Tag: مونگے کی چٹانیں

  • کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر کی تہہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے سمندر کی تہہ کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے جس سے آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر موجود زیادہ تر کاربن سمندر کی تہہ میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ سمندر کی تہہ میں کیلشیئم کاربونیٹ موجود ہوتی ہے اور یہ دونوں گیسیں مل کر سمندر میں کاربن کو توازن میں رکھتے ہیں۔

    تاہم فضا میں کاربن کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے یہ توازن خراب ہورہا ہے۔

    اب سمندر کی تہہ میں کاربن کی مقدار زیادہ اور کیلشیئم کاربونیٹ کی کم ہوگئی ہے جس سے سمندر کی تہہ میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عمل سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی آبی حیات و نباتات کے لیے سخت خطرناک ہے۔

    سمندر میں بڑھنے والی تیزابیت سے مونگے کی چٹانیں بھی خطرے کی زد میں ہیں جبکہ ان چٹانوں پر انحصار کرنے والی آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    مزید پڑھیں: مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری زمین پر موجود سمندر کی تہہ کا مکمل جائزہ لینا تو مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق سمندر کی 40 فیصد زمین کاربن کے اس اضافے سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔

  • 3 ڈی پرنٹ کی گئی مونگے کی چٹانیں

    3 ڈی پرنٹ کی گئی مونگے کی چٹانیں

    جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ میں دنیا کی سب سے بڑی 3 ڈی پرنٹ شدہ مونگے کی چٹانوں یعنی کورل ریفس کی سمندر میں اصل چٹانوں کے ساتھ پیوند کاری کیے جانے کے بعد، اب ان کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

    مونگے کی یہ چٹانیں کمپیوٹر پر ڈیزائن کی گئی ہیں جس کے بعد انہیں تھری ڈی پرنٹ کیا گیا اور اس کے لیے چکنی مٹی استعمال کی گئی۔ پرنٹ کرنے کے بعد انہیں گزشتہ برس سمندر میں مونگے کی چٹانوں کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔

    دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے کی یہ چٹانیں بے شمار آبی حیات کا مسکن ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان چٹانوں کے رنگ اور مخصوص ماحول یہاں رہنے والی آبی حیات کے لیے نہایت ضروری ہیں کیونکہ یہی رنگ ان آبی حیات کو رنگ، آکسیجن اور غذا فراہم کرتے ہیں۔

    تاہم اب یہ چٹانیں تیزی سے اپنی رنگت کھو رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    مالدیپ میں تھری ڈی پرنٹ سے تیار کی جانے والی مونگے کی چٹانیں دراصل ان چٹانوں کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔ تھری ڈی پرنٹ شدہ یہ ڈھانچہ ان چٹانوں کی افزائش میں مدد کر رہا ہے۔

    اسی طرح مختلف آبی حیات نے بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مصنوعی ڈھانچے کو قبول کرلیا ہے اور اس میں اپنا گھر بنانا شروع کردیا ہے جس کے بعد اس ڈھانچے میں نباتات کی افزائش بھی شروع ہوگئی ہے۔

    ماہرین کی جانب سے کورل ٹرانسپلانٹ کا نام دیے جانے والا یہ عمل نہ صرف سمندر میں ان جگہوں پر کیا جارہا ہے جہاں پہلے سے یہ چٹانیں موجود ہیں بلکہ ان مقامات پر بھی انہیں نصب کیا جارہا ہے جہاں یہ چٹانیں سرے سے موجود ہی نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مصنوعی چٹانیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بھی مطابقت کرسکتی ہیں کیونکہ قدرتی چٹانوں کی طرح یہ حساس نہیں ہیں۔ دراصل ان چٹانوں کا مقصد تباہ ہوتی پرانی چٹانوں کو سہارا دے کر انہیں بحال کرنا اور ان کی افزائش کرنا ہے۔

  • فائنڈنگ نیمو کی ’نیمو‘ گمشدہ ہونے کے قریب

    فائنڈنگ نیمو کی ’نیمو‘ گمشدہ ہونے کے قریب

    فائنڈنگ نیمو سنہ 2003 میں آنے والی اینی میٹڈ فلم تھی جس نے بچوں اور بڑوں سب کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ فلم میں نیمو نامی ایک مچھلی کھوجاتی ہے جس کے بعد اس کا باپ اسے ڈھونڈنے کی طویل جدوجہد پر نکلتا ہے۔

