Tag: مویشی

  • بھینس کالونی سے خریدے گئے مویشی ڈاکو لیاقت آباد کے قریب چھین کر فرار، ویڈیو

    بھینس کالونی سے خریدے گئے مویشی ڈاکو لیاقت آباد کے قریب چھین کر فرار، ویڈیو

    کراچی: عید قرباں کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں مویشی چھیننے کی وارداتیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔

    کراچی کے علاقے بھینس کالونی سے خریدے گئے مویشی ڈاکو لیاقت آباد کے قریب چھین کر فرار ہو گئے، ڈاکو کار میں سوار تھے جنھوں نے مویشی لے جانے والی گاڑی کا تعاقب کیا تھا۔

    واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آ گئی ہے، پولیس نے ایف آئی آر بھی درج کر لی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ شہری ٹرک میں 3 مویشی لاد کر اورنگی ٹاوٴن کی جانب جا رہا تھا، جب راستے میں ڈاکوؤں نے اسلحے کے زور پر ڈرائیور کو ٹرک سے اتار کر اپنی کار میں سوار کیا۔

    مقدمے کے متن کے مطابق ڈاکو جانوروں سے بھرا ٹرک خود لے کر روانہ ہو گئے، اور کچھ فاصلے پر جا کر ٹرک ڈرائیور کو اتار کر ڈاکو فرار ہو گئے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خالی ٹرک نیپا چورنگی کے قریب سے مل گیا ہے۔


    اس سال کراچی مویشی منڈی کی سیکیورٹی کیسی ہوگی؟ اہم خبر


    پولیس حکام کے مطابق چھینے گئے مویشیوں کا سراغ نہیں مل سکا ہے، متاثرہ شہری نے پولیس کو بیان دیا کہ مویشیوں کی قیمت 6 لاکھ روپے سے زائد تھی۔

  • کراچی: انسانوں کے بعد جانوروں کو بھی اغوا کیا جانے لگا، تاوان طلب

    کراچی: انسانوں کے بعد جانوروں کو بھی اغوا کیا جانے لگا، تاوان طلب

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں انسانوں کے بعد جانوروں کو بھی تاوان کے لیے اغوا کیا جانے لگا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بھی اغوا برائے تاوان کا انکشاف ہوا ہے۔

    بھینس کالونی کے اطراف نا معلوم ملزمان کا گینگ متحرک ہے جسے ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز مویشی چھڑوانے کے لیے بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔

    ڈیری فارمرز کا کہنا ہے کہ جانوروں کو اغوا کے بعد بھتہ لے کر چھوڑا جاتا ہے، 2 ماہ کے دوران 7 ڈیری فارمرز کے مویشی اسلحے کے زور پر چھینے گئے۔

    علاوہ ازیں لنک روڈ پر مویشیوں سے بھری گاڑیاں بھی اسلحے کے زور پر چھینی جا رہی ہیں۔

    2 روز قبل مویشیوں سے بھری گاڑی چھیننے کا مقدمہ اسٹیل ٹاون تھانے میں درج کیا گیا ہے، ایف آئی آر کے مطابق 6 ملزمان اسلحے کے زور پر مویشیوں سے بھرا ٹرک لے گئے۔

  • مویشیوں نے 241 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا

    مویشیوں نے 241 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا

    نئی دہلی: بھارت میں آوارہ مویشیوں نے دو سال کے دوران تقریباً 241 افراد کو ہلاک کیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست ہریانہ میں یکم جنوری 2018 سے 2 مارچ 2020 تک آوارہ گائے نے 241 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔

    بھارتی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گائے کی وجہ سے سڑکوں پر مختلف حادثات بھی پیش آئے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ جبکہ متعدد افراد روڈز پر آوارہ گھومنے والے گائے کے حملوں کی زد میں آئے۔

    سب سے زیادہ ہلاکتیں ہریانہ کے ضلع فاتح آباد اور امبالا میں ہوئیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن کا کہنا ہے کہ مذکورہ ہلاکتیں میں اضافے کے امکانات بھی ہیں۔ اعداد و شمار جو سامنے آئے ہیں حقیقت میں لوگ اس سے زیادہ مرے گئے ہیں۔ متعلقہ اداروں نے واقعے پر سنجیدگی کا اظہار کیا ہے۔

    کمشنر کا کہنا ہے کہ 1.5 لاکھ آوارہ مویشی تاحال ہریانہ کی سڑکوں پر دن دناتے پھر رہے ہیں۔ جبکہ 10 ہزار کے قریب جانوروں کی اموات بھی ہوئیں تاہم ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

  • سعودی عرب: مویشی پالنے والے افراد ہوشیار ہوجائیں

    سعودی عرب: مویشی پالنے والے افراد ہوشیار ہوجائیں

    ریاض: سعودی وزارت ماحولیات، پانی و زراعت نے جانوروں کی پناہ گاہیں اور افزائشی مراکز قائم کرنے کے لیے متعدد شرائط مقرر کردیں۔

