شیخ حماد بن رشید الدین جمالی سندھ کے اولیا کبار میں سے تھے اور اُچ کے مشہور درویش شیخ جمال کے نواسے تھے۔ موجودہ ٹھٹھہ سے متصل "ساموئی” کے دامن میں ان کی خانقاہ تھی۔
حدیقتہُ الاولیا میں کا مصنف لکھتا ہے کہ جام تماچی اور اس کے فرزند صلاح الدین کو آپ سے بڑی عقیدت تھی اور وہ روزانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ جام جونہ نے سازش تیار کی جس کے مطابق خاموشی سے ان دونوں (تماچی اور اس کے بیٹے) کو دہلی بھیج دیا گیا جہاں وہ نظر بند رہے۔
اتفاق سے بزرگ (شیخ حماد) نے ان دونوں کی غیر حاضری محسوس کر کے انھیں یاد کیا۔ مگر ان کے بارے میں کوئی بھی نہ بتا سکا۔ بعد میں بزرگ نے اپنا خاص آدمی بھیج کر ان کی حویلی سے معلوم کروایا جس پر حویلی والوں نے بصد عجز و بے قراری تمام ماجرا بزرگ کو کہلوا بھیجا جسے سنتے ہی شیخ حماد کو جوش آگیا اور وہ بے قراری سے کھڑے ہو گئے اور اپنے حجرے میں ٹہلنے لگے اور سندھی زبان میں ایک شعر کہنے لگے جس میں جام تماچی کے ساتھ محبت اور اس کے واپس آنے کی تمنّا ظاہر کی گئی تھی۔
جام جونہ نے جب وہ شعر سنا تو اسے بہت پریشانی ہوئی اور وہ شیخ حماد کے پاس آیا مگر ناامید ہو کر واپس لوٹا۔ اس سندھی شعر کا اردو میں مفہوم کچھ یوں ہے:
جام جونہ کم عقل ہے (جس نے ایسا کام کیا) اے جام تماچی تُو جلدی پہنچ۔ اللہ تعالیٰ راضی ہوا ہے کہ تمام ٹھٹھہ (جام جونہ سے منحرف ہوکر) تیرا طرف دار ہو گیا ہے۔
(ممتاز ماہرِ تعلیم و لسانیات، ادیب اور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تصنیف سے ایک ورق جس کے اردو مترجم شذرہ سکندری ہیں۔ یہ اقتباس سندھ کی تاریخ کے مشہور کردار اور سیاسی و سماجی حالات کی ایک جھلک ہے)
یہ 1494 کی بات ہے جب مکلی کی پہاڑی کے ساتھ جام نظام الدین نے ایک شہر آباد کیا، چوں کہ یہ پہاڑی کے نیچے واقع تھا، اس لیے مقامی لوگوں نے اسے ‘‘تہ تہ‘‘ کہنا شروع کر دیا جو بعد میں ٹھٹھہ ہو گیا۔
یہ سندھ کا قدیم اور مشہور شہر ہے جو منسوب تو جام نظام الدین سے ہے، مگر بعض مؤرخین کے مطابق ٹھٹھہ پہلے سے آباد ایک بستی تھی۔ مختلف حوالوں اور تذکروں کے مطابق محمد شاہ تغلق کے زمانے میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ ٹھٹھہ آباد تو بہت پہلے ہوا تھا، مگر اسے جام نظام الدین نندا نے اپنے دور میں تعمیر و توسیع کے عمل سے گزارا اور یوں یہ شہر جام نظام الدین نندا سے منسوب ہو گیا۔
اس شہر میں کئی تاریخی آثار اور اس زمانے کی یادگاریں موجود ہیں جب کہ سندھ کے کئی عالم، درویش، حاکم اور امرا یہاں دفن ہیں۔
تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ کئی نام وَر اس سرزمین سے اٹھے۔ یہ اہلَ علم و فنون بھی تھے اور ہنر مند بھی۔
ٹھٹھہ کا ذکر کینجھر جھیل اور شاہ جہاں مسجد اور مکلی کے قبرستان کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ جھیل ٹھٹھہ سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ایک خوب صورت تفریحی مقام ہے جس کی مناسب اور ضروری دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کا حُسن ماند پڑ رہا ہے۔
شہرہ آفاق مسجد کو چوں کہ شاہ جہاں کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے یہ شاہ جہاں مسجد کہلائی۔ کہتے ہیں یہ مسجد ٹھٹھہ کے صوبے دار میر ابوالبقا نے بنوائی تھی۔ اس کی تعمیر کا سن 1644 بتایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس زمانے میں اس کی تعمیر اور تزئین و آرائش پر 9 لاکھ خرچ ہوئے تھے۔
