Tag: مہاجر

  • پناہ گزینوں کا عالمی دن

    پناہ گزینوں کا عالمی دن

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنگ، نقص امن یا کسی اور سبب سے اپنا وطن ترک کرنے والے پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، پاکستان گزشتہ 4 دہائیوں کے دوران 40 لاکھ مہاجرین کی مہمان نوازی کررہا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے تحت فیصلہ کیا تھا کہ سنہ 2001 سے ہر سال 20 جون کو پناہ گزینوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا، جس کا مقصد عوام کی توجہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کی طرف دلوانا ہے کہ جو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    عالمی سطح پر جنگوں، بدامنی، نسلی تعصب، مذہبی کشیدگی، سیاسی تناؤ اور امتیازی سلوک کے باعث آج بھی کروڑوں افراد پناہ گزینوں کی حیثیت سے دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسے افراد انتہائی غربت کے ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ بنیادی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں۔

    افغانستان میں امن و امان کی مخدوش حالت کے پیش نظر پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان بطور مہاجرین گزشتہ 36 سال سے پناہ گزین ہیں۔

    دوسری جانب شام میں مسلمانوں پر جاری بد ترین مظالم، بیرونی مداخلت اور اندرونی انتشار کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد کو دوسرے ممالک میں ہجرت کرنا پڑی اور ایسے افراد اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

    اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی مسلمان بھی اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر ہیں اور پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

    فلسطین کے بعد مہاجرین کے حوالے سے بڑا ملک افغانستان ہے جس کے 26 لاکھ 64 ہزار افراد مہاجرین کی حیثیت سے دوسرے ممالک میں موجود ہیں، عراق کے 14 لاکھ 26 ہزار افراد، صومالیہ کے 10 لاکھ 7 ہزار افراد اور سوڈان کے 5 لاکھ سے زائد افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

  • پناہ گزینوں کا عالمی دن: کروڑوں افراد دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور

    پناہ گزینوں کا عالمی دن: کروڑوں افراد دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنگ، نقص امن یا کسی اور سبب سے اپنا وطن ترکے کرنے والے پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، پاکستان گزشتہ 4 دہائیوں کے دوران 40 لاکھ مہاجرین کی مہمان نوازی کررہا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے تحت فیصلہ کیا تھا کہ سنہ 2001 سے ہر سال 20 جون کو پناہ گزینوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا، جس کا مقصد عوام کی توجہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کی طرف دلوانا ہے کہ جو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    عالمی سطح پر جنگوں، بدامنی، نسلی تعصب، مذہبی کشیدگی، سیاسی تناؤ اور امتیازی سلوک کے باعث آج بھی کروڑوں افراد پناہ گزینوں کی حیثیت سے دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسے افراد انتہائی غربت کے ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ بنیادی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں۔

    افغانستان میں امن و امان کی مخدوش حالت کے پیش نظر پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان بطور مہاجرین گزشتہ 36 سال سے پناہ گزین ہیں۔ پاکستان اس وقت جہاں خود امن و امان، معاشی و توانائی بحران سمیت مختلف بحرانوں کا شکار ہے ، ایسے حالات میں پناہ گزینوں کی یہ بڑی تعداد پاکستان کے لیے معاشی طور پر مزید مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

    دوسری جانب شام میں مسلمانوں پر جاری بد ترین مظالم، بیرونی مداخلت اور اندرونی انتشار کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد کو دوسرے ممالک میں ہجرت کرنا پڑی اور ایسے افراد اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

    اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی مسلمان بھی اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر ہیں اور پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

    فلسطین کے بعد مہاجرین کے حوالے سے بڑا ملک افغانستان ہے جس کے 26 لاکھ 64 ہزار افراد مہاجرین کی حیثیت سے دوسرے ممالک میں موجود ہیں، عراق کے 14 لاکھ 26 ہزار افراد، صومالیہ کے 10 لاکھ 7 ہزار افراد اور سوڈان کے 5 لاکھ سے زائد افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جنگ اور دہشت گردی کے باعث اندرون ملک اور دیگر ممالک میں ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد 3 کروڑ تک پہنچ چکی ہے جو کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ ہے۔

