Tag: مچھلی

  • پاکستان میں پائی جانے والی دھوتر مچھلی (جیولین گرنٹر) کی پہچان، اقسام اور معلومات

    پاکستان میں پائی جانے والی دھوتر مچھلی (جیولین گرنٹر) کی پہچان، اقسام اور معلومات

    دھوتر مچھلی اپنی لذیذ اور منفرد ذائقے اور صحت بخش غذائیت کے باعث بہت مشہور مچھلی ہے اور اسی وجہ سے اس کی بین الاقوامی طور پر بھی اچھی ڈیمانڈ ہے۔ چوں کہ، ماہی گیری پاکستان کی ایک اہم صنعت ہے اور مچھلی کی برآمدات اس کی صنعت کا اہم حصہ ہیں، دھوتر مچھلی بھی اس برآمدات میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ اسے زیادہ تر خلیجی ممالک اور اس کے بعد چین، تھائی لینڈ، امریکا اور کچھ یورپی منڈیوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

    قیمت


    لذیذ، میٹھے، منفرد ذائقے اور ایکسپورٹ ڈیمانڈ کی وجہ سے اس کی قیمتیں زیادہ ہی رہتی ہیں۔ کراچی فشری میں ایکسپورٹ کوالٹی دھوتر کی قیمت 100 سے 1500 روپے فی کلو رہتی ہے، جو 1800 تک بھی جا سکتی ہے۔

    یہ سمندر میں ریتیلی اور کیچڑ والی تہوں پر رہنا پسند کرتی ہے اور اس کا تعلق Haemulidae فیملی سے ہے۔ یہ ہر طرح سے پکانے پر ذائقہ دیتی ہے، لیکن سب سے زیادہ اس کا سالن اور پھر گرل زیادہ مشہور ہے۔

    پکڑے جانے پر یہ خنزیر کی آواز کے مشابہہ آوازیں نکالتی ہے، جسے ’’گرنٹنگ‘‘ کہتے ہیں، اسی نسبت سے اسے گرنٹر نام ملا ہے۔ پاکستان میں اس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن ذیل میں صرف ان اقسام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو کراچی فشری میں سال بھر نظر آتی ہیں اور عوام میں مقبول ہیں۔

    جیولین گرنٹر


    اسے انگلش میں javelin grunter کہتے ہیں جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadesys kaakan ہے۔

    دھوتر کی نسل میں سب سے زیادہ مشہور اور ذائقے دار یہ والی نسل ہے اور یہی اصلی دھوتر مانی جاتی ہے۔ یہ دو رنگوں، سفید/سلوری اور پیلی/گولڈن میں آتی ہے۔ کراچی فشری میں سفید/سلوری کو وائٹ دھوتر اور دوسری والی کو گولڈن دھوتر کہتے ہیں۔ وائٹ دھوتر ہی اصلی اور ذائقے دار مانی جاتی ہے اور اسی کی ہی زیادہ ایکسپورٹ ڈیمانڈ ہے۔

    کراچی فشری میں اس کی قیمت ایک ہزار سے پندرہ سو روپے فی کلو کے آس پاس رہتی ہے۔ یہ وزن میں عام طور پر ایک سے 3 کلو تک کے سائز میں نظر آتی ہے، جب کہ زیادہ سے زیادہ یہ 5 سے 6 کلو تک بڑھ سکتی ہے۔ عمر میں یہ 7 سے 10 سال تک جی سکتی ہے۔

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل: بحیرہ احمر، خلیج فارس، افریقہ کے مشرقی ساحل سے جنوب مشرقی ایشیا، شمال سے تائیوان، جنوب سے کوئنز لینڈ آسٹریلیا تک ہے۔

    اولڑی دھوتر


    اسے انگلش میں Silver Grunt کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys argenteus ہے۔

    وائٹ اور گولڈن دھوتر کے بعد تیسرے نمبر پر یہ والی نسل کراچی فشری میں زیادہ نظر آتی ہے، اسے فشری میں اولڑی دھوتر یا دوغلا دھوتر کہا جاتا ہے۔ یہ وائٹ اور گولڈن دھوتر سے کم ذائقے دار ہوتی ہے۔

    اس کا رنگ ہلکا سفید سلوری ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ ہلکی سبز یا ہلکی زیتونی رنگ کی بھی نظر آتی ہے۔ کراچی فشری میں اس کی قمیت 500 سے 700 روپے کے آس پاس رہتی ہے۔ اس کے بدن پر دھبے ہوتے ہیں، وزن میں یہ ایک سے 2 کلو تک کے سائز میں نظر آتی ہے، جب کہ یہ 5 سے 7 سال تک جی سکتی ہے۔

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل، بحیرہ احمر سے فلپائن تک (لیکن خلیج فارس سے ریکارڈ کے بغیر)، عمان، کویت، شمال سے جنوبی جاپان، جنوب سے شمالی آسٹریلیا نیو کیلیڈونیا تک ہے۔

    چھوٹے دھبوں والی گرنٹر


    اسے انگلش میں Small Spotted Grunter کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys commersonnii ہے۔ یہ بھی اصلی دھوتر، جیولین دھوتر کی طرح ذائقے دار ہوتی ہے، لیکن بہت زیادہ ماہی گیری کے باعث اب یہ پاکستان میں نایاب ہو گئی ہے اور بہت ہی کم نظر آتی ہے۔

    یہ اولڑی دھوتر سے ملتی جلتی ہے۔ اولڑی دھوتر کا بدن گولائی میں جب کہ اس کا لمبائی میں ہوتا ہے۔ اولڑی کے بدن پر ہلکے گہرے اور کم دھبے جب کہ اس کے بدن پر کالے اور زیادہ دھبے ہوتے ہیں، جب کہ بدن کی طرح اس کا منہ بھی لمبا ہوتا ہے۔

    یہ وزن میں 6 سے 7 کلو تک پہنچ سکتی ہے لیکن پاکستان میں زیادہ ماہی گیری کی وجہ سے ایک سے 3 کلو تک میں پائی جاتی ہے، عمر میں یہ 9 سال تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کا مسکن جنوب مشرقی بحر اوقیانوس، مغربی بحر ہند، جنوبی افریقہ، مشرقی افریقہ، خلیج فارس، سوکوٹرا، سیشلز، مڈغاسکر سے بھارت کے شمال مغربی ساحل تک ہے۔

    کاک گرنٹر


    اسے انگلش میں cock grunter کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys multimaculatus ہے۔ اس کا مسکن بحر ہند، افریقہ کے مشرقی ساحل سے آسٹریلیا تک ہے۔

    اس کی جسمانی ساخت اولڑی دھوتر کی طرح ہوتی ہے اور بدن پر دھبے اسمال سپاٹڈ گرنٹر کی طرح ہوتے ہیں، لیکن دھبے گہرے بھورے ہوتے ہیں اور اس کے منہ پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ وزن میں ایک سے 2 کلو تک پہنچتی ہے جب کہ 6 سے 7 سال تک جی سکتی ہے۔

    سیڈل گرنٹ


    اسے انگلش میں Saddle Grunt fish کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنٹفک نام Pomadasys maculatus ہے۔ اس کا مسکن ہند-مغربی بحر الکاہل، بحر ہند، شمال سے چین، جنوب سے آسٹریلیا تک ہے۔

    اس کی جسمانی ساخت جیولین دھوتر سے ملتی جلتی ہے۔ جیولین لمبائی میں جب کہ یہ تھوڑی سی گولائی میں ہوتی ہے۔ اس کی ڈورسل فن (کمر کا پنکھ) پر ایک کالا دھبا ہوتا ہے اور کمر سے نیچے پیٹھ کر طرف بریکٹ کی شکل کی کئی موٹی دھاریاں ہوتی ہیں، جو کہ بیچ بیچ میں کٹی ہوئی بھی ہو سکتی ہیں۔

    یہ وزن میں 2 کلو تک ہوتی ہے اور عمر میں 8 سال تک جی سکتی ہے۔

  • 30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں؟

    30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں؟

    آپ حیران رہ جائیں گے کہ 30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی محض 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں ہوتی ہے؟ یہ صفائی کارکن ’’بلو اسٹریک کلینر وراس‘‘ مچھلی کی حیرت انگیز داستان ہے۔

    ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل صفائی ستھرائی سے مشروط ہے، انسانوں کی طرح جانور بھی خود کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اور حفظان صحت کے لیے ہر نوع مختلف اور دل چسپ طریقے اختیار کرتا ہے، ان کے یہ طریقہ ہائے کار ان کے ماحول اور ارتقائی ضروریات کی عکاسی کرتے ہیں، جو ان کی صحت، سماجی تعاملات اور بقا کو برقرار رکھتے ہیں۔

    سمندری جان دار بھی اپنی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے ہیں، کچھ اپنی صفائی خود کرتے ہیں اور کچھ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔

    کلینر فش

    انڈوـ پیسیفک خطے میں رہنے والی ایک مچھلی جس کا نام Bluestreak Cleaner Wrasse ہے، ایک صفائی کارکن ہے جو دوسری مچھلیوں کی صفائی کرتی ہے اور معاوضے میں اسے کھانا ملتا ہے۔ اس کا سائنٹفک نام Labroides dimidiatus ہے، جب کہ اس تعلق Labridae فیملی سے ہے۔

    مسکن


    اس کا مسکن ہند-بحرالکاہل، خلیج فارس، بحیرہ احمر، مشرقی افریقہ سے لائن، مارکیساس اور ڈوکی جزائر، شمال سے جنوبی جاپان، جنوب میں لارڈ ہوے، راپا جزائر اور گریٹ بیریئر ریف (آسٹریلیا ) تک ہے۔

    رنگ، عمر، وزن اور لمبائی


    یہ لمبائی میں 5 انچ تک بڑھ سکتی ہے، جب کہ وزن میں 15 سے 30 گرام تک ہو سکتی ہے، عمر میں یہ 4 سے 6 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا جسم پتلا اور لمبا ہوتا ہے، رنگ نیلا اور سفید، پیٹ کے اوپری سمت منہ سے لے کر دم تک ایک کالی پٹی ہوتی ہے اور تھوتھنی نوک دار ہوتی ہے، جب کہ پیٹ سفید سے پیلا ہوتا ہے۔

    یہ مرجان کی چٹانوں (کورل ریف) میں رہتی ہے، چٹانوں میں یہ گروپ کی صورت میں بھی رہتی ہے اور حرموں میں بھی۔ ایک نر کے حرم میں کئی مادائیں ہوتی ہیں۔ نر کے مرنے کے بعد ماداؤں میں سے سب سے بڑی مادہ جنس تبدیل کر کے نر بن جاتا ہے اور پھر وہ اسی حرم کی قیادت کرتا ہے، جنس کی اس تبدیلی میں 14 سے 18 دن لگتے ہیں۔ یہ اپنا جنس تبدیل کر سکتی ہے کیوں کہ یہ protogynous hermaphrodite ہوتی ہیں۔ پروٹائجینس ہرمافروڈائٹ وہ جان دار ہوتے ہیں جو اپنی زندگی ایک مادہ کے طور پر شروع کرتے ہیں اور بعد میں جنس تبدیل کر کے نر بن سکتے ہیں۔

    کلیننگ اسٹیشن (صفائی مرکز)


    چٹانوں میں یہ جہاں مچھلیوں کی صفائی کرتی ہیں، ان جگہوں کو کلیننگ اسٹیشن کہا جاتا ہے، مچھلیاں صفائی کے لیے کلیننگ اسٹیشن کے قریب آتی ہیں تو یہ اپنے مسکن سے نکل کر ان کے سامنے اپنی دستیابی کےلیے ایک مخصوص ڈانس کرنے لگتی ہے۔

    یہ تیزی سے آگے پیچھے ہوتے ہوئے اپنے بدن کے پچھلے حصے کو اٹھا اٹھا کر پھڑپھڑانے لگتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ایک ہی سمت، یعنی اوپر کی سمت ٹھمکے لگا رہی ہے۔ ان کا نیلا رنگ اور کالی پٹی ایک یونی فارم کی طرح کام کرتی ہے اور صفائی کے لیے آنے والی مچھلی اسے اسی رنگوں سے شناخت کرتی ہے۔ ڈانس سے صفائی کے لیے آنے والی مچھلی کو پتا چل جاتا ہے کہ بلوسٹریک صفائی کے لیے تیار ہے۔

    مچھلی کلیننگ اسٹیشن پر آ کر منہ اور گلپھڑے کھول کر ساکت ہو جاتی ہے اور بلوسٹریک اس کے بدن سے ایکٹو پیراسائٹس، خراب یا مردہ ٹشوز اور دیگر گندگی نوچ کر کھانے لگتی ہے۔ یہ ان کے گلپھڑے اور منہ کے اندر تک گھس کر صفائی کرتی ہے۔ رش کے وقت مچھلیاں لائن لگا کر اپنی باریوں کا انتظار کرتی ہیں۔

    کلیننگ اسٹیشنز پر مختلف انواع کی مچھلیاں ہوتی ہیں اور یہ منظر بہت ہی پیارا اور حیران کر دینے والا ہوتا ہے، جو کلیننگ اسٹیشن پر مختلف انواع میں باہمی تعلق کی شان دار مثال پیش کرتا ہے۔ ان کلیننگ اسٹیشنوں پر خطرناک چیر پھاڑ والی شکاری مچھلیاں جیسے کہ شارک، مورے ایل، بیرا کوڈا اور گروپرز بھی آتے ہیں اور بلو سٹریک بلا خوف انھیں اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔

    ماہرین کی تحقیق


    سوئٹزرلینڈ اور پرتگال کی یونیورسٹیوں کی جانب سے مصر کے ’’راس محمد نیشنل پارک‘‘ میں بلو سٹریک راس پر تحقیق کی گئی تھی، جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ صفائی سے مچھلیوں کی صحت پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تحقیق کی شروعات انھوں نے مرجان کی چٹانوں میں رہنے والی مچھلیوں کے 2 گروپ بنا کر کی۔ ایک گروپ کو بلو سٹریک تک رسائی تھی جب کہ دوسرے گروپ کو نہیں تھی۔

    نتائج میں پایا گیا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک جس گروپ کی رسائی نہیں تھی ان کے مقابلے رسائی والی مچھلیوں کی صحت بہتر تھی، ماہرین حیاتیات نے یہ بھی پایا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک رسائی والی مچھلیوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت کرنی والی مخصوص اینٹی باڈیز کی نمایاں طور پر زیادہ پیداوار پائی گئی تھی۔

    اینٹی باڈیز وہ پروٹین ہوتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کے ذریعے باہری حملہ آوروں جیسے بیکٹیریا، وائرس اور زہریلے مادوں سے لڑنے کا کام کرتے ہیں، اور جسم کے مدافعتی نظام ( امیون سسٹم) کو طاقت دیتے ہیں۔ طاقت ور امیون سسٹم تولیدی عمل (انڈوں اور بچوں کی پیداوار) کو بڑھاتا ہے۔

    اس کے علاوہ ٹیم نے یہ بھی پایا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک رسائی والے گروپ کے مقابلے دوسرے گروپ میں ’کورٹیسول‘ کا لیول زیادہ تھا۔

    کورٹیسول ایک ہارمون ہے اسے ’سٹریس ہارمون‘ بھی کہتے ہیں، یہ جسم میں بڑی بڑی اور خطرناک دائمی امراض کی پہلی اسٹیج ’سوزش‘ (انفلامیشن) کو کم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں شوگر، بلڈ پریشر، کینسر، ٹینشن، ڈپریشن، پٹھوں کی کمزوری، دل اور ہڈیوں کے امراض سے بچا جا سکتا ہے اور یہ بیماریوں کے خلاف لڑنے والے بدن کے ’امیون سسٹم‘ کو بھی طاقت دیتا ہے۔ اس کی بلند سطح مندرجہ بالا بیماریوں کو جنم دیتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عمل تولید ( انڈوں یا بچوں کی پیداوار) کو بھی کم کرتی ہے۔

    پاکستان میں موجودگی


    پاکستانی پانیوں میں اس کی موجودگی کی تصدیق کرنے والی کوئی وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ سائنسی ریکارڈ یا سروے دستیاب نہیں ہے، حالاں کہ یہ ہند بحر الکاہل میں رہتی ہے جہاں پاکستان میں پائی جانی والی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ اصل میں یہ صحت مند مرجان کی چٹانوں کے ساتھ صاف اور گرم پانیوں میں پروان چڑھتی ہے۔ بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ساحلی پٹی میں مرجان کی چٹانوں کے حالات ناقص ہیں، اور کم ہے اور پانی بھی بہت صاف ستھرا نہیں ہے۔

    گھروں کا سارا گندا پانی، گندے نالوں اور فیکٹریوں کا کیمیکل ملا زہریلا پانی فلٹر ہوئے بغیر سمندر میں جا کر اسے آلودہ کر رہا ہے، جس سے ایک تو ہمارے کورل ریف (مرجان کی چٹانیں) جو سمندری حیات کے لیے انتہائی اہم ہیں، برباد ہو رہی ہیں، دوسرا فی زمانہ واحد قدرتی غیر ملاوٹی صحت مند غذا، جو سمندری غذا کی صورت میں ہمیں میسر ہے، اسے آلودہ اور غیر معیاری بنا رہا ہے۔

