Tag: موپساں

  • موپساں: جدید افسانے اور مختصر کہانی کا امام

    موپساں: جدید افسانے اور مختصر کہانی کا امام

    موپساں جدید افسانہ نگاری کا وہ نام ہے جسے مختصر کہانی اور افسانے کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔ موپساں کو فطرت نگاری اور سماجی حقیقت پسندی میں کمال حاصل تھا۔ اسی وصف کی بنیاد پر آج بھی دنیائے ادب میں موپساں عظمت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

    مشہور ہے کہ موپساں صاف گو، جرأت مند تو تھا ہی، لیکن ضدی اور انا پرست بھی تھا۔ موپساں زندگی کی فقط 42 بہاریں دیکھ سکا اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر اپنے انجام کو پہنچا۔ موپساں نے انسان کی بے بسی اور بے کسی کی تصویریں اس طرح کھینچی ہیں کہ اس کا قاری ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔

    موپساں کا اندازِ بیان بہت واضح اور غیر مبہم تھا۔ اس کے افسانے ابلاغ کی قوّت سے بھرپور ہیں جن میں‌ اکثر موپساں انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے مشاہدے اور تجربات سے حالات کی ستم ظریفی کو بیان کرتا ہے۔ اس کے اسلوبِ نگارش کی ایک خوبی کلائمکس ہے۔ موپساں کے اکثر افسانوں کا انجام حیران کن ہوتا ہے۔ اس کا پہلا افسانہ بال آف فیٹ (Ball of fat) تھا جسے شاہ کار مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے افسانے بھی بہت پسند کیے گئے۔ موپساں نے جدید افسانوی ادب میں متعدد رجحانات متعارف کرائے اور بعد میں آنے والوں نے اس کی تقلید کی۔ عالمی ادب میں موپساں نے اپنے طرزِ‌ نگارش اور نظریۂ ادب کی وجہ سے منفرد مقام بنایا۔

    وہ 17 سال کا تھا جب اس کی ماں نے اپنے دور کے بلند پایہ ادیب فلابیئر کو کہا کہ وہ اس کے بیٹے کو اپنے ساتھ رکھ لے اور اسے لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ معروف ادبی نقاد احمد عقیل روبی لکھتے ہیں، فلابیئر کی عجیب و غریب عادات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ جب بھی کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتا تو ایک کمرہ کرائے پر لے لیتا تھا۔ لوگوں کے سامنے وہ کھانا کھاتے ہوئے گھبراتا تھا۔ کمرے میں جا کر کوٹ اتارتا، جوتے اتار دیتا۔ بنیان قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دیتا۔ پھر شراب پیتا اور پیٹ بھر کر کھانا کھاتا جب کھا کر مدہوش ہو جاتا اور لڑکھڑانے لگتا تو اس کو سہارا دے کر گھر حفاظت سے لانے کا فریضہ اُس کا ہونہار شاگرد ادا کرتا تھا۔ یہ شاگرد کوئی اور نہ تھا۔ سترہ سالہ موپساں تھا۔ موپساں کی ماں اور اس کے باپ کے مزاج اور عادات میں بڑا فرق تھا۔ موپساں کی ماں ادبی اور شعری ذوق رکھتی تھی، پیرس کے ادیبوں اور شاعروں سے اس کا ملنا جلنا تھا۔ انگریزی کلاسیک ادب سے شد بد رکھتی تھی۔ شیکسپیئر اُس کا پسندیدہ شاعر تھا۔ موپساں کا باپ ایک اسٹاک بروکر تھا۔ دونوں خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے، مگر موپساں کا باپ سب کچھ رکھتے ہوئے ادبی ذوق اور حسِ لطیف سے دور تھا۔ موپساں کی ماں اس کے باپ کے دو بچّوں کی ماں بنی مگر پھر اس کے ساتھ گزارا مشکل سمجھا۔ وہ ایک آزاد خیال عورت تھی۔ عورت کا خاوند سے طلاق لینا اس زمانے میں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اس نے یہ معاشرتی اور سماجی بدنامی مول لی اور طلاق لے لی۔ اسے ماں نے فلابیئر کی شاگردی میں دے دیا۔

    ہنری رینے گائے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں نارمنڈی میں‌ پیدا ہوا۔ وہ 1893ء میں چل بسا تھا۔ موپساں کے والدین اس وقت ہمیشہ کے لیے اپنے ازدواجی تعلق سے آزاد ہوگئے تھے جب ان کا بیٹا 11 سال کا تھا۔ موپساں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا جو ایک آزاد خیال اور شعر و ادب کی دلدادہ عورت تھی۔ اس کا باپ اسٹاک بروکر تھا، لیکن وہ حسِ لطیف سے محروم اور ادبی مذاق کا حامل نہ تھا۔

