Tag: مہاراجہ رنجیت سنگھ

  • مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کی تقریبات کا آغاز

    مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کی تقریبات کا آغاز

    ننکانہ صاحب: مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کی تقریبات کا آغاز ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سکھوں کے مذہبی تہوار برسی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی تقریبات کا آغاز آج سے ہوگا، ڈی پی او منصور امان کی ہدایت پر 3 روزہ تقریبات کا سیکیورٹی پلان جاری کر دیا گیا۔

    پولیس ترجمان کے مطابق 1500 پولیس افسران و جوان تقریبات کی حفاظت کے لیے ڈیوٹی انجام دیں گے، اس سلسلے میں ڈی پی او آفس ننکانہ میں ایمرجنسی کنٹرول روم بھی قائم کر دیا گیا ہے۔

    ترجمان نے بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمروں سے گوردواروں اور شہر کی مانیٹرنگ کی جائے گی، ٹریفک کی بحالی اور شہریوں کی سہولت کے لیے متبادل ٹریفک پلان بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کے سلسلے میں پاکستان نے 495 سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کیے ہیں، برسی تقریبات 21 جون سے 30 جون تک جاری رہیں گی۔

    سکھ یاتری پنجہ صاحب، ننکانہ صاحب اور کرتارپور کا وزٹ کریں گے، اور تیس جون کو تمام سکھ یاتری واپس چلے جائیں گے۔ روایتی طور پر ٹرین سے ننکانہ ریلوے اسٹیشن پہنچنے پر سکھ یاتریوں کا ضلعی انتظامیہ کے افسران استقبال کیا کرتے ہیں، اور پھر انھیں خصوصی بسوں کے ذریعے گوردوارہ جنم استھان پہنچایا جاتا ہے۔

  • لندن کو فراموش کر کے لاہور میں ’گلزار‘ بسانے والی بمبا سدرلینڈ کا تذکرہ

    لندن کو فراموش کر کے لاہور میں ’گلزار‘ بسانے والی بمبا سدرلینڈ کا تذکرہ

    پنجاب میں‌ ایک مضبوط سکھ سلطنت کی بنیاد رکھنے والے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد 1848ء میں انگریزوں نے پنجاب فتح کر لیا تھا۔ اس وقت سلطنت میں دلیپ سنگھ تخت نشیں تھا جسے ایک معاہدے کے تحت برطانوی راج تسلیم کرنے کے بعد برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں‌ ملکہ اس خاندان کی سرپرست بن گئیں۔

    سابق مہاراجہ دلیپ سنگھ نے بعد ازاں اپنا مذہب تبدیل کرلیا اور عیسائیت قبول کرنے کے بعد برطانوی اشرافیہ کا حصّہ بن گیا، لیکن اس کی شاہ خرچیوں اور کثرتِ شراب نوشی نے سب کچھ برباد کر دیا۔ 1895ء میں وہ پیرس میں کسمپرسی کے عالم میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔

    دلیپ سنگھ کی پہلی بیوی سے چھے بچّے پیدا ہوئے جن میں سے ایک کا نام بمبا صوفیہ جندن (Bamba Sofia Jindan) تھا۔ اس نے 29 ستمبر 1869ء کو لندن میں آنکھ کھولی اور مشنری اسکول میں تربیت اور تعلیم کے مراحل طے کیے، لیکن اوائلِ عمر سے ہی وہ اپنی شاہی اور ہندوستانی شناخت کے بارے میں‌ سنجیدہ رہی۔ اسے اپنے دادا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت چلے جانے اور اپنے خاندان کی برطانیہ منتقلی کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں‌ بڑی مشکل پیش آئی۔

    بمبا کے دادا کا راج شمال مغرب میں درّۂ خیبر سے مشرق میں دریائے سُتلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور سلطنت کا صدر مقام تھا اور اس کے والد دلیپ سنگھ سلطنت کے آخری مہاراجہ تھے۔شاہزادی بمبا سدرلینڈ 1957ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں ان کی عمر 88 برس تھی اور وہ خاصی ضعیف اور ناتواں ہو گئی تھیں۔ بمبا سدرلینڈ فالج سے متاثر تھیں اور ان کی بینائی بھی کمزور ہوچکی تھی۔ ان کی تدفین برطانوی ہائی کمشنر کے زیرِ نگرانی گورا قبرستان میں کی گئی۔

    لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہزادی بمبا کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا اور بعد میں‌ وہ امریکی شہر شکاگو کے ایک میڈیکل کالج چلی گئی تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شہزادی بمبا نے ہندوستان آنا جانا شروع کیا اور لاہور کے حُسن اور سکھ دور اور شاہی خاندان کی یادگاروں نے انھیں یہیں‌ قیام کرنے پر مجبور کر دیا۔ شہزادی نے انگلستان کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ انھوں نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ کو ’گلزار‘ کا نام دیا اور اس میں کئی اقسام کے گلاب کے پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال میں‌ مصروف ہوگئیں۔

    سنہ 1915 میں شہزادی بمبا نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے شادی کر لی جو 1939 تک زندہ رہے۔ شہزادی بمبا کی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے بھی ملاقاتیں‌ رہیں جو ان کی بے انتہا عزّت کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر وہ انگلستان، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرسکتی تھیں جو ان کا حق تھا، لیکن انھوں نے لاہور میں اپنے والد دلیپ سنگھ کی جائیداد اور دیگر معاملات کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔

    شہزادی بمبا کو آرٹ سے گہرا لگاؤ تھا اور ان کے پاس بیش قیمت پینٹگز کا ایک خزانہ موجود تھا جسے وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے خاص ملازم پیر کریم بخش سپرا کے سپرد کردیا گیا۔ اس میں واٹر کلر، ہاتھی کے دانتوں پر پینٹنگز، مجسمے اور آرٹ کے دیگر شاہکار شامل تھے۔ لندن میں سکھ خاندان کے نوادرات کو وصیت کے مطابق جب ملازم پیر کریم بخش نے حکومتِ پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دی تو اس کا احترام کیا گیا اور ایک ہفتے میں نوادرات لاہور پہنچ گئے۔ بعد میں ان اشیا کو شہزادی بمبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر دیا گیا اور پھر اسے قومی اثاثہ قرار دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں محفوظ کر لیا گیا۔

  • نہر پار کرکے لاہور آنے والی مسلمان لڑکی کیوں مشہور ہوئی؟ تفصیل جانیے

    نہر پار کرکے لاہور آنے والی مسلمان لڑکی کیوں مشہور ہوئی؟ تفصیل جانیے

    واہگہ باڈر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر "پُل کنجری” کی طرف جانے والے آج بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مہارانی موراں کا نام لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ آج یہ پُل اور یہ مقام صرف تاریخ کی ایک نشانی اور اس عشق کا وہ حوالہ ہیں‌ جب ایک مہاراجہ نے ناچنے والی ایک عورت کو اس کی ذات اور اس کا مسلک، سماج میں اس کے مقام و مرتبے دیکھے بغیر اپنا دل دے دیا تھا، لیکن ہر دن اس راہ گزار کے مٹتے ہوئے وجود کے ساتھ وہ داستانِ الفت بھی تازہ ہوتی جارہی ہے جو تاریخ کا حصّہ ہے۔

    کہانی کچھ یُوں ہے کہ موراں اپنے زمانے کی ایک مشہور مسلمان طوائف تھی۔ اس کا رقص مشہور تھا۔ قسمت نے یاوری کی تو اسے پنجاب میں شاہی برادری نے رقص کے لیے طلب کرلیا، وہاں 21 سالہ رنجیت سنگھ بھی موجود تھا جو اس طوائف پر دل ہار بیٹھا۔ اب موراں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر اکثر لاہور آنا پڑتا تھا۔

    مشہور قصّوں اور روایتوں کے مطابق ایک مرتبہ وہ ہنسالی نہر کے راستے آرہی تھی تو اس کی جوتی پانی میں‌ جا گری۔ وہ ننگے پاؤں دربار پہنچی جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نظر اس کے پیروں پر پڑی۔ مہارجہ نے آتشِ عشق کو چھپائے اپنی موراں سے ماجرا دریافت کیا تو اس نے راستے کی دشواری اور نہر سے گزرنے کی پریشانی بتا دی۔ رنجیت سنگھ نے حکم دیا کہ نہر پر جلد سے جلد پُل تعمیر کیا جائے۔ یہ پُل کنجری کے نام سے مشہور ہوا جو کسی ناچنے والی کے لیے بولا جانے والا مقامی زبان کا لفظ ہے لیکن بعد میں اسے پُل موراں کہا جانے لگا۔

    رنجیت سنگھ نے اظہارِ عشق کر دیا تھا اور اب دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہونے لگیں اور مشہور ہے کہ وہ پُل موراں کے قریب ایک جگہ پر ملاقات کرتے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گھوڑے پالنے کا شوق اور شراب کی لت کے علاوہ اس کا رومان پرور ہونا بھی مشہور ہے، لیکن موراں‌ وہ لڑکی تھی جس کے لیے اس نے خود کو یکسر مختلف ثابت کر دکھایا اور سماج اور مذہب کی مخالفت کے باوجود محبّت کو اپنایا اور نبھایا بھی۔