  • "کل ہجرت کرنے والوں کی ہی نہیں، نظریہ پاکستان کی بھی توہین کی گئی”

    "کل ہجرت کرنے والوں کی ہی نہیں، نظریہ پاکستان کی بھی توہین کی گئی”

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کل ہجرت کرنے والوں کی ہی نہیں، نظریہ پاکستان کی بھی توہین کی گئی.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کیا. ایم کیو ایم کے کنوینر کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی نے پناہ نہیں دی، ہم اپنےحصے کا پاکستان ساتھ لائے تھے.

    انھوں نے سابق صدر آصف زرداری کے متنازع بیان کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے اسے تضحیک آمیز قرار دیا، ایم کیو ایم ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا.

    بعد ازاں وفاقی وزیر  تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ ہجرت کرنے والوں کے لیے ایسی باتیں مناسب نہیں، یہ قابل مذمت ہے.

    آصف زرداری تاریخ  مسخ نہ کریں: فاروق ستار


    اس بیان پر فاروق ستار کی جانب سے ردعمل آیا ہے. انھوں‌ نے کہا ہے کہ آصف زرداری تاریخ کومسخ نہ کریں.

    فاروق ستار نے کہا کہ آصف زرداری نے بھارتی سازش کے تحت مہاجروں پر بیان دیا، بیان سے انارکی پھیل سکتی ہے ذمہ دارآصف زرداری ہوں گے.

    سابق میئر کراچی نے کہا زرداری یاد رکھیں، سندھ اسمبلی میں آزادی سے پہلے ہندو اکثریت تھی، تاریخ مسخ نہ کی جائے.

  • سندھی اورمہاجرکوالگ کرنا اشتعال انگیزی ہے، فاروق ستار

    سندھی اورمہاجرکوالگ کرنا اشتعال انگیزی ہے، فاروق ستار

    کراچی: ایم کیو ایم پاکستان کے سابق رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ اردو بولنے والے بھی سندھ کا اثاثہ ہیں، آصف زرداری نے مہاجروں کے وجود سے ہی انکارکیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ قومی اسمبلی میں مہاجروں کے خلا ف بیان اشتعال انگیزی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے مہاجروں کے وجود سے ہی انکارکیا، آصف زرداری کو ایسی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے، ذہن نشین کرلیں اردو بولنے والے بھی سندھ کا اثاثہ ہیں۔

    ایم کیو ایم پاکستان کے سابق رہنما نے کہا کہ آصف زرداری بھائی سے بھائی کو لڑانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، 2002 سے 2008 اور 2008 سے 2013 کا دورانیہ دیکھ لیں، 2008 کے بعد توکراچی میں اصل خون کی ہولی کھیلی گئی۔

    ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ لیاری گینگ وارکو سرکاری سرپرستی میں قائم کیا گیا، حقیقت سےآگاہ کرنا ہے توعزیربلوچ کی جے آئی ٹی پبلک کریں۔

    ایم کیو ایم پاکستان کے سابق رہنما نے کہا کہ جسٹس گلزار نے 3 روز پہلے کہا سندھ پاکستان کا کرپٹ صوبہ ہے، سندھ میں ایک بھی ترقیاتی منصوبے پرکام نہیں ہوا۔

  • اقوامِ متحدہ نے سعودی لڑکی کو پناہ گزین کا درجہ دے دیا

    اقوامِ متحدہ نے سعودی لڑکی کو پناہ گزین کا درجہ دے دیا

    بنکاک: آسٹریلوی حکومت نے کہا ہے کہ اپنے ملک سے فرار اختیار کرنے والی سعودی 18 سالہ سعودی لڑکی کو اقوام متحدہ نے قانونی طور پر پناہ گزین کا درجہ دے دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی شہری 18 راہف محمد القانون پیر کے روز کویت سے بنکاک پہنچی تھی جہاں اس نے  ایئرپورٹ ہوٹل میں خود کو قید کردیا تھا۔ لڑکی کے مطابق ترکِ مذہب کے سبب اسے سعودی عرب میں موت کی سزا ہوسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی جانب سے مذکورہ سعودی خاتون کا معاملہ آسٹریلوی حکومت کو سونپا گیا تھا۔

    بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی ویب سائٹ کے مطابق پناہ گزین کا درجہ عام طور پر کسی ملک کی حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے لیکن اقوام متحدہ کا ادارہ اس صورت میں یہ درجہ دے سکتا ہے جب ریاست ایسا نہ چاہتی ہو یا پناہ گزین کا درجہ نہ دے سکتی ہو۔

    امیگریشن حکام کی جانب سے ابتدائی بیان میں کہا گیا تھا کہ سعودی خاتون کو فی الحال واپس کویت جانا چاہیے، جہاں اس کے اہل خانہ خاتون کا انتظار کررہے ہیں۔

    آسٹریلوی دفتر داخلہ کی جانب سے کہا ہے کہ راہف القانون کے معاملے کو عام معاملے کے طور پر دیکھا جائے گا، آسٹریلوی حکومت کی جانب سے سعودی خاتون کے معاملے پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق آسٹریلوی حکام کی جانب سے راہف القانون کی پناہ کی درخواست منظور کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی خاتون کے والد سعودی عرب کے شمالی صوبے کے علاقے السولیمی کے گورنر ہیں۔

    راہف القانون نے کہا تھا کہ ’میری زندگی خطرے میں ہیں، مجھے میرے اہل خانہ کی جانب سے جان سے مارنے کا خطرہ ہے‘۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ القانون نے ایک روز قبل ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’میں نے آسٹریلیا، امریکا، برطانیہ اور کینیڈا میں پناہ کی درخواستیں دی ہیں‘۔

    مزید پڑھیں : سعودی عرب سے فرار لڑکی کے والد بیٹی سے ملنے بنکاک پہنچ گئے

    یاد رہے کہ گذشتہ روز  سعودی عرب سے فرار ہو کر تھائی لینڈ آنے والی 18 سالہ لڑکی کے والد اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے بنکاک پہنچے تھے تاہم اس نے اپنے اہل خانہ سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا۔

    تھائی لینڈ امیگریشن چیف کے مطابق 18 سالہ راہف کے والد اور بھائی اس سے مل کر اسے گھر واپس جانے کے لیے آمادہ کرنا چاہتے ہیں تاہم اس سے قبل انہیں اقوام متحدہ کی اجازت لینی ہوگی۔

  • پناہ گزینوں کا عالمی دن

    پناہ گزینوں کا عالمی دن

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنگ، نقصِ امن یا کسی اور سبب سے اپنا وطن ترکے کرنے والے پناہ گزینوں کا عالمی دن منایاجارہا ہے، پاکستان گزشتہ 4 دہائیوں سے پندرہ لاکھ سے زائد مہاجرین کی مہمان نوازی کررہا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے تحت فیصلہ کیا تھا کہ2001 ء سے ہرسال 20 جون کو پناہ گزینوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائیگا، جس کا مقصد عوام کی توجہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کی طرف دلوانا ہے کہ جو جنگ ، نقص امن یا مختلف وجوہات کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کردوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    اس دن لوگوں میں سوچ بیدار کی جاتی ہے کہ وہ ان پناہ گزین بھائیوں کی ضرورتوں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کا ادارہ یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنرفاررفیوجیز اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا کے سو سے زائد مما لک میں اس دن کو خوب جذبہ سے مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر سال 20 جون کا دن پناہ گزینوں کے عالمی دن کے طور پرمنایا جاتا ہے۔

    Migrant 1

    عالمی سطح پر جنگوں، بدامنی، نسلی تعصب، مذہبی کشیدگی، سیاسی تناؤ اورامتیازی سلوک کے باعث آج بھی کروڑ وں افراد پناہ گزینوں کی حیثیت سے دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسے افراد انتہائی غربت کے ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ بنیادی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں۔

