Tag: مہاجرین

  • شام کے تباہ ہوتے ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوشش میں سرگرداں فنکار

    شام کے تباہ ہوتے ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوشش میں سرگرداں فنکار

    دمشق: شام کی جنگ نے جہاں لاکھوں افراد کو موت سے ہمکنار کردیا، اور اس سے کہیں زیادہ تعداد کو بے گھر ہو کر دربدر پھرنے پر مجبور کردیا وہیں اس جنگ نے شام کی تاریخ و ثقافت کو بھی بے حد نقصان پہنچایا۔

    شام کے طول و عرض پر پھیلے کئی تاریخی مقامات فضائی و زمینی حملوں کے باعث تباہ و برباد ہوگئے۔ شام میں 6 مقامات ایسے ہیں جو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس میں پالمیرا کے کھنڈرات، حلب، اور دمشق وغیرہ شامل ہیں۔

    اپنے ملک کے ایسے تاریخی ورثے کی تباہی کو دیکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام سے تعلق رکھنے والے فنکار اس ورثے کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    یہ فنکار جنگ کو تو نہیں روک سکتے، تاہم وہ اس گم گشتہ ثقافت کی ایک جھلک کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ضرور محفوط کر سکتے ہیں، اور وہ یہ کام بہت جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔

    اردن میں پناہ گزین ایسے ہی کچھ فنکار بھی اپنے ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے شام کے تباہ شدہ تاریخی مقامات کی نقل بنانی شروع کی۔

    8

    2

    اردن کے زاتاری کیپ میں پناہ گزین ان شامیوں نے اپنے پروجیکٹ کو ’آرٹ فرام زاتاری‘ کا نام دیا۔

    اس پروجیکٹ کے تحت انہوں نے شام کے قابل ذکر تاریخی مقامات کی مختصر شبیہیں بنانی شروع کیں۔ ان منی ایچر ماڈلز کو بنانے کے لیے ان فنکاروں نے چکنی مٹی اور سیخوں کا استعمال کیا۔

    6

    5

    4

    3

    ان فنکاروں نے دمشق کی مسجد امیہ، حلب کا قدیم قلعہ، نوریاز نامی کنویں کی قدیم رہٹ، پالمیرا کے کھنڈرات اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا مجسمہ تخلیق کیا ہے۔

    ان فنکاروں میں سے ایک محمد حریری کہتے ہیں کہ یہ کام نہ صرف ان کی خوبصورت مگر برباد شدہ ثقافت کو کسی طرح حد تک محفوظ کر رہا ہے بلکہ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں بھی نکھار آرہا ہے۔

    7

    حریری کا کہنا ہے کہ ان کا یہ کام آئندہ آنے والی نسلوں کو بتائے گا کہ جنگ زدہ شام ایک زمانے میں نہایت خوبصورت اور تاریخی ثقافت سے مالا مال تھا۔

    واضح رہے کہ شام کے لوگ پچھلے 5 سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ سے زائد شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔

  • پولیس افسر اور پناہ گزین خاتون کی محبت کی کہانی

    پولیس افسر اور پناہ گزین خاتون کی محبت کی کہانی

    عراق اور شام کی خانہ جنگی نے لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا اور ان افراد کی دوسرے ممالک میں داخلے کی ناکام کوششوں، اور دربدری کی زندگی نے جہاں بے شمار ناخوشگوار واقعات اور المیوں کو جنم دیا وہیں یہ حالات کسی کی زندگی کو خوشگوار بنانے کا سبب بھی بن گئے۔

    نورا ارکوازی اور بوبی ڈوڈوسکی بھی ایسے ہی افراد تھے جن کی زندگی ان حالات کے باعث مکمل طور پر تبدیل ہوگئی اور یہ تبدیلی نہایت خوشگوار تھی۔

    ان دونوں کی پہلی ملاقات نہایت ہی عجیب و غریب انداز میں ہوئی جسے حسن اتفاق یا رومانوی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ نورا عراق کے جنگ زدہ علاقے سے ہجرت کر کے اپنے خاندان اور دیگر درجنوں افراد کے ساتھ مقدونیہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں اور بوبی ان پولیس اہلکاروں میں شامل تھے جو کسی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں موجود تھے۔

