Tag: مچھیرے

  • دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان

    دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان

    کراچی: دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان ہو گئی ہے، سیلابی پانی کی وجہ سے مختلف اقسام کی مچھلیوں کی آمد نے ان کے روزگار کو بحال کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں ٹھٹھہ، سجاول، ٹنڈو حافظ شاہ، کیٹی بندر کے ماہی گیروں کے روزگار میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    دریائے سندھ کے سیلابی پانی کے ساتھ مخلتف اقسام کی مچھلیوں کی آمد سے ماہی گیروں کے لیے مچھلی کا شکار وافر مقدار میں دستیاب ہو گیا ہے۔

    گزشتہ ایک دہائی سے دریائے سندھ کا پانی سمندر سے کافی پیچھے رہ جانے، اور سمندر کا پانی اوپر آنے سے ماہر گیر بے روزگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔

    3 ہزار کلو میٹر سے زائد سفر طے کر کے سیلابی ریلا سمندر میں شامل ہونا شروع

    ذرائع محکمہ فشریز کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں ملنے سے کیٹی بندر اور اطراف کی ساحلی پٹی، کریکس اور کھاڑیوں میں جھینگے اور مچھلی افزائش میں اضافہ ہوگا۔

  • فشنگ پالیسی: مچھیروں کے لیے وزیر بحری امور کا بڑا اعلان

    فشنگ پالیسی: مچھیروں کے لیے وزیر بحری امور کا بڑا اعلان

    کراچی: پی ٹی آئی حکومت کی فشنگ پالیسی کے تحت وزیر بحری امور علی حیدر زیدی نے مچھیروں کی بہبود کے لیے بڑا اعلان کر دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق برسوں سے نظر انداز ماہی گیر کمیونٹی کا صبر اور انتظار رنگ لے آیا، مچھیروں کو سرمائے کی فراہمی کے لیے اہم قدم اٹھا لیا گیا۔

    وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے ایک بیان میں کہا کہ محرومیوں میں دھنسی جفا کش ماہی گیر برادری کے لیے آج بڑا دن ہے، اب سرمائے کی قلت یا عدم دستیابی ماہی گیری میں رکاوٹ نہیں ڈال سکے گی۔

    انھوں نے خوش خبری دی کہ مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت ماہی گیروں کو سرمایہ فراہم کرے گی، اس سلسلے میں وزارت بحری امور نے بینک آف پنجاب اور کامیاب جوان پروگرام کو یک جا کر دیا ہے۔

    علی زیدی کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے بلیو اکانومی کے وژن کی روشنی میں یہ قدم اٹھایا گیا ہے، علی زیدی نے بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے اب وزارت بحری امور ماہی گیروں کا ہاتھ تھامے گی، ہم ماہی گیروں کو آلات، ساز و سامان اور نئی کشتیاں خریدنے کے لیے سرمایہ دیں گے۔

    ماہی گیروں کی قسمت چمک اٹھی، بڑ ی تعداد میں نہایت اعلیٰ ذائقے والی مچھلی پکڑی گئی (ویڈیو)

    انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں کورنگی فش ہاربر اور میرین فشریز ڈیپارٹمنٹ میں بوتھ قائم کیے جا رہے ہیں، جن کا انتظام وزارت بحری امور اور بینک آف پنجاب سنبھالیں گے، اور اہل درخواست گزاروں کو سرمائے کے حصول میں معاونت فراہم کریں گے۔

    علی زیدی کا کہنا تھا کہ ماہی گیر برادری کی بہبود و ترقی کے لیے فشنگ پالیسی کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، عشروں سے نظر انداز اس طبقے کے لیے جلد مزید خوش خبریاں بھی دیں گے۔

  • ماہی گیروں کی قسمت چمک اٹھی، بڑ ی تعداد میں نہایت اعلیٰ ذائقے والی مچھلی پکڑی گئی (ویڈیو)

    ماہی گیروں کی قسمت چمک اٹھی، بڑ ی تعداد میں نہایت اعلیٰ ذائقے والی مچھلی پکڑی گئی (ویڈیو)

    کراچی: شہر قائد کے مچھیروں کی قسمت چمک اٹھی ہے، کراچی کی حدود میں ماہی گیروں کے جال میں مشہور اور نہایت اعلیٰ ذائقے والی کھگا مچھلیاں پکڑی گئیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی کی حدود میں سمندر میں کھگا مچھلیاں بڑی تعداد میں جمع ہو گئیں تھیں، جنھیں اکٹھا کرنے ماہی گیروں کی کئی لانچیں پہنچ گئیں۔

    ماہی گیروں نے مچھلیوں کے ڈھیر کے گرد لانچوں کا گھیرا بنایا اور پھر اطمینان کے ساتھ بڑی تعداد میں مچھلیاں پکڑ لیں۔

    مچھلیوں کا ڈھیر اکٹھا کرتے ماہی گیروں کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے، ترجمان فشر فوک فورم کا کہنا ہے کہ ذائقے دار کھگا مچھلی برسوں میں ایک ہی بار ماہی گیروں کے شکار میں آتی ہے۔