    افغانستان میں امن و امان کی مخدوش حالت کے پیش نظر پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعدا د میں افغان بطورمہاجر گزشتہ 36 سال سے پناہ گزین ہیں۔ پاکستان اس وقت جہاں خود امن و امان، معاشی و انرجی بحران مختلف بحرانوں کا شکار ہے ، ایسے حالات میں پناہ گزینوں کی یہ بڑی تعداد پاکستان کے لیے معاشی طور پر مزید مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، جب کہ افغانستان کی صورت حال اب بہتری کی جانب گامزن ہے، ایسے میں حکومت پاکستان افغان پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک بھیجنے کے لئے اقدامات کررہی ہے، واپسی پر ان خاندانوں کو معقول وظیفہ بھی دیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود لاکھوں افغان پناہ گزین واپس جانے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔

    ان دنوں شام میں مسلمانوں پر جاری بد ترین مظالم ، بیرونی مداخلت اور اندرونی انتشار کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد کو دوسرے ممالک میں ہجرت کرنا پڑی ہے اور ایسے افراد اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی مسلمان اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر ہیں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ فلسطین کے بعد مہاجرین کے حوالے سے بڑا ملک افغانستان ہے جس کے 26 لاکھ 64 ہزار افراد مہاجر کی حیثیت سے دوسرے ممالک میں موجود ہیں، عراق کے 14 لاکھ 26 ہزار افراد، صومالیہ کے 10 لاکھ 7 ہزارافراد، سوڈان کے 5 لاکھ سے زائد افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کو عالمی یوم پناہ گزین پر اپنے بنگلہ دیشی پاکستانی محصورین کو نہیں بھولنا چاہیے جو آج بھی اپنے دل میں پاکستان کی محبت لیے بنگلہ دیشی حکومت کے ناروا سلوک کا ظلم جھیل رہے ہیں۔

    جنگوں، تشدد اور دہشت گردی کے باعث بے گھراورہجرت پرمجبورافراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اوران کی تعداد جنگ عظیم دوم کے دوران بے گھرافراد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔

    Migrant-3

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جنگ اور دہشت گردی کے باعث اندرون ملک اور دیگر ممالک میں ہجرت کرنے والے افراد کی تعدادتین کروڑ تک پہنچ چکی ہے جو کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ ہے۔ مہاجرین کی اس حالیہ تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ شام میں جاری خانہ جنگی ہے۔

    اعداد وشمار کے مطابق ترکی میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد رواں برس 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور یوں ترکی اس وقت پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر مہاجرین کو پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ پاکستان میں پناہ گزینوں کی تعداد 15 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت افغانیوں کی ہے۔

    شام کے مظلوم شہری اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بے گھر اور پناہ گزین ہیں۔ اس کے بعد افغانستان اور صومالیہ کا نمبر آتا ہے جبکہ میانمار سے ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کے ادارے یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار رفیوجیز کے سربراہ اینتونیوگ ترز کا کہنا ہے کہ یہ تعداد انتہائی پریشان کن ہے، اس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر انفرادی تکالیف کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عالمی برادری کشیدگی کو روکنے اور مسائل کے بروقت حل میں کس قدر ناکام ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حالیہ 76 لاکھ پناہ گزینوں کا مطلب ہے کہ ہر چار اعشاریہ ایک سیکنڈ کے بعد ایک شخص کو اپنا گھر چھوڑنا پڑ رہا ہے، آپ کے ہرپلک جھپکنے پر ایک اور شخص پناہ گزین بن رہا ہے۔ اپنا گھر، اپنا سرزمین چھوڑنے کا دکھ ایک پناہ گزین ہی جان سکتا ہے اس پر غیر ملک میں پناہ گزین کی حیثیت سے کسمپرسی کی زندگی بسر کرنا انسانیت کی تضحیک کے مترادف ہے، بلاشبہ میزبان ملک پناہ گزینوں کو جگہ دے کر انسانیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ پناہ گزینوں کو کبھی بھی برابر کے شہری حقوق میسر نہیں آتے۔