    یہ دو طرفہ الودگی یعنی کہ سمندر میں گندگی پھینکنے کی اور اسی گندگی کی وجہ سے بلو سٹریک اور اس جیسی صفائی والی مچھلیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے، مچھلیوں کی صحت بھی بہتر نہیں ہے، اس لیے انھیں کھا کر ہمیں ویسے فوائد حاصل نہیں ہوتے ہوں گے جو ہونے چاہئیں۔

    بلوسٹریک مغربی بحر ہند کے کچھ حصوں میں پائی جاتی ہے جیسے کہ عمان، یمن، اور مغربی بھارت۔ جیسا کہ تحقیقات سے پتا چلتا ہے بلو اسٹریک کا سمندری ماحولیاتی کردار میں کتنا اہم مقام ہے، کیوں کہ یہ مچھلیوں کی صفائی کر کے ان میں پھیلنی والی بیماریوں کو کم کرتی ہے اور مچھلیوں کی حفظان صحت کو بہتر بنا کر ہمیں صحت بخش غذا تو دیتی ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ مچھلیوں میں ان کی اچھی صحت کے ذریعے ان کی بقا اور تولیدی عمل کو بھی تقویت دیتی ہے۔

    اچھی صحت اور ایک صحت مند معاشرے کے لیے ہم انسانوں کو اس ننھی سی جان سے ہی سبق لے کر خود کو آس پاس کے ماحول کو اور سمندر کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے، خاص طور پر متعلقہ اداروں کو، کہ اب خواب غفلت سے جاگ کر اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور پوری ایمان داری سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے سمندر کی صفائی کے لیے کڑے سے کڑے اقدامات اٹھائیں، کہ سمندر جو ہمیں اتنا کچھ دے رہا ہے اب ہم بھی اسے صاف ستھرا رکھ کر اس کا احسان اتاریں۔ اس میں ہماری ہی بقا ہے۔

  • ویڈیو: ’’یہ مچھلی ہے یا کوئی بھوت‘‘ سب کو ڈرانے والی یہ مخلوق کہاں ملی؟

    ویڈیو: ’’یہ مچھلی ہے یا کوئی بھوت‘‘ سب کو ڈرانے والی یہ مخلوق کہاں ملی؟

    قدرت کے مظاہر آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں ایسا ہی ایک خوفناک شکل کی آبی مخلوق سمندر سے پکڑی گئی جس کو دیکھ کر سب ڈر گئے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس مین ایک ماہی گیر نے گہرے سمندر سے ایک ایسی عجیب الخلقت مچھلی پکڑی ہے جو اس سے پہلے کبھی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھی اور وہ پہلی نظر میں دیکھنے میں زمین نہیں بلکہ کوئی بہت بڑا بھوت لگتی ہے۔

    ماہی گیر رومن فیڈورٹسوو، جو سمندری مخلوقات کی انوکھی تصاویر شیئر کرنے کے لیے مشہور ہیں، نے حالیہ دریافت میں ’لمپ سکر‘ نامی ایک نایاب مچھلی کی ویڈیو پوسٹ کی۔

    مچھلی کو جہاز کی ریلنگ پر رکھی دیکھا جا سکتا ہے، جس کا جیلی نما جسم اور غیر معمولی خدوخال اسے اور بھی خوفناک بناتے ہیں۔

     

    اس مچھلی کو دیکھ کر لوگوں نے اسے ’Mars Attacks‘ اور ’Megamind‘ فلموں کے خلائی کرداروں سے تشبیہ دی۔

    اس قوی الجثہ آبی مخلوق کو اس کے ڈراؤنے خدوخال کے باعث صارفین نے ایلین (کسی اور سیارے کی مخلوق) کہنا شروع کردیا ہے۔

    ایک صارف نے تبصرہ کیا: "یہ تو 100% خلائی مخلوق لگ رہی ہے!، دوسرے نے مذاق میں لکھا: "کہیں یہ چرنوبل کی پیداوار تو نہیں؟” کچھ نے تو مچھلی کو ’خطرناک‘ قرار دے کر اسے ختم کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا۔

    دوسری جانب آبی حیات کے ماہرین کے مطابق یہ مچھلی گہرے پانی میں رہتی ہے اور سمندر سے باہر لانے پر دباؤ میں تیزی سے کمی کے باعث ان کا جسم پھول جاتا ہے۔

  • تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ مچھلی (Silver pomfret) کی پہچان، صحت بخش فوائد اور مکمل معلومات

    تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ مچھلی (Silver pomfret) کی پہچان، صحت بخش فوائد اور مکمل معلومات

    فرید الحق حقی

    مچھلیوں کی دنیا میں سفید پاپلیٹ سب سے مشہور اور مہنگی مچھلی ہے۔ اپنی خوب صورتی اور زبردست ذائقے کی وجہ سے سب ہی اسے جانتے ہیں۔ پاپلیٹ کھانے میں مکھن کی طرح نرم و ملائم ہے، لیکن اس کی لذت اور اصل ذائقہ تب ہی مل سکتا ہے جب یہ تازی کھائی جائے۔

    بدقسمتی سے عوام کی مچھلیوں سے عدم دل چسپی کے باعث مچھلیوں کی خریداری میں دھوکے بازیاں بہت عام ہیں اور لوگ باسی مچھلیاں تازی کے بھاؤ خرید کر، اور سستی مچھلیاں مہنگی مچھلیوں کے ناموں سے خرید کر لٹ جاتے ہیں اور انھیں پتا بھی نہیں چلتا۔ ایسی مچھلیاں کھا کر ایک تو مزا نہیں آتا، دوسرا صارفین کا دل اس طرف سے کھٹا ہو جاتا ہے اور کچھ صارفین مچھلیاں خریدنے سے اجتناب کرنے لگتے ہیں۔

    اس مضمون میں آپ سفید پاپلیٹ کی تازہ اور باسی کی پہچان، تازہ کہاں سے خریدی جائے؟ اس کے صحت بخش فوائد اور اس کے مکمل لائف سائیکل کے بارے میں جانیں گے۔

    تعارف

    سفید پاپلیٹ کو انگلش میں Silver pomfret کہتے ہیں، جب کہ انڈیا میں اسے ممبئ کے اطراف سفید پاپلیٹ کی بجائے صرف پاپلیٹ اور بنگال میں ’’روپ چندا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ عربوں میں بھی بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے اور عربی اسے ’’زبیدی‘‘ کہتے ہیں۔ زبیدی عربی کے لفظ ’’زبدہ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی مکھن کے ہیں۔

    چاندی والا سفید پاپلیٹ

    مارکیٹ میں اس کی 2 قسمیں آتی ہیں۔

    1. Silver pomfret

    (Pampus argenteus)

    2. Chinese Silver Pomfret

    (Pampus chinensis)

    چائنیز پاپلیٹ کو پاکستان میں ’’گبر پاپلیٹ‘‘ جب کہ انڈیا میں ’’کاپری‘‘ کہتے ہیں۔ مارکیٹ میں پاپلیٹ کی تیسری قسم Black Pomfret (Parastromateus niger) بھی آتی ہے۔ اسے پاکستان میں ’’کالا پاپلیٹ‘‘ جب کہ انڈیا میں ’’حلوہ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن کالے پاپلیٹ کا تعلق Carangidae فیملی سے جب کہ سفید پاپلیٹ کا Stromateidae فیملی سے ہے۔

    عمر اور خوراک

    سفید پاپلیٹ 5 سے 7 سال تک جی سکتی ہے، جب کہ وزن میں 4 سے 6 کلو تک بڑھ سکتی ہے، لیکن بہت زیادہ شکار کے باعث اس کی 1 کلو کے اور 1 کلو سے کم ہی کے دانے نظر آتے ہیں۔ یہ گوشت خور ہوتی ہیں اور بنیادی طور پر چھوٹی مچھلیوں، کرسٹیشینز (کیکڑے، جھینگے، لابسٹر وغیرہ) زو پلانکٹن (چھوٹے جان دار) اور سکوئیڈ کھاتی ہیں۔

    گبر پاپلیٹ

    جنسی پختگی کی عمر اور انڈوں کی تعداد

    سفید پاپلیٹ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور ماحولیاتی حالات کے لحاظ سے مختلف لمبائیوں اور عمروں میں جنسی پختگی کو پہنچتے ہیں۔ تاہم، عام طور پر یہ 28 سینٹی میٹر تک کی لمبائی میں مکمل طور پر پہلی بار جنسی پختگی کو پہنچتے ہیں، جس کی رینج 18 سینٹی میٹر سے شروع ہوتی ہے۔

    ڈیپارٹمنٹ آف فش بائیو لوجی اینڈ بائیو ٹیکنالوجی فیکلٹی آف فشریز، چٹاکانگ بنگلا دیش، اور کوسٹل بائیو ڈائیورسٹی، مرین فشریز اینڈ وائلڈ لائف ریسرچ سینٹر بنگلا دیش کی تحقیق کے مطابق بنگلا دیش کے پانیوں میں سفید پاپلیٹ کی جنسی پختگی تک پہچنے کی لمبائی 18.82 سینٹی میٹر سے لے کر 35.73 سینٹی میٹر تک تھی اور وزن 89.26 گرام سے لے کر 617.60 گرام تھا۔ پختگی پر عمر تقریباً 1 سال تک کی ہوتی ہے، حالاں کہ ماحولیاتی عوامل اور مقامی سپوننگ سائیکل ان میٹرکس میں رد و بدل کر سکتے ہیں۔

