Tag: مکتوب نگاری

  • قیل و قال کی مجالس

    قیل و قال کی مجالس

    علی عباس جلال پوری اردو کے ممتاز ادیب، مفکر اور دانش وَر تھے۔ فلسفہ ان کا بنیادی وظیفہ تھا اور اس کے ذریعے وہ فطرت اور اس کے دامن میں بسے ہر ذی روح اور اشیاء کے وجود اور رمز کو کھولنے کی کوشش کرتے رہے ان کا ذہن نئے نئے سوالات کو جنم دیتا اور وہ اس کا جواب اپنی عقل اور علم کے مطابق تلاش کرتے۔ علی عباس جلال پوری کے افکار اور ان کی تصانیف پر تنازع بھی رہا۔

    فلسفے میں ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے لینے والے علی عباس جلال پوری نے اردو اور فارسی میں بھی ایم اے کی سند افتخار حاصل کی تھی اور تدریس سے وابستہ رہے۔علی عباس جلال پوری کی مشہور کتابوں میں ’روح عصر‘ روایات فلسفہ، تمام فکری، مغالطے، کائنات اور انسان، روایات تمدن قدیم، جینیاتی مطالعے کے علاوہ مقالاتِ جلال پوری اور خرد نامۂ جلال پوری شامل ہیں۔ 7 دسمبر 1997ء کو علی عباس جلال پوری وفات پا گئے تھے۔

    سید علی عباس جلال پوری سے ممتاز انشائیہ نگار، ادیب اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کا رابطہ و تعلق زندگی بھر قائم رہا۔ ان کے مابین علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی اور اکثر خطوط کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک خط ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    سید علی عباس جلال پوری کا خط بنام ڈاکٹر وزیر آغا

    آپ کا خط ملا۔ میں سکون و فراغت کی تلاش میں گاؤں جا رہا ہوں، اب لاہور میں میرے لئے کشش کا کوئی سامان نہیں رہا، ذہنی فکری لحاظ سے یہ شہر بانجھ ہو چکا ہے، قیل و قال کی مجالس تو بہت ہیں لیکن صاحب بصیرت اور اربابِ فکر کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ مشاعروں اور کم سواد عطائیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے، ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے اپنا اپنا ’امیج‘ بنانے کی فکر میں ہیں اور تھوڑی بہت Recognition کم نظروں سے مل جاتی ہے تو اس ’امیج‘ کو ریڈیو، ٹیلی ویژن پر بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ مطالعے اور تفکر سے عاری محض ہیں اور ہر شخص کو اپنی ہی سطح پر کھینچ لانا چاہتے ہیں۔

    یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ نے اقبالؒ کی کتاب لکھی ہے۔ اس کا موضوع تو بتایا ہی نہیں۔ مجھے بھی کہلوایا گیا تھا کہ اقبالؒ پر کوئی کتاب لکھوں لیکن میں نے انکار کردیا۔ اقبالؒ کی فکر کے بارے میں جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ میں نے اقبالؒ کے علم الکلام میں کہہ دیا ہے۔ رہی اس کی شاعرانہ عظمت تو اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن مجھے فرصت نہیں ہے۔ اب پنجابی کتاب کا موضوع ’پنجابی کے صوفی شاعر اور وحدت الوجود‘ چنا گیا ہے۔ دو ایک ماہ میں چھپ گئی تو آپ کو بھیجوں گا۔ اس میں میں نے اپنی ماں بولی کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔

    ’اردو زبان‘ کے تازہ شمارے میں محمد احسن فاروقی کا مضمون ’ادب اور تحریک‘ نظر سے گزرا۔ اس میں فرماتے ہیں کہ ’’بقراط کا یہ خیال تھا کہ کائنات تمام حرکت میں ہے‘‘ ان صاحب کو معلوم نہیں کہ بقراط طبیب تھا فلسفی نہیں (اصل میں ہیپاکریٹس)۔ اسے طب یونان کا باوا آدم مانا گیا ہے۔ فلاسفہ میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ یہ خیال کہ تمام کائنات حرکت میں ہے، ہیرا کلیٹس کا ہے۔ میں شاید چھ ماہ (یا برس بھر) یہاں قیام کروں۔ میرے چھوٹے بیٹے نے بی اے فائنل کا امتحان دینا ہے اور وہ سیاسی آشوب کی وجہ سے التوا میں پڑ گیا ہے۔ اس کی فراغت تک گاؤں نہیں جا سکوں گا۔ جب آپ یہاں تشریف لائیں گے تو ملاقات کی کوئی سبیل پیدا ہو جائے گی۔

    (نوٹ: یہ خط غالباً مئی 1977ء میں لکھا گیا تھا)

  • ‘سزا یافتہ’ ادیب کا بھائی کے نام لکھا گیا خط!

    ‘سزا یافتہ’ ادیب کا بھائی کے نام لکھا گیا خط!

    روس کے مایہ ناز ادیب دوستوفسکی کی سزائے موت کو جب چار سال قید میں تبدیل کردیا گیا اور اسے سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں بھیج دیا گیا، تو وہاں جانے سے پہلے اس نے اپنے بھائی کو ایک خط لکھا جو اس کے جذبات اور شدّتِ احساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ قید کے دوران صرف لکھنے کی اجازت چاہتا تھا اور اس کی سب سے بڑی آرزو یہی تھی۔

    پیارے بھائی!
    میں بالکل افسردہ نہیں ہوں۔ میں نے غم کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہیں دیا۔ زندگی ہر جگہ زندگی ہے، وہی ہے جو ہمارے اندر ہے نہ کہ وہ جو باہر ہے۔

    میرے ساتھ اور بھی بہت لوگ ہوں گے۔ عوام کے درمیان معمولی انسان کی حیثیت میں رہنا، ہمیشہ اسی طرح زندگی بسر کرنا اور مصائب کی پروا نہ کرنا…. یہ ہے زندگی۔ یہی زندگی کا اصلی مقصد۔ میں اس چیز کو بخوبی سمجھ چکا ہوں۔ یہ خیال میرے گوشت پوست، رگ رگ اور نخ نخ میں سرایت کر گیا ہے اور یہ بالکل صداقت پر مبنی ہے۔