    لیکن آپ کو یہ جان کر سخت مایوسی ہوگی کہ حقیقت میں پائی جانے والی اس نسل کی نیمو مچھلی تیزی سے معدومی کے خطرے کی جانب بڑھ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گہرے سمندروں میں پائی جانے والی گہرے رنگوں کی یہ دھاری دار مچھلی نہایت خطرے کا شکار ہے۔

    یہ خطرہ براہ راست ان مچھلیوں کو نہیں بلکہ ان کے گھروں یا پناہ گاہوں کو ہے جنہیں اینے من کہا جاتا ہے۔ یہ گہرے رنگوں اور پتوں سے گھرا ہوا ایک مقام ہوتا ہے جو عموماً رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانوں کے قریب واقع ہوتا ہے جو پہلے ہی تباہی کی زد میں ہیں۔

    نیچر کمیونیکیشنز نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بڑھتا ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو بھی گرم کر رہا ہے جس کی وجہ سے یہ رنگ برنگی چٹانیں اپنا رنگ کھو رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان کے رنگ اور مخصوص ماحول یہاں رہنے والی آبی حیات کے لیے نہایت ضروری ہیں کیونکہ یہی رنگ ان آبی حیات کو رنگ، آکسیجن اور غذا فراہم کرتے ہیں۔

    نیمو مچھلی، جسے اینے من مچھلی کہا جاتا ہے ان ہی رنگ برنگی مونگے کی چٹانوں کے اندر رہتی ہیں، یہیں وہ انڈے دیتی ہیں اور اپنے ننھے بچوں کی پرورش بھی کرتی ہیں۔

    تحقیق کے مطابق اس کا سب سے گہرا اثر اس وقت پڑا جب ایل نینو شروع ہوا جو سال 2015 سے 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    ایل نینو ختم ہونے کے بعد دیکھا گیا کہ نہ صرف مونگے کی چٹانیں بلکہ ان کے اندر رہنے والی نیمو مچھلیاں بھی اپنی رنگت کھو بیٹھی تھیں اور سفید ہوگئی تھیں۔

    مچھلیوں کے خون کے نمونوں کی جانچ سے علم ہوا کہ اس عمل سے مچھلیوں کی زرخیزی کی صلاحیت میں بھی کمی واقع ہوئی اور ان کی نسل میں کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

    گو کہ ایل نینو ختم ہونے کے بعد مچھلیوں کی صحت 3 سے 4 ماہ کے اندر دوبارہ بحال ہونا شرع ہوگئی، تاہم ماہرین کے مطابق یاد رہے کہ گلوبل وارمنگ اور اس کے باعث مونگے کی چٹانوں کی بلیچنگ کا عمل بھی جاری ہے لہٰذا اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ نیمو مچھلیاں بہت جلد سچ مچ گمشدہ ہوجائیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو زمین کے سبزے اور اس کی خوبصورتی کو بچانے کے لیے دیوانہ وار کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پوری دنیا کو، زمین کو لاحق ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈتے ہیں، اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دیوانہ معروف اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی تھا جس نے قطب شمالی کے سمندر میں برفانی گلیشیئرز کے سامنے بیٹھ کر پیانو کی پرفارمنس پیش کی۔

    اس پرفارمنس کا مقصد دنیا کو متوجہ کرنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل کر دنیا کو کن خطرات سے دو چار کرنے والی ہے۔

    لارا جونز بھی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے فن پاروں کے ذریعہ دنیا کو مونگے کی بے رنگ ہوتی چٹانوں کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانیں اپنی رنگت کھو رہی ہیں جسے بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے۔

    7

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانوں کا سلسلہ جو گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کہلاتا ہے آسٹریلیا کے سمندر میں موجود ہے۔ یہاں موجود ایک تہائی سے زیادہ چٹانیں اپنی رنگت کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں۔

    یہ دنیا کا واحد سب سے بڑا سمندری ڈھانچہ ہے جو زندہ اجسام نے بنایا ہے اور ان رنگ برنگی چٹانوں کو اربوں ننھے اجسام نے ترتیب دیا ہے جو کورل یعنی مونگے یا مرجان کہلاتے ہیں۔

    سنہ 1981 میں گریٹ بیرئیر ریف کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    لارا جونز انہی مرتی ہوئی خوبصورت چٹانوں کو اپنے فن پاروں میں پیش کر رہی ہیں۔

    ان کے فن پارے دیکھ کر آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ خود سمندر میں موجود ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان چٹانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

    2

    4

    3

    5