    ترجمان نے بتایا کہ خریدار اس ذائقے دار مچھلی کی خریداری بڑی تعداد میں کرتے ہیں۔

    کھگا مچھلی

    یہ مچھلی اپنے ذائقے کے لیے نہایت مشہور ہے، گرم تاثیر والی اس مچھلی کا مسکن دریائے سندھ ہے، بلوغت میں پہنچنے پر اس کا وزن 2 کلو اور جسامت ایک فٹ تک ہو جاتی ہے، اور اس کا ذائقہ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے، لوگ بہت شوق سے اسے کھاتے ہیں۔

    اس کی جلد چکنی ہوتی ہے، ریڑھ کی ہڈی قدرے ابھری ہوتی ہے، اور شکل کسی جنگی جہاز کی مانند ہوتی ہے، اس میں کانٹے کم اور موٹے ہوتے ہیں۔

  • شاہ بندر سندھ میں بجلی گرنے سے 3 مچھیرے جاں بحق

    شاہ بندر سندھ میں بجلی گرنے سے 3 مچھیرے جاں بحق

    سجاول: صوبہ سندھ کے ضلع سجاول کے علاقے شاہ بندر میں مچھیروں کے ٹینٹ پر بجلی گرنے کے واقعے میں 3 افراد جاں بحق، جب کہ 3 زخمی ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاک بحریہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شاہ بندر سندھ میں مچھیروں کے ٹینٹ پر بجلی گرنے کے بعد پاک بحریہ نے ریسکیو آپریشن کیا۔

    ترجمان نے بتایا کہ بجلی گرنے سے 3 مچھیرے جاں بحق ہوئے جب کہ 3 زخمی ہوئے، جنھیں پاک میرینز کی کشتیوں کے ذریعے ریسکیو کیا گیا۔

    پاک بحریہ کے مطابق زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال سجاول منتقل کیا جا چکا ہے، جب کہ جاں بحق افراد کی لاشیں مقامی انتظامیہ کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

    موصولہ اطلاعات کے مطابق مچھیرے شاہ بندر پورٹ کے قریب مچھلیاں پکڑ رہے تھے کہ ان پر آسمانی بجلی گری، جاں بحق افراد میں عبد الرزاق، اسماعیل اور دھنی بخش شامل تھے۔

    ضرور پڑھیں:  کسی شخص پر آسمانی بجلی گر پڑے تو کیا ہوگا؟

    زخمی افراد کو چہار جمالی میں پاکستان نیوی کی ٹیم نے دیہی ہیلتھ سینٹر منتقل کیا۔

    یاد رہے کہ جون میں گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں آسمانی بجلی گرنے سے 5 افراد جاں بحق جب کہ 7 سے زاید مکانات جل گئے تھے۔ اس سے چند دن قبل صوبہ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں بھی آسمانی بجلی گرنے سے ایک شخص جاں بحق ہو گیا تھا۔

    واضح رہے کہ ملک بھر میں مون سون کا موسم جاری ہے اور مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہو رہی ہیں، ایسے موسم میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں جس میں کئی افراد زخمی یا ہلاک ہو جاتے ہیں۔

  • لالچی ماہی گیروں نے راول ڈیم کے پانی میں زہر ملا دیا

    لالچی ماہی گیروں نے راول ڈیم کے پانی میں زہر ملا دیا

    اسلام آباد: لالچی ماہی گیروں نے راول ڈیم کے پانی میں ایک بار پھر زہر ملا دیا، محکمہ فشریز اور دیگر اداروں نے پر اسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ فشریز اور دیگر اداروں کی مبینہ نا اہلی سنگین رخ اختیار کر گئی ہے، مچھلیوں کے شکار کے لیے راول ڈیم کے پانی میں چوتھی بار زہر ملا دیا گیا ہے۔

    بتایا گیا ہے کہ ڈیم کے پانی میں زہر ملانے میں مقامی افراد اور کشتی مافیا ملوث ہیں، جن کے خلاف کئی ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں۔

    دوسری طرف ایف آئی آر درج کرائی جانے کے باوجود ملوث افراد کے خلاف کسی کارروائی کا نہ ہونا متعلقہ اداروں پر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

    شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کو زہریلا بنانے والے عناصر کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔

    خیال رہے کہ ماضی میں بھی ماہی گیر مچھلیوں کے شکار کے لیے راول ڈیم میں زہر ملاتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے راول جھیل کا پانی زہریلا ہو جاتا ہے اور مقامی آبادی کی صحت کے لیے خطرناک ہو جاتا ہے۔

    ادھر اداروں نے پانی کو زہریلا بنانے والے مافیا کے خلاف چپ سادھ رکھی ہے، پانی میں زہر ملا کر ایک طرف اگر مچھلیوں کی نسلوں کو نقصان پہنچتا ہے تو دوسری طرف انسانوں کی صحت بھی خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے۔

  • ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    کراچی: آپ کے گھر کے پیچھے ایک خوبصورت، صاف ستھرا، نیلا سمندر بہتا ہو، تو آپ کو کیسا لگے گا؟