    وہ ضد کا پکّا تھا۔ ایک مسلمان لڑکی سے ایسا نباہ کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ پورے پنجاب کا حکم ران رنجیت سنگھ تھا جس نے شادی کے بعد اپنی محبوبہ کے نام کا سکّہ جاری کیا اور ایک طوائف کو موراں سرکار کے نام سے سماج و برادری میں اعلیٰ درجے پر فائز کیا۔

    موراں کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ حسن و جمال اور قد و قامت میں بے مثال تھی بلکہ رنجیت سنگھ اس کی ذہانت اور عقل و دانش کا بھی قائل ہوگیا تھا۔ رنجیت سنگھ تخت لاہور پر بیٹھا تو مکھن پور گاؤں کی موراں کے لیے رشتہ بھیج دیا اور مشہور ہے کہ لڑکی کے باپ نے سخت شرائط رکھ دیں۔ رنجیت سنگھ نے تمام شرطیں پوری کیں اور برادری کو بڑی عزت و تکریم دی۔

    رنجیت سنگھ کی حکومت خالصہ سرکار کہلاتی تھی جو سکھوں کے سب سے با اختیار اکال تخت کے احکامات اور ہدایات کی پابند تھی۔ اکال تخت کے جتھے داروں کو مہاراجہ کا ایک مسلمان لڑکی کی زلفوں کا اسیر ہو کر شادی کے لیے یوں پیغام بھیجنا ہرگز پسند نہ آیا اور ان کی جانب سے سخت اعتراض کیے گئے۔ اکال تخت نے رنجیت سنگھ کو طلب کیا تو اس نے بلا تأمل اقرارِ عشق کر لیا۔ اسے کوڑوں کی سزا سنائی گئی جو اس نے بخوشی قبول کرلی اور صاف کہہ دیا کہ وہ موراں کو نہیں‌ فراموش کرسکتا۔ کہتے ہیں ایک کوڑا مارنے کے بعد اس پر پنچایت نے جرمانہ کرکے چھوڑ دیا تھا۔

    رنجیت سنگھ کے حرم میں داخل ہونے والی موراں کو سرکاری طور پر مہارانی کا درجہ دیا گیا۔ شادی کے بعد موراں لاہور آگئی جہاں حویلی کے ساتھ ایک مسجد بنوائی جو مسجد طوائف کے نام سے مشہور تھی اور بعد میں اس کا بھی نام بدل کر مسجدِ موراں رکھ دیا گیا۔

    رنجیت سنگھ کی غریب پروری اور رفاہِ عامّہ کے کاموں میں موراں کا بہت کردار رہا جس کی وجہ سے لوگ اسے موراں سرکار اور مائی موراں کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ وہ عام لوگوں اور مہاراجہ کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتی رہی اور لوگوں کی حاجت روا ثابت ہوئی۔ موراں شادی کے دس سال بعد پٹھان کوٹ منتقل ہوگئی تھی۔ مائی موراں نے 1862ء میں وفات پائی۔ وہ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • رنجیت سنگھ کے ساتھ ہی مہارانیوں نے بھی زندگی سے منہ موڑ لیا

    رنجیت سنگھ کے ساتھ ہی مہارانیوں نے بھی زندگی سے منہ موڑ لیا

    برِصغیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے صدیوں تک حکم رانی کی، لیکن سکھ مذہب کے ماننے والوں‌ کو اس خطّے میں صرف مہاراجا رنجیت سنگھ کی بدولت سلطنت نصیب ہوئی جو 27 جون 1839ء کو اس دنیا سے کوچ کرگیا تھا۔

    رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو گوجراں والا میں پیدا ہوا۔ وہ سکرچکیا مثل کے سربراہ مہان سنگھ کا بیٹا تھا، جو دریائے راوی اور چناب کے درمیانی علاقے پر مشتمل تھی اور اس کا صدر مقام گوجراں والا تھا۔

    مہان سنگھ نے بچّے کا نام بدھ سنگھ رکھا جسے رنجیت سنگھ کے نام سے شہرت ملی اور وہ ایک سکھ سلطنت قائم کرنے میں‌ کام یاب ہوا۔ اس کا دور 40 سال پر محیط ہے جس میں اس نے کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک اپنی حکم رانی قائم کرلی تھی۔