مکلی کا قبرستان بھی ٹھٹھہ کی ایک وجہِ شہرت ہے۔ اس قدیم اور تاریخی قبرستان میں حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، مخدوم ابو القاسم نقشبندی، مخدوم آدم نقشبندی، سید عبداللہ شاہ اصحابی، حضرت شاہ مراد شیرازی کے مزارات ہیں۔ یہ تمام مزارات اور دیگر قبریں اس دور کے فنِ سنگ تراشی اور نقاشی کا نمونہ ہیں۔
جام نظام الدین نندا بھی اسی شہر میں آسودۂ خاک ہیں۔
شہرِقائد سے سو کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر وادیٔ مہران کی حسین اور ہنر مند تہذیب کے انتہائی توانا نشانات مکلی کے قبرستان کی صورت میں موجود ہیں، ٹھٹھہ کے ساتھ بسا یہ شہر خموشاں 14 ویں صدی عیسوی میں قائم ہوا اور یہاں اٹھارویں صدی تک کہ حکمرانوں کی قبور موجود ہیں۔
مکلی لگ بھگ 14 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں پانچ لاکھ سے زائد مزارات موجود ہیں جن میں سے کچھ سندھ کی تاریخ کی نامور شخصیات کے ہیں تو بیشتر شخصیات کا تعارف وقت کی گرد میں دب چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے سنہ 1981 میں اسے عالمی ورثے کی حیثیت دے کر اس کا تحفظ کرنا شروع کیا جس کے بعد سے اب تک اس قبرستان کو باقی رکھنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
مکلی کا ایک مزار
مکلی کا یہ قبرستان 14 ویں صدی سے لے کر 18 ویں صدی تک کے سندھی حکمرانوں کا مدفن رہا ہے اور ان میں سب سے زیادہ نمایاں مقبرہ عیسیٰ خان ترخان دوئم کا ہے جو کہ 1612 عیسوی میں یہاں دفن ہوئے تھے، یہاں سندھ کے سمہ ، ترخان ، ارغون اور اس کے بعد مغل دور کے نامور افراد کے مزارات موجود ہیں۔ ان مزاروں پر کیا جانے والا کام پوری دنیا میں منفرد ہے اور اسے ایک اہم ثقافتی ورثے کی اہمیت حاصل ہے، یہ مزار ہمیں بتاتے ہیں کہ کسی دور میں سند ھ کا یہ علاقہ اس قدر مہذب ترقی یافتہ ہوا کرتا تھا کہ کسی مرنے والے کی تدفین کے لیے بھی اس قدر خصوصی انتظام کیا جاتا تھا۔
عیسی خان ترخان کے بیٹے بابا جان کا مزار بحالی کے بعد
عالمی ثقافتی ورک شاپ
اس عظیم ثقافتی ورثے کی حفاظثت اور بحالی کے لیے ہیریٹیج فاؤنڈیشن کراچی ، ستارہ امتیاز کی حامل معروف آرکیٹکٹ یاسمین لاری کی سربراہی میں مکلی کے ثقافتی ورثے کو بحال کرنے کے ساتھ اسی تہذیب کے قدموں میں آباد مقامی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے بھی کوشاں ہے اور اسی مقصد کے لیے مکلی میں قائم کردہ زیرو کاربن کلچرل سنٹر ( زی سی 3) میں 25 اکتوبر 2018 کو ایک بین الاقوامی ثقافتی ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا، جس میں حکومتِ سندھ کا ادارہ برائے نوادرات و ثقافت اور پاکستان کونسل آف آرکیٹکٹس اینڈ ٹاون پلانرز بھی بطور معاون شریک ہوئے۔
ورکشاپ کے شرکا کا گروپ فوٹو
ایک دن پر مشتمل یہ ورک شاپ مختلف سیشنز پر مشتمل تھی ، بامعنی لیکچرز، دستاویزی فلموں کی نمائش اور بین الاقوامی سطح کے متعلقہ مقررین نے شرکاء سے خطاب کیا اور آثار قدیمہ کے تحفظ کی اہمیت پر روشنی ڈالی، اس دوران ہیریٹیج فاونڈیشن کے زیر نگرانی کریما ولیج اور مکلی کے تاریخی قبرستان کا دورہ بھی کرایا گیا۔
ورکشاپ سے افتتاحی خطاب ڈائریکٹر برائے نوادرات عبدل فتح شیخ نے کیا جو کہ مکلی کے کسٹوڈین بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے یہ ورثہ حکومت ِ سندھ کے زیراہتمام آیا ہے جس کے بعد سے اس کی بحالی کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں ، جن میں باؤنڈری وال کی تعمیر، قبرستان میں گاڑیوں کی آمد ورفت پر پابندی، شجر کاری، شٹل سروس اور ثقافتی تحائف کی شاپ قائم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہیریٹیج فاؤنڈیشن سمیت مختلف اداروں کے تعاون سے اس تاریخی ورثے کی بحالی کا م بھی جاری ہے۔