    کراچی جیسے شہر میں جہاں سال کے 10 مہینے گرمی، اور اس میں سے 6 مہینے شدید گرمی ہوتی ہو، ایسی صورت میں تو یہ نہایت ہی خوش کن خیال ہے۔

    اور اگر آپ اس سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہوں، تو پھر آپ کو اس جگہ سے کہیں اور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن ایسا آپ سوچتے ہیں، اس سمندر کنارے رہائش پذیر افراد نہیں۔۔

    کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سومار گوٹھ کا پہلا منظر تو بہت خوبصورت لگتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، گاؤں کی پشت پر بہتا صاف ستھرا نیلا سمندر، لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں اور لوگوں سے ملتے ہیں، تو بھوک اور غربت کا عفریت پوری طرح سامنے آتا جاتا ہے۔

    صرف 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں میر بحر (مچھلی پکڑنے والے) ذات کے لوگ آباد ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ مچھلی پکڑنا اور اسے بیچ کر اپنی روزی کمانا ہے۔ لیکن گاؤں کی رہائشی 45 سالہ حمیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو مچھلی کھائے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

    ’ہم ترس گئے ہیں مچھلی کھانے کے لیے، جتنی بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ ہم بیچ دیتے ہیں۔ اس رقم سے تھوڑا بہت گھر کا سامان آجاتاہے جس سے پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں۔ مچھلی کھانے کی عیاشی کدھر سے کریں‘۔

    گاؤں والے سمندر سے جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے 20 سے 30 روپے فی کلو بیچتے ہیں۔ شہروں میں یہی مچھلی 400 سے 500 روپے کلو بکتی ہے۔ شہر لے جا کر بیچنے کے سوال پر حمیدہ بی بی نے بتایا کہ گاؤں سے شہر آنے جانے میں اتنا کرایہ خرچ ہوجاتا ہے کہ 500 کلو مچھلی کی فروخت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ لہٰذا وہ گاؤں کے اندر ہی اسے بیچتے ہیں۔

    لیکن گاؤں والے آج کل اس سے بھی محروم ہیں۔ سمندر میں بلند لہروں کی وجہ سے 4 مہینے (مئی تا اگست) مچھیرے سمندر میں نہیں جا سکتے اور بقول حمیدہ بی بی یہ 4 مہینے ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔

    ’گاؤں سے باہر کے لوگ آ کر ان دنوں میں تھوڑا بہت راشن دے جاتے ہیں جس سے کسی حد تک گزارہ ہوجاتا ہے‘۔

    پچھلے کچھ عرصے سے انہی دنوں میں رمضان آرہا ہے جس سے گاؤں والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ’افطار میں کبھی کچھ کھانے کو ہوتا ہے، کبھی صرف پانی سے روزہ کھولتے ہیں‘، حمیدہ بی بی نے بتایا۔

    ’ان دنوں میں کھانے پینے کی اتنی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ہیں تاکہ وہ سارا دن کچھ نہ مانگیں‘۔

    ماہ رمضان میں جہاں لوگوں کی غذائی عادات تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ رمضان میں صحت مند غذا کھاتے ہیں، اس گاؤں کے لوگ اپنی روزمرہ غذا سے بھی محروم ہیں۔ ’کبھی کبھار مہینے میں ایک آدھ بار گوشت، یا پھل کھانے کو مل جاتا تھا، لیکن پابندی کے موسم میں تو ان چیزوں کے لیے ترس جاتے ہیں۔ کبھی کوئی آکر دال، آٹا دے جاتا ہے تو اسی سے گزارا کرتے ہیں‘۔

    گاؤں میں ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ سمندر کنارے واقع یہ گاؤں پینے کے پانی سے محروم ہے۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ لوگ پانی نہ ہونے کے باعث کئی کئی ہفتہ نہا نہیں پاتے۔ پانی سے روزہ کھولنے کے لیے بھی بعض دفعہ پانی نہیں ہوتا۔

    گاؤں میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کاریتاس‘ کے پروجیکٹ ہیڈ منشا نور نے اس بارے میں بتایا کہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے پہلے ہینڈ پمپس لگوانے کا سوچا۔ لیکن ان ہینڈ پمپس سے سمندر کا کھارا پانی نکل آیا۔ چنانچہ اب وہ پانی ذخیرہ کرنے والے ٹینکس پر کام کر رہے ہیں۔

    سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

    ان کی جانب سے کچھ لوگ آکر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

    ’ہمیں کبھی کسی نے پوچھ کر نہیں دیکھا، نہ کوئی حکومت کا کارندہ، نہ کوئی این جی او کبھی ادھر آئی‘، حمیدہ بی بی نے اپنے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔ ’ان 4 مہینوں میں ہم فاقے کرتے ہیں۔ کبھی پانی بہت چڑھ جاتا اور سمندر کنارے واقع ہمارے گھر ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔

    گاؤں کے لوگ یوں تو سارا سال ہی غربت کا شکار رہتے ہیں، مگر ان 4 مہینوں میں ان کی حالت بدتر ہوجاتی ہے اور وہ امید نہ ہونے کے باوجود فشریز ڈپارٹمنٹ، حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