Tag: موہنی حمید

  • موہنی حمید کا تذکرہ جو ‘شمیم آپا’ کے نام سے مشہور تھیں!

    موہنی حمید کا تذکرہ جو ‘شمیم آپا’ کے نام سے مشہور تھیں!

    موہنی حمید کا نام ریڈیو پاکستان سے ہوا کے دوش پر پھیلتی ہوئی ان کی مسحور کُن آواز کی بدولت ہر گھر میں پہنچا اور ان کا ہر پروگرام بہت شوق سے سنا جانے لگا۔ وہ بچّوں اور بڑوں میں شمیم آپا مشہور ہوگئیں۔ ریڈیو پاکستان کو زندگی کے 35 سال دینے والی موہنی حمید 16 مئی 2009ء میں‌ انتقال کر گئی تھیں۔ انھیں بلبلِ نشریات کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    نوجوانی میں موہنی داس کے نام سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والی اس براڈ کاسٹر نے کئی ریڈیائی ڈراموں کے لیے اداکاری اور بچّوں کے لیے پروگرام کیے اور انھیں اپنی آواز میں گیت سنانے کے علاوہ ہر شام کہانیاں بھی سناتی رہیں۔

    امرتسر کے ایک علاقہ میں موہنی داس نے عیسائی گھرانے میں 1922ء میں آنکھ کھولی تھی۔ قیامِ‌ پاکستان کے بعد 1954 میں ان کی شادی حمید احمد سے ہوئی جو ایک صحافی تھے اور شادی کے بعد موہنی حمید بن گئیں۔ امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں وفات پانے والی موہنی حمید کی بیٹی کنول نصیر بھی پاکستان کی مشہور و معروف براڈ کاسٹر اور نیوز اناؤنسر تھیں۔ موہنی حمید کا تعلق صدا کاروں کی اس نسل سے تھا جس میں مصطفی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، عزیز الرحمٰن، نسرین محمود، خالدہ ارجمند، عبداللطیف مسافر، مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین اور محمد حسین جیسے فن کار شامل تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب امتیاز علی تاج، رفیع پیر اور شوکت تھانوی جیسے ڈرامہ نگار بھی ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے۔ اسی دور میں موہنی نے فن کی دنیا میں اپنے انداز اور شخصیت کی بدولت لوگوں کے دلوں میں‌ جگہ بنائی۔ وہ آل انڈیا ریڈیو لاہور سے 1938 میں صدا کاری کا آغاز کر کے سامعین میں پہچان تو بنا ہی چکی تھیں لیکن تقسیم کے بعد وہ پاکستانی کی پہلی براڈ کاسٹر بنیں اور انھیں شمیم آپا کے طور پر بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1957 میں ان کی آواز سال کی بہترین آوازوں میں سے ایک قرار دی گئی۔ 1963 میں ریڈیو پاکستان لاہور نے ان کی سلور جوبلی منائی اور اس موقع پر بی بی سی (برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن) نے اپنی اردو نشریات میں انہیں ’’گولڈن وائس آف ایشیا‘‘ قرار دیا۔ 1965 میں موہنی حمید کو صدرِ پاکستان نے ’’تمغائے امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1977 میں موہنی حمید ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا چلی گئی تھیں۔

  • بلبلِ نشریات موہنی حمید کا تذکرہ

    بلبلِ نشریات موہنی حمید کا تذکرہ

    موہنی داس نے نوجوانی میں ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور پھر وہ آپا شمیم کے نام سے 35 برس تک اسی میڈیم سے جڑی رہیں۔ اس عرصہ میں انھوں نے ریڈیو کے سامعین کے معیاری اور خوب صورت پروگرام پیش کیے۔

    موہنی داس نے بچّوں کے ہفتہ وار پروگرام کے ساتھ کئی برس تک انھیں اپنی خوب صورت آواز میں کہانیاں بھی سنائیں۔ بچّے ہی نہیں پاکستان بھر میں بڑے بھی آپا شمیم کو بہت شوق سے سنتے تھے۔ امریکا میں قیام کے دوران آج ہی کے دن وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    ریڈیو پاکستان کے مقبول ڈراموں کی ہیروئن اور بچوں کے لیے کئی مشہور گیت گانے والی موہنی حمید کو حکومتی سطح پر بھی اعزازات سے نوازا گیا اور ملک اور بیرونِ ملک بھی فن کی دنیا میں مختلف ایوارڈ دیے گئے۔ انھوں نے انار کلی جیسے لازوال ڈرامے کے خالق امتیاز علی تاج کے معروف کھیل ستارہ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اہلِ ریڈیو نے بجا طور پر موہنی حمید کو بلبلِ نشریات کا خطاب دے رکھا تھا۔