    نقّادوں کے مطابق موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اپنایا۔ اس نے کہانی لکھنے کا فن فلابیئر سے سیکھا جو ایک زبردست تخلیق کار تھا۔ اسلوب کی چاشنی، آغاز سے انجام تک ناول میں قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کا فن اور وہ سب جو کسی بھی تحریر یا کہانی کو انفرادیت بخش سکتا ہے، سب فلابیئر کی صحبت کی بدولت تھا۔ اس نے فکری اور عملی طور پر اپنے شاگرد کی بہترین خطوط پر تربیت کی تھی اور فلابیئر کے ساتھ رہتے ہوئے موپساں کو اس زمانے کے کئی اہم اور قابلِ‌ ذکر ادیبوں اور شعرا سے ملنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا تھا۔ وہ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں کے درمیان وقت گزارتے ہوئے بڑا ہوا۔ اس ماحول نے موپساں کی طبعِ حساس کو باریک بیں بنا دیا اور مشاہدے کی قوّت عطا کی جس سے اس نے اپنے تخلیقی سفر میں بھی بہت مدد لی۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس کے ساتھ ادب کے مطالعے کا عادی بھی اور فلابیئر کی صحبت میں جب اس نے گریجویشن کیا تو اس وقت تک ادب اور صحافت کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکا تھا۔ وہ ناول اور افسانہ نگاری کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    موپساں نے شہرت اور نام ہی نہیں کمایا بلکہ دولت بھی اس کے حصّے میں آئی۔ بدقسمتی سے وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہوگیا۔ اور چھے جولائی 1893ء میں‌ انتقال کرگیا۔ انیسویں صدی کے اس مشہور ادیب نے قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں۔ موپساں کے افسانوں کے متعدد مجموعے اس کی زندگی ہی میں شایع ہوئے۔

    احمد عقیل روبی مزید لکھتے ہیں، موپساں نے بہت مختصر زندگی پائی مگر مختصر کہانی اور افسانے کا امام کہلایا۔ کہتے ہیں یہ سب فلابیئر کی صحبت اور تربیت کا نتیجہ تھا۔ فلابیئر اس کا گرو اور گاڈ فادر تھا۔ لکھنے اور کہانی کہنے کے دنگل میں اس نے موپساں کو عملی اور فکری تربیت دی۔ جملے کی ساخت اور الفاظ کے استعمال کے گر سکھائے، کہانی شروع کرنے اور اسے احسن طریقے سے ختم کرنے کا طریقہ سجھایا اور قدم قدم پر اس کی راہنمائی کی…الفاظ سے تصویر بنانے کا فن، الفاظ کو برمحل استعمال کرنے کا گُر اور سادہ طرزِ تحریر، جملے کا اختصار۔ فلابیئر کی بتائی ہوئی یہ باتیں اس نے پلے باندھ لیں اور پھر اپنی محنت اور لگن سے وہ دنیا کا بڑا افسانہ نویس بن گیا۔ پہلی بار ایک اسکول میں داخل ہوا تو مذہب کے بارے میں اپنے منفی خیالات کی بنا پر اسکول سے نکال دیا گیا۔ دوسرے اسکول میں جا کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔ شاعری میں دل چسپی لی اور ادب کا مطالعہ کیا۔ بی۔ اے کرتے ہی فرانس اور پروشیا کی جنگ چھڑ گئی۔ موپساں نے رضا کارانہ طور پر جنگ میں اپنا نام لکھوا دیا… 1871ء میں جنگ سے فارغ ہو کر پیرس آ گیا اور نیوی کے محکمے میں دس سال کلرکی کرتا رہا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب فلابیئر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے ادب اور صحافت کے میدان کا کام یاب کھلاڑی بنا دیا۔ 1880ء کی دہائی کا زمانہ موپساں کے تخلیقی عروج کا زمانہ ثابت ہوا۔ اس نے اپنا پہلا ناول Boule de Suif اسی زمانے میں لکھا جسے فلابیئر نے زندہ رہنے والا شاہ کار قرار دیا۔ ’’مادام فی فی ‘‘ اور Mother Savage جیسی کہانیاں لکھیں۔ موپساں نے چھ ناول لکھے۔ اس کی بے شمار کہانیوں کی فہرست دینا ممکن نہیں۔ اس کی 60 سے زیادہ کہانیاں شاہ کار تصور کی جاتی ہیں۔

  • شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

    شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

    یہ فلابیئر تھا جس نے موپساں کو موپساں بنایا۔ 17 برس کے موپساں کو اس کی ماں نے بلند پایہ ادیب فلابیئر کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اور پھر موپساں نے ایک مصنّف اور افسانہ نگار کے طور پر دنیا بھر میں شہرت پائی۔ آج انیسویں صدی کے اسی مصنّف کا یومِ‌ وفات ہے۔ موپساں کو جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گائے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں نارمنڈی میں‌ پیدا ہوا۔ اس نے فقط 42 سال کی عمر پائی اور 1893ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا۔ موپساں کے والدین اس وقت ہمیشہ کے لیے اپنے ازدواجی تعلق سے آزاد ہوگئے تھے جب ان کا بیٹا 11 سال کا تھا۔ موپساں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا جو ایک آزاد خیال اور شعر و ادب کی دلدادہ عورت تھی۔ اس کا باپ اسٹاک بروکر تھا، لیکن وہ حسِ لطیف سے محروم اور ادبی مذاق کا حامل نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ جوڑا زیادہ عرصہ ساتھ نہ چل سکا اور موپساں کی ماں نے طلاق لے لی۔