    سفید پاپلیٹ بیچز میں انڈے دیتی ہے۔ عام طور پر 1 کلو کی مادہ ایک بیچ میں 1,76,300 تک انڈے دیتی ہے اور یہ انڈے دینے کے ایک پورے سیزن میں تقریباً 6 بیچز میں انڈے دیتی ہے، اس طرح 1 سیزن میں ایک 1 کلو کی مادہ کل 10,58000 تک انڈے دیتی ہے۔ بڑی مادائیں چھوٹی ماداؤں سے زیادہ انڈے دیتی ہیں۔ ماداؤں کے انڈے دینے کے بعد نر ان انڈوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انڈوں کے قریب اپنے پنکھ چلاتے ہوئے انھیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور تب تک انڈوں کی حفاظت کرتے ہیں جب تک ان انڈوں سے بچے نہ نکلیں۔

    کیا سفید پاپلیٹ کی نسل خطرے سے دوچار ہے؟

    حالاں کہ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) کی ریڈ لسٹ میں سفید پاپلیٹ کی نسل خطرے سے دوچار کی حثیت سے درج نہیں ہے، تاہم کچھ علاقائی رپورٹس میں کچھ علاقوں میں جیسے انڈیا، کویت اور چین میں ضرورت سے زیادہ تجارتی ماہی گیری کی وجہ سے اس کی نسل میں کمی ہو رہی ہے اور اب اس کے زیادہ سے زیادہ 1 کلو اور 1 کلو سے کم ہی کے دانے پکڑے جاتے ہیں، حالاں کہ یہ وزن میں 4 سے 6 کلو تک پہنچ سکتی ہیں۔

    سفید پاپلیٹ

    حد سے زیادہ تجارتی ماہی گیری اس مچھلی کی کم پختگی کی شرح اور کم ہوتی ہوئی ابادی کو صاف ظاہر کرتی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق سفید پاپلیٹ 28 سینٹی میٹر تک کی لمبائی میں جنسی پختگی تک پہنچتی ہیں اور وزن میں تقریباً 500 گرام تک ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ کم سے کم وزن وہ ہے جب ان کی جنسی پختگی شروع ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ وزن وہ ہ ہے جب یہ اپنی فل میچیورٹی یعنی کہ اپنی پہلی مکمل جنسی پختگی تک پہنچ جاتی ہیں۔

    کراچی فشری

    کراچی فشری میں لائی جانے والی زیادہ تر پاپلیٹ اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ 1 کلو میں 4 اور 6 دانے نکلتے ہیں، یعنی اس وزن میں جب یہ اپنے پہلی جنسی پختگی کو پہنچتی ہیں، یا پہنچنے والی ہوتی ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عمر میں ہی انھیں فوراً شکار کر لیا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کراچی فشری اور مارکیٹوں میں سفید پاپلیٹ کی ایسی بڑی بڑی ڈھیریاں بھی جا بہ جا نظر آتی ہیں، جن میں اس مچھلی کا وزن 100 گرام اور 150 گرام تک ہوتا ہے، یعنی کہ انھیں جنسی پختگی تک پہچنے سے پہلے ہی شکار کر لیا جاتا ہے۔

    سفید پاپلیٹ

    متعلقہ ڈپارٹمنٹس کو اس پر فوراً نوٹس لے کر گورنمنٹ پر دباؤ ڈال کر 500 گرام سے کم وزن والی سفید پاپلیٹ کے پکڑنے پر پابندی لگانی چاہیے، ورنہ اس شان دار مخلوق کی نسل جو کہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت زیادہ مفید ہے، دھیرے دھیرے ختم ہو جائے گی۔

    تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ کی پہچان

    تازہ پاپلیٹ کو جب آپ اٹھا کر سر سے پکڑیں گے تو یہ مڑنے کی بجائے بالکل سیدھی رہے گی اور گوشت سخت ہوگا۔ اگر مچھلی لٹک جاتی ہے اور گوشت نرم ہے تو یہ باسی ہے۔

    سفید پاپلیٹ

    اس کے بدن پر چاندی ہوگی، اکثر برف لگنے سے چاندی اتر جاتی ہے، اس صورت میں گلپھڑوں کا پنکھ اٹھا کر دیکھیں چاندی ہوگی، اگر چاندی نہی ہے تو یہ باسی ہو چکی ہے۔ اس کے گلپھڑے دبانے پر اس میں سے سفید گاڑھا مواد نکلے گا، اگر مواد سفید کی بجائے لال یا کالا نکلتا ہے تو پھر یہ باسی مچھلی ہے۔

    مچھلی فروشوں کی دھوکے بازیاں

    نرم اور باسی پاپلیٹ کو مچھلی فروش سخت اور تازی بنانے کے لیے اسے کچھ گھنٹے یا 1 دن تک برف اور نمک کے پانی میں رکھتے ہیں۔ اس صورت میں پاپلیٹ کا بدن سخت اور کھال بالکل سفید ہو جاتی ہے، آپ سے اٹھا کر دیکھیں گے تو یہ بالکل سیدھی رہے گی اور سخت ہوگی۔ ایسی پاپلیٹ مچھلیوں کو فشری کی اصطلاح میں ’’چل واٹر مال‘‘ کہتے ہیں۔

    اس کی پہچان یہ ہے کہ ایسی پاپلیٹ دھلی ہوئی، بالکل صاف و شفاف اور سفید نظر آئے گی، اس پر چاندی بالکل بھی نہیں ہوگی اور اس کے گلپھڑے دبانے پر اس میں سے ہلکا سا لال رنگ کا پانی نکلے گا۔

    مچھلی فروش ’’گبر پاپلیٹ‘‘ کو بھی سفید پاپلیٹ کے نام سے فروخت کرتے ہیں۔ گبر سفید پاپلیٹ سے سستی ہوتی ہے، اس کے علاوہ مچھلی فروش ’’سوناب مچھلی‘‘ (Pompano fish) کی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں (سوناب کے 100 اور 200 گرام کے بچے، جو کہ سفید پاپلیٹ کی طرح نظر آتے ہیں) بھی سفید پاپلیٹ کہہ کر بیچتے ہیں۔

    کراچی میں تازہ کہاں ملے گی؟

    کراچی فشری میں 2 مارکیٹیں لگتی ہیں۔ رات کی مارکیٹ کو ’’گجہ مارکیٹ‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں زیادہ تر وہ مچھلیاں آتی ہیں، جو جال کے ذریعے شکار کی جاتی ہیں اور اس مارکیٹ میں ان لانچوں کی مچھلیاں آتی ہیں، جو لانچیں زیادہ تر مہینہ یا اس سے زیادہ تک سمندر میں شکار کرتی ہیں۔

    دوسری مارکیٹ کو ’’ھیلہ مارکیٹ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مارکیٹ دوپہر 3 بجے سے مغرب تک لگتی ہے اور اس میں 1 سے 2 دن والی شکار کی ہوئی مچھلیاں آتی ہیں۔ یہ ایکسپورٹ کوالٹی کی مچھلیاں ہوتی ہیں، اور جال کی بجائے کانٹے سے شکار کی ہوئی ہوتی ہیں، اس لیے بالکل تازہ ہوتی ہیں اور ان کی قیمت بھی صبح کی مارکیٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔

    لیکن کچھ مچھلیاں جس میں سفید پاپلیٹ بھی شامل ہے، شام کی مارکیٹ کی بجائے صبح کی مارکیٹ میں تازہ ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ریڑی گوٹھ اور ابراھیم حیدری سے بھی تازہ مل جاتی ہے۔

    قیمت

    پاپلیٹ کی قیمت اس کے وزن کے حساب سے ہوتی ہے، مستقل ایکسپورٹ کیے جانے کی وجہ سے اس کی قیمتیں سارا سال زیادہ ہی رہتی ہیں۔ 1 کلو والے دانے کی قیمت تقریباً 7 ہزار روپے، آدھا کلو والے دانے کی تقریباً 5 ہزار، 1 کلو میں 4 دانے والی کی تقریباً 4 ہزار، 1 کلو میں 6 اور 8 دانے والی کی تقریباً 3 ہزار، اور 1 کلو میں 10 دانے والی مچھلی کی تقریباً ڈھائی ہزار روپے تک قیمت ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ قیمتیں مارکیٹ میں سپلائی اور ڈیمانڈ کے حساب سے کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔

    صحت بخش فوائد

    لذیذ ذائقے اور خوب صورتی کے ساتھ ساتھ سفید پاپلیٹ صحت بخش فوائد سے بھی مالا مال ہے۔ کوئٹہ ویمن یونیورسٹی شعبہ زولوجی کے سردار بہادر خان، وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ کراچی پاکستان، انقرہ ترکی کی غازی یونیورسٹی، برونائی یونیورسٹی دارالسلام کی مشترکہ تحقیق جو کہ بلوچستان سے پکڑے گئے 40 سفید پاپلیٹ مچھلیوں کے نمونوں پر مشتمل تھی، کے مطابق پاپلیٹ کا گوشت انتہائی ہاضم ہوتا ہے جو کہ وٹامن اے، بی، بی 3، سی، ڈی، ای، اور وٹامن کے سے بھرپور ہوتا ہے۔

    اس کا گوشت پروٹین سے بھرپور اور کیلوریز میں کم ہوتا ہے، مذکورہ ٹیم نے یہ بھی پایا کہ اس کا گوشت صحت مند جلد کو فروغ دینے میں بہت ہی زیادہ کار آمد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے گوشت میں صحت بخش چربی جسے ’’پولی ان سیچوریٹڈ فیٹ‘‘ کہتے ہیں اور اومیگا تھری کی بھی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں آئرن، کیلشیئم اور سیلینیم کی بھی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ یہ وہ تمام ضروری وٹامنز ہیں جو کہ اگر مستقل بنیادوں پر لیے جائیں تو ایک فولادی و انتہائی صحت مند اور بیماریوں سے پاک وجود کو بہ خوبی و آسانی سے تشکیل دے سکتے ہیں۔

    مرکری کی سطح

    چین کے تین اداروں چائنا نیشنل آف شور آئل کارپوریشن (CNOOC) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لمیٹڈ بیجنگ، کالج آف میرین لائف سائنسز اوشین یونیورسٹی آف چائنا چنگ ڈاؤ، اور میرین کاربن سنک ریسرچ سینٹر شیڈونگ نے چین کے تین ساحلی علاقوں Beibu Gulf, Haizhou Bay, Laizhou Bay میں مرکری کی جانچ کے لیے مشترکہ تحقیق کی تھی، اس کے مطابق ٹیم نے پایا کہ تینوں علاقوں میں پاپلیٹ میں مرکری کی الگ الگ سطح ریکارڈ کی گئی۔

    سب سے کم سطح Haizhou Bay میں 0.012 ± 0.006 (mg/kg/dw) تھی جب کہ سب سے زیادہ مرکری Beibu Gulf میں 0.072 ± 0.026 (mg/kg/dw) ریکارڈ کی گئی۔ یہ مرکری اتنا کم ہے کہ سفید پاپلیٹ روز کھائی جا سکتی ہے۔

  • تیز نظروں والے 10 سیکنڈ میں تصویر میں مچھلی ڈھونڈ کر دکھائیں

    تیز نظروں والے 10 سیکنڈ میں تصویر میں مچھلی ڈھونڈ کر دکھائیں

    ویسے تو آپ انٹرنیٹ پر روزانہ ہی مشکل پہیلیاں حل کرتے ہوں گے لیکن آج ہم آپ کیلیے ایک ایسی پہیلی لائے ہیں جسے حل کرنے میں آپ یقیناً سوچ میں پڑجائیں گے۔

    اس قسم کی تصویری پہیلیاں نہ صرف دلچسپی کی حامل ہوتی ہیں بلکہ اس سے آپ اپنی ذہانت کو بھی جانچ سکتے ہیں، کیوں یہ ایک دل چسپ آئی کیو ٹیسٹ کی طرح ہے۔

    یہ تصویری پہیلی بھی آپ کی ذہانت اور باریک بینی سے دیکھنے کی عادت کے لیے ایک زبردست چیلنج ہے، تو تیار ہوجائیں اور اس تصویر کو بہت غور سے دیکھیں۔

    آپ کو اس گھنے جنگل کے ایک درخت کی شاخ پر ایک چیتا نظر آرہا ہوگا لیکن آپ نے اس تصویر میں ایک مچھلی کو تلاش کرنا ہے، صرف ذہین لوگ ہی اس مچھلی کو 10سیکنڈ کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔

    یہ آپ کی نگاہ کی تیزی کا زبردست امتحان لیتی ]پہیلی تصویر ہے، جس میں ایک جگہ مچھلی موجود ہے، اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اسے تلاش کرنے کا چیلنج آپ کے لیے بہت مشکل ثابت ہوگا۔

    اگر آپ اس تصویری پہیلی کو حل کرنے سے قاصر ہیں، تو پریشان نہ ہوں، ہم نیچے دی گئی تصویر میں آپ کی یہ مشکل بھی آسان کیے دیتے ہیں۔


    تصویر کے درخت کی شاخ پر لیٹے ہوئے چیتے کے سر کے اوپر ٹہنی کو غور سے دیکھیں، درخت کی اس شاخ پر پتوں کے ساتھ مچھلی بھی ہے جسے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

    کیا آپ درست جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے تھے؟ کمنٹس سیکشن میں ضرور بتائیں۔

  • مچھلی سے بھرا ٹرک الٹنے کے بعد کیا ہوا؟ ویڈیو وائرل

    مچھلی سے بھرا ٹرک الٹنے کے بعد کیا ہوا؟ ویڈیو وائرل

    حیدرآباد: بھارتی ریاست تلنگانہ کے ایک علاقے میں مچھلیوں سے بھرا ٹرک الٹ گیا، عوام مچھلیاں لوٹنے کے لیے ٹوٹ پڑے، جس کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔

    ریاست تلنگانہ کے ضلع محبوب آباد میں مچھلیاں لے جانے والا ایک ٹرک بے قابو ہو کر الٹ گیا، اور تمام مچھلیاں سڑک پر پھیل گئیں، مقامی لوگ ان مچھلیوں کو مال غنیمت سمجھ کر ٹوٹ پڑے۔

    کچھ شہریوں نے لوٹ مار کے اس منظر کو موبائل کیمروں میں ریکارڈ کر لیا، یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئیں۔ واضح رہے کہ پیٹرول سے بھرے ٹینکر الٹنے کے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں اور لوگ پیٹرول لوٹنے بھی آ جاتے ہیں لیکن تلنگانہ میں مچھلی سے بھرے ٹرک کا یہ واقعہ منفرد تھا، ماضی میں جنوری 2021 میں چھتیس گڑ کے شہر رائے پور میں مچھلیوں سے بھرا ٹرک الٹا تھا۔

    ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ مچھلی لوٹنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، معلوم ہوا کہ یہ ٹرک کھمّم ضلع سے ورنگل ضلع کی سمت جا رہا تھا کہ اس کے ڈرائیور نے اس کا توازن کھو دیا اور ٹرک الٹ گیا۔

    حادثے میں ایک شخص کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے، حادثے کے باعث سڑک پر ٹریفک بھی جام ہو گیا تھا، جسے بعد ازاں پولیس اہلکاروں نے بحال کر دیا۔

  • مچھلی کے گانے کی انوکھی آواز

    مچھلی کے گانے کی انوکھی آواز

    دنیا کا ہر جاندار اپنی مخصوص زبان میں اپنے ساتھیوں سے رابطہ اور گفتگو کرتا ہے جن میں زیر آب رہنے والے جاندار بھی شامل ہیں، ماہرین نے حال ہی میں ایک مچھلی کی آواز کو ریکارڈ کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں سنی جاسکی تھی۔

    آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں واقع کرٹن یونیورسٹی کے رابرٹ مک کولی اور ان کے ساتھیوں نے 18 ماہ تک ہیڈ لینڈ کی بندرگاہ کے پاس قوالوں کی طرح ایک آواز میں گانے والی مچھلیوں کی ریکارڈنگ کی ہے۔

    انہوں نے 7 ایسے نغمے ریکارڈ کیے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں، یہ ایک طرح کی مچھلی کی آواز ہے جسے بلیک اسپوٹڈ کروکر کہا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ٹیراپن مچھلیوں کی آواز بھی شامل ہوگئی ہے۔

    اس سے قبل وہیل اور ڈولفن کی صدائیں ہم سن چکے ہیں لیکن مچھلیوں کے غول کو اس طرح گاتے ہوئے پہلی مرتبہ سنا گیا ہے۔

    ان مچھلیوں کا گیت سن کر ایسا لگتا ہے کہ کوئی بزر بج رہا ہے۔

    آوازوں کا تبادلہ بعض مچھلیوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اپنی صداؤں سے وہ نسل خیزی، غذا حاصل کرنے اور علاقے کے جھگڑے نمٹانے میں مدد لیتی ہیں۔

    یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں آبی حیات کے ماہر اسٹیو سمپسن کہتے ہیں کہ جس طرح صبح اور شام چڑیاں شور مچا کر اپنے علاقے کی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہیں، عین اسی طرح مچھلیاں بھی اپنے علاقے کی نگرانی کرتی ہیں۔