    بوبی اس ڈیوٹی پر اپنے ایک ساتھی کی جگہ پر نہایت ہی غیر متوقع طور پر موجود تھے۔

    refugee-2

    دوسری جانب نورا اپنی والدہ، بھائی اور بہن کے ساتھ اپنا گھر چھوڑ کر ایک طویل سفر طے کر کے مقدونیہ پہنچی تھیں۔

    دیگر لاکھوں مہاجرین کی طرح نورا بھی کسی یورپی ملک میں جا کر روزگار حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ اس کے لیے ان کی نظر جرمنی پر تھی۔ وہ کہتی ہیں ’میں اپنے خاندان کے ساتھ جرمنی جانا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ میری قسمت مجھے کہاں دھکیل رہی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    جب ان دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تو نورا شدید بخار کی حالت میں تھیں۔ انہیں واحد فکر یہ تھی کہ کیا انہیں اور ان کے خاندان کو مقدونیہ میں پناہ مل سکتی ہے۔ اس وقت اکثر مغربی ممالک نے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے تھے لہٰذا وہاں ہجرت کر کے آنے افراد کو علم نہیں تھا کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔

    ان کے مطابق جب انہوں نے وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے گفتگو کرنا چاہی تو ان سب نے انہیں بوبی کی طرف بھیج دیا کیونکہ اس وقت وہ واحد پولیس اہلکار تھے جو انگریزی میں گفتگو کرسکتے تھے۔

    refugee-4

    نورا نے بوبی سے اپنی اور اپنی بیمار والدہ کے بارے میں پوچھا کہ کیا انہیں علاج کی مناسب سہولیات مل سکیں گی۔ بوبی نے انہیں صرف چند الفاظ کہے، ’فکر مت کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا‘۔

    نورا اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ہنستی ہیں کہ بوبی ان سے بات کرتے ہوئے انہیں دیکھے بنا رہ نہیں پا رہے تھے۔

    بعد ازاں ان لوگوں کی مزید ملاقاتیں ہوئیں۔ نورا نے وہیں پر ریڈ کراس کے لیے کام کرنا شروع کردیا تھا جبکہ بوبی بھی وہاں موجود پناہ گزینوں کی مدد کے لیے کوشاں تھے۔ اپنے دیگر ساتھیوں کے برعکس بوبی پناہ گزین بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے اور بڑوں کی مدد کرتے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    بالآخر کچھ عرصے بعد بوبی نے نورا کو شادی کی پیشکش کی جو نورا نے قبول تو کرلی۔ مگر انہیں اپنے خاندان کی مخالفت کا ڈر تھا کہ شاید وہ اسے کسی غیر مسلم شخص سے شادی نہ کرنے دیں۔

    تاہم ان کے خدشات غلط ثابت ہوئے اور نورا کے والدین نے کسی قدر غصے سے مگر اجازت دے دی۔

    refugee-3

    ان دونوں کی شادی بھی نہایت منفرد تھی جو تمام مذاہب کے 120 افراد کے سامنے منعقد کی گئی۔ مہمانوں نے کئی گھنٹے رقص کیا اور گانے گائے۔

    نورا اب بوبی کے ساتھ ان کے گھر میں رہتی ہیں اور یہ جوڑا نہایت ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہے۔ بوبی اس سے قبل بھی دو بار شادی کر چکے تھے جن سے ان کے 3 بچے ہیں۔ نورا بھی حاملہ ہیں اور وہ بوبی کے بچوں کے ساتھ نہایت پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔

    یہ دونوں لوگوں کو پیغام دیتے ہیں، ’کسی کی فکر مت کریں، صرف اپنے آپ پر یقین کریں اور محبت پر یقین رکھیں۔ اس کے بعد زندگی خوبصورت ہوجائے گی‘۔