    وہ سَر، جو خیالات و افکار کی تخلیق کرتا تھا، وہ سَر، جو آرٹ کی بلندیوں میں اپنا آشیانہ بنائے تھا اور جو روح کی بلند ترین ضروریات سے آگاہ اور ان کا عادی تھا۔ وہ سَر، اب میرے شانوں سے علیحدہ ہوچکا ہے۔

    وہاں ان تخیلات کے دھندلے نقوش باقی رہ گئے ہیں، جو میں ابھی صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں کر سکا۔ یہ افکار ذہنی عذاب کا باعث ضرور ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میرے دل میں ابھی تک وہ خون اور گوشت موجود ہے جو محبّت بھی کر سکتا ہے، مصیبت بھی جھیل سکتا ہے، جو خواہش بھی کرسکتا ہے اور آخر یہی تو زندگی ہے۔

    اگر کوئی شخص میرے متعلق اپنے دل میں کدورت رکھتا ہے، میں نے کسی سے جھگڑا کیا ہے یا میں نے کسی کے دل پر برا اثر چھوڑا ہے تو اس سے ملو اور میری طرف سے التجا کرو کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ میرے دل میں ذرّہ بھر میل نہیں ہے۔

    اس وقت میری یہی خواہش ہے کہ میں اپنے احباب میں سے کسی کے گلے ملوں۔اس سے دل کو اطمینان ہوتا ہے۔

    میرا خیال تھا کہ میری موت کی خبر تمہیں ہلاک کر دے گی لیکن اب تمہیں کوئی فکر نہیں کرنا چاہیے، میں زندہ ہوں اور اس وقت تک زندہ رہوں گا، جب ہم دونوں دوبارہ بغل گیر ہوں گے۔

    ماضی کی طرف رخ پھیر کر دیکھتا ہوں کہ بہت فضول وقت ضائع ہوا ہے۔ بیشتر ایّام خوابوں، غلط کاریوں اور بیکار مشاغل میں گزرے ہیں۔ میں نے کئی بار ضمیر کے خلاف کام کیا ہے۔ یقین مانو میرا دل خون روتا ہے۔

    زندگی نعمت ہے، زندگی مسرت ہے۔ ہر وہ لمحہ جو ضائع ہوچکا ہے شادمان عرصۂ زندگی ہونا چاہیے تھا۔ اب کہ میں اپنی زندگی بدل رہا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری روح نئے قالب میں داخل ہو رہی ہے۔ لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ میرے ہاتھ قلم کو ترستے رہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ چار سال کے بعد مجھے قلم پکڑنا نصیب ہوگا۔

    اے کاش! مجھے صرف لکھنے کی اجازت دی جائے۔ کتنے افکار کتنے خیالات جو میں نے تخلیق کیے تھے، تباہ ہو جائیں گے، میرے ذہن کی یہ چنگاریاں یا تو بجھ جائیں گی یا میری رگوں میں ایک آتشیں زہر بن کر حلول کر جائیں گی۔

    (مترجم: سعادت حسن منٹو)

  • زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

    زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

    مشاہیرِ ادب کے خطوط کی فہرست طویل ہے جو ہمارے لیے یادوں کا خزانہ اور علم و ادب کے اعتبار سے بہت مستند حوالہ ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ ہیں۔ یہاں ہم پاکستان کے ممتاز ادیب، شاعر اور نقّاد ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک خط نقل کررہے ہیں جو انھوں نے معروف شاعر اور مصنّف ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام تحریر کیا تھا۔

    برادرم خورشید رضوی صاحب
    السلام علیکم!

    خط ملا، بے حد ممنون ہوں۔ آپ سے ملے تو جیسے صدیاں گزر گئیں۔ اس دوران میں کم از کم تین بار صرف آپ سے ملنے کے لیے گورنمنٹ کالج گیا، لیکن آپ کے کمرے کے باہر ایک اتنا بڑا زنگ آلود تالا پڑا دیکھا۔ نہ جانے یہ تالا آپ نے کہاں سے لیا ہے۔ خاصا مضبوط لگتا ہے مگر آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اسے دیکھ کر آپ کے دوستوں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔

    خدارا اس ڈینو سار سے پیچھا چھڑائیں اور دروازے پر کوئی نرم و نازک جندری آویزاں کریں جس کی کلائی پروفیسر غلام جیلانی اصغر باآسانی مروڑ سکیں۔ اس کا فائدہ کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ آپ کے دوست آپ کی عدم موجودگی میں کمرے کے اندر جا کر آپ کی خوشبو سے معانقہ کر سکیں گے۔

    غلام جیلانی اصغر اور میرا یہ تاثر ہے کہ ہمارے دوستوں میں سے رشید قیصرانی، جمیل یوسف اور نصف درجن دوسرے دوستوں کو چھوڑ کر، آپ سب سے زیادہ ”بے وفا“ ہیں کہ کبھی ملنے کی کوشش نہیں کرتے۔

    آپ نے صوفی محمد ضیاء الحق صاحب کا پوچھا ہے تو میری یادداشت نے ایک زقند بھری ہے اور میری نظروں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا ہے جب میں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج جھنگ کا طالب علم تھا اور صوفی محمد ضیاء الحق ہمیں پڑھاتے تھے۔ غالباً رومی ٹوپی پہنتے تھے۔ دبلے پتلے، مرنجاں مرنج، مجسم شرافت تھے۔ دھیمی آواز میں بولتے مگر ان کا ہر لفظ شفقت اور محبت سے لبریز ہوتا۔

    اس زمانے کے ایک اور استاد بھی مجھے یاد ہیں۔ ان کا نام خواجہ معراج الدین تھا۔ بڑے دبنگ آدمی تھے۔ مسلمان طلبہ کے لیے کالج کی سطح پر جنگیں لڑتے تھے جب کہ صوفی ضیاءالحق کسی بکھیڑے میں نہیں پڑے تھے۔ اپنے کمرے میں بیٹھے سب طلبہ کے لیے جیسے ایک چشمے کی طرح رواں دواں رہتے۔