    نقّادوں کے مطابق موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اپنایا۔ اس نے کہانی لکھنے کا فن فلابیئر سے سیکھا تھا جو ایک زبردست تخلیق کار تھا۔ اسلوب کی چاشنی، آغاز سے انجام تک ناول میں قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کا فن اور وہ سب جو کسی بھی تحریر یا کہانی کو انفرادیت بخش سکتا ہے، سب فلابیئر کی صحبت میں‌ ممکن ہوا تھا۔ اس نے فکری اور عملی طور پر اپنے شاگرد کی بہترین خطوط پر تربیت کی تھی اور فلابیئر کے ساتھ رہتے ہوئے موپساں کو اس زمانے کے کئی اہم اور قابلِ‌ ذکر ادیبوں اور شعرا سے ملنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا تھا۔ وہ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں کے درمیان وقت گزارتے ہوئے بڑا ہوا۔ اس ماحول نے موپساں کی طبعِ حساس کو باریک بیں بنا دیا اور مشاہدے کی قوّت عطا کی جس سے اس نے اپنے تخلیقی سفر میں بھی بہت مدد لی۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس کے ساتھ ادب کے مطالعے کا عادی بھی اور فلابیئر کی صحبت میں جب اس نے گریجویشن کیا تو اس وقت تک ادب اور صحافت کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکا تھا۔ وہ ناول اور افسانہ نگاری کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    موپساں کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھا جنھوں نے اس زمانے میں شہرت اور نام ہی نہیں کمایا بلکہ دولت بھی ان کے حصّے میں آئی۔ بدقسمتی سے وہ جنسی بے راہ روی کا شکار تھا۔ ایک مرض لاحق ہونے کے بعد موپساں تیزی سے موت کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

    انیسویں صدی کے اس مشہور ادیب نے قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں۔ موپساں کے افسانوں کے متعدد مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے۔ اس کے ناولوں اور 60 سے زائد کہانیوں کو عالمی ادب میں شاہ کار کہا جاتا ہے۔

  • ہیرے کا ہار

    ہیرے کا ہار

    شارلٹ اتنی خوب صورت تھی کہ ہر کوئی کہتا اس کو تو کسی محل میں پیدا ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ ایک سبزی فروش کے گھر پیدا ہوئی جہاں اس کی قسمت پر غربت کی مہر لگ چکی تھی۔

    بڑھتی جوانی نے شارلٹ کو اپنی خوب صورتی اور غربت کا شدید احساس دلایا۔

    وہ کتنی کتنی دیر آئینے کے سامنے کھڑی اپنے حسن کو سراہتی۔ پھر اپنی بدقسمتی پر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم ہو جاتیں۔ وہ تصور میں اس شہزادے کا انتظار کرتی جس کے بارے میں اس نے کہانیوں میں پڑھا تھا۔ لیکن یہ سب خواب دھرے رہ گئے جب اس کی شادی محکمہ تعلیم کے ایک کلرک سے ہو گئی۔

    الگزینڈر چاہتا تھا کہ شارلٹ کو ہر آسائش ملے۔ اس نے ایک لڑکی ملازم رکھ لی تھی جو ہر روز آ کر برتن دھوتی، کھانا پکاتی، اور باہر کے کام کاج کرتی۔

    شارلٹ اب پچیس سال کی ہو چکی تھی۔ اسے احساس تھا کہ اس کی زندگی غربت میں ضائع ہورہی ہے۔ وہ اونچی سوسائٹی کا حصہ بننا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی۔

    شارلٹ کی واحد دوست اسکول کی ایک سہیلی جین تھی جس کی شادی ایک امیر گھرانے میں ہوئی اور جو مادام جیرارڈ کی حیثیت سے سوشل حلقوں میں بہت مقبول تھی۔

    ایک دن الگزینڈر بہت خوش خوش دفتر سے لوٹا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جو اس نے شارلٹ کو تھما دیا۔ شارلٹ نے اکتاہٹ سے اسے ڈریسر پر رکھ دیا۔

    ’’کم سے کم اسے دیکھ تو لو۔ یہ وزیر تعلیم کی طرف سے ایک ڈانس پارٹی کا دعوت نامہ ہے۔ کلرکوں میں بس مجھے ہی ملا۔ بڑی مشکل سے۔‘‘

    شارلٹ نے اداسی سے کہا۔ ’’میرے پاس پہننے کے لیے کوئی بھی مناسب کپڑے نہیں ہیں۔ کیسے جا سکتی ہوں۔‘‘

    ’’نیا ڈریس کتنے میں آ جائے گا؟‘‘ الگزینڈر نے پوچھا۔

    ’’چار سو فرینک سے کم میں تو نہیں آ سکتا۔‘‘

    وہ شانزے لیزے کی ایک دکان پر گئے جہاں شارلٹ نے ایک بہت خوب صورت ڈریس منتخب کیا۔ دونوں خوش خوش گھر لوٹے۔ شارلٹ نے دوبارہ ڈریس پہنا۔ دونوں ڈریسر کے آئینے کے سامنے کھڑے تھے۔ الگزینڈر نے دیکھا کہ شارلٹ اپنے آپ کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے اداس نظر آ رہی ہے۔

    الگزینڈر نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ’’ابھی تو بہت خوش تھیں۔ اچانک کیا ہو گیا؟‘‘

    ’’وہاں اونچے خاندانوں کی بیگمات ہوں گی جو ہیرے جواہرات سے لدی ہوں گی اور میرے پاس ایک بھی زیور نہیں جو میں اس ڈریس کے ساتھ پہن سکوں، میری کتنی تضحیک ہو گی؟‘‘

