Tag: مہنگائی

  • مہنگائی توقع سے زیادہ کم ہوئی، چند ماہ میں میں مزید کمی آسکتی ہے،اسٹیٹ بینک

    مہنگائی توقع سے زیادہ کم ہوئی، چند ماہ میں میں مزید کمی آسکتی ہے،اسٹیٹ بینک

    اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی، اکتوبر میں مہنگائی وسط مدتی ہدف کے قریب پہنچ گئی۔

    پاکستان کے مرکزی بینک نے اپنے بیان میں کہا کہ غذائی مہنگائی میں تیزی سے کمی آئی، آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے غیریقینی کیفیت کم ہوئی، آئندہ چند مہینوں میں مہنگائی میں مزید کمی آسکتی ہے رواں مالی سال 4 ماہ میں ٹیکس وصولی ہدف سےکم رہی۔

    اسٹیٹ بینک نے کہا کہ بین الاقوامی سیاسی کشیدگی کی بنا پر تیل کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آیا، صنعتی سرگرمی کی رفتار میں مزید اضافہ ہورہا ہے، چاول اور گنے کی پیداوار میں بہتری آئی۔

    ٹیکسٹائل، غذا، گاڑیوں سے صنعتوں میں خاصی نمو ہوئی، صنعتی ترقی کی رفتار میں مزید اضافے کی توقع ہے، رواں مالی سال معاشی ترقی 2.5 سے 3.5 فیصد کی حد میں رہےگی۔

    مرکزی بینک نے کہا کہ ستمبر میں کرنٹ اکاؤنٹ مسلسل دوسرے ماہ سرپلس رہا، پہلی سہ ماہی میں مجموعی خسارہ کم ہوکر 9.8 کروڑ ڈالر رہ گیا، ترسیلات اور زائد برآمدات نے خسارہ محدود رکھنے میں مدد دی۔

    اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ستمبر میں بیرونی سرمایہ کاری میں معمولی سا اضافہ ہوا، زرِمبادلہ کے ذخائر 25 اکتوبر کو 11.2 ارب ڈالرز تک پہنچ گئے، جون 2025 تک ذخائر 13 ارب ڈالرز تک پہنچنے کی توقع ہے۔

  • پاکستان میں مہنگائی کی اصل وجہ کیا ہے؟ دیکھیے اے آر وائی نیوز کی اس ویڈیو رپورٹ میں

    پاکستان میں مہنگائی کی اصل وجہ کیا ہے؟ دیکھیے اے آر وائی نیوز کی اس ویڈیو رپورٹ میں

    پاکستان میں مہنگائی کے خلاف آوازیں تو بہت اٹھائی جاتی ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ پر لوگوں کی سوچ عموماً واضح نہیں ہوتی، اس لیے یہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی اصل وجہ رسد اور طلب میں توازن کا فقدان ہے یا ذخیرہ اندوزی؟

    شہریوں کو درپیش ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انتظامیہ کے اقدامات کے باوجود اشیائے خورد و نوش سرکاری نرخ پر فروخت نہیں ہوتیں، اس حوالے سے ماہرین معیشت کی رائے ہے کہ حکومت اشیا کی رسد کی ضروریات کو پورا کرے۔

    پاکستان میں آئے دن کھانے پینے کی اشیا عوام کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں، دودھ سے لے کر پھل سمیت ہر چیز کی قیمتوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مہنگائی کی اصل وجہ طلب اور رسد کا عدم توازن ہے، جب کہ انتظامیہ غیر فطری طور پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرتی آ رہی ہے، جب کہ عوام بھی قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ انتظامیہ کی کمزوری کو بتاتے ہیں۔

    پاکستان کئی دہائیوں سے طلب اور رسد کے غیر متوازن چنگل میں پھنسا ہوا ہے، جس سے چیزوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے سرکاری پرائس لسٹ کی بجائے طلب و رسد کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے ہوں گے۔