    میں عربی کا طالبِ علم نہیں تھا۔ فارسی پڑھتا تھا جو خواجہ معراج الدین ہمیں پڑھاتے تھے۔ البتہ میں نے اُردو اختیاری لے رکھا تھا اور یہ ہمیں صوفی صاحب پڑھاتے تھے۔ اب میں کیا عرض کروں، اُردو کے ثقیل سے ثقیل الفاظ بھی ان کے ہونٹوں سے چھوتے ہی سبک بار اور شیریں ہو جاتے۔ میں کالج میگزین کا ایڈیٹر تھا اور اُردو میں تقریریں کرنے کا بھی مجھے شوق تھا، لہٰذا مجھ پر بہت مہربان تھے۔ یوں تو دو سال جو میں نے کالج میں گزارے ضیاء صاحب سے اکتسابِ نور میں بسر ہوئے مگر مجھے ان کا ایک جملہ آج تک نہیں بھولا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جملے کا میری آئندہ ادبی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔

    بعض اوقات ایک معمولی سا اشارہ سائکی کے اندر جا کر ایک بیج کی طرح جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پھر جب حالات سازگار ہوں تو ایک انکھوے کی طرح پھوٹ نکلتا ہے۔ یہی قصہ اس جملے کا ہے۔ ایک روز باتوں باتوں میں مجھ سے کہنے لگے۔ دیکھو وزیر علی! (ان دنوں میں وزیر علی خان تھا) مجھے یقین ہے ایک دن تم کتابیں لکھو گے۔ یاد رکھو! کتاب سے بڑی اور کوئی شے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کتاب ہی کے ذریعے اپنی مخلوق سے رابطہ قائم کیا تھا۔ بس ان کا یہ، جملہ ایک اشارہ یا suggestion بن کر میرے اندر اتر گیا اور پھر اس کے جو نتائج (اچھے یا برے) نکلے وہ آپ کے سامنے ہیں۔

    خدا کرے آپ بخیر و عافیت ہوں، کبھی سرگودھا آنے کا بھی سوچیے۔

    والسلام
    آپ کا، وزیر آغا
    3 فروری 1993

  • "اب ان سے صرف دعا کا رشتہ باقی ہے!”

    "اب ان سے صرف دعا کا رشتہ باقی ہے!”

    عشقی صاحب کا ذہن علمی ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کا علم سمیٹ لیتے ہیں۔ اردو، فارسی، انگریزی اور ہندی تو گویا ان کے گھر کی زبانیں ہیں۔

    پشاور میں رہے تو پشتو اہلِ زبان کی طرح لکھنے اور بولنے لگے جیسے وہیں کے ہیں۔ اور ہیں وہیں کے۔ خالص یوسف زئی پٹھان۔ جب پشتو جانتے ہیں تو بھلا ہند کو کو کیوں چھوڑا ہوگا۔

    پنجابی زبان و ادب سے آگاہ اس لیے کہ لاہور میں بھی قیام رہا ہے۔ ملتان پوسٹنگ ہوئی تو مہر عبدالحق نے عمر خیام کی رباعیات کی سرائیکی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کتاب کا دیباچہ عشقی صاحب نے لکھا۔

    عشقی صاحب نے بے شمار تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں اور تحقیقی مقالے بھی۔ جو اپنے اندازِ تحریر کے سبب علیحدہ سے پہچانے جاسکتے ہیں کہ ان کا مصنف ڈاکٹر الیاس عشقی کے علاوہ اور کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح ان کے خط لکھنے کا انداز بھی سب سے الگ ہے۔

    یہ ایک تعزیتی خط ہے جو انہوں نے میرے والد محترم حضرت صبا اکبر آبادی کے سانحۂ ارتحال پر لکھا۔

    عشقی صاحب کا خط سب سے الگ سب سے منفرد جیسے کوئی گلے لگا کر تسلی دے رہا ہو۔

    برادرم سلطان جمیل نسیم!

    السلام علیکم!
    ایسا خط بھی تم کو لکھنا پڑے گا اس کا خیال تک کبھی نہ آیا تھا۔ دو دن سے سوچ رہا تھا کیا لکھوں، لفظ نہیں ملتے۔ وہ لفظ جن میں اثر ہو اور جن سے تم کو اور سب گھر والوں کو سکون ملے صبر آ جائے۔ خود مجھے اپنی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تمہارا حال کیا ہو گا۔ صبا صاحب میرے بزرگ تھے، تمہارے والد تھے۔ یہ خبر سنی تو اس وقت کئی لوگ موجود تھے کسی طرح ضبط کر لیا۔ تنہائی میں رویا اس محبت اور مروت کو جو اب میسر نہ ہو گی۔ جس دن کے تصور سے بھی خوف آتا تھا وہ گزر گیا۔ صبا صاحب کے چلے جانے سے والد کا غم بھی تازہ ہو گیا کہ محبت اور وضع داری میں یہ سب لوگ فردِ واحد کی طرح تھے۔

    صبا صاحب کی موت نے ہم کو غریب کر دیا ہے۔ ایک شخص کی موت، ایک بڑے شاعر کی موت نے۔ ایک غزل گو، مرثیہ اور سلام نگار، نعت گو، تضمین نگار، رباعی گو، مترجم، نثر نگار، خاکہ نگار، مدیر اور ایسے انسان کو ہم سے چھین لیا جس کا ظاہر و باطن ایک تھا۔ رندِ پاکباز، مومنِ صادق، محفل آراء اب ان جیسا کون ہو گا۔ ان کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے اور چہرہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کہاں ہوتے ہیں جن سے دور رہ کر بھی قرب کا احساس رہتا تھا کیسی محرومی ہے۔ ہائے۔