    ’’تم بالوں میں پھول لگا کر جا سکتی ہو۔ بہت اچھے لگیں گے۔‘‘الگزینڈر نے مشورہ دیا۔

    ’’نہیں الگزینڈر۔ تم یہ دعوت نامہ اپنے دفتر کے کسی اور کلرک کو دے دو۔‘‘

    ’’اب تو چار سو فرینک کا ڈریس بھی خرید لیا۔ اب تو جانا ہی ہو گا۔ کیا ہو سکتا ہے؟ اوہ، ا یسا کرو وہ جو تمہاری سہیلی ہے نا، جین، تم اس سے کوئی زیور ادھار مانگ لو۔‘‘

    شارلٹ کو یہ خیال پسند آیا۔ ابھی پارٹی میں دو ہفتے باقی تھے۔ اگلے دن شارلٹ اپنی سہیلی کے پاس گئی۔ جین نے زیورات کے کئی ڈبّے شارلٹ کے سامنے رکھ دیے۔ شارلٹ نے انہیں پہن کر دیکھا مگر کوئی پسند نہیں آیا۔

    ’’ یہ سب بہت خوب صورت ہیں مگربات بن نہیں رہی۔ تمہارے پاس اور کچھ ہے؟‘‘
    جین نے دراز سے ایک اور ڈبہ نکالا۔ سنہرے ڈبے کے اندر سیاہ مخمل کی گدی پر جگمگاتے ہیروں کی ایک بہت خوب صورت مالا رکھی تھی۔

    ’’میں پارٹی کے لیے یہ ہار ادھار لے لوں۔ صرف ایک رات کے لیے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں، ضرور لو۔ اپنی پیاری سہیلی کے لیے میں اتنا بھی نہیں کر سکتی؟‘‘
    شارلٹ نے جین کو گلے لگا کر کہا کہ وہ یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی۔

    پارٹی کی رات شارلٹ انتہائی خوب صورت لگ رہی تھی۔ اعلیٰ افسران کی بیگمات اسے حسد اور ان کے شوہر اسے ہوس اور حسرت سے دیکھ رہے تھے۔ وزیر تعلیم تک اس کے ساتھ رقص میں شریک ہوا۔ ساری رات موسیقی، رقص اور مشروبات کے دور چلے۔ صبح چار بجے کے قریب پارٹی اختتام کو پہنچی۔

    وہ بہت دیر تک کپکپاتی سردی میں کرائے کی گاڑی ڈھونڈتے رہے۔ مشکل سے ایک پھٹیچر سی گھوڑا گاڑی ملی اور وہ صبح چھ بجے گھر پہنچے۔

    الگزینڈر کا تھکن سے برا حال تھا۔ وہ صوفے پر ہی سو گیا۔ لیکن شارلٹ پارٹی کے نشے میں ڈریسر کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی خوب صورتی کو سراہنے میں مصروف ہو گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ہیروں کی مالا نے اس کے حُسن کو کیسے چار چاند لگا دیے تھے۔

    اچانک ایک جگر چیر دینے والی ہول ناک چیخ نے الگزینڈر کو جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ وہ بھاگا ہوا کمرے میں آیا جہاں شارلٹ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا گلا پکڑا ہوا تھا۔ اس کی رنگت بالکل زرد پڑ چکی تھی۔

    ’’کیا ہواشارلٹ۔ تم نے اپنا گلا کیوں دبوچا۔‘‘ ابھی اس کا فقرہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس پر صورتِ حال آشکار ہو گئی۔ شارلٹ کے گلے سے ہار غائب تھا۔

    ’’اچھی طرح دیکھو، کیا پتہ کوٹ کے پھٹے ہوئے استر میں گر گیا ہو؟‘‘

    ’’دیکھا ہے میں نے، ہر جگہ دیکھا۔‘‘

    ’’تم نے کرائے کی گاڑی کا نمبر دیکھا تھا؟

    ’’نہیں‘‘

    ’’اب کیا کریں؟ ‘‘

    الگزینڈر دوبارہ کپڑے بدل کر پیدل ڈانس ہال کی طرف چل دیا۔ وہ ہرقدم پر دیکھ رہا تھا کہ شاید ہار وہیں پڑا مل جائے۔ وہ کرائے کی گاڑیوں کے دفتر میں گیا۔ پولیس کو رپورٹ لکھائی۔ اخبار میں اشتہار دیا۔ مگر سب لا حاصل۔

    جب شام گئے ناکام گھر لوٹا تو لگتا تھا کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ اسی تلاش میں تین دن گزر گئے۔

    شارلٹ نے جین کو پیغام بھجوایا کہ ہار کا کندہ ٹوٹ گیا تھا، اس کو جوہری کے پاس مرمت کے لیے چھوڑا ہے، ہفتے دس دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔

    خالی ڈبّے پر جوہری کا نام لکھا تھا۔ دونوں جوہری کی دکان پر پہنچے مگر اس کے ریکارڈ میں ایسے ہار کی فروخت کا اندراج نہیں تھا۔ انھیں ایک اور دکان پر ہو بہو ویسا ہی ہیروں کا ایک ہار نظر آیا۔ ہار کی قیمت بتیس ہزار فرینک تھی۔