  • شامی مہاجرین کی مشکلات میں اضافہ

    شامی مہاجرین کی مشکلات میں اضافہ

    دمشق: شام میں خانہ جنگی کے باعث کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور شامی مہاجرین کی مشکلات میں شدید سردی اور برفباری نے مزید اضافہ کردیا۔

    اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور شامی مہاجرین کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ کیمپوں میں پناہ گزین بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو موسم کی شدت کا سامنا ہے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    شام کے شہر ادلب کے پناہ گزین کیمپوں میں بدترین صورتحال میں زندگی گزارتے افراد نا کافی سہولتوں کے ساتھ شدید سردی اور برفباری کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔

    ایک شامی شخص کا کہنا ہے کہ انہیں گھر سے بے گھر ہوئے 2 سال ہوگئے ہیں۔ جہاں کیمپ قائم ہے یہ زرعی زمین ہے اور رہائش کے قابل نہیں لیکن وہ یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہم کیمپ کے اور دیگر اخراجات خود اٹھا رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اکیا کا اسٹور شامی خانہ جنگی سے تباہ حال گھر میں تبدیل

    اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی اب تک 4 لاکھ افراد کی جانیں لے چکی ہے۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔

  • فرنیچر ساز کمپنی کا اسٹور شامی خانہ جنگی سے تباہ حال گھر میں تبدیل

    فرنیچر ساز کمپنی کا اسٹور شامی خانہ جنگی سے تباہ حال گھر میں تبدیل

    کیا ہوگا جب آپ اپنے گھر کی آرائش کے لیے یہ سوچتے ہوئے سامان خریدنے جائیں کہ وہاں کیا کیا نیا دستیاب ہوگا، جس سے آپ اپنے گھر کو نئے انداز سے سجا سکیں گے، لیکن دکان میں داخل ہو کر آپ کو شدید جھٹکا لگے کیونکہ دکان کسی تباہ حال جنگ زدہ مقام کا منظر پیش کر رہی ہو۔

    ایسا ہی کچھ جھٹکا معروف فرنیچر ساز کمپنی اکیا کے گاہکوں کو لگا جب وہ جدید اور خوبصورت انداز کا فرنیچر اور سامان آرائش خریدنے کے لیے دکان میں داخل ہوئے اور انہیں لگا کہ وہ شام یا عراق کے کسی جنگ زدہ علاقہ میں آگئے ہوں۔

    ikea-2

    ناروے میں اکیا کا ایک اسٹور شامی خانہ جنگی کا شکار ایسے گھر کی طرز پر بنایا گیا ہے جو جنگ میں تقریباً تباہ ہوچکا ہو۔

    ikea-4

    اس انداز میں اسٹور کو ترتیب دینے کا مقصد دراصل عیش و عشرت کی زندگی میں مگن عام افراد کو شامی افراد کی حالت زار کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اکیا نے یہ مہم نارویجیئن ریڈ کراس کی معاونت سے شروع کی ہے۔

    نارویجیئن ریڈ کراس کے مطابق دمشق میں امدادی کاموں کے دوران ان کا سامنا رعنا نامی ایک خاتون سے ہوا جو اپنے خاندان کے دیگر 9 افراد کے ساتھ جنگ زدہ علاقہ سے ہجرت کر کے آئی تھی اور کسی طرح زندگی کی گاڑی کھینچ رہی تھی۔

    دس افراد پر مشتمل یہ خاندان 25 اسکوائر میٹر کے ایک خستہ حال کمرے میں رہ رہا ہے۔ ان کے علاقہ میں شدید خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی جس کے بعد وہ بہ مشکل جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلے اور دمشق آگئے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    مزید پڑھیں: گہرے رنگوں سے سجے جنگی ہتھیار

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    رعنا کا کہنا تھا کہ افراتفری کے اس ماحول میں کوئی مکان ملنا تو ناممکن ہی تھا، لہٰذا وہ اس ادھ تعمیر شدہ کمرے میں رہنے لگے۔ رعنا اور ان کے اہل خانہ کو نہ ہی تو لباس میسر ہے اور نہ ہی سردی سے بچنے کے لیے کمبل، زمین پر بچھانے کے لیے گدے کی تمنا تو فقط عیاشی ہے۔

