Tag: مونیکا زیادتی و قتل کیس

  • مونیکا لاڑک زیادتی و قتل، آئی جی سندھ کا اہم بیان سامنے آ گیا

    مونیکا لاڑک زیادتی و قتل، آئی جی سندھ کا اہم بیان سامنے آ گیا

    خیرپور: سندھ کے شہر خیرپور میں 7 سال کی معصوم بچی مونیکا لاڑک سے زیادتی و قتل کیس کے سلسلے میں آئی جی سندھ مشتاق مہر کا اہم بیان سامنے آ گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آئی جی سندھ آج پیرجوگوٹھ میں قتل ہونے والی 7 سالہ بچی کے گھر پہنچے، انھوں نے زیادتی کے بعد قتل ہونے والی مونیکا لاڑک کے ورثا سے تعزیت کی۔

    آئی جی مشتاق مہر نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تمام ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ملزمان نے قتل کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔

    انھوں نے کہا مونیکا میری بھی بیٹی تھی، زیادتی کا سن کر بہت زیادہ دکھ ہوا ہے، ملزمان کو کسی صورت بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔

    مونیکا لاڑک کیس، ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا

    واضح رہے کہ گزشتہ روز اس کیس میں پہلے سے گرفتار ایک ملزم عبداللہ لاڑک کا ڈی این اے میچ کر گیا تھا، پولیس کا کہنا تھا کہ عبداللہ لاڑک اور بچی مونیکا حویلی میں کام کرتے تھے، پولیس نے کیس میں شک کی بنیاد پر 20 سے زائد افراد کوگرفتار کیا تھا، جن میں سے عبداللہ بھی شامل تھا۔

    خیال رہے کہ مونیکا لاڑک کو 8 دن پہلے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا، اس کیس میں پولیس نے 100 سے زائد افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ لیا تھا۔

    ایک ہفتہ قبل 7 سال کی ایک بچی مونیکا لاڑک کو خیرپور کے پیر جو گوٹھ کے علاقے میں اغوا کر کے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا، گھر سے لاپتا ہونے کے دو روز بعد اس کی لاش گوٹھ حادل شاہ میں کھیت سے ملی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا، بچی کا تعلق غریب گھرانے سے ہے اور وہ گھروں میں جھاڑو پوچھے کا کام کرتی تھی اور کام سے واپس آتے ہوئے اغوا ہوئی تھی۔

  • مونیکا لاڑک کیس، ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا

    مونیکا لاڑک کیس، ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا

    خیرپور: مونیکا لاڑک زیادتی و قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، پہلے سےگرفتار عبداللہ لاڑک کا ڈی این اے میچ کر گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے شہر خیرپور میں 7 سال کی معصوم بچی مونیکا لاڑک سے زیادتی و قتل کیس میں ڈی این اے رپورٹ آ گئی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ لیبارٹری رپورٹ میں ایک گرفتار ملزم عبداللہ لاڑک کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے۔

    پولیس کے مطابق عبداللہ لاڑک اور بچی مونیکا حویلی میں کام کرتے تھے، پولیس نے کیس میں شک کی بنیاد پر 20 سے زائد افراد کوگرفتار کیا تھا، جن میں سے عبداللہ بھی شامل تھا۔

    واضح رہے کہ مونیکا لاڑک کو 7 دن پہلے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا، اس کیس میں پولیس نے 100 سے زائد افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ لیا تھا۔

    مونیکا زیادتی و قتل کیس میں پیش رفت، 2 ملزمان گرفتار

    ایس ایس پی امیر سعود مگسی کے مطابق آج شک کی بنیاد پر حویلی سے دو ملزمان سید عابد مصطفیٰ شاہ اور سید علی حیدر شاہ راشدی کو بھی حراست میں لیا گیا تھا، مونیکا کے والد کو ان پر شک تھا۔

    واضح رہے کہ ایک ہفتہ قبل 7 سال کی ایک بچی مونیکا لاڑک کو خیرپور کے پیر جو گوٹھ کے علاقے میں اغوا کر کے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا، گھر سے لاپتا ہونے کے دو روز بعد اس کی لاش گوٹھ حادل شاہ میں کھیت سے ملی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا، بچی کا تعلق غریب گھرانے سے ہے اور وہ گھروں میں جھاڑو پوچھے کا کام کرتی تھی اور کام سے واپس آتے ہوئے اغوا ہوئی تھی۔

  • مونیکا زیادتی و قتل کیس میں پیش رفت، 2 ملزمان گرفتار

    مونیکا زیادتی و قتل کیس میں پیش رفت، 2 ملزمان گرفتار

    خیرپور: سندھ کے شہر خیرپور میں 7 سال کی معصوم بچی مونیکا لاڑک سے زیادتی و قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، پولیس نے 2 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ جن مشبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، بچی مونیکا ان کے گھر میں کام کرتی تھی، اور مونیکا کے والد کو ان پر شک ہے۔

    ایس ایس پی نے بتایا جن ملزمان کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے ان میں سید عابد مصطفیٰ شاہ اور سید علی حیدر شاہ راشدی شامل ہیں۔ جن لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے تھے ابھی ان کی رپورٹ نہیں آئی ہے۔