    الگزینڈر نے تنخواہ سے اٹھارہ ہزار فرینک پنشن فنڈ کے لیے بچائے تھے۔ باقی چودہ ہزار کے لیے اس نے گھر کی کئی چیزیں بیچیں۔ دوستوں، رشتے داروں اور کام پر ساتھیوں سے ادھار مانگا۔ قرضوں کے کاروباری بوڑھے سود خوروں کے اسٹامپ پیپر پر دستخط کر کے اپنی پوری زندگی ان کے ہاتھ گروی رکھوا دی۔ رقم جمع کی اور جوہری سے ہار خرید لیا۔

    شارلٹ ہار لے کر مادام جیرارڈ کے گھر پہنچی۔ جین نے ہار کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ڈبّہ کھول کر تک نہیں دیکھا۔

    الگزینڈر کو اب قرضوں کی ادائیگی کرنا تھی۔ سب سے پہلے تو ملازمہ کو فارغ کیا۔ پھر اس نے دفتر کے کام کے ساتھ دکانوں پر بک کیپنگ شروع کر دی۔ شارلٹ کہاں تو نچلے متوسط طبقے کو منہ نہیں لگاتی تھی اور کہاں اب یہ نوبت آ گئی تھی کہ اسے خود گھریلو ملازمت کرنا پڑی۔ وہ گھر کے سارے کام خود کرتی۔ سودا سلف کے لیے دکان داروں سے پیسے پیسے پر لڑتی۔ اس کے چہرے پر غربت کے زیاں کار آثار نمایاں ہو گئے تھے۔ اس کے خد و خال بگڑ گئے تھے۔ چہرے پر حسن اور معصومیت کی بجائے ایک کرختگی برسنے لگی تھی اور گفتگو میں ایک بازاری پن آ گیا تھا۔

    اس واقعے کو اب دس سال گزر چکے تھے۔ آج اتوار کا دن تھا۔ ہفتے بھر کی مشقت کے بعد شارلٹ گھر سے تازہ ہوا کھانے کے لیے نکلی اور شانزے لیزے کے فٹ پاتھ پر چل رہی تھی کہ اسے ایک جانا پہچانا سا چہرہ نظر آیا۔ ایک متموّل خاتون پیاری سی بچّی کے ساتھ پارک کی سمت جا رہی تھی۔ شارلٹ کو اچانک احساس ہوا کہ یہ تو مادام جیرارڈ تھیں جو ابھی تک ویسی ہی خوب صورت تھی جیسی دس سال پہلے۔

    ’’جین‘‘ شارلٹ نے مادام جیرارڈ کو آواز دی۔ جین نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے سے حیرت اور خفگی نمایاں تھی کہ ایک نچلے طبقے کی عورت اسے نام لے کر مخاطب کرنے کی جرات کیسے کر رہی ہے۔

    ’’مادام، میرا خیال ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔’’‘‘ جین نے بڑی شائستگی سے کہا۔ ’’میں آپ کو پہچانی نہیں۔‘‘

    ’’میں شارلٹ ہوں جین۔ تمھاری پرانی سہیلی۔‘‘

    ’’اوہ شارلٹ، تم کس قدر بدل گئی ہو۔ اگر تم نہ بتاتیں میں تو بالکل نہ پہچان پاتی۔ کتنی مدت ہو گئی ہے ہمیں ملے ہوئے؟ کیا حال ہے تمہارا؟ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ الگزینڈر کیسا ہے؟‘‘ جین نے بڑی گرم جوشی سے پوچھا۔

    ’’ہاں بہت مدّت ہو گئی۔ ہم اس دوران کافی سخت حالات سے گزرے۔ تمہیں گمان تک نہیں ہو گا کہ یہ سختیاں ہم پر تمہاری وجہ سے بیتیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب حالات ٹھیک ہیں۔‘‘

    ’’میری وجہ سے؟‘‘ جین نے انتہائی حیرت سے کہا۔ ’’میں نے کیا کِیا شارلٹ؟ مجھ سے کیا خطا ہوئی؟‘‘

    ’’تمہیں یاد ہے میں نے تم سے ایک ہار ادھار مانگا تھا؟‘‘

    ’’ہاں، بڑی اچھی طرح سے۔‘‘

    ’’وہ ہار مجھ سے گم ہو گیا تھا۔‘‘

    ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ تم نے تو وہ ہار مجھے لوٹا دیا تھا۔‘‘

    ’’جو ہار میں تمھارے پاس واپس لائی تھی یہ وہ نہیں تھا جو تم نے مجھے دیا تھا۔ تمہارا ہار گم ہو گیا تھا۔ اس جیسا بتیس ہزار فرینک کا ہار خریدنے کے لیے ہمیں قرض لینا پڑا اور پچھلے دس سال سے ہم وہی قرض اتاررہے تھے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اسی سال وہ سارا قرض چکا دیا ہے۔ اب حالات ٹھیک ہیں۔ اب ہم قرض سے آزاد ہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر شارلٹ مسکرائی اور سر اٹھا کر بڑے فخر اور معصومیت سے مادام جیرارڈ کو دیکھا اور دوبارہ کہا۔ ’’شکر ہے اب ہم قرض سے آزاد ہیں۔‘‘

    جین کو جیسے ایک دھچکا سا لگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ اس نے بڑھ کر شارلٹ کو گلے لگایا اور کہا۔