    بات رسمی ہے مگر رسمی بات کی طرح نہیں کہہ رہا کہ صبر کرو اور سب کو صبر کی تلقین کرو۔ مناسب الفاظ میں تاجدار کو میری طرف سے پرسا دو کہ غم تو زندگی بھر کا ہے، یاد آتے رہیں گے مگر اب ان سے صرف دعا کا رشتہ باقی ہے۔ اس سے غافل نہ رہنا کہ اس سے دل کو سکون بھی ملتا ہے۔

    تمہارا بھائی
    الیاس عشقی 4 نومبر 1991ء

    (مصنف، شاعر ڈرامہ نگار اور پی ٹی وی کے پروڈیوسر مشہور سلطان جمیل نسیم نے اپنی کتاب چشمِ بینا میں ڈاکٹرالیاس عشقی سے متعلق چند واقعات اور کچھ یادیں رقم کی تھیں جن سے یہ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں، سلطان جمیل نسیم اردو کے معروف شاعر صبا اکبر آبادی کے فرزند تھے۔)

  • ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    جوشؔ ملیح آبادی قادرُ الکلام شاعر ہی نہیں‌ نثر نگار بھی خوب تھے۔ انھیں‌ زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ رواں اور مترنم الفاظ جہاں‌ جوشؔ کی شاعری کی سحر انگیزی بڑھاتے ہیں، وہیں‌ ان کے مضامینِ نثر کی زبان بھی نہایت دل کش اور جان دار ہے۔

    یہاں‌ ہم استاد شاعر راغب مراد کے نام جوش صاحب کا ایک خط نقل کر رہے ہیں‌ جو شاعرِ انقلاب نے 1975ء میں‌ لکھا تھا۔ اس خط میں جوش ملیح آبادی نے "عورت” کے عنوان سے اپنا مضمون داخل کیا ہے اور اس پر راغب مراد آبادی سے رائے دینے پر اصرار کیا ہے۔ خط ملاحظہ کیجیے:

    راغب جانی، ابھی ابھی ‘ذکر و فکر’ کے لیے ایک مضمون لکھا ہے، جی چاہا، اس کی نقل آپ کو بھیج دوں۔ ملاحظہ فرمائیے:

    "عورت”​
    میں، عوام، یعنی، دو پاؤں پر چلنے والے حیوانوں سے خطاب کرنے کے ننگ پر، اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر سکتا۔ میرا تو روئے سخن ہے تمہاری طرف، اے تلواروں کی دھاروں کو موڑ دینے والے ساونتو۔ اور، تمام کائنات کو، پلکوں پر، تول لینے والے گمبھیر فلسفیو۔ کہ تمہارے آگے، موت کی آگ پانی بھرتی ہے، اور تمہاری نظروں کے لمس سے، اسرارِ مرگ و زیست کا لوہا پگھلنے لگتا ہے۔

    ہاں، تو میں تم سے، کانپتی ہوئی پنڈلیوں، اور اپنے بدن کے تمام کھڑے ہوئے رونگٹوں کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    یہ عورت، وہ حسین بلائے بے درماں ہے کہ افلاطون کی پشت پر سوار ہو کر، اسے گھوڑا بنا، اور نپولینِ اعظم کی ناک چھید کر، اسے نتھنی پہنا چکی ہے۔

    سنو، سنو کہ عورت ہر روپ میں خطرناک ہوتی ہے۔ وہ بے وفا ہو کہ وفادار، بہر رنگ ہے خوں خوار۔ وہ اگر، سراپا وفا ہے، تو عاشق کے دل میں وہ کیف بھر دیتی ہے کہ اس کو دین و دنیا دونوں سے بے خبر کر دیتی ہے۔ وہ، آدمی کو، فکرِ بیدار کی گلابی دھوپ سے اٹھاتی، اور خواب آور زلفوں کی مہکتی چھاؤں میں بٹھا دیتی ہے۔ اپنے، بوسہ طلب ہونٹوں کی مہک سے، یوں رجھاتی ہے کہ آدمی کی ہر سانس، اس کے گرد چکر لگاتی ہے۔ وہ کائنات کی تمام راگنیوں کا گلا گھونٹ کر، صرف اپنے کھنکتے بول سناتی ہے۔ وہ تشنگی کی آگ بھڑکانے کی خاطر، پیاس بجھاتی ہے۔ اور، انفس و آفاق کے تمام جلوؤں کو دھندلا کر، فقط اپنا دمکتا مکھڑا جھمکاتی ہے۔

    اور، آخرکار، انسان، اس کے بحرِ جمال میں، یوں بہہ جاتا ہے کہ معاشرے کا عضوِ معطل بن کر رہ جاتا ہے۔

    عشق نے غالب نکمّا کر دیا​….

    اور اگر، عورت نامہربان و جفا پیشہ ہوتی ہے تو، آدمی اس بے پایاں احساسِ کم تری میں گھر جاتا ہے کہ۔ اور تو اور، خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔

    ٹھکرایا ہوا عاشق، اپنے کو، اس قدر نا مطبوع و مکروہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے دل سے، دوستوں کا تو کیا ذکر، خود اپنی ماں تک کی شفقت کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ بے چارہ اپنے کو اس حد کا حقیر و ذلیل سمجھنے لگتا ہے کہ جب وہ آئینہ اٹھاتا ہے، تو اپنا چہرہ ایسا نظر آتا ہے، گویا وہ ایک ایسا خارشتی ٹینی کتّا ہے جو، آسمان کی طرف تھوتھن اٹھا کر رو رہا ہے۔​

    سراپا کرم ہے کہ سفّاک ہے​
    بہر طور، عورت خطرناک ہے

    یا اس طرح کہہ لیجیے کہ:​

    سراپا سَمَن ہے کہ سفّاک ہے​
    بہر طور عورت خطرناک ہے​

    کہو، پیارے کیسا مضمون ہے؟ مجھے تو اچھا لگا کہ میں نے لکھا ہے۔ خورشید علی خان کو بھی یہ مضمون دکھا دیجیے گا۔​