    اکیا کے اسٹور میں قائم یہ گھر اسی رعنا کے گھر کی ہو بہو نقل ہے۔

    اکیا کے دیگر اسٹورز کی طرح یہاں بھی دیوراوں پر پوسٹرز آویزاں کیے گئے ہیں۔ فرق یہ ہے ان پر مشہور افراد کے اقوال یا خوبصورت مناظر کی جگہ شامی جنگ کا شکار خستہ حال بچوں کی کہانیاں درج ہیں۔

    ikea-5

    ikea-7

    اسی طرح اشیا کی قیمت کے ٹیگ پر خریداروں سے شامی مہاجرین کی مدد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

    ikea-6

    ikea-3

    اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی اب تک 4 لاکھ افراد کی جانیں لے چکی ہے۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔

  • تیس لاکھ مہاجرین کو ملک بدر یاگرفتارکرلیاجائےگا،ٹرمپ

    تیس لاکھ مہاجرین کو ملک بدر یاگرفتارکرلیاجائےگا،ٹرمپ

    واشنگٹن : نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سے30 لاکھ مہاجرین کو ملک بدر یاانہیں قید کرلیا جائے گا۔

    تفصیلات کےمطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے انٹرویو کے دوران کہا کہ ایسے افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی جو مجرم ہیں اور ان کے کریمنل ریکارڈ موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تقریبا 20 لاکھ سے 30 لاکھ ہوسکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل مسلمانوں کے خلاف تعصب اور ان کو ملک سے نکالنے کے بیانات پر کئی مرتبہ تنقید کی زد میں آچکے ہیں اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انہوں نے اس قسم کا بیان دیا ہو وہ اس سے قبل بھی مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی باتیں کرتے رہیں ہیں۔

    یاد رہے کہ 9 نومبر2016 کو امریکا میں ہونے والےصدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کوشکست دی اور وہ ملک کے 45ویں صدر منتخب ہوگئے۔

    مزید پڑھیں:امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج چوتھے روز بھی جاری

    ریپبلکن پارٹی کے صدراتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے 290 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جبکہ صدر منتخب ہونے کے لیے 538 میں سے 270 الیکٹورل ووٹ کی ضرورت تھی۔

    واضح رہےکہ ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2017 کو براک اوباما کی جگہ عہدہ صدارت کا حلف اٹھائیں گے اور وہ امریکہ کی 240 سالہ تاریخ میں معمر ترین صدر ہوں گے۔

  • لیبیاکےساحل کےقریب2کشتیوں کوحادثہ،سینکڑوں افراد ہلاک

    لیبیاکےساحل کےقریب2کشتیوں کوحادثہ،سینکڑوں افراد ہلاک

    طرابلس: لیبیا کے ساحل کے قریب مہاجرین کی دو کشتیاں ڈوب جانے کے نتیجے میں سینکڑوں افرادہلاک ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کا کہنا ہے کہ لیبیا کے ساحل سے روانہ ہونے والی مسافر کشتیوں میں میں سوار کم ازکم 240افراد ڈوب گئے تاہم کشتی پر سوار 29 افراد کو بچا لیا گیا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ مہاجرین کی کشتی لیبیا کے ساحل سے 20 ناٹیکل میل پر سمندری لہروں کا شکار ہوئی حادثے میں بچ جانے والے افراد کی حالت بھی تشویش ناک ہے۔

    انٹرنیشنل اورگنائزیشن فار مائیگریشن نے مذکورہ بچ جانے والی خواتین کے حوالے سے ہی اپنے ایک بیان میں کہا کہ واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 240 ہے۔

    مزید پڑھیں:کشتی الٹنے سے 28 تارکینِ وطن جاں بحق

    اٹلی میں موجود آئی او ایم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے اب تک خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ رواں سال کم سے کم 4200 مہاجرین خطرناک بحیرہ روم کی لہروں کا شکار ہو کر مختلف سمندری حادثات میں ہلاک ہوگئے ہیں۔