    پناہ گزینوں کے اس عالمی دن کا پیغام ہے کہ اقوام عالم کو چاہئے وہ اقوام متحدہ کے کردار کواس قدر مضبوط بنائیں کہ وہ ملکوں، قوموں کے درمیان تنازعات، شورشوں اور نقص امن کی صورتحال پر اپنا موثر کردار ادا کرسکے، تاکہ دنیا بھر کے ممالک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہواور کسی کو کسی دوسرے ملک میں پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب: اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں خوفناک بربادی و تباہی دیکھنے والے بچے شدید صدمے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

    حلب میں یونیسف کے فیلڈ آفس کے نگران رڈوسلا رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں تمام بچے اس سے متاثر ہیں اور تمام ہی بچے صدموں اور مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

    رزاک گزشتہ 15 سال سے یونیسف کے لیے حلب میں کام کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچوں کی نفسیات میں یہ ڈرامائی اور پریشان کن تبدیلیاں پہلی بار دیکھی ہیں۔

    child-2

    اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی سے اب تک 8 ہزار سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں بچے جنگ کے دوران مارے گئے، کئی ایسے ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ قیدی بنا لیے گئے اور قید خانوں میں انہوں نے سخت اذیتیں سہیں۔

    یونیسف اہلکار رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں نصف سے زائد بچوں کو نفسیاتی علاج اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہے، ان میں سے بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں طویل عرصہ تک ماہرین کی زیر نگرانی طبی و نفسیاتی علاج چاہیئے۔

    :دوران جنگ پیدا ہونے والے بچے

    یونیسف کے مطابق حلب میں بہت سے بچے ایسے ہیں جو جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی عمریں اب 1 سے 5 سال کے درمیان ہیں اور اس مختصر زندگی میں انہوں نے سوائے خون خرابے اور بمباری کے کچھ نہیں دیکھا۔ ’اس نے ان کی نفسیات کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے‘۔

    رزاک نے بتایا کہ ان بچوں کے لیے یہ ایک معمول کی سی بات بن گئی ہے کہ وہ کئی دن تک بھوکے رہیں، بمباری ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگیں یا اپنے والدین کے ساتھ زیر زمین بنکرز میں جا چھپیں۔ ’یہ ان کے لیے کوئی خطرے والی بات نہیں۔ یہ ان کے لیے روزمرہ کی معمول کی زندگی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    رزاک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے بھی عادی نہیں کہ ان کے والدین کو ان کی حفاظت کرنی ہے۔ کیونکہ بمباری کے وقت ان کے والدین خود اپنی جانیں بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں، علاوہ ازیں وہ خود اپنے لیے بھوک پیاس اور مختلف نفسیاتی مسائل سے برسر پیکار ہیں۔

    واضح رہے کہ مارچ 2011 سے شروع ہونے والی شام کی اس خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں ایسے ہیں جو شام سے ہجرت کر چکے ہیں اور مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں یا پناہ کی تلاش میں تا حال دربدر پھر رہے ہیں۔

  • پرندوں کے شکار کے لیے بچھائے گئے جال قانون کی گرفت میں

    پرندوں کے شکار کے لیے بچھائے گئے جال قانون کی گرفت میں

    ٹھٹھہ: محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے کینجھر جھیل میں بچھائے گئے غیر قانونی جالوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 70 سے زائد جالوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

    ترجمان محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق یہ کارروائی نئے سیکریٹری برائے جنگلات و جنگلی حیات منظور علی شیخ کے حکم کے بعد عمل میں لائی گئی۔ کینجھر جھیل میں بڑی تعداد میں زیر سمندر غیر قانونی طور پر جال بچھائے گئے ہیں جن کا مقصد ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کو پکڑنا ہے۔

    wildlife-2

    wildlife-4

    محکمہ کے کنزرویٹر سعید اختر بلوچ کی نگرانی میں کی جانے والی اس کارروائی میں 70 سے زائد جالوں کو قبضہ میں لے لیا گیا ہے۔

    محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے کالے ہرن کے شکار کی دعوت *