    موہنی داس ایک عیسائی خاندان کی فرد تھیں جن کی شادی 1954 میں ایک روزنامے میں مدیر کی حیثیت سے کام کرنے والے حمید احمد سے ہوئی اور یوں وہ موہنی حمید بن گئیں۔ اس جوڑے کے گھر جنم لینے والی کنول نصیر بھی پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی صدا کار اور میزبان کے طور پر شہرت رکھتی ہیں۔

    موہنی داس نے 1922 میں ہندوستان کے علاقے بٹالہ کے ایک مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ 1938 میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو بطور ڈرامہ آرٹسٹ شمولیت اختیار کی۔ بعد میں انھوں نے لاہور اسٹیشن سے پروگرام کرنا شروع کردیا اور آپا شمیم بن کر ہر گھر کی گویا ایک فرد بن گئیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد وہ یہاں مستقل قیام پذیر ہوئیں اور ریڈیو پر اپنا سفر جاری رکھا۔

    یہ 1957 کی بات ہے جب موہنی حمید کو سال کی بہترین آواز قرار دیا گیا۔ 1963 میں ریڈیو پاکستان لاہور نے ان کی سلور جوبلی منائی اور 1965 میں صدر پاکستان نے انھیں ’’تمغائے امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 1969 میں اقوامِ متحدہ نے ایشیا کی معزز خواتین کے ساتھ ان کی تصویر اور تحریر کی نمائش کی۔ 1998 میں جب وہ بیرونِ ملک جا چکی تھیں حکومتِ پاکستان نے ان کے لیے دوسری بار ’’تمغائے امتیاز‘‘ کا اعلان کیا جب کہ 1999 میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی جانب سے موہنی حمید لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کی حق دار قرار پائیں۔

    16 مئی 2009ء میں موہنی حمید امریکا میں انتقال کرگئی تھیں۔ موہنی حمید کا تعلق صدا کاروں کی اس نسل سے تھا جس میں مصطفٰی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، عزیز الرحمٰن، مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین جیسے آرٹسٹ شامل تھے اور نہایت بلند پایہ ادیب اور باکمال ڈرامہ نگار ریڈیو کے لیے لکھا کرتے تھے اور اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے جن میں امتیاز علی تاج، رفیع پیر اور شوکت تھانوی جیسے نام شامل ہیں۔ موہنی حمید نے آسمانِ ادب اور آرٹ کی دنیا کے ان ستاروں کے ساتھ کام کرکے خود کو باصلاحیت اور بہترین فن کار ثابت کیا۔ انھیں امتیاز علی تاج اور رفیع پیر جیسی نابغہ شخصیات نے سراہا۔

  • یومِ وفات: معروف صدا کارہ موہنی حمید کو بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا

    یومِ وفات: معروف صدا کارہ موہنی حمید کو بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا

    16 مئی 2009ء کو ریڈیو پاکستان کی مشہور صدا کار موہنی حمید وفات پاگئی تھیں۔ انھیں بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا۔

    موہنی حمید بچّوں میں آپا شمیم کے نام سے معروف تھیں۔ انھوں نے کئی ریڈیو ڈراموں میں‌ کام کیا اور بچوں کے لیے کئی گیت بھی گائے۔ موہنی حمید کی بیٹی کنول نصیر بھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی معروف صدا کار اور نیوز اناؤنسر تھیں۔

    موہنی حمید نے موہنی داس کے نام سے نوجوانی میں ریڈیو پر کام شروع کیا تھا اور 35 سال تک ریڈیو پاکستان لاہور سے بچوں کے ہفتہ وار پروگرام میں آپا شمیم کا کردار نبھاتی رہیں۔

    وہ 1922ء میں امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔ آل انڈیا ریڈیو، لاہور سے صدا کاری کا آغاز کیا اور اپنی دل کش آواز کے سبب جلد سامعین میں مقبول ہوگئیں۔ انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں ریڈیو پاکستان کا اعزاز گولڈن مائیک، گریجویٹ ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی جانب سے تمغۂ امتیاز شامل ہیں۔