    افسوس کہ اب کی نسیم صاحب سے نہایت سرسری ملاقات رہی۔

    جوش​،
    اسلام آباد​
    ۹/۸/۷۵​

  • طامس ہڈرلی طامس: اردو کا پہلا روزنامچہ نویس

    طامس ہڈرلی طامس: اردو کا پہلا روزنامچہ نویس

    تھامس ہڈرلی (Thomas Heatherly) اردو کے مشہور انڈو یوروپین شاعر اور مرزا غالب اور عارف کے شاگرد کپتان الیگزینڈر ہڈرلی کے بڑے بھائی تھے۔ اردو میں وہ اپنا نام طامس لکھتے تھے اور یہی ان کا تخلص بھی تھا۔

    ان کے والد جیمس ہڈرلی بھی مشہور آدمی تھے اور مرزا غالب کے دوست تھے۔ نواب جھجر کے یہاں ملازم تھے۔ طامس ہڈرلی اردو اور فارسی کے اچھے عالم تھے اور انگریزی تو ان کی مادری زبان تھی۔

    اردو ادب میں طامس کی اہمیت دو وجہ سے زیادہ ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی الگزینڈر ہڈرلی آزاد کا دیوان مرتب کرکے شائع کیا جو اردو کے انڈو پوروپین شعرا کی صف اوّل کے شاعر تھے۔ دوسری اہمیت یہ ہے کہ اب تک کی دریافت کے مطابق وہ اردو کے سب سے پرانے روزنامچہ نویس ہیں۔ انھوں نے 1843ء سے 1853ء تک روزنامچہ لکھا۔ ان کا روزنامچہ پروفیسر نثار احمد فاروقی نے شائع کیا ہے۔ اس کا اصل نسخہ دہلی یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ ہے۔

    پروفیسر نثار احمد فاروقی کے مطابق اردو کا سب سے پرانا روزنامچہ مولوی مظہر علی سندیلوی کا ہے۔ اس سے قبل جو روزنامچے لکھے جاتے تھے وہ فارسی میں لکھے جاتے تھے۔ حتّٰی کہ 1857ء میں جیون لال، معین الدّین اور عبدُاللطیف کے روزنامچے بھی فارسی میں لکھے گئے۔ اس اعتبار سے طامس کے روزنامچے کی خاص اہمیت ہے۔ ساتھ ہی اس سے نہایت اہم تاریخی اور ادبی معلومات فراہم ہو تی ہیں۔ یہ روزنامچہ بالکل ذاتی نوعیت کا ہے اور اس میں اپنے ذاتی مسائل کا ہی بیان ہے لیکن ضمناً تاریخی معلومات آگئی ہیں مثلاً ماہِ اپریل 1849ء میں کوہِ نور ہیرا کے ولایت جانے کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح لاہور کی جنگ کا تذکرہ وغیرہ۔

    طامس ہڈرلی کی صحیح تاریخِ پیدائش تو نہیں معلوم لیکن وہ 1874ء میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ اگر ان کی عمر اس وقت 55 سال مانی جائے تو ان کی ولادت 1819ء کے قریب ہوئی ہوگی۔ اس طرح وہ اپنے چھوٹے بھائی الیگزینڈر ہڈرلی سے دس سال بڑے تھے۔

    طامس کے والد جیمس ہڈرلی نواب جھجر کے معتمدِ خاص تھے۔ اس لیے ان کو بھی آسانی سے نواب صاحب کے یہاں ملازمت مل گئی۔ 50 روپیہ مہینہ مشاہرہ مقرر ہوا۔ 1843ء میں وہ اسی ملازمت پر تھے۔ پھر بعد میں 18 مارچ 1845ء کو وہ کل ریاست کے منصرمِ خزانہ مقرر ہوگئے۔

    رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز نواب فیض علی خاں کے بیٹے یعقوب علی خاں کے تحویل دارِ خزانہ کی حیثیت سے کیا تھا اور سو روپیہ ان کا مشاہرہ تھا۔ لیکن طامس کی ڈائری سے اس کی بہت تائید نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔

    1845ء میں جولائی کے مہینہ میں نواب صاحب نے ان کو بڈھوانہ کا تحصیل دار مقرر کرنا چاہا۔ لیکن انھوں نے انکار کر دیا جس کی وجہ سے نواب صاحب خفا ہو گئے۔

    نواب صاحب کی ناراضگی کے ایّام میں طامس نے ایک مہینہ کی رخصت لی اور الور چلے گئے۔ الور میں وہ کم وبیش ایک ماہ رہے۔ اور یہاں اپنے لیے ایسی جگہ بنالی کہ پھر ان کے خاندان کے متعدد لوگ الور میں ملازم رہے۔ اپنے سفر الور کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے: ’’بباعث قبول نہ کرنے تحصیل داری بڈھوانہ کے، نواب صاحب خیلے آزردہ خاطر ہو گئے۔چوں کہ ہم بھی ان کی عنایت پر ناز کرتے تھے لہٰذا ہم نے ایک ماہ کی رخصت سرکار سے لی اور ارادہ الور جانے کا کیا اور والد بزرگوار سے بھی اجازت حاصل کر لی۔‘‘

    طامس کا اپنا مستاجری کا کام تھا، اس کے سلسلے میں جھجر آنا رہتا تھا۔ ایسے ہی کسی سفر میں ایک مرتبہ جھجر آئے تو یہاں نواب صاحب نے ان کی منصرمی کے زمانے کا حساب مانگ لیا۔ لیکن طامس پہلے ہی حساب کر کے صافی نامہ لے چکے تھے اس لیے کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوا۔

    طامس نے ملازمت کی تلاش میں اپنی جدوجہد کا اپنی ڈائری میں تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ وہ نوکری کی تلاش میں کئی جگہ گئے، دہلی میں نواب اکبر علی خاں کے ذریعہ بھی کوشش کی لیکن انہیں ملازمت کی جگہ نئے نئے تجربات ہی ملتے رہے۔ آخر ایک مرتبہ مایوسی کے عالم میں لکھا کہ’’مگر ہمارے مقسوم آج کل کوئی روزگار نہیں۔‘‘

