Tag: موہن جودڑو

  • خواتین کے لیے مروجہ اصولوں کو للکارتی، ناچتی گاتی بے باک چانی

    خواتین کے لیے مروجہ اصولوں کو للکارتی، ناچتی گاتی بے باک چانی

    بالی ووڈ کی میگا بجٹ فلم ’موہن جو دڑو‘ کا ایک اور گانا جاری کردیا گیا۔ اس سے قبل جاری کیے جانے والے 2 گانوں کے برعکس اس گانے کی شوٹنگ آؤٹ ڈور کی گئی ہے اور اس میں موہن جودڑو کے گلی کوچوں کو فلمایا گیا ہے۔

    گانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلم کے تخلیق کار دریائے سندھ کی قدیم تہذیب، موہن جودڑو کے زمانے اور اس کے ماحول کی بہترین عکاسی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    8

    گانا ’سرسریا‘ ریتھک روشن اور پوجا ہیج پر فلمایا گیا ہے جس میں وہ دونوں موہن جودڑو کی گلیوں اور بازاروں میں عالم سرخوشی میں گنگناتے گھوم رہے ہیں۔

    گانے میں پس منظر میں چند ہی خواتین دکھائی دیں جس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس زمانے میں خواتین کا باہر نکل کر گھومنا پھرنا زیادہ عام نہیں تھا اس کے باوجود فلم کی ہیروئن چانی بے باکانہ انداز میں ناچتی گاتی نظر آرہی ہے۔

    اس بات کی تصدیق ریتھک روشن نے بھی اپنی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کی، ’چانی کو نہیں لگتا کہ اسے خواتین کے لیے مخصوص امتیازی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیئے‘۔

    ساتھ ہی انہوں نے گانا ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ’دیکھیئے کس طرح وہ ان اصولوں سے آزاد ہے‘۔

    گانے کا آغاز اجنبی زبان کے الفاظ سے ہوتا ہے جو موہن جودڑو سے ملنے والی لکھائی کے نمونوں کی طرح تاحال نامعلوم ہے۔

    فلم میں استعمال کی جانے والی زبان کے بارے میں ڈائریکٹر اشوتوش گواریکر ایک بھارتی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ انہوں نے ہندی اور سندھی زبان کو ملا کر مکالمے لکھوائے ہیں۔ ’دونوں زبانوں کے ملاپ سے بننے والے مکالمے فلم بینوں کے لیے سمجھنا مشکل نہیں ہوں گے‘۔

    1

    فلم کے اسکرپٹ کے مطابق چانی مہا پجاری کی بیٹی ہے اور اس سے قبل جاری کیے جانے والے گانوں اور ٹریلر میں اسے اپنے سر پر مخصوص تاج یا زیورات اور ایک خاص طبقے کے لیے مخصوص لباس میں ہی دیکھا گیا۔

    تاہم اس گانے میں وہ ایک عام سی لڑکی کی طرح سادہ سا لباس پہنے ہوئے ہے جبکہ اس کے سر پر بھی کوئی امتیازی زیور نہیں۔

    5

    موہن جودڑو کے لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ گانے میں شہر کے بیچوں بیچ واقع ایک بازار دکھایا گیا ہے جہاں قدیم طرز پر تعمیر شدہ مختلف دکانوں پر غذائی اجناس، جانوروں کا چارہ، ہاتھی دھات اور دیگر دھاتوں سے بنے مجسمے اور دیگر آرائشی اشیا موجود ہیں۔

    6

    ایک موقع پر موسیقی کے آلات فروخت کرنے والی ایک دکان بھی دکھائی گئی۔

    4

    گانے میں موہن جودڑو کی پہچان اس کی خاص گلیاں بھی دکھائی گئی ہیں جو پکی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔

    7

    گانے میں رنگ ریز اور مٹی سے بنائے جانے والے برتن بھی دکھائے گئے ہیں۔

    2

    اس گانے کے بول جاوید اختر نے لکھے ہیں جبکہ موسیقی اے آر رحمٰن نے دے دی ہے۔ گانے کو سشوت سنگھ اور ساشا تریپتی نے گایا ہے۔

    مجموعی طور پر یہ گانا ایک اچھی کوشش ہے تاہم ٹریلر کی طرح اسے بھی تعریف اور تنقید دونوں کا سامنا ہے۔

    اس سے قبل فلم کے 2 گانے ’تو ہے‘ اور ٹائٹل سانگ ’موہن جودڑو‘ جاری کیا جاچکا ہے۔

  • وادی سندھ کی تہذیب 2,500 سال سے بھی قدیم

    وادی سندھ کی تہذیب 2,500 سال سے بھی قدیم

    نئی دہلی: بھارت میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب جسے ڈھائی ہزار سال قدیم خیال کیا جاتا ہے، اس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔

    بھارتی محققین نے جانوروں کی باقیات اور وہاں سے ملنے والے برتنوں کے ٹکڑوں پر کاربن ڈیٹنگ (جسم پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اثرات کی جانچ پڑتال) کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کم از کم 8000 سال پرانی ہوسکتی ہے۔

    indus-2

    اگر واقعی ایسا ہے تو یہ تہذیب میسوپوٹیمیا اور مصر کی تہذیب سے بھی قدیم ہے۔

    واضح رہے کہ میسوپوٹیمیا تہذیب اب تک کی معلوم تاریخ، یعنی 31 سو سال قبل مسیح کی قدیم ترین تہذیب مانی جاتی ہے۔

    بھارتی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھراگپور میں ارضیات کے پروفیسر انندیا سرکار اس بارے میں کہتے ہیں، ’یہ تحقیق انسانی اور تہذیبی ارتقا کو نئے سرے سے سمجھنے کی دعوت دے رہی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فلم ’موہن جودڑو‘ کے ٹریلر میں 5 خاص پہلو

    وادی سندھ کی تہذیب بھارت اور پاکستان کے کئی علاقوں پر مشتمل ہے جس میں ہڑپہ اور سندھ میں واقع موہن جودڑو نمایاں شہر ہیں۔ اس سے قبل ایک اور تحقیق کے مطابق بھارت کے دریائے سرسوتی کے کنارے بھی اس تہذیب کے آثار ملے تھے۔

    indus-3

    یہ دریا 4000 سال قبل معدوم ہوگیا تھا۔ اس تحقیق نے ہی محققین کو ’وادی سندھ کی ڈھائی ہزار سال قدیم تہذیب‘ کے نظریے پر نظر ثانی پر مجبور کیا۔

    ماہرین اس عظیم تہذیب کے زوال کے اسباب پر بھی نئے سرے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ اس سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ موسمی تغیر یا کلائمٹ چینج اس قدیم تہذیب کے خاتمے کا سبب بنا تھا۔