    کمشنر کراچی سلیم راجپوت نے کہا کہ سپلائی اور ڈیمانڈ کا مسئلہ تو ہے، اس کے لیے حکومت مختلف اقدامات کرتی ہے، حال ہی میں اس حوالے سے کیے جانے والے اقدام کے نتیجے میں پیاز اور کیلوں کی قیمتیں نیچے آئیں، حکومت ایک ایکو سسٹم بناتی ہے جس میں مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔

    ویڈیو رپورٹ: ڈیجیٹل ڈومیسائل کتنے دن میں مل جاتا ہے؟ حیرت انگیز پیشرفت

    دوسری طرف ماہر معاشیات صدام حسین کا کہنا ہے کہ اکنامکس کا بنیادی اصول سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کا ہے، مہنگائی کا حل ریٹ لسٹ لگانا نہیں ہے، اس کا حل اصل وجوہ کو حل کرنے میں ہے۔

  • قوم نے گزشتہ برسوں میں ایک گروہ کی نااہلی کی وجہ سے مشکلات کاٹیں، وزیر اعظم

    قوم نے گزشتہ برسوں میں ایک گروہ کی نااہلی کی وجہ سے مشکلات کاٹیں، وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے مہنگائی کی شرح 44 ماہ کی کم ترین سطح پر آنے پر اظہار تشکر کیا اور ستمبر میں سالانہ شرح 6.9 فیصد ہونے پر معاشی ٹیم کی پذیرائی کی۔

    اگست 2024 میں 34 ماہ میں پہلی مرتبہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد پر آئی جبکہ ستمبر 2024 میں گزشتہ 44 ماہ میں مہنگائی کی کم ترین شرح 6.9 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

    اس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے خصوصی پیغام جاری کیا کہ اللہ کے فضل سے عوام سے کیے عہد کی پاسداری میں کامیابی ملنا شروع ہوگئی، مہنگائی کی شرح 6.9 فیصد ہونے سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا۔

    شہباز شریف نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی متواتر کمی سے عوام کو ریلیف مل رہا ہے، شرح سود کم ہونے سے ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، مہنگائی کی شرح کو 2025 تک 7 فیصد تک لانے کے ہدف قابل ستائش ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے عوامی ریلیف کیلیے اقدامات کو اولین ترجیح بنایا، پاکستان کے ڈیفالٹ کی خواہش کرنے والوں کا منصوبہ ناکام ہوا، معیشت مستحکم، سفارتی تعلقات مضبوط اور عام آدمی کی خوشحالی کا سفر شروع ہو چکا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے اجرا سے معیشت میں مزید استحکام آئے گا، پاکستان کی ترقی کا سفر 2018 میں جہاں رکا تھا وہیں سے دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔

    آج 44 ماہ کے بعد پاکستان میں ستمبر 2024 میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مہنگائی کی شرح 6.9 فیصد پر آگئی، اگست 2024 میں اس کی شرح 9.6 فیصد پر تھی۔

    ماہرین نے رائے دی کہ افراط زر میں کمی کی بڑی وجہ عالمی اجناس اور توانائی کی قیمتوں میں کمی ہے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا، اسٹیٹ بینک کی سخت مانیٹری پالیسی کی وجہ سے افراط زر میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

  • یوٹیلیٹی اسٹورز کی جانب سے شہریوں کے لیے بڑی خوشخبری

    یوٹیلیٹی اسٹورز کی جانب سے شہریوں کے لیے بڑی خوشخبری

    اسلام آباد: یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے مزید 170 سے زائد اشیا کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے.

    تفصیلات کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایک سو ستّر سے زائد اشیا کی قیمتوں میں 10 روپے سے لے کر 190 روپے تک کی کمی کر دی گئی ہے۔

    ترجمان یوٹیلیٹی اسٹور کے مطابق 170 سے زائد اشیا کی نئی قیمتوں کا اطلاق آج سے ہوگا، جن اشیا کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، ان میں چائے، مختلف مصالحے اور دیگر اشیائے ضروریہ شامل ہیں۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ پہلے بھی یوٹیلٹی اسٹورز پر 800 سے زائد اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی گئی تھی، ترجمان نے مزید بتایا کہ تمام یوٹیلیٹی اسٹورز پر خریداری کے لیے کسی قسم کی کوئی شرط لاگو نہیں ہے، اور ملک بھر کے تمام شہری یوٹیلیٹی اسٹورز سے خریداری کر سکتے ہیں۔