    مذہبی اعتبار سے رنجیت سنگھ کے دور اور اس کے طرزِ‌ حکم رانی کو جہاں بعض‌ مؤرخین نے شان دار اور روادای کا مظہر بتایا ہے، وہیں اس حوالے سے اختلافات اور مباحث بھی موجود ہیں۔ اسے بہادر اور شیرِ پنجاب اور ایسا حکم راں لکھا گیا ہے، جس کے دربار میں‌ ہندو اور مسلمان بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں‌ کی بنیاد پر منصب و مقام حاصل کرنے میں‌ کام یاب ہوئے، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے دور میں‌ بلند آواز سے اذان دینا ممنوع تھا جب کہ ذبح اور دیگر شعائرِ اسلام کی ادائیگی بھی آسان نہ تھی۔

    رنجیت سنگھ کے عہد پر انگریز مؤرخ سر لیپل گرفن کے علاوہ کنہیا لال ہندی، نور احمد چشتی، ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اور بعد میں پتونت سنگھ، فقیر وحیدالدّین و دیگر کی بھی تحقیق اور تالیف کردہ کتب شایع ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی کتب ہیں‌ جن میں محققین نے مختلف واقعات، روایات اور قصّوں کو بنیاد بنا کر رنجیت سنگھ کی ذاتی زندگی اور اس کے عہد کی لفظی تصویریں پیش کی ہیں۔

    رنجیت سنگھ نے کئی شادیاں‌ کی تھیں اور اس کی بیویوں میں‌ ہندو، سکھ اور مسلمان عورتیں‌ شامل تھیں۔ ان میں‌ سے کئی نے مہاراجا کی موت کے بعد ستی ہونا پسند کیا، یہاں‌ ہم اسی بارے میں تاریخی کتب سے معلومات نقل کررہے ہیں۔

    بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ رنجیت سنگھ کی 20 بیویاں اور کئی داشتائیں بھی تھیں۔

    شاہانِ وقت کی طرح اپنی سلطنت کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے چھوٹی بڑی ریاستوں میں رشتے کرنے کے علاوہ رنجیت سنگھ حسن و شباب سے لطف اندوز ہونا جانتا تھا۔

    مؤرخین کے مطابق مہاراجا نے نو عورتوں سے سکھ مذہب کے تحت شادی کی جب کہ سات مسلمان لڑکیوں کو بھی بیاہ کر لایا۔

    انہی میں‌ ایک امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں بھی شامل ہے جس سے 1802ء میں شادی کی۔ موراں رنجیت سنگھ کی پسندیدہ رانی تھی۔ فقیر وحید الدّین کے مطابق اس سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے موراں کے والد کی تمام شرائط قبول کیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شرط یہ تھی کہ راجا موراں کے گھر پھونکوں سے آگ جلائے اور مہاراجا نے یہ بھی کیا۔

    اس نے موراں کے نام سے باغ تعمیر کیے، مسجد بنائی جو آج بھی اندرونِ لاہور موجود ہے۔ موراں لاہور میں خوب مقبول ہوئی۔ وہ لوگوں کی مدد کرتی اور ان کے مسائل حل کرواتی تھی اور لوگ اسے موراں سرکار کہنے لگے تھے۔

    مہاراجا موراں کے بعد گل بہار بیگم کی محبت میں‌ گرفتار ہوا۔ وہ بھی ایک مشہور رقاصہ تھی جس سے شادی کے لیے خود رنجیت سنگھ بڑے اہتمام سے تیّار ہوا۔ کہتے ہیں اس نے ہاتھوں پر مہندی بھی لگوائی تھی۔

    لاہور میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم سے موسوم ہیں۔ پنجاب پر قبضے کے بعد برطانوی حکومت نے گل بہار بیگم کا سالانہ وظیفہ 12380 روپے مقرر کیا۔

    لکھاری آروی سمتھ کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ آخری برسوں میں بڑھتی عمر اور بیویوں کے مابین چپقلش اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آچکے تھے اور افیون کے عادی ہوگئے۔ فالج اور شراب نوشی کی کثرت جان لیوا ثابت ہوئی۔ رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویاں اور سات ہندو داشتائیں ان کے ساتھ ہی ستی ہو گئیں۔

    اس حکم راں‌ کی وفات کے بعد اس کے درباری طبیب مارٹن ہونی برجر نے جو آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ لکھی، اس میں ستی کا احوال یوں بتایا کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘

    ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر لکھتے ہیں ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں، مَیں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘

    گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔

    ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر لکھتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاؤں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘

    ’رانیاں رنجیت سنگھ کے جسد کے سَر کی جانب اور کنیزیں پاؤں کی جانب درد انگیز انتظار میں لیٹ جاتی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں اس تقریب کے بعد سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔

    لاہور میں رنجیت سنگھ کی سمادھی کی تعمیر 1847ء میں مکمل ہوئی، جہاں ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ جب کہ چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ رکھی ہوئی ہے۔

    رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت دس برس تک قائم رہ سکی۔

  • لاہور کا حضوری باغ جسے کوہِ نور کی تابانی نے مہکایا

    لاہور کا حضوری باغ جسے کوہِ نور کی تابانی نے مہکایا

    ہندوستان میں‌ مغل دور کی یادگار عمارتوں کے علاوہ متعدد سیر گاہیں‌ اور باغات آج بھی دیدنی ہیں اور دنیا بھر سے سیروسیّاحت کے شوقین پاکستان اور بھارت کے ان تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ برصغیر میں مختلف علاقوں‌ کے حاکم اور مہاراجوں‌ نے بھی مغلیہ طرز پر عمارتیں اور باغات تعمیر کیے اور حضوری باغ انہی میں‌ سے ایک ہے۔ یہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی یادگار ہے جو مغل فنِ تعمیر سے متاثر تھا۔

    لاہور میں واقع حضوری باغ مشرق میں قلعۂ لاہور، مغرب میں بادشاہی مسجد، شمال میں رنجیت سنگھ کی سمادھی اور جنوب میں روشانی دروازے تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے 1813 میں‌ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس باغ کے مرکز میں بارہ دری ہے، لیکن یہ باغ دوسرے مغلیہ باغات کی نسبت چھوٹا ہے۔

    مشہور ہے کہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے قندھار کے والی شاہ شجاع کو تخت سے معزولی کے بعد فرار ہو کر ہندوستان آنے پر پناہ دی اور اپنی حمایت و مدد کا یقین دلایا تھا، لیکن جب اسے علم ہوا کہ شاہ شجاع کے پاس کوہِ نور جیسا بیش قیمت ہیرا ہے تو اس نے یہ ہیرا شاہ شجاع سے چھین لیا اور اس خوشی کے اظہار کی علامت کے طور پر حضوری باغ تعمیر کروایا۔

    یہ باغ فقیر عزیز الدین کی نگرانی میں تعمیر ہوا اور اس کی بارہ دری میں نہایت قیمتی سنگِ مرمر لگوایا اور اسی پتھر سے ستونوں‌ کو آراستہ کیا۔ حضوری باغ کی یہ بارہ دری کبھی رنجیت سنگھ کی عدالت ہوا کرتی تھی۔ اس کی چھت شیشے سے تعمیر کی گئی تھی۔

    یہ باغ اور اس کی خوب صورت بارہ دری انگریز فوج کے حملوں میں تباہ و برباد ہو گئی تھی جسے ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران پرانے نقشے کے مطابق دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اس کے کچھ حصّوں کی مرمت کردی گئی۔ 1932ء میں اس بارہ دری کی اوپری منزل منہدم ہو گئی تھی جسے دوبارہ تعمیر نہ کیا جاسکا۔

    لاہور کے شہری اور سیروسیّاحت کے شوقین آج بھی یہاں آتے ہیں‌ اور اس تاریخی باغ کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس دور کے واقعات اور مختلف قصّے سنتے ہیں‌۔

  • سکھوں کومذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے سہولتیں دے رہے ہیں، گورنرپنجاب

    سکھوں کومذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے سہولتیں دے رہے ہیں، گورنرپنجاب

    لاہور: گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا کہنا ہے کہ بھارت ، یورپ اور دیگرملکوں سے آنے والے سکھ بھائیوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی پرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بہت عرصہ حکومت کی اور مذہبی رواداری رکھی

    گورنرپنجاب نے کہا کہ پنجاب کے سکھوں کو پنجابی میں ہی پیغام پہنچتا ہے، بھارت ، یورپ اور دیگرملکوں سے آنے والے سکھ بھائیوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

    چوہدری محمد سرور نے کہا کہ سکھوں کومذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے سہولتیں دے رہے ہیں، 5 سے 10 ہزار سکھ یاتری کرتارپور آ سکیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے، پنجاب حکومت بنانے میں کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں کی، آزاد امیدوار ہمیشہ حکومت کی طرف ہی جاتے ہیں۔

    گورنر پنجاب نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا صرف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، سینیٹ چیرمین ٹیلنٹڈ ہیں، اپوزیشن کو پنجہ آزمائی نہیں کرنی چاہیے، اپوزیشن کو معلوم ہوگیا ان کی کال پر لوگ باہر نہیں نکلیں گے۔