Tag: مہدی افادی

  • عورت جو بے فوج سلطنت کی مالک ہے!

    عورت جو بے فوج سلطنت کی مالک ہے!

    عورت کیا ہے؟ وہ دنیا میں کیوں آئی؟ اس کی ہستی کی علتِ غائی یعنی اس کا موضوعِ اصلی کیا ہے؟

    یہ اور اس قسم کے بہتیرے سوالات ہیں جو ایک شائستہ دماغ کو متوجہ کر سکتے ہیں اور جن پر ہر زمانہ میں کچھ نہ کچھ غور ہوا ہے، لیکن ان سب کا مختصر، مگر جامع جواب یہ ہے کہ ’’وہ محبت کی چیز ہے اور دنیا میں محض اسی لیے آئی۔‘‘

    عورت باعتبارِ جذبات ایک خوب صورت گلدستہ ہے جس کی ساخت میں نہایت نازک پھول پتیاں صرف ہوئی ہوں۔ جس طرح پھول کی پتیوں میں نازک رگیں، نسیں اور باریک نقش و نگار ہوتے ہیں، عورت کا دل و دماغ بھی ہر طرح کی لطافتوں اور نزاکتوں کا مخزن ہوتا ہے جس کے بیل بوٹے قدرت کی بہترین نقاشی ہیں۔ ان ہی باریک حسیات اور جذبات کا ابھارنا، اور ان کے نشو و ارتقائے تدریجی کے سلسلہ کو قائم رکھنا، چاہنے والے کا اصلی فرض ہے۔

    عورت ہماری زندگی کے ہر صیغہ کو مَس کرنا چاہتی ہے۔ وہ ہماری عقلی اور اخلاقی قوتوں کو حرکت میں لاتی ہے لیکن ایک شائستہ عورت پر وہی قابو حاصل کر سکتا ہے جس میں عورت کے فطری اوصاف کے مقابلہ کی قابلیت موجود ہے۔ جس کے قوی تر جذبات عورت کی قدرتی نزاکتوں اور لطافتوں سے ہم آغوش ہوسکیں۔ اس (عورت) کے خیال میں صرف آرزوئے ’وصل‘ جس پر ہمارے شعرا سَر دھنتے ہیں، نری حیوانیت ہے۔ وہ ’خوش عیشی‘ کے مقابلہ میں ’فلسفۂ ناکامی‘ میں کہیں زیادہ لذّت پاتی ہے جو اس کے نازک سے نازک جذبات اور حسیات کو تحریک میں لائے۔ عورت کی ایک آہ جو دل سے نکلی ہو، ہزار صوفیانہ ریاض و اعمال پر بھاری ہے جس میں شائبۂ خلوص نہ ہو۔

    یہ دنیا میں فطرت کی تکمیل کے لیے آئی اور اسی لیے مہذب دنیا میں اسے انسان کا ’نصف بہتر‘ کہتے ہیں۔ محبّت، دل سوزی، خلوص و ہمدردی اس کا خاصۂ فطری ہے، یہ جہاں ہماری خوش دلی کو بڑھاتی ہے، رنج و غم کو بانٹ لیتی ہے۔ صحت میں یہ رفیقِ زندگی، علالت میں خوش سلیقہ دایہ اور موت کے بعد ہماری خوب صورت سوگوار ہے جس کی ہیرا تراش کلائی میں پھنسی ہوئی سیاہ چوڑیاں اور کھلے ہوئے لمبے بال وہ علاماتِ ماتم ہیں جنہیں جیتے جی دیکھنے کو دل چاہتا ہے۔

    آہ عورت! تو فسانۂ زندگی ہے۔ تُو جس طرح ایک جھونپڑے کو اپنی صاف شفاف ہستی سے شیش محل بنا سکتی ہے، بڑے سے بڑے ایوانِ عیش کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تیری موجودگی کے آثار اس میں نہ پائے جائیں۔ اس کے لیے چھڑوں کی جھنکار ضروری نہیں، محض تیرا پسِ پردہ ہونا کہیں، کسی کے لیے ہو، کافی ہے۔ شیکسپیئر نے سچ کہا ہے کہ ’’تو مجسم عشوہ گری ہے اور دنیا میں بے فوج کی سلطنت تیرا اور صرف تیرا حصّہ ہے۔‘‘

    (اردو کے معروف ادیب اور انشائیہ نگار مہدی افادی کے مضمون فلسفۂ حسن و عشق سے اقتباسات)

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)