Tag: مٹاپا

  • مٹاپا: ایک نہیں کئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے

    مٹاپا: ایک نہیں کئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے

    آج صبح دفتر میں اپنی ایک عزیز سہیلی اور کولیگ سے ملاقات ہوئی تو انھیں آزردہ پایا۔ دل میں خیال آیا معلوم نہیں کیا ہو گیا، کل تک تو اچھی بھلی تھیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کچھ دن سے ان کی طبعیت ناساز تھی، معالج کے کہنے پر خون کے چند ٹیسٹ کروائے جس کے بعد کولیسٹرول کی زیادتی اور یورک ایسڈ کے مسئلے کی تشخیص ہوئی ہے۔

    اب یہ معاملہ تو وہی ہے کہ خود پر توجہ نہ دینا اور جب کوئی مسئلہ یا تکلیف محسوس ہو تو اسے نظر انداز کرتے رہنا۔ ہمارے ہاں یہ بہت عام ہے کہ ہم معمولی تکلیف اور بیماری میں سوچتے ہیں کہ چلے جائیں گے ڈاکٹر کے پاس، جلدی کیا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ وزن بڑھ رہا ہے، مٹاپے کی طرف جارہے ہیں مگر اس پر توجہ نہیں دیتے اور یہ کہتے ہیں‌ کہ چھوڑو، ایسا بھی کیا ہوگیا، کون دیکھتا ہے۔ اس طرح ہم خود کو تسلی دیتے رہتے ہیں اور جب ہمیں ہوش آتا ہے تو پانی سَر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ جو لوگ فربہی کی طرف مائل ہو رہے ہوں یا مٹاپے کا شکار ہو رہے ہوں انھیں اپنے دماغ سے یہ بات نکال دینی چاہیے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں یا چھوڑو کچھ نہیں ہوتا۔

    مٹاپے کا شکار لوگوں کی ایک قسم تو وہ ہوتی ہے جو کھانا وقت پر نہیں کھاتے اور جنک فوڈ پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات اب تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ جنک فوڈ مٹاپے کا باعث بنتا ہے۔ اگر غذا اور خوراک کے حوالے سے ہم اپنی عادات تبدیل کریں اور وقفے وقفے سے کھائیں تو اس سے نہ صرف معدہ پر بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ آپ موٹاپے کا شکار بھی نہیں ہوں گے۔

    ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ بچپن میں موٹے ہوتے ہیں اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے ان میں مٹاپا بڑھتا رہتا ہے۔ دیکھا جائے تو اکثر لوگ بھوک مٹانے کے لئے صحت بخش غذاؤں کا استعمال نہیں کرتے بلکہ جو مل جائے کھا لیتے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے محقیقن نے بتایا ہے کہ دس میں سے سات افراد ایسے ہوتے ہیں جو ابتدائی عمر ہی سے مٹاپے پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ سعودی عرب کے ایک میڈیکل جرنل کے مطابق سعودی عرب کے شہری سستی اور کاہلی میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہیں، یہاں 63 فیصد سے زائد افراد بالکل ورزش نہیں کرتے اور چالیس فیصد شہری مٹاپے کا شکار ہیں۔ کویت میں 21 فیصد سے زائد شہری ذیابیطس کا شکار ہیں جس کی ایک وجہ مٹاپا بھی ہے۔ امریکا میں سب سے زیادہ جنک فوڈ کھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ رمضان المبارک میں آپ کو پھلوں اور دوسری سادہ غذا کے بجائے زیادہ تر افراد کچوریاں، سموسے اور اسی طرح کی تلی ہوئی اشیا خریدتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اس کی ایک وجہ وقت کی کمی ہے اور اکثریت عجلت میں جنک فوڈ کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض عام ہوچکا ہے اور بڑے ہی نہیں بچّے بھی اس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ مٹاپا بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مٹاپے کی وجہ سے لوگ گردوں‌ کی تکلیف میں بھی مبتلا ہو رہے ہیں۔