  • تازی اور باسی مچھلی کی پہچان، مچھلیوں کی تازگی کے گریڈز

    وقاص رفیق

    مچھلی انسانی غذا کا ایک بہت اہم جز ہے، مچھلی میں وہ خاص پروٹینز اور معدنیات پائی جاتی ہیں جو عام طور پر دوسری غذاؤں سے نہیں ملتیں، ضرورت کے مطابق ان کی کمی کو پھر ادویات کے ذریعے پورا کرنا پڑتا ہے۔

    مچھلی میں اللہ نے اومیگا 3، فیٹی ایسڈ، وٹامن بی 12، 6،3،1،2، وٹامن ڈی3، سلینیم، کیلشیم، فاسفورس، آئرن، زنک غرض یہ کہ بے تحاشا فوائد رکھے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہارٹ اٹیک کے خطرات کم کر دیتی ہیں، اور ہمارا شوگر اور بلڈ پریشر لیول نارمل رکھتی ہیں۔

    مچھلی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے، یہ فالج جیسے مرض کے خطرات کو کم کر دیتی ہے، کینسر جیسے جان لیوا مرض سے حفاضت کرتی ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد فوائد ہیں جو ہم مچھلی کھا کر حاصل کر سکتے ہیں۔

    مچھلی صرف سردی میں کھانی چاہیے؟

    کہا جاتا ہے کہ مچھلی صرف سردی میں کھانی چاہیے، یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے، مچھلی کا استعمال سال کے 12 مہینے کرنا چاہیے، ڈاکٹر حضرات بھی ہفتے میں 2 بار مچھلی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    لیکن مچھلی سے اس کے تمام فوائد کے حصول کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی پائی جاتی ہے، اور بدقسمتی سے ہم کم علمی کی وجہ سے مچھلی کی افادیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

    مچھلی فروشوں کی دھوکے بازیاں

    اس کی بڑی وجہ مچھلی کی پہچان نہ ہونا ہے، اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مچھلی فروش باسی مچھلی کو تازی کہہ کر فروخت کر دیتے ہیں، عام طور سے مچھلی فروش آپ کو سب سے پہلے مچھلی کے گلپھڑے کھول کر دکھاتا ہے، جو مضر صحت فوڈ کلر استعمال کر کے لال کیا ہوا ہوتا ہے، اور تو اور کچھ مچھلی فروش مچھلی ہی غلط دے دیتے ہیں، مثال کے طور پر سرمئی بول کر سارم اور ٹونا بیچ دیتے ہیں۔

    مچھلی کی چمک بھی تازگی کی پہچان ہوتی ہے لیکن کچھ مچھلی فروشوں نے اس کا بھی حل نکال لیا ہے، اور پانی میں تیل ملا کر مچھلی پر اسپرے کرتے رہتے ہیں۔

    بعض اوقات آپ کو مارکیٹ میں پہلے سے بون لیس کی ہوئی مچھلی بھی نظر آتی ہے، جو مُشکا مچھلی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے لیکن وہ مشکا قطعی نہیں ہوتی، اس لیے پہلے سے کٹی ہوئی مچھلی اور صاف شدہ جھینگا خریدنے سے اجتناب کریں۔

    کچھ مچھلیوں کی شکل ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے، اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سستی مچھلی کو مہنگی مچھلی کے دام پر بھی بیچ دیا جاتا ہے۔ بازار میں فرائی مچھلی بیچنے والے بھی جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور سستی مچھلی کو مہنگی مچھلی بتا کر بیچتے ہیں، کیوں کہ مچھلی کٹنے اور مصالحہ لگنے کے بعد نہیں پہچانی جا سکتی۔

    پہچان

    مچھلی کی پہچان کے حوالے سے کچھ ضروری باتیں درج ذیل ہیں:

    – تازہ مچھلی ہمیشہ سخت ہوگی، مچھلی کو انگلی سے دبائیں تو وہ واپس اصلی حالت میں آ جاتی ہے۔

    – تازہ مچھلی کی آنکھ سفید ہوگی، لال آنکھ یا اندر دھنسی ہوئی آنکھیں باسی مچھلی کی پہچان ہیں۔

    – تازہ مچھلی کے گلپھڑے میں ایک لیس ہوگی جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔

    – مچھلی کے گلپھڑے میں ہاتھ لگا کر بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اصلی رنگ ہے یا کلر استعمال کیا گیا ہے۔

    – تازہ مچھلی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کے جب آپ مچھلی کو سر کی طرف سے پکڑ کر اٹھائیں گے تو مچھلی لٹکنے کی بجائے سیدھی رہے گی۔

    گریڈ کے حساب سے قیمت

    مچھلی کی قیمت کی بات کی جائے تو مچھلی اپنے گریڈ کے حساب سے بکتی ہے، اے، بی اور سی گریڈ۔

    اگر A گریڈ کی مچھلی کی قیمت 1000 روپے کلو ہے، تو B گریڈ کی 700 سے 800 رہے تک، اور C گریڈ کی 500 سے 600 روپے تک ہوتی ہے۔

    عام طور پر ہمارے قریبی بازاروں میں B اور C گریڈ مچھلی فروخت ہوتی ہے، اگر آپ کو A گریڈ مچھلی خریدنی ہے تو آپ کو فشری کا رخ کرنا پڑے گا، کراچی میں مچھلی کی 2 منڈیاں لگتی ہیں۔ پہلی منڈی رات 4 بجے سے صبح 9 بجے تک لگتی ہے، جسے گجے کی منڈی کہا جاتا ہے، گجے کا مطلب ان کشتیوں کا مال ہوتا ہے جو کشتیاں ایک یا دو مہینے کے لیے سمندر میں شکار کے لیے جاتی ہیں۔ اتنے عرصے میں مچھلی کی کوالٹی گر جاتی ہے اور یہ مچھلی تھوڑی سستی ہوتی ہے۔

    دوسری منڈی دوپہر 3 بجے سے مغرب تک لگتی ہے، اس وقت کی مچھلیاں ان کشتیوں والی ہوتی ہیں جو 12 اور 24 گھنٹے کے لیے شکار پر جاتی ہیں، ان کشتیوں کی مچھلیاں A گریڈ اور ایکسپورٹ کوالٹی کی ہوتی ہیں، اس لیے یہ مچھلیاں گجے کی مچھلیوں سے مہنگی ہوتی ہیں۔

    کانٹے

    مچھلی میں کانٹوں کے حوالے سے بات کی جائے تو سمندر کی 99 فی صد مچھلیوں میں صرف بیچ کا ایک کانٹا ہوتا ہے، جسے کنگی کہتے ہیں، اور گوشت میں کانٹے نہیں ہوتے۔

    زیادہ کانٹے میٹھے پانی یعنی دریائی مچھلی میں پائے جاتے ہیں، جن میں رہو، گلفام، تلاپیا، کتلا، پلہ، سنگاڑہ، ملی اور مہاشیر شامل ہیں، جب کہ زیادہ کانٹوں والی سمندری مچھلیوں میں سافی، سمندری بام، سمندری پلہ اور سلیمانی شامل ہیں۔

    یاد رہے کہ دریا یا ڈیم یعنی میٹھے پانی کی مچھلیاں اب مارکیٹوں میں دستیاب نہیں ہیں، مارکیٹوں میں جتنی بھی میٹھے پانی کی مچھلیاں ہیں وہ سب فارم کی ہوتی ہیں، جو قدرتی حالات میں نہیں پلتیں، اس لیے انھیں لینے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ یہ صحت بخش نہیں ہوتے، یہ بھی ذہن میں رہے کہ سمندری مچھلی کی فارمنگ نہیں ہو سکتی۔

    چھلکے

    ایک اہم بات یہ کہ، مچھلی کے چھلکے (Scales) کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، کچھ لوگ بغیر چھلکے کی مچھلی کھانے سے گریز کرتے ہیں، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کون سی مچھلی چھلکے والی ہوتی ہے۔

    اکثر لوگ کالا پاپلیٹ، سارم، امروز کو بھی بغیر چھلکے کی مچھلی سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، ان مچھلیوں پر باریک چھلکا موجود ہوتا ہے۔

    بغیر چھلکے والی سمندری مچھلیوں میں سرمئی، سفید پاپلیٹ، ٹونا، شارک، سوارڈ فش اور کیٹ فش شامل ہیں۔

    مچھلی بے شک طاقت کا خزانہ ہے لیکن مچھلی کے یہ سب فوائد ہم تازہ مچھلی یعنی A گریڈ کا انتخاب کر کے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔

  • مچھلی گردوں کے امراض میں بھی فائدہ مند

    مچھلی گردوں کے امراض میں بھی فائدہ مند

    مچھلی دل، دماغ، نظام ہاضمہ اور آنکھوں کی بیماری کے لیے فائدہ مند غذا مانی جاتی ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں اس سے گردوں کے امراض میں فائدہ ہونے کا بھی انکشاف ہوا۔

    امریکی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گردوں کی بیماری میں مبتلا افراد کی جانب سے مچھلی کھانا انہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

    طبی جریدے بی ایم جے میں شائع تحقیق کے مطابق امریکی ماہرین نے اومیگا تھری یا آسان الفاظ میں کہیں تو مچھلیوں کی مختلف اقسام کے گردوں کی بیماری پر اثرات جانچنے کے لیے تحقیق کی۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے دنیا بھر کے 12 ممالک میں ہونے والی 19 مختلف تحقیقات کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے تحقیقات میں شامل 26 ہزار کے قریب افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، ان رضا کاروں سے 11 سال تک معلومات لی گئی تھیں، ماہرین نے جن رضاکاروں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، ان کی صحت کا 11 سال بعد دوبارہ جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین نے تحقیقات سے نتیجہ اخذ کیا کہ مجموعی طور پر سمندری مخلوق یعنی مچھلیوں کی مختلف قسموں پر مبنی غذائیں کھانے والے افراد میں گردوں کی بیماریاں کم ہوتی ہیں جبکہ مچھلیاں کھانے سے گردوں کے پرانے یا شدید مرض میں مبتلا افراد کو فائدہ ملتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ جن افراد نے سبزیوں اور پھلوں سے اومیگا تھری وٹامن حاصل کیا، ان کے گردوں کی بیماری پر کوئی فرق نہیں پڑا جبکہ مچھلیاں کھانے والے افراد میں بیماری نمایاں طور پر کم ہوئی۔

    تحقیق کے مطابق جو افراد یومیہ مچھلیوں پر مبنی غذا کھاتے رہے، ان کی گردوں کی بیماری 8 فیصد کم ہوگئی جبکہ جن رضا کاروں نے مچھلیوں سے تیار زیادہ غذائیں کھائیں ان کی شدید گردوں کی بیماری 13 فیصد تک ہوگئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ مچھلیاں کھانے سے گردوں کے امراض پیدا ہونے سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے، ماہرین نے تجویز دی کہ گردوں کی صحت کے لیے لوگوں کو مختلف اقسام کی مچھلیاں کھانی چاہئیں۔

  • دھوکا نہ کھائیں، اصلی مُشکے کی پہچان کیسے کریں؟

    مچھلی کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے تو سرمائی اور پاپلیٹ کے ساتھ ساتھ مُشکا کا نام بھی ضرور لیا جاتا ہے۔ مچھلیوں کی ان تینوں اقسام کے ذائقے لاجواب ہیں، اور ان کے نام بھی عوام میں اتنے مقبول ہیں کہ اکثر لوگ ان مچھلیوں کی اگرچہ پہچان تو نہیں کر پاتے، لیکن نام سے ضرور واقف ہیں۔

    مُشکا Croaker فیملی سے ہے، اور کروکر کی دنیا بھر میں تقریباً 284 کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں، پاکستان کے پانیوں میں اس کی چند مشہور اور زیادہ دیکھی جانے والی اقسام یہ ہیں:

    ایرانی مشکا، کنٹراسی مشکا، بوہرا مشکا، گولی مشکا، رنگڑ مشکا، سوا مشکا اور کالا مشکا۔

    اصلی مُشکے کی پہچان:

    پہچان کے لیے تصاویر دی گئی ہیں، لیکن مزید آسانی کے لیے بتاتے چلیں کہ اصلی مشکا ’ایرانی مشکا‘ ہوتا ہے، جو مشہور اور ذائقے دار ہے، اسے انگلش میں Silver Croaker کہا جاتا ہے، اور اس کے منہ میں 3 دانت ہوتے ہیں، دو دانت اوپر اور ایک نیچے۔

    کروکر فیملی میں ایرانی مشکے سے مشابہت رکھنے والی 2 قسمیں ’بوہرا‘ اور ’کنٹراسی‘ ہیں۔

    بوہرا کے دانت نہیں ہوتے اور یہ مچھلی تھوڑا گولائی میں ہوتی ہے اس لیے پہچان آسان ہے، لیکن کنٹراسی کے بھی ایرانی مشکے کی طرح 3 دانت ہوتے ہیں، مشابہت بھی ایرانی مشکے سے زیادہ ہے، لیکن کنٹراسی کا منہ تھوڑا گول اور موٹا ہوتا ہے جب کہ ایرانی کا پتلا اور ذرا سا لمبا۔

    جسمانی ساخت

    کنٹراسی مشکا کا جسم پوری گولائی میں ہوتا ہے، یعنی سر سے لے کر دم تک، جب کہ اس کے برعکس ایرانی مشکا سر سے کمر تک گولای میں ہوتا ہے، پھر اس کے بعد تھوڑا سا curve میں پتلا ہو کر دم تک سیدھا ہوتا ہے، اور اس کی جلد کی چمک کنٹراسی کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے، یعنی ایک دم سنہرا رنگ آ رہا ہوتا ہے، بہ شرط یہ کہ جب بالکل تازہ ہو، اس کے برعکس کنٹراسی مُشکا کی جلد کا رنگ تھوڑا پھیکا ہوتا ہے۔

    وزن اور قیمت

    ایرانی مشکا ایک کلو، ایک کلو سے کم اور 2 سے 3 کلو تک کی سائز میں دیکھی جاتی ہے، ایک کلو سے سائز بڑھنے پر اسے سیلنڈر مشکا بھی کہا جاتا ہے۔

    اے گریڈ ایرانی مشکا 800 سے 1000 روپے کلو تک دستیاب ہوتی ہے، جب کہ کنٹراسی اور بوہرا اس کی آدھی قیمتوں پر، اور ان کے ذائقوں میں بھی بہت فرق ہے۔ اگر کسی کو ایرانی مشکے کے دھوکے میں کنٹراسی اور بوہرا کھلا دیا جائے، تو پھر وہ دوبارہ مشکے کی فرمائش شاید ہی کرے۔

    کروکر مچھلی کا ایک کلو کا پوٹا 1 کروڑ میں کیوں بکتا ہے؟

    مچھلیوں کی چند اقسام کو چھوڑ کر باقی تمام مچھلیوں کے پیٹ کے نچلے حصے میں ایک پوٹا پایا جاتا ہے، جسے انگلش میں Air Bladder یا Swim Bladder اور Fish Maw بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مچھلی کو سانس لینے اور تیرنے میں مدد ملتی ہے۔

    مہنگے بکنے والے پوٹے کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اس سے دل کے آپریشن میں استعمال ہونے والے ٹانکوں کے دھاگے بنتے ہیں، لیکن یہ قیاس درست نہیں کیوں کہ اس کے مصدقہ شواہد کہیں سے بھی نہیں ملتے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اسے چند روایتی چینی ادویات میں شامل کیا جاتا ہے۔

    پوٹا زیادہ تر چین بھیجا جاتا ہے، جہاں اسے چند روایتی ادویات، کھانوں اور خاص کر سوپ میں استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ چند یورپی اور امریکی ریستورانوں میں بھی اس کا سوپ دستیاب ہوتا ہے، پوٹے کی گراں قدری اصل میں چین کے اُمرا کی وجہ سے ہے۔ چین کے امرا اسے خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں، اور اسے سُکھا کر اپنے پاس رکھتے ہیں تا کہ اس کی برکت سے ان کی دولت میں اضافہ ہوتا رہے۔

    مزید برآں وہ اسے چند روایتی ڈشز میں اور سوپ میں بھی استعمال کرتے ہیں، سوپ، ادویات اور کھانوں میں پوٹا ’کولیجن‘ کے ہائی لیول کی وجہ سے ڈالا جاتا ہے، اور یہی کولیجن کی ہائی سطح ہی اسے اتنا گراں قدر بنا دیتی ہے۔

    کولیجن (Collagen) کیا ہے؟

    کولیجن جسم میں ایک پروٹین ہے، مختلف قسم کے کولیجن جسم کے بہت سے اعضا میں ہوتے ہیں، جن میں بال، جلد، ناخن، ہڈیاں، لیگامینٹس، کارٹلیج، خون کی نالیاں اور آنتیں شامل ہیں۔ کولیجن بالوں، جلد، ہڈیوں، پٹھوں، اور نسوں کی صحت کو یقینی بناتا ہے۔

    انسانی جسم میں کولیجن کی قدرتی پیداوار عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے، 30 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کولیجن کی سطح کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، نتیجتاً، کولیجن ریشوں کو پہنچنے والے نقصان یا جسم میں کولیجن کی کم سطح جلد کی ساختی معاونت کو کمزور کرتی ہے۔

