Tag: میاں بشیر احمد

  • میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    ہندوستان کی تاریخ میں‌ آزادی کی تحریک اور علیحدہ وطن پاکستان کے حصول کے لیے پہلی مرتبہ طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمان جس عظیم مدبّر، سیاست داں اور راہ برِ وقت کی ولولہ انگیز قیادت میں اکٹھے ہوئے تھے، دنیا انھیں ایک ذہین اور نہایت قابل وکیل محمد علی جناح کے نام سے پہلے ہی جانتی تھی۔

    محمد علی جناح جب مسلمانوں کے راہ بَر و قائد بنے تو ان کے رفقا اور قریبی ساتھی ان کے مثالی کردار اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے بھی واقف ہوئے۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اب منزل قریب ہے اور قائدِ‌ اعظم کی قیادت میں متحد ہوکر مسلمان جلد علیحدہ وطن حاصل کرلیں گے۔

    اس تمہید کے ساتھ ہم یہاں آزادی کے ایک متوالے کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا نام میاں بشیر احمد تھا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے معتمد رفقا میں شامل تھے۔

    میاں بشیر احمد کی تحریک اور آزادی کے لیے کوششیں اور اپنی قیادت کے ساتھ محنت، بھاگ دوڑ، قربانیاں اور مسلم لیگ کے لیے خدمات ایک الگ باب ہیں، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جن کی نظموں کے ذریعے مسلمانانِ ہند نے جانا کہ خدا نے محمد علی جناح کی صورت میں انھیں کیسا نقشِ تابندہ عطا کیا ہے جو دراصل نشانِ منزل بھی ہے۔

    میاں بشیر احمد بانی پاکستان کے وہ مخلص ساتھی تھے جنھوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کا اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔

    اُس وقت ہندوستان کے مسلمانوں سے قائدِاعظم محمد علی جناح کے کردار اور ان کی شخصیت کا نہایت خوب صورت اور منفرد انداز میں جامع تعارف کروانے والے میاں بشیر احمد کی زندگی کے چند اوراق ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔

    میاں بشیر احمد کون تھے؟
    ان کا تعلق اس خانوادے سے تھا جس نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے بہت سی خدمات انجام دیں۔ میاں بشیر احمد برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کے فرزند تھے جنھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اپنی نظم میں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ میاں شاہ دین لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے اور علاّمہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے ایک تھے۔ یوں ایک علمی و ادبی ماحول میں میاں بشیر احمد کی پرورش ہوئی اور تعلیم و تربیت کے بعد انھوں نے خود بھی شاعری کا مشغلہ اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا تھا جس کا نام ہمایوں تھا۔

    تحریکِ پاکستان اور علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع ہوئی تو میاں بشیر احمد قائدِاعظم کے قریب آگئے اور ان کے وفادار و جاں نثار ساتھیوں میں شمار کیے جانے لگے۔

    میاں بشیر احمد نے قائدِ اعظم کا تعارف کس منفرد اور شایانِ شان انداز سے کروایا؟

    میاں بشیر احمد عمدہ شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے باسیوں کو بتایا کہ ان کا قائد عزم و ارادے کا پکّا، روشن اور مضبوط کردار کا مالک ہے جس کی ولولہ انگیز قیادت میں اور مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق سے جلد ہمارا خواب پورا ہو گا۔

    یہ کلام آپ نے ضرور سنا ہوگا۔

    ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
    ملّت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

    یہ میاں بشیر احمد کی مشہور نظم کا ایک شعر ہے۔ قائدِ اعظم کی شخصیت و کردار اور ان کی قیادت کے حوالے سے میاں بشیر احمد کی ایک اور مشہور نظم کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ملّت ہے فوج، فوج کا سردار ہے جناح
    اسلامیانِ ہند کی تلوار ہے جناح

    یہ وہ نظمیں تھیں جنھیں تحریکی جلسوں میں پڑھا اور سنا گیا اور یہ اشعار ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں تک پہنچے اور ان کے دل میں‌ قائدِ اعظم کی عظمت و محبّت جگائی اور ان کی قیادت پر مسلمانوں کا یقین اور اعتماد بڑھایا۔

    قائد اور تحریکِ پاکستان کے لیے مسلمانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے اور آزادی کے متوالوں کا حوصلہ اور ہمّت بڑھانے کے لیے ان نظموں کو گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کرکے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نشر کیا گیا۔

    قیامِ‌ پاکستان سے قبل 1946ء میں یہ نظمیں ہندوستان بھر سنی گئیں اور ہر جلسے اور تقریب میں آزادی کے متوالوں کی زبان پر جاری رہیں۔ آج بھی میاں بشیر احمد کی یہ نظمیں اسی جوش و جذبے سے سنی جاتی ہیں اور یومِ‌ آزادی پر قائدِ اعظم محمد علی جناح کو خراجِ‌ تحسین پیش کرنے کا ذریعہ اور ان کے لیے قوم کے جذبات اور احساسات کی عکاس ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد میاں بشیر احمد کو ترکی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ 1971ء میں وفات پاگئے۔

  • یومِ وفات: سیاست سے ادب تک میاں بشیر احمد کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں

    یومِ وفات: سیاست سے ادب تک میاں بشیر احمد کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں

    آج تحریکِ پاکستان کے راہ نما، شاعر اور ادیب میاں بشیر احمد کی برسی ہے جو 3 مارچ 1971ء کو وفات پاگئے تھے۔ قائدِ اعظم کے ایک قابلِ اعتماد ساتھی اور مسلم لیگ کے جاں نثار کارکن کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے جن کی سیاست اور ادب کے لیے خدمات نمایاں‌ ہیں۔

    میاں بشیر احمد اس خانوادے کے فرد تھے جس کا تذکرہ کیے بغیر پاکستان کے قیام کی تاریخ ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ میاں بشیر احمد 29 مارچ 1893ء کو باغبان پورہ، لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جسٹس میاں شاہ دین ہمایوں برصغیر کی ایک معروف علمی اور ادبی شخصیت تھے۔

    میاں بشیر احمد نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ وطن واپسی کے بعد کچھ عرصے بیرسٹری کے بعد‌ اسلامیہ کالج لاہور میں اعزازی لیکچرار رہے۔ یہ سلسلہ تیس سال چلا اور 1922ء میں انھوں نے مشہور ادبی جریدہ ہمایوں جاری کیا جو نہایت معیاری تھا۔ ان کا یہ رسالہ 35 برس تک جاری رہا اور اردو زبان و ادب کے لیے اس کے تحت بڑا کام ہوا۔

    میاں بشیر احمد ایک جانب پنجاب میں انجمنِ ترقیِ اردو کو منظّم کرتے رہے اور دوسری جانب مسلم لیگ کو مضبوط بناتے رہے۔ میاں بشیر احمد ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ 1940ء کے تاریخی اجلاس میں جب قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تو اس میں انہی کی مشہور نظم ’’ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘ پڑھی گئی جس نے ہندوستان بھر کے مسلمانوں‌ میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کردیا تھا۔

    1946ء کے عام انتخابات میں میاں‌ بشیر احمد مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مجلسِ قانون ساز پنجاب کے رکن منتخب ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1949ء میں انہیں ترکی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ وطن واپسی کے بعد میاں بشیر احمد زبان و ادب کی خدمت کرنے لگے۔ انھوں نے چند کتابیں بھی مرتب کیں جن میں طلسمِ زندگی، کارنامہ اسلام اور مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل شامل ہیں۔