    واضح رہے کہ 21 اپریل 2016 کو بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کی وجہ سے 500 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

  • لیبیا: مہاجرین کی کشتی ڈوبنے سے9 افراد ہلاک

    لیبیا: مہاجرین کی کشتی ڈوبنے سے9 افراد ہلاک

    روم: لیبیا کے سمندری علاقے میں مہاجرین کی کشتی ڈوبنے سے9 افراد جاں بحق جبکہ بچوں سمیت 10 لاپتہ ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے حادثے میں بچنے والے مہاجرین کو کشتی ڈوبنے کے واقعے میں بچنے والوں کو ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز تنظیم کے اہلکاروں نے بچایا۔حادثے میں 10افراد لاپتہ ہوگئے جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔

    ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرزکی ترجمان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں نے واقعے میں ڈوبنے والے 120 افراد کو بحفاظت نکال لیاہے لیکن مزید افراد کے لاپتہ ہونے کا خدشہ ہے۔

    دوسری جانب اطالوی کوسٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ ہفتہ کے روز مجموعی طور پر 1000 سے زائد مہاجرین کی جانیں بچائی گئیں۔

    مزید پڑھیں:لیبیا: ساحل کےقریب مہاجرین کی کشتی ڈوبنے سے 117 افراد ہلاک

    واضح رہے کہ رواں سال جون میں لیبیا کے ساحل سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والی تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوب جانے سے117افراد جان کی بازی ہارگئے تھے۔

  • پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    ہجرت ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو عشروں سے بسا ہوا اس کا گھر اور پچھلی زندگی چھوڑ کر ایک نئی زندگی شروع کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اگر آگے آنے والی زندگی بہتر ہو تو یقیناً پچھلی جگہ سے ہجرت کرنا بہتر ہے۔ لیکن اگر آگے صرف تکلیف ہو، بے سروسامانی ہو، مصائب ہوں، اور پریشانی ہو تو کوئی شخص، چاہے وہ کیسی ہی بدحال زندگی کیوں نہ گزار رہا ہو اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتا۔

    لیکن زندگی بہرحال ہر چیز سے بالاتر ہے۔ جب پرسکون گھر کے اطراف میں آگ کے شعلے گر رہے ہوں اور ہر وقت جان جانے کا دھڑکا لگا ہو تو مجبوراً ہجرت کرنی ہی پڑتی ہے۔

    پناہ گزین بچوں کے خواب *

    دنیا بھر کے مختلف ممالک میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں کے باعث اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے۔ یہ لوگ مختلف ممالک میں مہاجرین کے کیمپوں میں حسرت و یاس اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس مناسب غذا ہے، نہ رہائش، اور نہ تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطاق اس وقت دنیا بھر میں 60 ملین افراد اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کردیے گئے ہیں۔ یہ انسانی تمدن کی تاریخ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کیمپوں میں خواتین بھی ابتر حالت میں موجد ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے مہاجرین ان پناہ گزینوں کی امداد کے لیے کوشاں ہے تاہم کروڑوں افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے وسائل بھی ناکافی ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خواتین یو این وومین ان مہاجر کیمپوں میں موجود خواتین کی حالت زار کو سدھارنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ چاہتا ہے کہ یہ خواتین ان کیمپوں میں رہتے ہوئے ہی محدود وسائل کے اندر معاشی طور پر خود مختار اور ہنر مند ہوجائیں تاکہ یہ اپنی اور اپنی خاندانوں کی زندگی میں کچھ بہتری لا سکیں۔

    اسی طرح کا ایک پروگرام افریقی ملک کیمرون کے گاڈو مہاجر کیمپ میں شروع کیا گیا جہاں پڑوسی ملک، مرکزی جمہوریہ افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والی خاندان پناہ گزین ہیں۔