  • ملک میں مہنگائی کی شرح پھر بڑھ گئی

    ملک میں مہنگائی کی شرح پھر بڑھ گئی

    اسلام آباد: ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی شرح پھر بڑھ گئی۔ 0.05 فیصد اضافے سے مجموعی شرح 12.80 فیصد کی تک جا پہنچی۔

    ادارہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں ہفتے میں 16 اشیا مزید مہنگی، 9 اشیا سستی اور 26 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔

    ایک ہفتے میں ٹماٹر 6 روپے 76 پیسے فی کلو مزید مہنگے ہوئے جبکہ پیاز 7 روپے 89 پیسے، دال چنا 3 روپے 97 پیسے فی کلو مزید مہنگی ہوئی۔ اسی طرح زندہ مرغی ایک روپے 10 پیسے، بیف 2 روپے 41 پیسے فی کلو مزید مہنگا ہوا۔

    دال ماش 10 روپے 24 پیسے فی کلو، دال مونگ 4 روپے 54 پیسے فی کلو سستی ہوئی۔ چینی 1 روپے 83 پیسے فی کلو سستی ہوئی۔ حالیہ ہفتے آٹے کا بیس کلو کا تھیلا 11 روپے 43 پیسے سستا ہوا۔

    عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 7 ارب ڈالرز قرض پروگرام کی منظوری کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے پہلی قسط اسی ماہ ملنے کا امکان ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ قرض پروگرام کی پہلی قسط کا درست حجم نہیں بتاسکتا ہے توقع ہے کہ پہلی قسط میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زائد ملیں گے۔

    صحافی نے پوچھا تھا کہ اے ڈی بی نے مہنگائی 15 فیصد اور معاشی شرح نمو 2.8 فیصد رہنے کا تخمینہ دیا ہے تو گورنر نے جواب دیا کہا تھا کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کے لیے حکومت سخت معاشی پالیسز اپنائیں، رواں مالی سال مہنگائی 11.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جب کہ رواں مالی سال معاشی ترقیاتی کی شرح 2.5 سے 3.5 فیصد رہنے کا امکان ہے کرنٹ اکاونٹ خسارہ صفر سے ایک فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔

    گورنر اسٹیٹ بینک نے واضح کیا تھا کہ ہم مانیٹری پالیسی میں لگائے گئے تخمینے پر قائم ہیں۔

    آئی ایم ایفکے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کیلیے 7 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دی ہے۔ پروگرام کی مدت 37 ماہ ہوگی جبکہ اس کی پہلی قسط 30 ستمبر تک پاکستان کو ملے گی۔

  • پیٹرول تو سستا ہوگیا پر مہنگائی جوں کی توں ؟ ماجرا کیا ہے ؟

    پیٹرول تو سستا ہوگیا پر مہنگائی جوں کی توں ؟ ماجرا کیا ہے ؟

    موجودہ حکومت کے ابتدائی ایام میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا تاہم گزشتہ دوماہ کے دوران اضافے سے زیادہ کسی حد تک قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔

    تاجر برادری پیٹرول کی قیمت کو جواز بنا کر اشیاء کی قمیتوں میں ازخود اضافہ کردیتی ہے تاہم جب حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جائے تو اس کا ریلیف عوام تک نہیں پہنچ پاتا۔

    اس حوالے سے سبزی فروشوں کا کہنا ہے کہ پیاز ایکسپورٹ ہورہی ہے اس لیے مہنگی ہے، پیٹرول کی قیمت میں کمی بیشی سے سبزیوں پر فرق نہیں پڑتا۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں کمی کا سن کر شہریوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ اب ان کے اچھے دن آنے والے ہیں۔

    لیکن جب وہ اشیاء خودرو نوش لینے بازار جاتے ہیں یا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں تو ان کی خوشیاں ماند پڑجاتی ہیں۔

    دکانداروں کے پاس مہنگائی کے حوالے سے روایتی بہانے موجود ہوتے ہیں، سبزی فروشوں نے پیاز کی برآمدات کو اس کی مہنگی ہونے کی وجہ قرار دے دیا۔

    دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ دکانداروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، متعلقہ اداروں کا مہنگائی پر کنٹرول نہیں ایک بار جس چیز کی قیمت بڑھ جائے تو کبھی کم نہیں ہوتی۔

    حکومت سے مایوس شہریوں نے تاجر تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے ایسا کوئی طریقہ بنایا جائے تاکہ لوگوں کو ریلیف ملے اور ان کی مشکلات کم ہوسکیں۔

    یاد رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد پنجاب میں ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 30 سے 70 روپے تک کمی کر دی گئی ہے۔

  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق بڑی خوشخبری

    پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق بڑی خوشخبری

    ماہر معاشیات ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ اس کے بڑھنے کی شرح میں کمی ہوئی ہے، انہوں نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق بھی خوشخبری سنادی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آئی ایم ایف سے ملنے والے 7 ارب ڈالر اور اس کے مثبت معاشی اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خاقان نجیب نے تفصیلی روشنی ڈالی۔

    ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو امید ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے 25 ستمبر کو 7 ارب ڈالر کی منظوری دے دی جائے گی، دوست ممالک کی جانب سے قرضے مؤخر ہونے کے بعد اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس قرضے کی منظوری کے بعد ہم سب نے بحیثیت قوم یہ طے کرنا ہے کہ اگلے تین سال بعد ہم اس پوزیشن میں کیسے آئیں گے کہ دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے؟۔

    ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ ہمارے بجلی کے سیکٹر ٹھیک نہیں کرے گا اور نہ ہی ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے کوئی اقدام کرے گا بلکہ وہ صرف پاکستان کے مالیاتی خسارے کو بچانے میں مدد دے گا۔

    میزبان کی جانب سے پوچھے گئے شرح سود میں کمی کے اثرات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کی شرح سود 22 فیصد تھی جو 17.5فیصد پر آئی جو معیشت کیلئے بہت اچھی علامت ہے۔

    مہنگائی سے متعلق سوال کہ شرح میں کمی کے باوجود اشیاء کی قیمتوں میں کمی کیوں نہ آسکی؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کم نہیں ہوئی، مہنگائی کی بڑھنے کی شرح میں کمی ہوئی ہے یعنی پچھلے سال قیمتوں میں 24 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ اس سال ساڑھے نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے متعلق ماہر معاشیات نے بتایا کہ عالمی منڈی میں اس کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی سامنے آئی ہے جس کے بعد قوی امکان ہے کہ اس بار پاکستان میں پیٹرول کی قیمت میں 10 سے 12 روپے فی لیٹر کمی ہوسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ 31 اگست 2024 کو حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں ایک روپے 86 پیسے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 259 روپے 10 پیسے ہوئی۔

    ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے 32 پیسے کم کی گئی تھی جس کے بعد ڈیزل کی قیمت 262 روپے 75 پیسے فی لیٹر مقرر ہوئی۔

  • بجلی کے بل نے ایک اور پاکستانی کی جان لے لی

    بجلی کے بل نے ایک اور پاکستانی کی جان لے لی

    پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں بجلی کے بل کی خاطر بھائی نے بھائی کو تیز دھار آلے سے قتل کردیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق افسوسناک واقعہ گوجرانوالہ کے علاقے پرنس روڈ میں پیش آیا، دونوں مزدور بھائی ایک ہی مکان میں رہائش پذیر تھے جبکہ بجلی کا بل 30 ہزار روپے آیا تھا۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بڑے بھائی نے بل کی آدھی رقم مانگی تو چھوٹے نے کہا پیسے نہیں ہیں۔

    تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ جھگڑے کے دوران بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو قتل کردیا، مقتول کی شناخت عمر فاروق کے نام سے ہوئی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ بھائی کو تیز دھار آلے سے قتل کرنے والے ملزم مرتضیٰ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل فیصل آباد میں بجلی کے بل کی ادائیگی پر جھگڑے کے دوران چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو چھری کے وار کرکے قتل کردیا تھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ کھرڑیانوالا  کے رہائشی محمد قیس کے گھرکا بجلی کا بل آیا  تو اس نے ادائیگی کے لیے ساتھ رہنے والے چھوٹے بھائی سے پیسے طلب کیے تھے، جھگڑے کے دوران طیش میں آکر چھوٹے بھائی غلام فرید نے چھری کے وار کرکے بڑے بھائی کو قتل کیا۔

