یعنی ایک آنے والا آیا، آپ نے اس کے ماتھے پر پریشانی دیکھی، پہلے پریشانی بتائی، پھر اس کی پریشانی سے جڑے ہوئے ہر ہر فرد کا حال ذکر کیا، پھر اس پریشانی کا حل بھی بتا دیا۔

    ایسے طرزِ بیان سے صرف یہی متبادر ہوتا ہے کہ مومن نہ صرف علمِ غیب رکھتے تھے، بلکہ آپ کو ماورائی طاقتوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ ستارہ شناسی ایک علم ضرور ہے مگر اس پر دعوائے علمِ غیب چہ معنی دارد؟

    اس بارے میں ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں:
    ”اگرچہ مومن زبردست منجم تھے مگر وہ خیّام کی طرح علمِ نجوم پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔”

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چھت سے گرنے کے بعد آپ نے اپنی موت کا حکم لگایا تھا کہ پانچ دن، پانچ ماہ یا پانچ سال میں مر جاؤں گا۔ اس سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے علم کی رو سے اپنی موت کا وقت جان لیا تھا۔ مقامِ حیرت ہے کہ ایک طرف مرحوم کے زہد و تقویٰ کا پرچم بلند کیا جاتا ہے اور دوسری طرف انھیں تقدیر کے مقابل لا کھڑا کیا جاتا ہے۔

    مومن نے ساری زندگی اپنی تاریخ پیدایش پر کوئی صراحت تو پیش نہیں کی جو نہایت آسان کام تھا، پھر اپنی موت پر پیش گوئی کیونکر کر سکتے تھے؟!

    اس تاویل کا جواب یہ ہے کہ ایک ماہر ڈاکٹر اپنے مریض کے مرض کی نہ صرف نوعیت سمجھتا ہے بلکہ اس کے صحت یاب ہونے یا نہ ہونے پر جزوی رائے بھی رکھتا ہے۔ ایسے ہی مومن بھی ایک ماہر اور موروثی طبیب تھے، انھیں اپنے زخموں کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا تھا، جس کی بنا پر انھوں نے یہ ”دست و بازو بشکست” (1268 ہجری) کہا تھا۔

    نیز آزاد کا یہ اعتراف بھی قابلِ گرفت ہے کہ مومن اتنے پہنچے ہوئے تھے کہ انھیں شطرنج کھیلنے کے دوران میں بھی کشف ہوتا رہتا تھا۔ دلیل میں ایک قصہ نقل کرتے ہیں کہ آپ ایک دفعہ اپنے شاگرد سکھانند رقم کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے، مومن بولے کہ ابھی پورب سے ایک چھپکلی آئے گی اور دیوار پر بیٹھی اِس چھپکلی کو ساتھ لے جائے گی، تب آپ کو مات ہوگی۔ کچھ دیر بعد ایک بزاز آیا، اس نے اپنی گٹھری کھولی اور اس سے ایک چھپکلی نکل کر دیوار پر چڑھ گئی، اس دوران سکھانند کو مات ہو گئی۔

    اوّل تو اس عبارت کا نہ صرف مفہوم بلکہ اندازِ بیان بھی ہر کسی کے ہاں مختلف ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے یہی واقعہ کسی اور سے منسوب کیا ہے، لکھتے ہیں کہ یہ قصہ حضرت شاہ عضد الدین چشتی صابری کی کرامت کے ذیل میں نثار علی بخاری بریلوی نے مفتاح الخزائن (شاہ عبدالہادی چشتی امروہوی کے ملفوظات) میں بھی لکھا ہے۔

    ستم بالائے ستم کہ اکثر مؤرخین نے آپ کی مثنویوں کو خود نوشت مان کر بے تکے اور طویل مباحثے لکھے ہیں، یعنی آپ نے جتنے معاشقے فرمائے، اتنی ہی مثنویاں بھی لکھیں۔ طرفہ یہ کہ آپ نے پہلا عشق نو سال کی عمر میں کیا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا تمام شعرا کے افکار جو بصورت اشعار ہم تک پہنچے ہیں، سبھی مبنی بر حقائق ہیں؟ حاشا و کلا۔

    ان تاویلات کا جواب صرف یہ ہے کہ اگر ان واقعات میں کوئی صداقت ہوتی تو اس کا کوئی نہ کوئی سرا آپ کے مکاتیب (انشائے مومن) سے ضرور ملتا، یا آپ کے اوّلین تذکرہ نویس، جن کی اکثریت آپ کے تلامذہ و ہم عصر تھے، اس موضوع پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے۔

    (تحریر: عبید الرّحمٰن)

  • کتب خانہ رام پور اور مومن کی تصویر

    کتب خانہ رام پور اور مومن کی تصویر

    کسی فن کار یا شاعر کی صلاحیتوں اور تخلیقی عوامل کو سمجھنے کے لیے اس کے حالاتِ زندگی اور ان کے توسط سے اس کی شخصیت اور سیرت کا مطالعہ اور تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حکیم مومن خاں مومن دہلوی کے زندگی کے تفصیلی حالات معلوم نہیں۔