یاسمین لاری – سربراہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن
اس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مکلی کے تاریخی قبرستان کے بارے میں دستاویزی فلم پیش کی گئی جس میں مکلی میں حکومت کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات شامل ہیں۔اس کے بعد ہیریٹیج فاونڈیشن آف پاکستان کی سی ای او یاسمین لاری نے قومی ورثے کی حفاظت کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اپنے ادارے کے کردار کو اجاگر کیا۔
معروف ماہر تعمیرات اور پی سی اے ٹی پی کے چئیرمین اسد آئی اے خان نے ورثے اور انسان دوست سرگرمیوں کی حوالے سے فنِ تعمیر کے کردار پر بات کی۔ سی ای او سپرچوئل کورڈز (جنوبی افریقہ) مس صفیہ موسی نے شراکت داری کے رجحانات جب کہ یونیسکو اسلام آباد کے کلچرل آفیسر جناب جواد عزیز نے پناہ گزینوں کے لئے رہائشی انتظامات کے حوالے سے دور حاضر کے جحانات پر بات کی۔
پروفیسر سلمیٰ دملوجی – بیروت
پروفیسر سلمٰی دملوجی بیروت سے تعلق رکھنے والی ماہرِ آثار قدیمہ اور آرکیٹیکچر ہیں ، انہوں نے اس حوالے سے اپنی ڈاکیومنٹری پیش کی کہ کس طرح دیگر ممالک میں آثارِقدیمہ کو محفوظ کرنے کا کام جاری ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پرنس کلاؤز فاؤنڈیشن کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا جس کے تعاون سے مکلی میں آثارِ قدیمہ کی بحالی کا عمل جاری ہے۔ ان کا بنیادی موضوع عرب اسلامک آرکیٹیکچر ہے۔
کریمہ ولیج – مکلی
ہیریٹیج فاونڈیشن شہناز رمزی نےدستاویزی فلم’اے سیلیوٹ ٹو کریما – بیگر وومن ٹرنڈ بئیر فُٹ انٹرا پرینیور‘ کا مختصر ورژن پیش کیا ۔ یہ ایک ایسی سابقہ بھکارن کی زندگی پر مبنی کہانی ہے کہ جس نے یہ کام چھوڑ کر روزگار کے لئے محنت کا راستہ اپنایا۔
کریما نامی خاتون اسی ولیج کی رہائشی ہیں جو پہلے بمشکل پانچ ہزار روپے ماہانہ تک کما پاتی تھیں لیکن انہوں نے ماحول کو متاثر نہ کرنے والے چولہے بنانے کی تربیت فراہم کرکے اور انہیں فروخت کرکے اپنا کام اس قدر بڑھا لیا ہے کہ وہ اب ماہانہ لاکھوں روپےکما رہی ہیں۔
کریمہ ولیج کی خواتین
کریما ولیج مکلی کے ساتھ ہی آباد ایک ایسا گاؤں ہے جس کے رہائشی پہلے بھیک مانگ کر گزر اوقات کیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے سندھ کے قدیم فن یعنی کاشی کے کام کا یہاں احیاء کیا اور یہاں کے مرد وخواتین کو اس کام کی تربیت دے کر انہیں مکلی کی بحالی کے کام میں اپنے ساتھ شریک کیا۔اس عمل سے ان لوگوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا ہوگیا اور اب وہ بھیک مانگنے کے بجائے معاشرے کا ایک کارآمد حصہ ہیں۔
اس کے بعد کے بعد شرکاء کو مکلی کے رہائشیوں کی تیار کردہ اشیاء دکھائی گئیں جو انھوں نے نہایت ذوق و شوق اور جذبے کے ساتھ خریدیں ۔شرکاء کو کمیونٹی جنگل اور ذریعہ معاش کے لئے کاشت کاری سے جڑی دیگر سرگرمیاں بھی دکھائی گئیں جو ان کے لئے حیران کردینے والا تجربہ تھا۔ اس کے بعد مکلی کے دورے کے بعد یہ عالمی ورکشاپ اختتام پذیر ہوگئی۔
کمیونٹی جنگل اور مقامی دستکاروں کی بنائی گئی مصنوعات
اس بین الاقوامی ورک شاپ کا مقصد اب تک کی وضع کردہ حکمت عملی کا جائزہ لینا اور اس میں بہتری کے لئے مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانا تھا۔ ایونٹ کے ذریعے جامعات کے طلباء کو بھی ثقافتی ورثے، شجرکاری اور فلاحی سرگرمیوں کے حوالےسے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ مجموعی طور پر یہ مقامی کمیونٹی اور مہمانوں کے لئے ایک منفرد اور سودمند تجربہ ثابت ہوا۔