    ’’میری پیاری معصوم سہیلی۔ تمہیں کس کس دکھ سے گزرنا پڑا۔ صرف میری وجہ سے۔ مگر میرا ہار تو نقلی تھا۔ اس کی قیمت تو صرف تین سو فرینک تھی۔‘‘

    (فرانسیسی ادیب اور شارٹ اسٹوری رائٹر موپساں کی شاہ کار کہانی کا اردو ترجمہ)

  • یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    آج انیسویں صدی کے مشہور مصنّف اور افسانہ نگار موپساں کا یومِ‌ وفات ہے۔ اسے جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گایے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں پیدا ہوا۔ اس نے زندگی کی فقط 42 بہاریں‌ دیکھیں‌ اور چھے جولائی 1893ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ 11 سال کا تھا جب اس کے والدین میں‌ علیحدگی ہوگئی اور وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ شعر و ادب کی دلدادہ خاتون تھی جس نے اپنے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھانے اور تربیت کی غرض سے
    فلابیئر کو سونپ دیا جو مشہور اور بلند پایہ ادیب تھا، اس کی صحبت نے موپساں کو بھی بڑا تخلیق کار بنا دیا۔

    موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اسے باکمال قرار دیا تھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا۔ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں میں وقت گزارتے ہوئے اس نے تخلیق اور مشاہدے کا سفر بھی طے کیا۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس نے ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے گریجویشن مکمل کی اور فلابیئر کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے ادب اور صحافت کے میدان میں کام یابیاں سمیٹیں۔ ناول اور افسانہ نویسی کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    اس کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے اور نام وری کے ساتھ اس نے دولت بھی کمائی۔ تاہم بدقسمتی سے جنسی بے راہ روی کے ہاتھوں بیماری کے بعد موت کے منہ میں‌ چلا گیا۔

    اس نے مختلف قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں اور کئی افسانوں کے مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے جب کہ اس کی 60 سے زائد کہانیوں کو شاہ کار تصوّر کیا جاتا ہے۔

  • نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    سفر کا سب سے دل چسپ پہلو مختلف لوگوں سے ملنا ہوتا ہے۔ یہ اتفاقی ملاقاتیں کبھی کبھی پورا سفر یادگار بنا دیتی ہیں۔

    ماضی کی یادیں ہماری عمر ایک بار پھر برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔ نہ جانے کتنوں نے سفر کی راتیں، رَت جگوں میں بسر کی ہوں گی۔ کسی دور افتادہ گاﺅں میں جہاں ابھی اسٹیم انجن نہیں پہنچا ہے، تمام رات کوچ کا سفر اور کوچ کے سفر میں کسی خوب صورت خاتون کی ہم سفری۔

    کوچ کی مٹیالی روشنی میں اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں۔ وہ حُسن جو تمام راستے صرف جھلک دکھاتا رہا ہے، وہ حُسن جو راستے میں کہیں سے دفعتا سوار ہو کے آپ کا ہم سفر بن جاتا ہے اور جب سحر نمودار ہونے لگتی ہے، کتنا اچھا لگتا ہے، اپنی ہم سفر کو نیند سے بیدار ہوتے دیکھنا پھر وہ اپنی نشست پر محتاط ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور یہ باور کراتی ہے کہ اس کی توجہ آپ پر نہیں بلکہ راستے کے قدرتی مناظر پر ہے۔

    میری یادداشت میں سفر کے ایسے کئی لمحے محفوظ ہیں جو آج بھی مجھے ایک سرور انگیز بے چینی عطا کرتے ہیں۔

    ان دنوں میں فرانس کے ایک دور دراز پہاڑی سلسلے میں پیدل سفر کر رہا تھا۔ یہ سلسلہ نہ بہت اونچا تھا نہ ہی بنجر، میں نے ابھی ایک مختصر پہاڑی عبور کی تھی اور اب ایک چھوٹے سے ریستوران میں داخل ہو رہا تھا، میری نظر ایک ضعیف عورت پر پڑی۔ ایک اجنبی، کوئی قابلِ ذکر شخصیت بھی نہیں۔ وہ تنہا ایک میز پر بیٹھی لنچ کر رہی تھی۔

    کھانے کا آرڈر دے کے میں نے اسے ذرا غور سے دیکھا۔ اس کی عمر تقریباً ستّر سال ہوگی۔ نکلتا ہوا قد جوانی کی دل کشی کے آثار اب بھی اس کے چہرے پر نظر آرہے تھے، سفید بال سلیقے سے پرانے فیشن کے مطابق بنائے گئے تھے۔ اس کا لباس انگریز سیاح عورتوں جیسا تھا، یہ لباس اس کی شخصیت سے قدرے مختلف تھا جیسے اب لباس کی اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہ رہ گئی ہو۔

    اسے دیکھ کر ایک قدیم روایتی خاتون ذہن میں ابھرتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے چینی تھی اور چہرے پر حوادثِ زمانہ کے زخم صاف نظر آتے تھے۔ میں نے اسے بہت غور سے دیکھا۔ یہ اکیلی ان تکلیف دہ پہاڑی سلسلوں میں کیوں گھوم رہی ہے؟ میں ابھی اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے کھانا ختم کیا اور بل ادا کرکے شال درست کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔

    باہر ایک گائیڈ اس کا منتظر تھا۔ میں ان دونوں کو دور تک وادی کی جانب جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ دو گھنٹے بعد میں ایک وسیع سبزہ زار میں ٹہل رہا تھا۔ سبزہ زار کے کنارے کنارے شفاف دریا بہہ رہا تھا۔ منظر اتنا خوش نما تھا کہ وہیں بیٹھ جانے کو دل چاہ رہا تھا، معاً میں نے اسی عورت کو دیکھا۔

    وہ دریا کے کنارے نظریں نیچی کیے ایک مجسمے کی طرح ساکت کھڑی تھی۔ وہ دریا کی طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس کی گہرائی میں کچھ تلاش کررہی ہو۔ میں اس کے قریب سے گزرا تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آنکھوں میں آنسو مچل رہے ہوں۔ مجھے دیکھ کر وہ تیزی سے درختوں کے قریب کھڑے ہوئے گائیڈ کی طرف چلی گئی۔

    دوسرے دن شام کے وقت میں سیورولز کے قلعے کی سیر کررہا تھا۔ یہ قدیم قلعہ وادی کے درمیان ایک اونچے ٹیلے پر ایک دیو ہیکل مینار کی طرح کھڑا تھا۔

    میں اکیلا کھنڈروں میں گھوم رہا تھا۔ اچانک ایک دیوار کے پیچھے مجھے کسی سائے کا گمان ہوا اور کسی ہیولے کی جھلک دکھائی دی جیسے اس ویران قلعے کے کسی مکین کی بے چین روح ہو۔ میں کچھ ڈرا، لیکن پھر ایک دَم میرا ڈر جاتا رہا۔ میں نے اسے پہچان لیا یہ وہی عورت تھی۔

    وہ رو رہی تھی، زار و قطار رو رہی تھی، اس کے ہاتھوں میں رومال تھا جس سے وہ بار بار آنسو پونچھتی۔ میں نے لوٹ جانا مناسب سمجھا، لیکن ابھی میں پلٹنے ہی والا تھا کہ اس نے مجھے مخاطب کیا۔

    ”ہاں موسیو! میں رو رہی ہوں، لیکن ہمیشہ نہیں روتی ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔“

    ”معاف کیجیے گا خاتون! میں آپ کی خلوت میں مخل ہوا۔“ میں شرمندگی سے ہکلانے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں۔

    ”ہاں…. نہیں۔“ اس نے کہا۔

    وہ رومال آنکھوں پر رکھ کے ہچکیاں لینے لگی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں، خود پر قابو پایا اور اپنی روداد سنانے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنا غم کسی دوسرے کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہے جیسے غم کا بوجھ تنہا سہارنا اب اس کے لیے مشکل ہو۔

    ”یادش بخیر، ایک زمانہ تھا کہ میں بہت خوش و خرم تھی، میرا اپنا ایک گھر تھا، میرے اپنے شہر میں، لیکن اب میں وہاں اپنے گھر جانا نہیں چاہتی، وہاں وقت گزارا اتنا کرب ناک ہے کہ اب میں ہمیشہ سفر میں رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔

    وہ آہستہ آہستہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ ”میرا ایک بیٹا تھا، میرے اس حال زار کی وجہ وہی ہے، اسی کے باعث میں اس حالت کو پہنچی ہوں مگر آہ، بچے کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں جان سکتے، انسان کے پاس خوشی کا کتنا مختصر وقت ہوتا ہے، میں اگر اپنے بیٹے کو اب دیکھوں تو شاید ایک نظر میں اسے پہچان بھی نہ سکوں۔

    ”آہ، میں اس سے کتنا پیار کرتی تھی، کتنا چاہتی تھی اسے، ہر وقت اسے سینے سے لگائے رہتی، اسے ہنستاتی، بہلاتی پوری پوری رات جاگ کر اسے سوتے ہوئے دیکھتی رہتی، لوگ مجھے دیوانی سمجھتے، میرا مذاق اڑاتے لیکن میں ایک پل بھی اسے خود سے جدا نہ کرتی، میں نے اس کے بغیر کہیں آنا جانا ترک کر دیا، کیا کرتی اس سے الگ ہو کر مجھے چین ہی نہیں آتا تھا۔

    وہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کے باپ نے اسے بورڈنگ میں داخل کرادیا اس کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا، وہ میرا نہیں رہا۔ اوہ میرے خدا! وہ صرف اتوار کو آتا اور بس۔

    ”پھر وہ پیرس چلا گیا، وہاں کالج میں اس کا داخلہ ہوگیا، اب وہ سال میں صرف چار مرتبہ آتا، میں ہر دفعہ اس میں نمایاں تبدیلی دیکھتی ہر بار وہ کچھ زیادہ بڑا ہوجاتا، میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑھتے اور پھلتے پھولتے نہیں دیکھ رہی تھی، ہر بار وہ جب بھی آتا پہلے سے بدلا ہوا لگتا، اب وہ بچہ نہیں تھا لڑکا تھا، میں اس کا بچپنا کھو بیٹھی تھی، یہ دولت مجھ سے لوٹ لی گئی تھی، اگر وہ میرے ساتھ ہی رہتا تو جو محبت اسے مجھ سے ہوتی وہ اتنی آسانی سے نہیں بھلائی جاسکتی تھی۔