    مٹاپا اور اس کی وجہ سے لاحق ہونے والی دوسری بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا۔ متوازن اور صحت بخش غذا کی جگہ جنک فوڈ اور ٹھنڈے مشروبات کا استعمال اور اس پر ہماری کاہلی اور سہل پسندی کی عادت نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ہم ایسی بہت سی عادتیں اپنا چکے ہیں یا کچھ مفید سرگرمیوں کو ترک کردیا ہے جن کی وجہ سے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ان میں ورزش نہ کرنا، یا جسمانی سرگرمیوں سے دور رہنا اور نیند پوری نہ کرنا شامل ہیں۔

  • کیا آپ ہر وقت کچھ کھاتے رہنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ ہر وقت کچھ کھاتے رہنا چاہتے ہیں؟

    جب کوئی انسان ذہنی یا جذباتی دباؤ کا سامنا کرتا ہے اور یہ مسئلہ شدید تر ہوجاتا ہے تو اس کے رویے، عادات اور طرزِ زندگی پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔

    مایوس کُن خیالات کا اظہار، بیزاری، کام میں دل نہ لگنا اور دیگر عام مسائل کے علاوہ اکثر شدید دباؤ اور جذباتی تناؤ کا شکار کوئی بھی فرد اچانک بہت زیادہ اور بھوک محسوس نہ کرنے کے باوجود کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا چاہتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق اس طرح وہ اپنے جذبات کی تسکین کرتا ہے اور خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی ذہنی اور جذباتی حالت کی وجہ سے اس کی غذائی عادات میں بھی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔

    عموما اس کیفیت میں لوگ فاسٹ فوڈ، کیک، آلو کے چپس اور چاکلیٹ جیسی اشیا کی طرف رغبت محسوس کرتے ہیں۔

    اگر کوئی فرد ذہنی دباؤ اور اس جذباتی کیفیت سے عرصے تک باہر نہیں نکل سکے اور اسی طرح کھاتا رہے تو اس کے بنج اییٹنگ ڈس آرڈر( Binge Eating Disorder) میں مبتلا ہوجانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس میں دماغ میں گلوکوز کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے اور اسی وجہ سے دماغ سست اور ایسا فرد خود کو غیر حاضر محسوس کرتا ہے۔

    اس مرض کی ابتدائی شکل اور عام علامات یہ ہوسکتی ہیں۔

    وقت بے وقت اور بھوک نہ ہونے کے باوجود کھانا۔
    جلدی جلدی منہ چلانا یا تیزی سے کھانا۔
    پیٹ بھر جانے کے باوجود کھانے سے ہاتھ نہ روکنا۔
    خاص طور پر رات کو اٹھ کر کھانا۔

    ایسے افراد کو چاہیے کہہ وہ کسی ماہر معالج سے رجوع کریں۔ اپنے کسی قریبی دوست سے اپنی اس حالت اور کیفیت کا ذکر کریں اور خاص طور پر ذہنی دباؤ سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے ضروری محسوس کریں تو ماہرِ نفسیات سے بھی مشورہ کریں۔

  • ایک بڑے خطرے کی طرف دھکیلنے والے 60 سیکنڈز

    ایک بڑے خطرے کی طرف دھکیلنے والے 60 سیکنڈز

    کیا آپ جانتے ہیں کہ "جنک فوڈ” کا کوئی بھی ٹکڑا معدے میں اترنے سے پہلے چند سیکنڈوں یا لگ بھگ ایک منٹ کے لیے ہی آپ کے منہ میں رہتا ہے، مگر اس سے پیدا ہونے والی چربی زندگی بھر آپ کا پیچھا نہیں‌ چھوڑتی؟

    آپ کی زبان پر جنک فوڈ کا ذائقہ بھی کچھ اِتنی ہی دیر کا مہمان ہوتا ہے، لیکن چربی ہمیشہ کے لیے آپ کو مشکل میں ڈال دیتی ہے۔

    غور کیجیے کہ اکثر چاکلیٹ، آلو کے چپس، پیزا، کیک، برگر اور مختلف بیکری آئٹم یا تلی ہوئی چیزیں کھانے کے دوران آپ پانی یا کوئی دوسرا مشروب استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان اشیا کا ذائقہ بھی جاتا رہتا ہے۔ یوں اس ذائقے اور ذرا سی دیر کے چٹخارے کے لیے آپ بہت سی چکنائی اور چربی جسم میں جمع کرلیتے ہیں۔

    کسی کے لیے بھی کھانے پینے سے ہاتھ روکنا، جنک فوڈ یا تلی ہوئی اور مرغن غذاؤں سے دور رہنا ممکن نہیں، لیکن کھانے پینے میں اعتدال اور خاص طور پر گھر سے باہر کھانے کی اشیا کے حوالے سے حفظانِ صحت کے اصولوں کو ضرور اہمیت دینا چاہیے۔

    جنک فوڈ اور دیگر غذاؤں سے بننے والی یہ چربی ہمارے جسم میں کئی خرابیاں پیدا کرتی ہے اور اس میں سب سے بڑا مسئلہ وزن کی زیادتی ہے. اگر آپ کا وزن بہت بڑھ چکا ہے تو ذیابیطس اور دل کے مختلف امراض کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔

    وزن کم کرنے کے لیے خوراک پر کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی ورزش، اور پیدل چلنا ضروری ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو کام کے دوران بار بار بھوک ستاتی ہے یا وقت کی کمی کے باعث اور گھر سے باہر رہنے کے دوران بھوک لگے تو جنک فوڈ کے بجائے کوئی بھی پھل کھائیں جس سے نہ صرف آپ اپنی بھوک مٹا سکیں گے بلکہ اس طرح چربی اور اور دوسری خرابیاں پیدا ہونے کا امکان بھی بہت کم ہوگا۔

  • آپ دونوں کا وزن میں نہیں کھینچ سکتا!

    آپ دونوں کا وزن میں نہیں کھینچ سکتا!

    نمک دان کے روحِ رواں عبدالمجید لاہوری چوہان اور حضرت چراغ حسن حسرت بھاری بھرکم تھے۔

    وہ سائیکل رکشا کا دور تھا۔ ایک مرتبہ دونوں کو کسی ضروری کام سے صدر جانا پڑا۔ ریڈیو پاکستان کے سامنے تاج محل سنیما ہوا کرتا تھا، دونوں نے وہاں سے رکشا کیا اور کسی طرح پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے۔

    ابھی ریگل سنیما سے دور تھے کہ عبدالمجید لاہوری کو پان یاد آگئے۔ انہوں نے ایک جگہ رکشا رکوایا اور اتر کر سامنے فٹ پاتھ پر موجود پان کے کیبن کی طرف بڑھے۔ اتنے میں حسرت کو یاد آیا کہ اپنے لیے سگریٹ بھی لے لینا چاہیے۔

    انھوں نے رکشے والے سے کہا کہ اتر کر میرے ساتھی کو سگریٹ کے لیے کہہ دو، لیکن اس نے بہانہ کر دیا کہ تھکا ہوا ہوں، آپ خود ہی جائیں۔ مجبوراً حسرت کو رکشے سے اترنا پڑا۔ ادھر وہ نیچے اترے اور اُدھر رکشے والا چل پڑا۔ حسرت نے یہ دیکھا تو آواز لگائی۔

    ارے کہاں بھائی، ٹھہرو ہمیں تو صدر جانا ہے۔

    رکشے والے نے ہاتھ جوڑتے ہوئے زور سے کہا، بابا معاف کرو، آپ دونوں کا وزن میں نہیں کھینچ سکتا، کوئی اور رکشا دیکھ لو۔

    اچھا یہ کرایا تو لے لو۔ رکشے والے نے اس پیش کش کے جواب میں کہا، کرایا بھی آپ رکھیں، آپ اتر گئے یہی بڑی بات ہے۔

    اتنے میں مجید لاہوری واپس آگئے اور رکشے والے کی بابت استفسار کیا تو حسرت مرحوم نے جواب دیا، اوّل تو رکشے والے اٹھاتے نہیں، آج اس نے بٹھا لیا تھا، اور اب ہاتھ جوڑ کر بھاگ نکلا ہے، کرایا بھی چھوڑ گیا۔ یہ سب ہم دونوں کے وزن کی مہربانی ہے۔