    کافی دن کی تلاش و جستجو اور بڑی تگ دو کے بعد بھی ان کو کوئی معقول روزگار نہ مل سکا آخر پھر جھجر میں ہی نوکری کرنی پڑی اور اس دفعہ وہی نوکری کرنی پڑی جس سے انکار کرکے مرحوم نواب صاحب کو پہلے ناراض کر چکے تھے یعنی بڈھوانہ کی تحصیل داری۔

    مارچ 1848ء کو اسی بڈھوانہ میں تحصیل داری کی نوکری کر لی۔ ڈائری میں لکھا ہے: ’’6 مارچ کو نواب صاحب نے ہم کو تحصیل دار بڈھوانہ کا کیا۔ شکر خدا کا بعد مدّت روزگار کی صورت نظر آئی۔‘‘

    طامس کے لیے یہ ملازمت کا فی مشکل ثابت ہوئی۔ آئے دن سازشیں اور الزامات کا سلسلہ تھا۔ ایک مرتبہ تو نواب صاحب خود تحقیقات کے لیے بڈھوانہ آئے۔ طامس کی گرفتاری کا بھی حکم دیا۔ باضابطہ فوجی پہرہ میں حساب ہوا۔ طامس کے بقول وہ اس میں بچ گئے لیکن ان پر24 ہزار روپیہ ہرجانہ عائد ہوا۔ اس واقعہ کے بعد 17 فروری 1851ء میں طامس نے اس ملازمت سے دوبارہ استعفیٰ دے دیا۔ نواب صاحب ان کا استعفیٰ منظور نہیں کر رہے تھے لیکن طامس صاحب دہلی آکر بیٹھ گئے۔ نواب صاحب کو مجبوراً ان کا استعفی قبول کر کے ان کو صافی نامہ دینا پڑا۔ اس وقت نواب صاحب کسی وجہ یا غالباً کسانوں کی بچول (دھرنا یا ہڑتال) کی وجہ سے دباؤ میں تھے۔ طامس نے اس کا فائدہ یہ اٹھایا کہ اپنے والد کے لیے تا حیات پنشن لکھوا لی۔

    15 جولائی 1852 کو طامس پھر جھجر میں ملازم ہوئے اور اس دفعہ باول کے تحصیل دار مقرر ہوئے۔ طامس کی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’’شکر اس خالق اور رزّاق کا کہ آج مدّت کے بعد صورتِ روزگار نظر آئی۔ یعنی نواب صاحب نے ہم کو تحصیل دار پرگنہ باول کا کیا۔‘‘

    17 مئی 1854 میں طامس نے جھجر کی ملازمت ترک کر دی اور جے پور کے قریب کھیتڑی کے مختار ہو گئے۔ 1855 میں لارڈ لارنس نے ڈھائی سو روپیہ ماہوار پر انھیں گوپال گڑھ (علاقہ میوات) کا تحصیل دار مقرر کیا۔ 1862ء میں وہ ڈپٹی کلکٹر ہو گئے اور ان کا تبادلہ الور ہو گیا۔ پھر اسی عہدے پر بھرت پور پہنچے اور یہاں مہتمم مال گزاری میں صدر مقرر ہوئے، 400 روپیے تنخواہ مقرر ہوئی۔ 1874 میں ریٹائرڈ ہوئے اور میرٹھ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ وہیں 1891ء میں ان کی وفات ہو گئی۔

    طامس اردو کے بہترین نثر نگار تھے جس کا ثبوت ان کی ڈائری ہے۔ وہ اردو کے شاعر بھی تھے۔ نثار احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ وہ عارف کے شاگرد تھے لیکن اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ البتہ ان کی ڈائری میں عارف سے ملاقات کا تذکرہ ہے۔ لکھا ہے: ’’22 اکتوبر 1847 کو سوار ہو کر دہلی آیا اور لالہ اجودھیا پرشاد کے مکان پر قیام کیا اور نواب زین العابدین خاں عارف سے ملاقات کی۔‘‘

    مرزا غالب سے بھی یقیناً تعلق تو رہا ہوگا چونکہ ان کے والد مرزا کے پرانے دوست تھے۔اور چھوٹے بھائی ان کے شاگرد بھی تھے اور باہم خط وکتابت بھی تھی اور یہ خود نواب زین العابدین خاں عارف سے ملنے بھی جاتے تھے جس کا ذکر ان کی ڈائری میں بھی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالب کی ان سے زیادہ قربت نہیں تھی۔ اس لیے غالب نے یوسف مرزا کے نام ایک خط میں لکھا ہے۔

    ’’خدا کی قسم طامس ہڈرلی صاحب سے میری ملاقات نہیں ہے۔‘‘

    طامس ہڈرلی اردو کے نثر نگار ہونے کے ساتھ اردو کے شاعر بھی تھے۔ کسی تذکرہ نگار نے بطور شاعر ان کا ذکر نہیں کیا ہے۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی نے ان کی ڈائری کے ساتھ ان کا ایک انتخاب کلام بھی شائع کیا ہے جو کسی انگریز نے کیا تھا لیکن ان کا نام درج نہیں ہے۔ ان کی شاعری کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ ان کے کلام میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے۔ اس کی اہمیت یہی ہے کہ وہ ایک اینگلو انڈین شاعر کا کلام ہے۔

    (محمد مشتاق تجاروی کے تحقیقی مضمون سے انتخاب)

  • خون کا عطیہ دینے سے انکار کرنے والا ویٹ لفٹر اور ایلس فیض

    خون کا عطیہ دینے سے انکار کرنے والا ویٹ لفٹر اور ایلس فیض

    کل میں نے میو اسپتال میں ایک ضرورت مند مریض کے لیے خون بھی دیا۔ اس کا نتیجہ ننّھا کے کارٹون کی شکل میں ظاہر ہوا۔ بیچارہ ایک غریب نیپالی طالبِ علم تھا، شدید بیمار۔

