Tag: مکڈونلڈز

  • بچوں کے لیے کھانے کے ساتھ کھلونوں کی جگہ کتابوں کا تحفہ

    بچوں کے لیے کھانے کے ساتھ کھلونوں کی جگہ کتابوں کا تحفہ

    دنیا بھر کی مختلف کمپنیاں گاہکوں کو لبھانے کے لیے نت نئی تکنیکیں استعمال کرتی ہیں اور ان کا ہدف مختلف عمر کے افراد ہوتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش معروف فوڈ چین بھی اپنے ننھے گاہکوں کے لیے کرتی ہے جس میں انہیں کھانے کے ساتھ کھلونے بھی دیے جاتے ہیں، اس ڈیل کو ہیپی میل کہا جاتا ہے۔

    تاہم نیوزی لینڈ میں ایک انوکھا تجربہ کیا گیا، جسے بعد ازاں بے حد پذیرائی ملی۔

    نیوزی لینڈ میں ہیپی میل میں بچوں کو کھلونوں کی جگہ کتابیں دی گئیں جسے دیکھ کر ننھے بچے اور ان کے والدین ایک لمحے کے لیے حیران رہ گئے۔

    کمپنی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فونز کی آمد کے ساتھ ننھے بچوں میں مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے، ان کی یہ کاوش مطالعے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔

    ہیپی میل میں بچوں کے مصنف رولڈ ڈہل کی کتابیں رکھی گئی ہیں جنہوں نے ’چارلی اینڈ دا چاکلیٹ فیکٹری‘ جیسے مشہور ناول سمیت بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔

    ان رنگ برنگی کتابوں کے ساتھ مختلف اسٹیکرز بھی دستیاب ہیں جبکہ ان میں بچوں کو مختلف بیرونی سرگرمیاں کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں ماحول دوست بھی ہیں، ان کی جگہ پلاسٹک کے کھلونے نہایت مختصر وقت کے لیے بچوں کے کھیلنے کے کام آتے ہیں جس کے بعد انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ یوں یہ کھلونے کچرے اور آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

    فوڈ چین کے اس اقدام کو نہایت پذیرائی حاصل ہورہی ہے تاہم ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس پر تنقید کر رہے ہیں۔

    بعض افراد کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے مفت کتابیں ہماری قریبی لائبریری میں دستیاب ہیں تو پھر پیسے خرچ کر کے اور بچوں کے موٹاپے کی قیمت پر ان کتابوں کو خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔

    آپ کو یہ کوشش کیسی لگی؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • عالمی یوم خواتین: مکڈونلڈز کا خواتین کو خوبصورت خراج تحسین

    عالمی یوم خواتین: مکڈونلڈز کا خواتین کو خوبصورت خراج تحسین

    امریکی فوڈ کمپنی مکڈونلڈز نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر دنیا بھر کی خواتین کو انوکھا خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے لوگو کو پلٹ دیا جس کے بعد مکڈونلڈز کا ’ایم‘ ‘ڈبلیو‘ بن گیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق مکڈونلڈز نے تاریخ میں پہلی بار یہ انوکھا قدم نہ صرف دنیا بھر کی باصلاحیت خواتین بلکہ مکڈونلڈز میں کام کرنے والی خواتین کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔

    لوگو پلٹ دینے کے بعد مکڈونلڈز کا لوگو آج کے دن ڈبلیو (ویمن ۔ خاتون) کی طرح دکھائی دے گا۔

    مکڈونلڈز کے چیف ڈائیورسٹی آفیسر کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ادارے میں کام کرنے والی خواتین کی قدر کرتے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق مکڈونلڈز کی دنیا بھر میں موجود شاخوں میں مجموعی طور پر 62 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ویٹی کن سٹی میں مکڈونلڈز کھل گیا

    ویٹی کن سٹی میں مکڈونلڈز کھل گیا

    روم: عیسائیوں کے مقدس ترین مرکزی مقام ویٹی کن سٹی میں واقع سینٹ پیٹرز چرچ کے قریب مشہور فاسٹ فوڈ چین مکڈونلڈز نے اپنی شاخ کا افتتاح کردیا جس نے روایت پسندوں کو ناک بھوں چڑھانے پر مجبور کردیا۔

    گزشتہ برس جب اس منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا تب چرچ کے مرکزی پادریوں میں سے ایک ایلیو سگریشیا نے اس پر سخت تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مکڈونلڈز کا فاسٹ فوڈ نہ صرف حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا بلکہ یہ قدیم عیسائی روایات کے بھی خلاف ہے۔

    mcdonalds-2

    انہوں نے مرکزی چرچ کے قریب مکڈونلڈز کے قیام کو چرچ کی توہین قرار دے دیا۔

    ایلیو سگریشیا نے واضح کیا کہ چرچ کے قریب موجود خالی جگہوں کو بے سہارا اور غریب افراد کو پناہ فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے۔

    دوسری جانب چند مقامی کاروباری افراد نے بھی روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو خط لکھ کر خدشہ ظاہر کیا کہ ایک غیر ملکی فاسٹ فوڈ چین کا قیام ویٹی کن سٹی کی مذہبی، تاریخی، ثقافتی اور معاشرتی حیثیت کو متاثر کر سکتا ہے۔

    ادھر مکڈونلڈز کی انتظامیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گو کہ یہ ایک مقدس اور مذہبی مقام ہے تاہم یہ دنیا بھر میں ایک سیاحتی مقام کی بھی حیثیت رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہاں اپنی شاخ کھولی ہے۔

    mcdonalds-3

    انہوں نے واضح کیا کہ چرچ کے قریب قائم کیا جانے والا ریستوران وہاں کے مذہبی اور مقدس ماحول کی مکمل پاسداری کرے گا۔

    اس تمام مذہبی تنازعے سے قطع نظر مکڈونلڈز کے افتتاح کے چند روز بعد ہی چرچ کی دو ننوں کو دوپہر کے کھانے کے وقفے میں مکڈونلڈز کے اندر جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

    ان کے علاوہ بھی کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس نئی تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے علاقے کی معیشت کے لیے ایک بہتر قدم قرار دیا ہے۔