    واضح رہے کہ آج خیرپور میں مونیکا لاڑک قتل کیس کے سلسلے میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے فنکشنل لیگ نے احتجاج بھی کیا ہے، مظاہرین نے راشد شاہ راشدی کی قیادت میں پیرجوگوٹھ میں دھرنا دیا، مظاہرین کا کہنا تھا 7 دن گزر گئے لیکن مونیکا لاڑک کے قاتلوں کوگرفتار نہیں کیا گیا۔

    7 سالہ مونیکا کہاں قتل ہوئی؟ والد کا سنسنی خیز انکشاف

    گزشتہ روز مونیکا لاڑک کے والد نے رکن قومی اسمبلی جاوید شاہ سے ملاقات میں مشکوک افراد کی تفصیل پیش کی تھی، جس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ بچی کے گلے میں لیموں کے درخت کی لکڑی لگی ہوئی تھی، اور لیموں کا درخت صرف حویلی میں لگا ہوا ہے، علاقے میں اور کہیں نہیں۔

    والد نے مزید بتایا کہ وقوعے کے وقت ہم نے کھوجی کتے منگوانے کے لیے کہا تو حویلی کے پیر عطا اللہ شاہ نے ہمیں روک دیا تھا۔

    مونیکا کی پھوپھی نے بھی پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بچی کے قتل کے سلسلے میں پیروں سے تفتیش کیوں نہیں کی جا رہی ہے، حویلی والوں کو سب معلوم ہے، پولیس ان کو شامل تفتیش کرے۔

    واضح رہے کہ ایک ہفتہ قبل 7 سال کی ایک بچی مونیکا لاڑک کو خیرپور کے پیر جو گوٹھ کے علاقے میں اغوا کر کے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا، گھر سے لاپتا ہونے کے دو روز بعد اس کی لاش گوٹھ حادل شاہ میں کھیت سے ملی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا، بچی کا تعلق غریب گھرانے سے ہے اور وہ گھروں میں جھاڑو پوچھے کا کام کرتی تھی اور کام سے واپس آتے ہوئے اغوا ہوئی تھی۔

    چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے 13 جنوری کو مونیکا زیادتی و قتل کیس پر از خود نوٹس لیا، 15 جنوری کو کیس کی سماعت پر ڈی آئی جی سکھر اور ایس ایس پی خیرپور عدالت میں پیش ہوئے، عدالت میں پیش پولیس رپورٹ میں بتایا گیا کہ واقعے میں 124 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں، کئی مشکوک افراد کو حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔

  • مونیکا زیادتی و قتل کیس، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا

    مونیکا زیادتی و قتل کیس، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا

    سکھر: سندھ کے شہر خیرپور میں معصوم بچی مونیکا زیادتی و قتل کیس پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق 7 سال کی معصوم بچی مونیکا لاڑک کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا، عدالت نے اس معاملے پر ڈی آئی جی سکھر فدا حسين مستوئی اور ایس ایس پی خیرپور امیر سعود مگسی کو 15 جنوری کو طلب کر لیا ہے۔

    عدالت کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ 3 دن گزر جانے کے باوجود ملزمان کیوں گرفتار نہیں ہوئے۔

    واضح رہے کہ بچی مونیکا کو خیرپور کے پیر جو گوٹھ کے علاقے میں زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا، وہ گھر سے لاپتا ہوئی تھی تاہم دو روز بعد اس کی لاش گوٹھ حادل شاہ میں کھیت سے ملی۔

    پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا، بچی کا تعلق غریب گھرانے سے ہے اور وہ گھروں میں جھاڑو پوچھے کا کام کرتی تھی اور کام سے واپس آتے ہوئے اغوا ہوئی تھی۔

    خیرپور: ایک اور ننھی کلی مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل

    لاش ملنے کے بعد ڈی آئی جی سکھر فدا حسين مستوئی نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا، اور اہل خانہ سے تعزیت کی، انھوں نے کہا کہ شک کی بنیاد پر مزید 4 افراد کوگرفتار کیا گیا ہے، اور ڈی این اے بھی لے لیاگیا ہے، جس میں پتا چل جائے گا، اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی۔

    ایک گرفتار ملزم نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اس کے بیوی بچوں کو گرفتار کیا گیا تھا اس لیے اس نے گرفتاری دی، میں نے بچی سے زیادتی یا قتل نہیں کیا، ڈی این اے کرایا جائے۔

    اُس دن ایس ایچ او پیر جو گوٹھ نے کہا تھا کہ بچی کے ورثا نا معلوم افراد پر مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ بچی پر لکڑیوں سے بھی وار کیے گئے ہیں۔ ایس ایس پی امیر سعود کا کہنا تھا کہ بچی کے جسم سے سیمپل اور فنگر پرنٹس لے لیے گئے ہیں، علاقے سے کچھ مشکوک افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے، مکمل تفتیش کے بعد جلد حقائق تک پہنچ جائیں گے۔

    ادھر آج صوبائی امتیاز شیخ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جنسی استحصال کے کیسز میں سختی سے کارروائی ہوتی ہے، یہ ہمارے معاشرے کا زوال ہے، ایسے واقعے پوری سوسائٹی میں ہو رہے ہیں، پولیس خیرپور کی 7 سال کی بچی کے والدین سے رابطے میں ہے۔