    مرکزی جمہوریہ افریقہ اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے اور ملک کی 20 فیصد آبادی اپنی زندگیاں بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہے۔ یو این وومین نے ان کیمپوں میں موجود خواتین کی معاشی و سماجی بہتری کے لیے بحالی کے پروگرام شروع کیے ہیں جن کے تحت اب تک 6250 خواتین مستفید ہوچکی ہیں۔ یہ خواتین غربت، صحت کے مسائل، صنفی امتیاز اور جنسی تشدد کا شکار تھیں۔

    یو این وومین کی ایک رپورٹ میں ان میں سے کچھ خواتین کی کہانی بیان کی گئی جو اقوام متحدہ کی مدد کے بعد اب ایک بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔

    1
    حوا

    مرکزی جمہوریہ افریقہ کی 23 سالہ حوا 8 ماہ کی حاملہ تھی جب خانہ جنگی میں اس کا شوہر، باپ اور بھائی مارے گئے اور ماں لاپتہ ہوگئی۔ حوا مشکل وقت کو جھیلنے کے لیے بالکل تنہا رہ گئی۔ وہ ایک مہاجر گروہ کے ساتھ سرحد پار کر کے کیمرون آگئی اور یہاں اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔

    2

    یو این وومین سے تربیت لینے کے بعد اب حوا ان کیمپوں میں ہی خشک مچھلی اور خشک میوہ جات فروخت کرتی ہے۔ اس کا بیٹا ایک کپڑے کی مدد سے اس کی پشت پر بندھا ہوتا ہے جبکہ ایک پڑوسی لڑکا اس کے سامان کا ٹھیلا گھسیٹتا ہوا اس کے ساتھ چلتا ہے۔

    4
    اردو فدیماتو

    اردو فدیماتو کیمپ میں رہنے والی 12 ہزار خواتین کی نمائندہ ہیں اور وہ یو این وومین کی کئی میٹنگز میں شریک ہو کر کیمپ کے مسائل بیان کرچکی ہیں۔ جنگ کے دوران اس کے 15 میں سے 8 بچے مارے گئے جبکہ شوہر لاپتہ ہوگیا تھا۔

    وہ کہتی ہیں، ’ایک خاتون لیڈر کی حیثیت سے سب سے بڑا مسئلہ مجھے والدین کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو گھر پر ہی رکھتے ہیں اور انہیں صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’یہاں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں‘۔

    5
    یایا دیا آدما

    یایا دیا آدما خانہ جنگی کے دوران اپنے 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آگئیں۔ اب یہاں یو این وومین کے زیر نگرانی انہوں نے کپڑوں کی سلائی کا کام سیکھ کر اپنا کام شروع کردیا ہے۔ وہ ہر روز تقریباً 1 سے 2 ہزار افریقی فرانک کما لیتی ہیں۔

    یایا مزید 3 خواتین کو بھی یہ ہنر سکھا رہی ہیں تاکہ وہ بھی ان کی طرح خود مختار ہوسکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

    6
    اوسینا حمادو

    اوسینا حمادو مہاجر کیمپ میں کھانے پینے کا ایک ڈھابہ چلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’یو این وومین نے مجھے اس کی تربیت دی اور مالی معاونت فراہم کی۔ میں نے اس رقم سے سرمایہ کاری کی اور اب اپنے کاروبار کی بدولت میں اپنے گھر کی مالک ہوں‘۔

    7
    نینی داؤدا

    نینی داؤدا بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جو کھانے پینے کا عارضی مرکز چلا رہی ہیں۔

    اپنے شوہر کے جنگ میں مارے جانے کے بعد وہ 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آئیں اور اب اپنے کاروبار کی بدولت اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی سلاماتو بھی ان کے اس کام میں ان کی معاون ہے۔

    8

    کیمرون کے مہاجر کیمپ کی رہائشی یہ خواتین گو کہ اپنے گھروں یاد کرتی ہیں مگر وہ اپنی موجودہ زندگی بدلنے کی خواہاں بھی ہیں اور اس کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ ضرور اپنے گھروں کو لوٹیں گی اور ایک نئی زندگی شروع کریں گی۔

  • داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    نیویارک: داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے اور بعد ازاں اپنی جان بچا کر واپس آنے والی عراقی خاتون نادیہ مراد طحہٰ کو اقوام متحدہ نے اپنا خیر سگالی سفیر مقرر کردیا ہے۔

    عراق کے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ نادیہ ایک عرصے سے داعش کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ 2014 میں ان کے گاؤں پر ہونے والے داعش کے حملہ کو یزیدیوں کا قتل عام قرار دیا جائے۔

    nadia-2

    واضح رہے کہ داعش نے عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر 2014 میں عراقی شہر سنجار کے قریب ان کے اکثریتی علاقہ پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔ داعش کے جنگجو سینکڑوں ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ نہ صرف اجتماعی زیادتی کی گئی بلکہ وہاں ان کی حیثیت ان جنگجؤوں کے لیے جنسی غلام کی ہے۔

    اغوا ہونے والی خواتین میں ایک نادیہ بھی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ داعش کے جنگجؤں نے ان کے ساتھ کئی بار اجتماعی زیادتی کی جبکہ انہیں کئی بار ایک سے دوسرے گروہ کے ہاتھوں بیچا اور خریدا گیا۔

    nadia-4

    وہ اس سے قبل بھی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہو کر اپنی کہانی سنا چکی ہیں جس نے وہاں موجود افراد کو رونے پر مجبور کردیا۔ ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں‘۔

    ایک رپورٹ کے مطابق داعش کی قید میں 3200 لڑکیاں موجود ہیں۔ نادیہ کا کہنا ہے کہ یہ خواتین داعش کے جنگجوؤں کے لیے جنسی غلام کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے عالمی طاقتوں سے انہیں آزاد کروانے کا مطالبہ کیا۔

    مزید پڑھیں: داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا

    وہ کہتی ہیں، ’مجھے خوف اس بات کا ہے کہ جب ہم داعش کو شکست دے دیں گے تب داعش کے جنگجو اپنی داڑھی منڈوا کر، کلین شیو ہو کر سڑکوں پر ایسے پھریں گے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’مجھے امید ہے کہ داعش کے ظلم کا شکار یزیدی ایک دن اپنی آنکھوں سے اپنے مجرمان کو عالمی عدالت برائے جرائم میں کھڑا ہوا دیکھیں گے جہاں انہیں ان کے انسانیت سوز جرائم کی سزا ملے گی‘۔

    اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر ہونے کے بعد اب نادیہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار، خاص طور پر مہاجر لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کریں گی۔

    مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    اس سے قبل لندن کی مشہور وکیل برائے انسانی حقوق اور ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ امل کلونی عالمی عدالت برائے جرائم میں داعش کے یزیدی خواتین پر مظالم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کرچکی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’بحیثیت انسان مجھے شرمندگی ہے کہ ہم ان کی مدد کے لیے اٹھنے والی درد ناک صداؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ داعش کو ہر صورت اپنے بھیانک جرائم کا حساب دینا ہوگا‘۔

    nadia-3

    یاد رہے کہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے جس میں عراق اور برطانیہ عالمی طاقتوں سے داعش کو اس کے جرائم کی سزا دلوانے کا مطالبہ کریں گے۔ اجلاس میں امل کلونی اور نادیہ مراد طحہٰ بھی شرکت کریں گی۔

    دوسری جانب ہالی ووڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی برائے مہاجرین انجلینا جولی بھی اجلاس میں شرکت کریں گی۔ انہوں نے حال ہی میں اردن کے دارالحکومت عمان سے 100 کلومیٹر دور صحرائی علاقہ میں قائم ازراق مہاجر کیمپ کا دورہ کیا تھا۔

  • ‘اک خواب سفر میں رہتا ہے’

    ‘اک خواب سفر میں رہتا ہے’