    میں پاکستان ٹائمز کے دفتر واپس گئی تاکہ کوئی مدد مل جائے، مگر کسی نے خون دینے پر ہاں نہیں کی۔ پھر میں نے آرٹسٹ بٹ سے پوچھا۔ وہی لمبا چوڑا ویٹ لفٹر، اس نے بھی منع کر دیا، کہنے لگا، ”میں دیکھنے میں طاقت ور لگتا ہوں لیکن اصل میں ہوں نہیں۔“ تو میں اس شدید گرمی میں واپس گئی اور جا کر لیٹ گئی اور خون کی ایک بوتل دے دی۔

    میں نے لڑکیوں کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ ہو سکتا ہے مجھے دیر ہو جائے اور اس کی وجہ بھی بتا دی تھی…. اور جب میں گھر واپس پہنچی ہوں تو سارے کے سارے بالکونی میں لٹکے ہوئے تھے اور بے چینی سے میرا انتظار کر رہے تھے۔ ان کودیکھ کر میں نے اپنی سائیکل کی گھنٹی بجائی اور ہاتھ بھی ہلایا۔ ان سب نے مجھے تقریباً بستر پر لٹا ہی دیا تھا۔ پھر میں نے ان کو بتایا کہ بھئی سب ٹھیک ہے، بھلا سوچو، ویٹ لفٹر اور اُن جیسوں کے لیے بھی مشکل ہو گیا۔

    دن میں گرمی ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں، مگر راتیں پھر بھی ٹھنڈی ہیں۔ پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب 3 روپے 12 آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ 4 روپے کا۔ ہم نے گھر میں ٹوتھ پاؤڈر بنا لیا تھا جو دو مہینے چلا! بہت سے لوگ اس کے بغیر ہی گزارا کر رہے ہیں۔

    (عزیزِ دِلم نامی کتاب میں شامل یہ خط عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض کے فیض کو ایلس فیض نے لکھا تھا، اسے نیّر رباب نے اردو میں ترجمہ کیا تھا جس سے چند پارے یہاں‌ نقل کیے گئے ہیں)

  • نواب حسن علی خاں امیرؔ کو منانے کے لیے لکھا گیا ایک خط

    نواب حسن علی خاں امیرؔ کو منانے کے لیے لکھا گیا ایک خط

    اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ایک موضوع کے طور پر خاص اہمیت دی گئی ہے اور اپنے زمانے کے مشاہیر اور نابغہ روزگار شخصیات کے درمیان رابطے کی اس تحریری شکل کو باقاعدہ موضوع بنایا گیا ہے۔ اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے خطوط کو سرفہرست رکھتے ہوئے ان کی زبان، روز مرّہ کے الفاظ کا بے تکلّف استعمال اور مکتوب نگاری کی دیگر خصوصیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اردو کے استاد شاعر مرزا داغ دہلوی کے خطوط بھی مشہور ہیں۔

    داغ کے خطوط میں بھی ان کی زندگی سے متعلق بے شمار واقعات، حادثات، خواہشات، مختلف درباروں سے ان کی وابستگی، ان کے معاشقوں کا تذکرہ، عزیز شاگردوں کا احوال، اردو زبان و بیان اور شاعری کے بارے میں‌ کئی باتیں‌ پڑھنے اور سیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں‌ ہم ان کے ایک ایسے ہی خط کو موضوع بنارہے ہیں‌ جس میں‌ انھوں نے اپنے ایک رفیق سے پیدا ہونے والی کسی رنجش یا غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

    نواب حسن علی خاں امیرؔ، حیدر آباد (دکن) کے شرفا میں شمار ہوتے ہیں اور جب داغ ؔ حیدر آباد پہنچے تو امیر بڑے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کہنے کو داغ کے شاگرد تھے، لیکن شاگردی سے زیادہ دوستی و محبّت کا رشتہ رہا۔

    آخری وقت تک خانگی معاملات میں بھی خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے داغ کے ساتھ رہے۔ 1902ء کے شروع میں کسی وجہ سے امیر ؔ نے داغ سے ناراض ہوکر ان کے یہاں آنا جانا بند کردیا تو دیکھیں کہ داغ ؔ نے کن الفاظ میں انھیں مدعو کیا۔

    نواب صاحب!
    صاحب عالم بہادر کہتے ہیں کہ کل صبح پتنگوں کے پیچ ہیں۔ بغیر نواب صاحب کی تشریف آوری کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ مجھ کو خبر نہیں تھی کہ پیچ تو وہاں لڑیں گے اور دلوں میں پیچ مجھ سے پڑیں گے، مردِ خدا! یہ کیا بات ہے آپ نے یک لخت ملاقات کم کر کے کیوں ترک کردی۔

    میں نے کوئی بات بغیر آپ کے مشورے کے نہیں کی، مصلحتِ وقت نہیں چھوڑی جاتی، آپ کو حسبِ معمول روز آنا چاہیے۔ ماحضر یہیں تناول فرمانا چاہیے اور اگر یہاں کھانا کھانا گوارا نہیں تو بہتر ہے نہ کھائیے۔ مجھ کو بھی نہ کھلائیے، آئیے، آئیے تشریف لائیے۔

    داغ 25، جنوری 1902ء (شب)

    اس کے باوجود نواب امیر کے نہ آنے پر اپنے ذاتی رشتے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ہی خط میں لکھتے ہیں۔

    نواب صاحب آپ تو بیٹھے بٹھائے کلیجے میں نشتر چبھو دیتے ہیں۔ یہ فقرہ کیوں کر دل دوز اور جگر فگار نہ ہو کہ اب مجھے روز کی حاضری سے معاف فرمایا جائے۔ مجھ سے جو کچھ ہوا دانستہ نہیں ہوا۔ حجاب (داغ دہلوی کی ایک محبوبہ) جیسی ہزار ہوں تو تمہارے خلوص، تمہاری محبّت پر نثار۔ تم سے کیا پردہ ہے، اور تم سے کیا چھپا ہے۔

    (ڈاکٹر محمد کاظم، دہلی کے ایک مضمون سے خوشہ چینی)

  • رَسّی تیرے کتنے کام…. جتنے کام، اتنے نام!