    بجلی کے بل میں اضافہ کیوں اور کیسے کیا جاتا ہے؟ (arynews.tv)

    پولیس کا بتانا تھا کہ گھر کا مشترکہ میٹر تھا، دونوں بھائی آدھی آدھی بل کی رقم ادا کرتے تھے، مقتول کی بیوہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

  • آئی ایم ایف کا نیا پروگرام، غریب تو ’’وڑ‘‘ گیا!

    آئی ایم ایف کا نیا پروگرام، غریب تو ’’وڑ‘‘ گیا!

    سال 25-2024 کا بجٹ، جس کا نفاذ یکم جولائی سے ہوچکا ہے۔ غربت سے سسکتی عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث ماہرین معاشیات اسے بجٹ کے بجائے غریبوں کے لیے موت کا پروانہ قرار دے رہے ہیں کہ جس میں حکمرانوں نے امرا اور اشرافیہ کو مراعات دیتے ہوئے ایک بار پھر کسمپرسی میں زندگی گزارتے غریب عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اس بجٹ کے نفاذ کے 20 دن کے دوران عوام کو بیسیوں بجٹ آفٹر شاکس کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس غریب مٹاؤ بجٹ کا صلہ حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب 7 ارب کے نئے قرض پروگرام پر معاہدے کی صورت میں ملا ہے۔

    یوں تو ہر سال بجٹ غریبوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لاتا، لیکن یہ بجٹ تو غریب کے جسم میں بچا کھچا خون بھی نچوڑ لے گا۔ اس بجٹ میں ٹیکس در ٹیکس دیتے تنخواہ دار طبقے کو مزید دبا دیا گیا، جب کہ حکمراں اشرافیہ اور مقتدر و مالدار طبقات کو وہ چھوٹ دی گئی کہ قسمت بھی اپنی قسمت پر نازاں ہوگی کہ وہ کس کی قسمت بنی ہے، لیکن یہ طرز عمل ہمارے حکمرانوں کی بے حسی ظاہر کرتا ہے۔ یہ بجٹ عوام پر کتنا بھاری ہے اس کا ادراک حکومت کو بھی ہے اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی، لیکن جہاں بے حسی غالب ہو وہاں انسانی ہمدردی مفقود ہو جاتی ہے۔

    اس ملک سے متوسط طبقہ تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس کر ختم ہوچکا ہے اور صرف دو طبقے بچے ہیں جن میں ایک غریب اور دوسرا امیر اور ان دونوں طبقوں کا ایک دوسرے کی مخالف سمتوں میں سفر جاری ہے۔ اس بجٹ کے نتیجے میں یہ سفر اتنی تیز رفتاری پکڑے گا کہ معاشی ماہرین کے مطابق مزید ڈیڑھ کروڑ عوام خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔

    اس بجٹ میں کیا چیز مہنگی نہیں ہوئی۔ بجٹ کے نفاذ سے قبل ہی بجلی، گیس مہنگی کر دی گئی تھی لیکن جیسا کہ ہمارے وزیراعظم کہہ چکے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہے، تو آئی ایم ایف نے بجٹ کی منظوری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا ڈومور مطالبہ دہرایا، جس پر یکم جولائی سے قبل عمل درآمد بھی کر دیا گیا اور اس کے بعد بعد بھی مختلف ناموں سے اس پر مہنگائی کی پرت در پرت چڑھائی جا رہی ہے۔ پٹرول دو بار مہنگا ہوچکا اور یہ مہنگائی کا وہ استعارہ ہے جس کے بلند ہوتے ہی سب چیزوں کی قیمتوں کی پرواز بلند ہوجاتی ہے۔