    ضمیرالدین احمد عرش گیاوی المعروف عرش گیاوی نے مومن کی سوانح عمری لکھنے کی ٹھانی، لیکن حیاتِ مومن کی کڑیاں غائب تھیں۔ انھیں ملانے کے لیے انھوں نے دن رات ایک کیے۔ نجانے کتنے لوگوں کی چوکھٹ پر حاضری دی۔ نجانے کتنے دروازوں پر دستکیں دیں۔ شہروں کی خاک چھانی، دہلی کی دھول پھانکی۔

    عرش، مومن کی تصویر کے حصول کے لیے امیراللہ تسلیم لکھنوی کے پاس پہنچے، لیکن ان کی پیری(بڑھاپے اور ضعف) نے مایوس کیا۔ علی گڑھ کے راستے رام پور گئے۔ دورانِ سفر حسرت موہانی مل گئے۔ انھوں نے بتایا کہ مومن کی ایک تصویر کتب خانہ رام پور کی ملک ہے اور وہاں موجود ہے۔ پرانے لوگوں سے معلوم ہوا کہ مومن غدر سے بہت پہلے رام پور آئے تھے۔ اسی زمانے میں ان کی تصویر کھینچی گئی تھی۔ عرش لکھتے ہیں:

    اس کے علاوہ میرے اک دیرینہ کرم فرما مولانا شاہ مبارک حسین مرحوم متوطن بہبوہ ضلع شاہ آباد کے فقیر، حکیم اور منجم بھی تھے اور عرصہ تک رام پور میں مقیم رہے تھے۔ مجھ سے آنکھوں کی دیکھی کہتے تھے کہ کتب خانے میں مومن کی وہ تصویر میں نے خود دیکھی تھی اور اس پر مومن کے قلم سے لکھے ہوئے کچھ شعر بھی دیکھے تھے۔چناں چہ شاہ صاحب نے بھی اپنی حیات میں بڑی کوشش کی مگر اخیر میں یہ سنا گیا کہ پرانے چوکھٹے سب ہٹا دیے گئے۔ غرض ان کے علاوہ ایک کیا صدہا کوششیں اس تصویر کے لیے کیں، اخبارات اور رسالوں میں تحریک کی، مگر وہ نہ ملی۔

    مومن کی جو تصویر آج ہم تک پہنچی ہے، وہ مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔

    (معید رشیدی کی کتاب سے ایک ورق، مرزا غالب کے ہم عصر اور اردو زبان کے مشہور شاعر حکیم مومن خاں مومن کے اس تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں‌ کسی شخصیت کے حالاتِ‌ زندگی معلوم کرنے اور کسی دوسرے شہر کے بسنے والے کی تحریر و تصویر کا حصول کس قدر مشکل تھا اور محقق کو سفر کی صعوبت کے ساتھ مال بھی خرچ کرنا پڑتا تھا)

  • لندن رابطہ کمیٹی کے مومن خان مومن اور ظفر راجپوت ضمانت پر رہا

    لندن رابطہ کمیٹی کے مومن خان مومن اور ظفر راجپوت ضمانت پر رہا

    حیدرآباد: ایم کیو ایم لندن کے گزشتہ روز گرفتار ہونے والے رہنماء مومن خان مومن اور ظفر راجپوت کو اسپیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے 10،10 ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ایم کیو ایم لندن کے خلاف شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد حیدرآباد سے گرفتار ہونے والے پاکستان میں موجود رہنماء مومن خان مومن اور ظفر راجپوت کو پولیس نے اسپیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔

    عدالت نے رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے دونوں افراد کو 10 ، 10 ہزار روپے کے مچلکے جمع کروانے کی ہدایت جاری کیں اور پولیس کو فوری طور پر دونوں رہنماؤں کو رہا کرنے  کے احکامات دئیے۔

    پڑھیں: متحدہ لندن کے رہنما حسن ظفر اور کنور خالد پریس کلب سے زیر حراست

     یادرہے ایم کیو ایم لندن کی جانب سے پاکستان میں نامزد کردہ اراکین رابطہ کمیٹی حسن ظفر، کنور خالد یونس اور امجد اللہ امجد کو گزشتہ روز کراچی پریس کلب کے باہر سے رینجرز نے حراست میں لے کر تفتیش کے لیے میٹھا رام اسپتال منتقل کیا تھا تاہم رات گئے نقصِ امن کے پیش نظر تینوں رہنماؤں کو سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔

    مزید پڑھیں: متحدہ رہنما امجد اللہ پریس کلب سے باہر نکل آئے، رینجرز نے گرفتار کرلیا

    دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے لندن رابطہ کمیٹی کے پاکستان میں نامزد کردہ رہنماؤں ظفر راجپوت، مومن خان مون کو حراست میں لے کر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ایم کیو ایم رہنماؤں کی گرفتاریاں قابل مذمت ہیں، رہا کیا جائے، ندیم نصرت

     قبل ازیں ایم کیو ایم پاکستان نے تنظیمی نظم و ضبط کی سنگین خلاف ورزی کرنے پر ظفر راجپوت سمیت سندھ تنظیمی کمیٹی کے متعدد ذمہ داران اور حیدرآباد سے تعلق  رکھنے والے کارکنان کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا بھی اعلان کرتے ہوئے تمام لوگوں کو مذکورہ افراد سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھنے کی ہدایت جاری کی تھی۔