    جلد اور پٹھے مضبوطی، سختی، چمک اور حجم کھو دیتے ہیں، اور جلد پر جھریاں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پٹھے، ٹشوز اور جلد کمزور ہو کر لٹکنے اور پھیلنے لگتے ہیں۔

    چوں کہ پوٹے میں کولیجن کی اونچی سطح پائی جاتی ہے، اس لیے پوٹے میں موجود کولیجن جسم میں کولیجن کی سطح بڑھا دیتے ہیں، جس سے جلد، پٹھے اور پٹھوں سے منسلک چھوٹی ہڈیاں مضبوط رہتی ہیں اور بدن توانا، ہشاش بشاش اور جوان نظر آتا ہے، اسی لیے پوٹے کو بڑھتی عمر کے اثرات کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    دنیا بھر میں کولیجن کی سطح کو برقرار رکھنے کی ادویات بھی استعمال کی جاتی ہیں، پاکستان میں کولیجن کی 180 گولیوں کی بوتل 7000، اور 540 گولیوں کی بوتل 21 ہزار روپے میں دستیاب ہے۔

    کون کون سی کروکر کے پوٹے بکتے ہیں؟

    رِنگڑ مشکا، گولی مشکا اور سوا کے پوٹے مہنگے داموں بکتے ہیں، نر مچھلی کا پوٹا مہنگا اور مادہ کا سستا بکتا ہے، کیوں کہ مادہ کا پوٹا نر کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے، اسی لیے پوٹے کی بھاری قیمت اس کے سائز کے حساب سے طے کی جاتی ہے، پوٹا جتنا بڑا ہوگا قیمت اتنی زیادہ ہوگی۔

    سب سے مہنگا پوٹا گولی مشکا کا ہوتا ہے، 10 کلو کے گولی مشکے کی قیمت تقریباً ڈھائی سے 3 لاکھ روپے تک ہوتی ہے، لیکن چوں کہ گولی مشکے کا سائز دس، بارہ کلو سے زیادہ نہیں ہوتا، اسی لیے اس کا پوٹا چھوٹا ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتا۔

    اس کے برعکس سوا مشکا اپنی سائز کو 50 کلو کے آس پاس تک بڑھا سکتا ہے، اس لیے اس کے بڑے پوٹے کی وجہ سے قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل جیوانی کے مقام پر پکڑی جانے والی 48 کلو وزنی نر سوا مچھلی ایک کروڑ 35 لاکھ روپے میں نیلام ہوئی تھی۔

    دس کلو تک کے سوا مچھلی کی قیمت تقریباً 1 لاکھ جب کہ 20 کلو تک کے 4 سے 5 لاکھ روپے ہوتی ہے، لیکن 40 تا 45 کلو وزن ہونے پر اس کا پوٹہ تقریباً 1 کلو تک کا ہو جاتا ہے، جس کی قیمت 1 کروڑ روپے تک ہو جاتی ہے۔

    مُشکا مچھلی میں مچھلی فروشوں اور مچھلی صاف کرنے والوں کا فراڈ

    مچھلی سے لاعلمی کے سبب مچھلی فروشوں کے ہاتھوں لٹنا اس کاروبار میں ایک بالکل عام بات ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مچھلی فروشوں کو یہ کوئی غلط بات بھی نہیں لگتی۔

    جہاں تک مشکا مچھلی کی بات ہے تو اصل مشکا کی جگہ خریداروں کو بوہرا یا کنٹراسی مشکا اصل کی قیمت میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اگر آپ فشری مارکیٹ جاتے ہیں تو آپ کو مچھلی فروش یا مچھلی صاف کرنے والے لڑکے اوریجنل ایرانی مشکے کی جگہ گولی مشکا یا رنگڑ مشکا خریدنے پر مائل کر دیتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ ان کی قیمتیں زیادہ ہیں اس لیے یہ ذائقے دار ہیں، یہ سراسر غلط بیانی ہے، رنگڑ اور گولی مشکے پر وہ اس لیے زور دیتے ہیں تا کہ آپ کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر وہ مچھلی کا پوٹا ہتھیا لیں۔ اسی طرح جب آپ فشری جاتے ہیں تو وہاں صفائی اور کٹنگ کرنے والے پوٹا ہتھیانے کے لیے آپ کو گولی مشکا، رنگڑ مشکا، اور سوا خریدنے کے لیے آمادہ کرتے رہتے ہیں۔

    اس لیے ہمیشہ اوریجنل مشکا یعنی کہ 3 دانت والا ایرانی مشکا لیں، اور کالا مشکا سے خبردار رہیں کہ وہ ذائقے دار نہیں ہوتا۔

    خصوصیات اور کھانے کی مقدار

    مشکا ایک چھلکے والی اور کم مرکری لیول کی مچھلی ہے، جسے ہفتے میں ایک سے دو دفعہ کھایا جا سکتا ہے۔ مچھلی کی کھال لازمی کھایا کریں، کیوں کہ اس میں بھی بھرپور کولیجن، اومیگا 3، پروٹین اور وٹامن E ہوتے ہیں۔ کھال کے ساتھ ساتھ ہڈیوں، پروں اور چھلکے میں بھی یہی وٹامنز ہوتے ہیں، اسی لیے چین میں مچھلی کے پروں کا سوپ بکتا ہے۔

    مچھلی کی ہڈیاں پھینکنے کی بہ جائے وٹامنز اور پروٹینز کی وجہ سے لازمی چبایا کریں۔ یاد رکھیں مچھلی ہمیشہ تازی یعنی A گریڈ ہی خریدیں، تبھی آپ اس کے فوائد حاصل کر پائیں گے، اور ہمیشہ 5 کلو سے بڑا پیس نہ لیں، کیوں کہ بڑی مچھلی میں مرکری لیول زیادہ ہوتا ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    مشکے کے صحت بخش فوائد

    مشکا وٹامن A کا اچھا ذریعہ ہے، جو بینائی کو کمزور نہیں ہونے دیتا، اور اس میں موجود وٹامن B1 جسم کو توانا رکھتا ہے، جب کہ وٹامن B5 جسم کے امیون سسٹم کو طاقت دیتا ہے، اور ہیموگلوبن کی سطح کو بڑھاتا ہے اور جسم سے فاسد اور زہریلے مادوں کے اخراج کرنے میں جگر کی مدد کرتا ہے۔

    اس میں موجود وٹامن B9 صحت مند نظام انہضام، بالوں، جلد، گردوں اور آنکھوں کی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ وٹامن D کیلشیم کو جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مزید برآں، یہ آنت کو غذائی اجزا جذب کرنے، اور ہڈیوں کی بیماریاں جیسا کہ اوسٹیوملیشیا اور رکٹس کو روکنے اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔

    اس میں موجود وٹامن E بصارت، تولید، خون، دماغ اور جلد کی صحت کے لیے اہم ہے۔ وٹامن ای میں اینٹی آکسیڈنٹ خواص بھی ہیں، جو ذیابیطس، الزائمر کی بیماری اور کینسر سے بچاتے ہیں۔ وٹامن K ہمارے جسم کی ہڈیوں کی صحت کے مسائل جیسا کہ آسٹیوپوروسس، دماغی صحت کے مسائل، آرٹریل کیلسیفیکیشن، ویریکوز رگوں، اور کینسر کی مخصوص بیماریوں، پروسٹیٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، جگر کا کینسر، اور لیوکیمیا سے تحفظ فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

    اس میں موجود پوٹاشیم پٹھوں کو مضبوطی دیتا ہے، اور آئرن خون کی کمی نہیں ہونے دیتا، فاسفورس ہارمون کو متوازن رکھتا ہے۔ یہ توازن صحت مند دماغ، گردے، دل، اور خون کو فروغ دینے کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ فاسفورس کے صحت کے فوائد میں سیلز کی مرمت، پروٹین کی تشکیل، ہارمونل توازن، بہتر ہاضمہ، اور صحت مند ہڈیوں کی تشکیل شامل ہیں۔

    وٹامن B2 جسم میں مختلف روزمرہ کے افعال میں بہت سے خامروں کی مدد کرتا ہے، اس کی کمی صحت کے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ جیسا کہ دماغ اور دل کے امراض اور کچھ کینسر طویل مدتی بی 2 کی کمی سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ بی 2 دماغی افعال کو ٹھیک کرنے اور مائیگرین (دائمی سر درد) جیسی بیماری سے بچاتا ہے۔

    اس میں موجود وٹامن B 12 خون کے خلیات بنانے اور صحت مند اعصابی نظام کے قیام میں مدد دیتے ہیں۔ مشکے میں سلینئم اور اومیگا 3 بھی ہوتے ہیں، جن کے کئی اہم فوائد ہیں، جیسے کہ دل کو صحت مند رکھنا، فالج کے اٹیک کو روکنا، امیون سسٹم کو طاقت دینا اور ڈی این اے کے توازن کو برقرار رکھنا شامل ہیں۔