    آٹا، دالیں، چاول، گوشت، سبزی مہنگے ہونے، ڈبل روٹی، شیرمال پر ٹیکس لگا کر لوگوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تو چھیننے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی شیر خوار بچوں کے ڈبہ بند دودھ سمیت عام پیکٹ پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ کر کے بچوں کی خوراک پر بھی سرکاری ڈاکا مارا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ غریب سے جینے کا حق چھینتے ہوئے ادویات پر بھی 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا اور اسٹیشنری پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا جس سے غریب کے لیے تعلیم کا حصول نا ممکن ہو جائے گا اور ہم جو شرح خواندگی نے نچلے نمبروں پر ہیں مزید پستی میں چلے جائیں گے۔

    بات پرانی ہوگئی، لیکن ہمیشہ کی طرح وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ پیش کرتے ہوئے غریب عوام کو ملک کی بہتری کے لیے مہنگائی کا کڑوا گھونٹ پینے کا درس دیا۔ عوام کو کئی دہائیوں سے یہ گھونٹ پی رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بیرون ملک سے پاکستان کی معیشت اور تقدیر سنبھالنے کا مشن لے کر آنے والے وزیر خزانہ امرا اور اشرافیہ پر بھی کچھ بوجھ ڈال دیتے۔ بجائے بوجھ ڈالنے کے انہیں الٹا نوازا گیا جہاں عوام کے لیے سانس لینا مشکل کر دیا گیا وہیں حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ بھی کر دیا گیا۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، وزرائے اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات بڑھ گئے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کم از کم ماہانہ اجرت 32 سے بڑھا کر 37 ہزار کر دی، لیکن ملک کا بجٹ بنانے والے آج کی مہگائی میں 37 ہزار روپے میں چار افراد کی فیملی تو کیا، صرف تنہا غریب آدمی کا ماہانہ بجٹ بنا دیں تو بڑا احسان ہوگا۔

    یہ بجٹ پیش کرنے والے وہی سیاستدان ہیں جو حکومت میں آنے سے قبل عوام کے سچے ہمدرد بننے کے دعوے دار مہنگائی مارچ کرتے تھے۔ پنجاب کی موجودہ وزیراعلیٰ اس وقت کہتی تھیں کہ جب پٹرول اور بجلی مہنگی ہوتی ہے تو اس ملک کا وزیراعظم چور ہوتا ہے تو آج ان کی بجلی اور پٹرول کی مسلسل بڑھتی قیمتوں پر بھی یہی رائے ہے یا بدل چکی ہے؟ یہ ایسا بجٹ ہے کہ جس کو سوائے حکمراں اور اس سے مستفید ہونے والے ایلیٹ اور مقتدر طبقوں کے علاوہ تاجر، صنعتکار، ایکسپورٹرز، سب ہی مسترد کر چکے اور مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن غریبوں کا درد رکھنے والے حکمرانوں کی آنکھیں، کان بند اور لب سل چکے ہیں۔

    وفاقی حکومت کی بڑی اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بجٹ اجلاس میں کھل کر تنقید کی اور اسے عوام دشمن بجٹ قرار دیا لیکن جب منظوری کا وقت آیا تو نہ جانے کیوں اچھے اور فرماں بردار بچوں کی طرح بجٹ کی منظوری دے دی اور عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگا کر ہمیشہ اقتدار میں آنے والی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بجٹ دستاویز کے نام پر غریب عوام کے موت کے پروانے پر دستخط کر کے مہر تصدیق ثبت کی۔

    بجٹ پیش کرنے سے قبل یہ حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جارہی تھی کہ ٹیکس صرف ان پر لگے گا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے، لیکن بد قسمتی سے تنخواہ دار اسی طبقے پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا جو پہلے سے ہی سب سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کر رہا ہے۔ یعنی ملازمت پیشہ افراد کی کمر پر اپنی عیاشیوں کا مزید بوجھ ڈال دیا کیونکہ حکومت، مقتدر حلقوں، پارلیمنٹرینز کے علاوہ بیورو کریٹس، جن کی تنخواہیں اور مراعات پہلے ہی لاکھوں میں اور تقریباً سب کچھ مفت ہے لیکن شاید یہ سب کچھ ان کے لیے کم تھا اس لیے اراکین پارلیمنٹ کا سفری الاؤنس 10 روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر 25 روپے کر دیا۔ سالانہ فضائی ٹکٹس بھی 25 سے بڑھا کر 30 کر دیے اور یہ سہولت بھی دے دی کہ جو ٹکٹس بچ جائیں گے وہ منسوخ ہونے کے بجائے آئندہ سال قابل استعمال ہوں گے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین بنیادی تنخواہ کا %100 پارلیمنٹ ہاوس الاؤنس اور %65 فیول سبسڈی الاؤنس بڑھا دیا گیا اور کمال کی بات ہے کہ اس سے خزانے پہ کوئی بوجھ پڑا اور نہ IMF کو کوئی اعتراض ہوا۔

    ملک کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ غریب کے گھر بجلی آئے یا نہ آئے، گیس سے چولہا جلے یا نہیں، نلکوں سے پانی کے بجائے صرف ہوا آئے یا پھر گندا پانی لیکن انہیں ہر چیز کا بل دینا ہے اور صرف اپنا نہیں بلکہ اشرافیہ کا بھی جنہیں بجلی، پانی، گیس کے ساتھ بیرون ملک علاج، سفر، بچوں کی تعلیم تک مفت یا اسپانسرڈ ہوتی ہے۔ ہم وزیر خزانہ کی کیا بات کریں، جو غیر ملکی شہریت چھوڑ کر پاکستان کی تقدیر سنوارنے آئے، یہاں تو ایسے وزیراعظم بھی آئے کہ جب اس عہدے کے لیے نامزد ہوئے تو ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہیں تھا، وہ ملک کو کون سا خوشحال کر گئے جو اب ہم کوئی سنہرے خواب دیکھیں۔

    آج حالت یہ ہے کہ غریب کے آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں۔ کئی واقعات بھی سامنے آئے ہیں‌ کہ کنبے کے سربراہ نے بیوی بچوں سمیت زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ عوام کو جو اس اجتماعی خودکشی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟ حکمران کچھ زیادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم عوام کو جینے اور سانس لینے کے قابل تو چھوڑیں۔

  • دالوں کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہو گیا

    دالوں کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہو گیا

    کراچی: ملک بھر میں جہاں فلار ملز کی ہڑتال سے آٹے کے بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، وہاں ہولسیل مارکیٹ میں دالوں کی قیمتوں میں بھی ہوش رُبا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہول سیل بازار میں دالوں کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان دالوں کی قیمتوں کو پر لگ گئے، بجٹ میں ٹیکسز کے بعد ہول سیل بازار میں امپورٹرز نے دال کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔

    دال چنا درجہ اوّل کے ریٹ میں دو ہفتوں میں 89 روپے، جب کہ درجہ دوئم میں 94 روپے کا ریکارڈ اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد دال چنا درجہ اوّل 231 سے بڑھ کر 320 روپے، جب کہ درجہ دوئم 215 سے بڑھ کر 310 روپے ہو گئی۔

    چیئرمین ہول سیل گروسرز عبدالرؤف ابراہیم کے مطابق کابلی چنا درجہ اوّل کی قیمت میں 48 روپے کا اضافہ کیا گیا، جس کی قیمت 362 سے بڑھ کر 410 روپے ہو گئی ہے، کابلی چنا درجہ دوئم 27 روپے اضافے سے 325 روپے سے بڑھ کر 352 روپے ہو گئی ہے۔

    دال مونگ درجہ اوّل کی قیمت 50 روپے اضافے سے 320 روپے کلو ہو گئی، دال مونگ درجہ دوئم کی قیمت میں 40 روپے کا اضافہ ہوا، اور قیمت 260 روپے سے بڑھ کر 300 روپے ہو گئی۔ دال ماش درجہ اوّل کی قیمت 10 روپے اضافے سے 520 روپے کلو ہو گئی ہے۔

    بیسن کی قیمت میں 75 روپے کا بڑا اضافہ کیا گیا ہے، فی کلو 230 سے بڑھ کر 305 روپے ہو گئی ہے۔