    سعودی خبر رساں ادارے کے مطابق وزارت ماحولیات کی جانب سے جانوروں کے افزائشی مراکز قائم کرنے کے لیے کئی ضابطے جاری کیے ہیں۔ وزارت نے پابندی لگائی ہے کہ افزائشی مراکز یا جانوروں کی پناہ گاہیں اپنے یہاں آنے والوں جانوروں کا کم از کم 2 سالہ ریکارڈ محفوظ رکھیں۔

    وزارت ماحولیات کی شرائط کے مطابق:

    جانوروں کے مالکان سے متعلق نجی معلومات کا اندراج کریں

    جانوروں کی نگرانی اور علاج پر مامور کلینک کا نام اور پتہ درج کریں

    جانور کس تاریخ کو کلینک سے فارغ کیا گیا ہے، درج کریں

    جانوروں کی پناہ گاہ یا افزائشی مرکز کے ماتحت کلینک میں اسپیشلسٹ مینیجر ضرور مقرر کیا جائے

    ہر جانور کے لیے الگ سے باڑہ بنانا لازمی ہے

    عارضی مراکز کے لیے شرائط

    وزارت ماحولیات نے جانوروں کی عارضی پناہ گاہوں کے لیے بھی خصوصی شرائط مقرر کی ہیں۔

    عارضی پناہ گاہوں سے مراد وہ مراکز ہیں جہاں جانور 24 گھنٹے تک رکھا جاتا ہے۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہر جانور کے لیے 2.3 مربع میٹر جگہ مخصوصکی جائے۔

    ایک شرط یہ ہے کہ جو پابندیاں مستقل پناہ گاہوں یا افزائشی مراکز کے لیے مقرر ہیں وہ عارضی مراکز اور پناہ گاہوں کے لیے بھی ہیں۔

    وزارت ماحولیات نے پابندی لگائی ہے کہ جانوروں کی پناہ گاہوں یا افزائشی مراکز میں تعینات کیا جانے والا مینیجر جانوروں کی ادویہ کا ماہر ہو۔ اسے کتوں اور بلیوں کی نگرانی کا تجربہ ہو اور اس کے پاس اس کا سرٹیفکیٹ بھی ہونا چاہیئے۔

    وزارت کی شرائط کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر پناہ گاہ یا افزائشی مراکز میں جانوروں کا طبی معائنہ ضرور کیا جائے۔ مرکز کے مالک کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ پناہ گاہ یا مرکز میں رہنے والے ہر جانور کی بابت اس کے مالک کو رپورٹ پیش کرے۔

    بگران جانوروں کی خوراک اور پانی کی نگرانی کرنے، روزانہ کی بنیاد پر جانوروں کا طبی معائنہ کرنے اور جانوروں کی جسمانی اور ذہنی صحت کا اہتمام کرنے کاپابند ہوگا۔

    اگر کوئی جانور پناہ گاہ یا مرکز میں موجود دیگر جانوروں کی صحت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہو تو اسے ہنگامی بنیاد پر وہاں سے علیحدہ کردیا جائے۔

    مینیجر کو اس بات کا بھی اختیار ہے کہ وہ متاثرہ جانور کو اس پر رحم کھاتے ہوئے ضرورت پڑنے پر ہلاک کرنے کا فیصلہ صادر کردے۔

    پناہ گاہ یا افزائشی مرکز میں کسی بھی جانور کو داخل کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ تمام جانور ایک جگہ اکٹھے نہ رکھے جائیں۔ ایک طرح کے جانور کسی ایک باڑے میں رکھے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ہر ایک کو مقررہ جگہ فراہم کی جارہی ہو۔

  • ملک میں گوشت کی پیداوار بڑھانے کا فیصلہ

    ملک میں گوشت کی پیداوار بڑھانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: ملک میں گوشت کی پیداوار بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے مویشیوں کو فربہ کیا جائے گا جبکہ ملک بھر میں فارمز قائم کیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں گوشت کی پیداوار بڑھانے کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے 4 لاکھ مویشیوں کو فربہ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے جاری کی جانے والی دستاویز کے مطابق بھینسوں کو فربہ کرنے کے لیے ملک بھر میں فارم قائم کیے جائیں گے۔

    دستاویز کے مطابق 7 ہزار کسانوں کو بچھڑے فربہ کرنے کے لیے رجسٹر کیا جائے گا جبکہ 25 ہزار کسانوں کو بھینسوں کو فربہ کرنے کے لیے رجسٹر کیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت 5 لاکھ 95 ہزار مویشی فربہ کیے جائیں گے۔

    مویشیوں کو فربہ کرنے کے لیے 9 ہزار فارمز قائم کیے جائیں گے، 4 سالہ منصوبے پر 2 ارب 38 کروڑ 51 لاکھ لاگت آئے گی۔ منصوبے کے لیے رواں مالی سال 10 کروڑ روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔

    دستاویز کے مطابق منصوبے کے لیے 20 فیصد فنڈ وفاق اور 80 فیصد فنڈ صوبے دیں گے۔ سندھ میں ایک لاکھ، پنجاب میں ڈیڑھ لاکھ، گلگت بلتستان میں 15 ہزار، پختونخواہ میں 80 ہزار جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں 20 ہزار مویشیوں کو فربہ کیا جائے گا۔

  • گلہ بانی کے لیے استعمال کی جانے والی مسحور کن موسیقی

    گلہ بانی کے لیے استعمال کی جانے والی مسحور کن موسیقی

    دنیا بھر میں مویشی پالنے والے افراد اپنے جانوروں کے لیے الگ زبان اور انداز مخصوص کردیتے ہیں جس سے ان کے جانور بہت مانوس ہوتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو ایسی ہی ایک انوکھی زبان سے متعارف کروانے جارہے ہیں۔

    اسکینڈے نیوین ممالک میں مویشیوں کو بلانے کے لیے اونچے سروں میں ایک مخصوص دھن بجائی جاتی ہے جو سننے میں بہت خوبصورت اور سحر زدہ لگتی ہے۔

    یہاں کے لوگ مویشیوں کو چرنے کے لیے پہاڑوں کی طرف بھیج دیتے ہیں اور پھر شام کے وقت واپس بلانے کے لیے اس مخصوص آواز کا استعمال کرتے ہیں جسے سن کر مویشی جیسے سحر زدہ سے ہو کر دوڑے چلے آتے ہیں۔

    ایسے میں ڈھلتی شام کے وقت سرسبز میدانوں میں گونجتی یہ موسیقی اور مویشیوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ سے ماحول نہایت سحر انگیز سا ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ترکی کے گاؤں کی انوکھی اور خوبصورت زبان

    یہاں ہر خاندان میں یہ موسیقی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے جو عموماً نسلوں تک سفر کرتی ہے۔ گو کہ یہ روایت بہت کم ہوگئی ہے تاہم ناروے اور سوئیڈن میں اب بھی اس کا رواج موجود ہے۔

    اس موسیقی کو مشہور اینی میٹڈ فلم فروزن میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔

  • برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔

    دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔

    ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔

    ایمازون کے خاتمے کی وجہ

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مویشیوں کی ضروریات

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    بدترین نقصان

    اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔

    ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔

    یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔

    ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟

    ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔

    قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔

  • تھرمیں مزید دو بچے جاں بحق،تعداد ستاسی تک جا پہنچی

    تھرمیں مزید دو بچے جاں بحق،تعداد ستاسی تک جا پہنچی

    تھر پارکر: بھوکے تھر میں ادویات کی کمی کے باعث مزید دو بچے جان سے گئے  اکتوبر سے اب تک جاں بحق ہو نے والے بچوں کی تعداد ستاسی ہوگئی۔ تفصیلات کے مطابق  وزیراعلٰی سندھ کے وعدے اور تھر کے اسپتالوں میں بہترین علاج کے دعوے محض ہوا میں باتوں کے سوا کچھ نہیں۔

    کئی گاڑیوں کے پروٹوکول میں  ہنگامی دوروں اور صحرا میں کابینہ کے اجلاس کے باوجود نہ تھر میں اب تک غذائی قلت کو کم کیا جاسکا اورنہ ہی اسپتالوں میں ادویات کی کمی کو پورا کیا جاسکا ہے۔

    ادھر سسکتے بلکتے بچے کبھی دوا اور کبھی غذا کی کمی کے سبب موت کا شکار ہورہے ہیں اور کسی پر کوئی اثر نہیں ۔ مٹھی کے سول اسپتال میں بچے مسلسل موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تقریبا ڈیڑھ ماہ کے دوران مرنے والے بچوں کی تعداد اسی سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔

    علاوہ ازیں تھر کے باسی جان اور مال کے بعد مویشی بھی کھوتے جارہے ہیں ۔ خشک سالی کے باعث جانور بھی موت کا شکار بنتے جارہے ہیں۔نہ صرف تھر واسی بلکہ پیاس اور بھوک سے ان کے مویشی بھی نڈھال  ہوگئے ہیں۔

    تھر میں جہاں ایک طرف موت کا رقص جاری ہے وہیں تھر کے جانور بھی خشک سالی کے باعث کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ تھر کا صحرا انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور کو بھی نگلتا جارہا ہے ۔نہ کوئی ڈاکٹر ہے نہ کوئی عملہ ،طبی مراکز پر بڑے بڑے تالے سندھ حکومت کی کارکردگی کی پول کھلتے نظر آرہے ہیں ۔

    تھر کی پہچان خوبصورت مور بھی دن بہ دن اپنی خوبصورتی کھوتے جارہے ہیں۔ بے بس اور بے زبان جانور حسرت کی تصویر بنے توجہ اور خوراک کے منتظر ہیں۔