    ان کا کہنا ہے کہ پرندوں کے شکار کے لیے لگائے گئے آخری جال کو قبضہ میں لیے جانے تک آپریشن جاری رہے گا اور اس میں ملوث افراد و شکاریوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    wildlife-5

    wildlife-3

    واضح رہے کہ کینجھر جھیل پاکستان کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے اور یہ کراچی اور ٹھٹھہ میں فراہمی آب کا ذریعہ ہے۔

    یہ جھیل ’رامسر‘ سائٹ میں سے ایک ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ماحولیاتی حوالے سے ایک خوبصورت جھیل ہے۔

    keenjhar-1

    keenjhar-3

    سنہ 1977 میں اس جھیل کو ’وائلڈ لائف سینکچری‘ یعنی جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا۔

    کینجھر جھیل سائبیریا سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی میزبان جھیلوں میں سے ایک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں آنے والے پرندوں کی تعداد 1 لاکھ تک ہے۔

    keenjhar-4

    ان پرندوں میں چیکلو، ڈگوش، آڑی، کونج، سرخاب، نیل سر، لال سر سمیت مختلف اقسام کے پرندے شامل ہیں جو اپنے محضوص راستے انڈس فلائی زون کے ذریعہ پاکستان آتے ہیں۔

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت *

    بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان پرندوں کے شکار پر پابندی ہے تاہم ان کی آمد کے ساتھ ہی شکاری بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور یہ نایاب پرندے بے دردی سے شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔

  • مہاجروں کی نمائندہ جماعت کو ختم کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، ترجمان ایم کیو ایم

    مہاجروں کی نمائندہ جماعت کو ختم کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، ترجمان ایم کیو ایم

    کراچی : متحدہ قومی موومنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ماضی میں مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوشش کی وہ دنیا میں رسوا ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاک سرزمین کے سربراہ مصطفیٰ کمال کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے ترجمان نے کہا کہ مصطفیٰ کمال اور ضمیر فروش ٹولے کے لوگ اسٹیبلشمنٹ کے تیار کردہ منصوبے کے تحت مہاجروں کی واحد نمائندہ جماعت کو ختم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، مگر ان کے خواب کبھی پورنے نہیں ہوں گے۔

    ترجمان ایم کیو ایم نے مزید کہا کہا اپنے ظرف و ضمیر اور قوم کے ہزاروں شہیدوں کے لہو کا سودا کرنے ولے مصطفیٰ کمال نامی شخص کسی کے کاندھے پر سوار ہوکر خدائی دعوے کرنے میں مصرف ہے، جو شخص بھی ایسا کرتا ہے اُس نہ صرف دنیا بلکہ خدا کے عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

    اس موقع پر ترجمان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی مائنس فارمولا متعارف کرواکر ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ لوگ بری طرح ناکام ہوئے اور ایم کیو ایم کا پیغام آج ملک کے گوشے گوشے میں پھیل چکا ہے۔

  • ایم کیو ایم کا 22 مئی سے عوامی احتجاج کا اعلان

    ایم کیو ایم کا 22 مئی سے عوامی احتجاج کا اعلان

    کراچی: ایم کیو ایم نے پانی کی قلت کے خلاف بائیس مئی سے احتجاجی مظاہرہ کا اعلان کیا ہے، رابطہ کمیٹی نے کہا کہ مصنوعی قلت کی وجہ سے کراچی تھر کا منظر پیش کررہاہے۔

    پریس کانفرنس کرتے ہوئے متحدہ قومی مومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رہنما حیدرعباس رضوی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم انتہائی مجبوری میں احتجاج کی کال دے رہی ہے، ایم کیو ایم کے احتجاج پر امن ہونگے۔

     حیدر عباس رضوی نے کہا کہ ایم کیو ایم پانی کیلئے سندھ بھر میں مظاہرے کرے گی، کراچی کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسایا جا رہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی قلت کی وجہ سے کراچی تھر کا منظر پیش کررہاہے، پیر یکم جون کو سکھر،2جون نوابشاہ میں مظاہرہ کرینگے، 4جون کو میرپور خاص اور5جون کو حیدرآباد میں مظاہرہ ہوگا، 6جون کو کراچی میں پانی کی کمی کے خلاف بڑا مظاہرہ ہوگا۔