    جنگیں سب کچھ تباہ کردیتی ہیں۔ یہ شہروں کو برباد کرکے وہاں رہنے والے لوگوں سے ان کے زندہ رہنے کی امیدیں بھی چھین لیتی ہیں۔ بچے، بڑے، بزرگ، خواتین، جنگلی حیات، درخت، فطرت سب کچھ ہی جنگ کی تباہ حالی کاشکار ہوجاتے ہیں۔

    جنگوں سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم، کھیل کود، ان کا پورا بچپن جنگ کی نذر ہوجاتا ہے اور وہ تا عمر اس کے ہولناک اثرات کا شکار رہتے ہیں۔

    لیکن بچوں کی ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ سخت ترین حالات میں بھی وہ اچھے وقت کی آس لگائے ہوتے ہیں اور اس دن کے انتظار میں ہوتے ہیں جب سورج نکلے گا اور اور وہ بلا خوف خطر سبزہ زاروں میں کھیل سکیں گے۔

    لاکھوں بچے ہجرت پر مجبور *

    اقوام متحدہ کے امور برائے انسانی ہمدردی کے ادارے یو این او سی ایچ اے نے جنگ زدہ علاقوں میں ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا جس کے تحت جنگوں سے متاثر بچوں سے ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے دریافت کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے کچھ غیر ملکی اخبارات کے فوٹو گرافرز کی خدمات حاصل کی گئیں۔

    ان فوٹو گرافرز نے اردن میں واقع شامی مہاجرین کے کیمپ اور افریقہ میں شورش زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں موجود بچوں کی تصویر کشی کی۔

    اس پروجیکٹ کا مقصد دنیا کو جنگ کے بدنما اور ہولناک اثرات کی طرف توجہ دلانا تھا کہ کس طرح جنگیں اور تنازعات ننھے ذہنوں کے خوابوں کو چھین لیتے ہیں۔

    1

    اردن میں پناہ گزین شام سے تعلق رکھنے والی فاطمہ آرکیٹیکچر بننا چاہتی ہے۔ اس کا خواب ہے کہ وہ اجڑے ہوئے شام میں دوبارہ سے خوبصورت گھر اور عمارتیں تعمیر کرے گی۔

    13

    وسطی جمہوری افریقہ سے تعلق رکھنے والا مصطفیٰ فوٹو گرافر بننا چاہتا ہے۔

    2

    شام سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور بچی ہاجا خلا باز بننا چاہتی ہے۔ وہ بتاتی ہے، ’میں جب اسکول کی کتابوں میں خلا کے بارے میں پڑھتی تھی تو مجھے وہ بہت دلچسپ لگتا تھا، میں خلا میں جانا چاہتی ہوں‘۔

    ہاجا آج کل اردن کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے۔

    3

    وسطی جمہوری افریقہ کی چباؤ پائلٹ بننا چاہتی ہے۔

    عوامی جمہوریہ کانگو سے تعلق رکھنے والا ایلادی سیاستدان بننا چاہتا ہے۔

    5

    نائیجریا سے تعلق رکھنے والی سکیما استاد بننا چاہتی ہے۔

    6

    ایک اور شامی بچی فاطمہ سرجن بننا چاہتی ہے۔

    8

    وسطی جمہوری افریقہ کے مہمت کو فٹبال اور میوزک دونوں کا جنون ہے۔ بڑے ہونے کے بعد وہ ان دونوں میں سے کسی ایک شعبہ میں جانا چاہتا ہے۔

    9

    سیرالیون سے تعلق رکھنے والا مائیکل مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔

    11

    شامی بچی امینہ پائلٹ بننا چاہتی ہے۔

    اردن میں قیام پذیر منتہا فوٹو گرافر بننا چاہتی ہے۔

    14

    وسطی جمہوری افریقہ کی سفینہ شیف بننا چاہتی ہے۔

    10

    شامی پناہ گزین نسرین ٹریفک پولیس اہلکار بننا چاہتی ہے۔

    وسطی جمہوری افریقہ کا ابراہیم اپنے ملک کی فوج میں بطور سپاہی خدمات انجام دینا چاہتا ہے۔