    ”میں اسے سال میں صرف چار بار دیکھتی تھی۔ ذرا غور کرو، ہر دفعہ اس کی آمد پر اس کا جسم اس کی آنکھیں، اس کی حرکتیں اس کی آواز، اس کی ہنسی وہ نہیں رہتی تھی جو گزشتہ آمد کے موقع پر ہوتی تھی۔ ہر دفعہ وہ نیا بن کر آتا۔

    ایک سال وہ آیا تو اس کے گالوں پر بال آگئے تھے، میں حیرت زدہ رہ گئی اور تم یقین کرو، غم زدہ بھی ہوئی، کیا یہی میرا ننھا سا منا سا بچہ ہے، میری کوکھ سے جنم لینے والا جس کے سر پر ملائم ملائم گھنگریالے بال تھے۔ میرا پیارا بیٹا، میرے جگر کا ٹکڑا جسے میں ایک کپڑے میں لپیٹ کر اپنے گھٹنوں پر سلاتی تھی، یہ طویل قامت نوجوان نہیں جانتا کہ اپنی ماں کو کیسے پیار کیا جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ مجھ سے صرف اس لیے محبت کرتا ہے کہ یہ اس کا فرض ہے۔

    ذرا غور کرو، وہ اپنی ماں سے محبت ایک ڈیوٹی سمجھ کر کرتا تھا، وہ مجھے ماں کہہ کر صرف اس لیے پکارتا تھا کہ یہی روایت تھی۔

    میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، پھر میرے ماں باپ کی باری آئی، پھر میں اپنی دو بہنوں سے ہاتھ دھو بیٹھی، موت کسی گھر میں داخل ہوتی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ کام ختم کرلے تاکہ پھر ایک طویل مدت تک اسے دوبارہ نہ آنا پڑے۔ پورے خاندان میں وہ صرف ایک یا دو افراد اس لیے زندہ چھوڑ جاتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی یاد میں زندگی بھر روتے رہیں۔

    ”میں بھی تنہا زندہ رہی، میرا جوان بیٹا بہت فرض شناس تھا۔ میں اس کے پاس چلی گئی، لیکن اب وہ ایک نوجوان مرد تھا، اس کے اپنے مشاغل تھے، اپنی مصروفیات تھیں، اس نے مجھے یہ احساس دلانا شروع کردیا کہ میں اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہوں۔ آخر میں وہاں سے لوٹ آئی۔ اس کے بعد میں نے اسے زیادہ نہیں دیکھا، نہ دیکھنے کے برابر دیکھا۔

    ”اس نے شادی کرلی، میں بہت خوش تھی۔ ماں بھی عجیب ہوتی ہے۔ اولاد کی طرف سے ہمیشہ خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ اب ہم پھر ایک ساتھ رہ سکیں گے، میں اپنے پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلوں گی، ننھے ننھے گلابی گلابی روئی کے گالے اپنی گود میں پروان چڑھاﺅں گی۔

    میں وہاں پہنچی اس کی بیوی ایک انگریز لڑکی تھی، وہ روز اول سے مجھے ناپسند کرتی تھی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ وہ سمجھتی تھی کہ میں اس کے شوہر کو اس سے زیادہ چاہتی ہوں اس طرح ایک دفعہ پھر مجھے اس کے گھر سے نکلنا پڑا، میں ایک بار پھر تنہا رہ گئی، ہاں موسیو! میں ایک بار پھر بالکل تنہا رہ گئی تھی۔

    پھر وہ انگلستان چلا گیا، اپنی بیوی کے والدین کے پاس، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے لگا۔ میں نے حسرت سے سوچا اب وہ ان کا ہو کر رہے گا جیسے وہ میرا نہیں ان کا بیٹا ہو، انھوں نے اسے مجھ سے چھین لیا، چرا لیا، وہ وہاں سے ہر ماہ مجھے خط لکھتا، شروع شروع میں کبھی کبھی وہ مجھ سے ملنے بھی آتا، لیکن اب اس نے آنا بالکل چھوڑ دیا ہے۔

    ”اب مجھے اپنے بیٹے کو دیکھے ہوئے چار سال ہوچکے ہیں۔ آخری بار جب میں نے اسے دیکھا تھا تو اس کے چہرے پر جھریاں سی پڑنے لگی تھیں اور بالوں میں کہیں کہیں سفیدی جھلکنے لگی تھی، میں اسے اس حال میں دیکھ کر حیران رہ گئی تھی، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا یہ آدمی، یہ تقریباً بوڑھا آدمی میرا بیٹا ہے! ماضی کا چھوٹا سا گلابی گلابی گل گوتھنا سا۔

    ”اب میں شاید اسے کبھی نہ دیکھ سکوں۔ اب میں اپنا تمام وقت سفر میں گزارتی ہوں، کبھی مشرق میں، کبھی مغرب میں، بالکل تنہا جیسے تم دیکھ رہے ہو۔“

    اس نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ”گڈ بائی موسیو!“ مجھے رخصت کر کے وہ وہیں راستے میں کھڑی رہ گئی، میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا، کچھ دور جانے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا وہ ایک ٹیلے پر کھڑی دور افق میں دیکھ رہی تھی، جیسے کچھ تلاش کررہی ہو، تیز ہوا سے اس کے کندھے پر پڑی ہوئی شال کا ایک سرا اور اس کا اسکرٹ کسی جھنڈے کی طرح لہرا رہا تھا۔

    ( فرانسیسی ادیب موپساں‌ کی کہانی کا اردو ترجمہ)