    رَسّی تیرے کتنے کام…. جتنے کام، اتنے نام!

    ’’محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسّی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے۔“ صدیقی صاحب مرحوم (ابوالفضل صدیقی) نے فوراً ٹوکا کہ اُس کو رسّی نہیں ”الگنی“ بولتے ہیں۔

    پھر جمیل بھائی سے مخاطب ہو کر بولے رسّی کو بہ لحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، مثلاً گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کے لیے چھوڑا جاتا تو اِس ڈر سے کہ وہ کہیں بھاگ نہ جائے۔ اُس کی اگلی ٹانگوں میں رسّی باندھ دیتے ہیں۔ اُس کو ”دھنگنا“ کہتے ہیں۔ گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ ”اگاڑی“ ”پچھاڑی“ کہلاتی ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر جو رسّی سوار پکڑتا ہے وہ ”لگام“ کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے اگر ٹم ٹم، بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسّی ”راس“ کہلاتی ہے۔

    اسی لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کے لیے جو رسید لکھی جاتی تھی، اُس میں یہ الفاظ لکھے جاتے تھے ”یک راس گھوڑے کی قیمت“ اور ہاتھی کے لیے ”یک زنجیر ہاتھی“ استعمال ہوتا تھا۔

    گھوڑے کو جب ٹریننگ کے لیے سائیس پھراتا ہے اور جسے ”کاوا پھرانا“ بولتے ہیں، اُس رسّی کو جو سائیس اُس وقت پکڑتا ہے اس کو ”باگ ڈور“ کہتے ہیں۔

    پھر مرحوم نے کہا بیل کی ناک کے نتھنوں میں جو رسّی ڈالتے ہیں اُس کو ”ناتھ“ (اسی لیے ایسے بیل کو ”نتھا“ ہوا بیل بولتے ہیں، اُس کے بعد ہی بیل رہیلو اور ہل وغیرہ کے کام میں آتا ہے) کہتے ہیں اور اونٹ کی ناک میں ”نکیل۔“ کنویں سے بڑے ڈول کی جو بیل کھینچتے ہیں اُس میں جو موٹا رسّا استعمال ہوتا ہے اُس کو ”برت“ یا ”برتھ“ بولتے ہیں۔‘‘

    (نذر الحسن صدیقی کے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط سے اقتباس)

  • مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    ذاکر باغ،
    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
    5 جنوری 1975

    مکرمی، سلام مسنون

    آپ نے جن مقامات کی سیاحت فرمائی، وہاں کے جن گزشتہ اور موجودہ علما، شعرا، سلاطین اور اکابر کو یاد کیا اور ان کی منزلت یاد دلائی، نیز یہ کہ ان کے عظیم کارنامے کتنے وسیع خطۂ ارض، کیسی گراں قدر تصانیف اور یادگاروں اور مختلف الاحوال لوگوں کے ذہن و دماغ میں کس طرح اور کس شکل میں جلوہ گر ہیں اس کا احساس شاید ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے طبقے میں بھی کم ہی لوگوں کو ہوگا۔

    ان کار ہائے عظیم اور خدماتِ جلیلہ کے باوجود ہماری جو حالت و شہرت مہذب دنیا میں ہے وہ کتنی عبرت ناک ہے۔ آپ نے اس کا احساس کیا اور کلام پاک کے حوالے سے اس کا جواب بھی دیا۔ لیکن کلامِ پاک کی تنبیہ اور تاکید کو یاد دلانا آسان ہے اس کو منوانا اور ذہن نشیں کرا دینا، جس کی قدرت میں ہے، وہ نہ ہمارے بس کا ہے نہ آپ کے بس کا۔

    قلب ضرور ہمارا ہے، لیکن اس کا مقلب تو کوئی اور ہی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں کا اقبال گزشتہ تہذیبوں کے فطری زوال کے مانند عمر طبعی کو پہنچ چکا ہو۔ ایسا ہے تو اس کی ضرب کہاں کہاں پہنچتی ہے اس کا اندازہ مجھ سے کہیں زیادہ آپ کرسکتے ہیں۔

    دعا ہے کہ آپ اس پایہ کی تصنیف سے ہمارے ولولوں کو آنے والے اچھے دنوں کی بشارت سے تازہ کار رکھیں گے اور تقویت پہنچاتے رہیں گے۔ آپ کی تصانیف میں انشا پردازی کا جو حسن، جامعیت اور ”موافق الاحوال“ ہونے کی صفت پائی جاتی ہے اس کا اعتراف مجھ سے بہتر لوگ کرچکے ہیں۔ مختلف تقریبوں میں آپ کی تقریریں بڑی عالمانہ، شگفتہ، شائستہ اور بَرمحل ہیں۔ کہیں کوئی ڈھیل بر بنائے مصلحت نہیں ملتی۔ سطرِ آخر سے پہلی سطر میں آپ نے ”اسلامی نخوت“ کا فقرہ لکھا ہے۔

    نخوت کا لفظ اسلامی کے ساتھ کھٹکا، عربی، فارسی زبان میں نخوت کا جو بھی مفہوم ہو، اردو میں تکبر، گھمنڈ اور غرور کے معنی میں بالعموم استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر کبرونخوت ہی بولتے ہیں۔ اردو میں نخوت کو بزرگی کا مفہوم شاید ہی کسی نے دیا ہو، لیکن اس معاملے میں آپ کا قول، قولِ فیصل ہے۔

    دعا ہے کہ آپ خوش و خرم ہوں۔

    مخلص
    رشید احمد صدیقی


    (ممتاز ادیب، نقاد اور محقق رشید احمد صدیقی نے معروف عالمِ دین اور نہایت قابل شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نام اس خط میں‌ ایک سفر نامے پر مولانا کو مسلمانوں‌ کا حقیقی خیر خواہ اور مصلح کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے)