Tag: میرا جی

  • بطور شاعر شہرت اور بحیثیت فرد بدنامی سمیٹنے والے میرا جی کا تذکرہ

    بطور شاعر شہرت اور بحیثیت فرد بدنامی سمیٹنے والے میرا جی کا تذکرہ

    اردو نظم کو جدّت اور بہ لحاظِ ہیئت انفرادیت عطا کرنے والے شاعروں میں میرا جی کا نام بھی شامل ہے۔ میرا جی اپنی شاعری خاص طور پر نظم نگاری کے حوالے سے تو اردو ادب میں زیرِ بحث آتے ہی ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے بعض پہلو ایسے ہیں جو ان کی بدنامی کا باعث بنے۔ میرا جی کے ‘اعمالِ بد’ کو ان کے دور کے کئی ادیبوں اور شعرا نے اپنی تحریروں کا حصّہ بنایا ہے۔ منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے۔ آج میرا جی کی برسی ہے۔

    میرا جی کو مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور روایت سے انحراف نے باغی شاعر مشہور کردیا تھا، مگر ساتھ ہی ان کی فنی عظمت کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے، بالخصوص اردو نظم کو تنوع اور نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والا شاعر کہا جاتا ہے۔ بحیثیت ایک فرد میرا جی کو معاشرے میں آوارہ اور ذہنی عیّاش کے طور پر دیکھا گیا۔ وہ کچھ ایسی قبیح عادات میں مبتلا رہے جن کو یہاں بیان نہیں‌ کیا جاسکتا۔ میرا جی کو جنسی مریض‌ سمجھا گیا اور ان کے ہم عصروں نے اس پر کھل کر لکھا۔ شخصی خاکوں میں میرا جی کی زندگی کے بعض ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں، جو شاید عام لوگوں کے لیے ناقابلِ‌ قبول ہیں۔ 3 نومبر 1949ء کو میرا جی ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    زندگی کی صرف 38 بہاریں دیکھنے والے میرا جی کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ وہ 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں ملازم تھے۔ بسلسلۂ ملازمت ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہا اور میرا جی نے بھی تعلیم مختلف شہروں میں مکمل کی۔ یہ کنبہ لاہور منتقل ہوا تو وہاں‌ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی ثناء اللہ ڈار کی زندگی میں داخل ہوئی۔ انھوں نے اس کے عشق میں گرفتار ہوکر اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق ناکام رہا۔ اس کے بعد میرا جی نے محبّت اور ہوس میں کوئی تمیز نہ کی اور کئی نام نہاد عشق کیے اور رسوائیاں اپنے نام کیں۔ یہ تو ایک طرف، میرا جی نے اپنا حلیہ ایسا بنا لیا تھا کہ نفیس طبیعت پر بڑا گراں گزرتا۔ ادیبوں نے میرا جی پر اپنی تحریروں میں لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔

    علم و ادب کی دنیا سے میرا جی کا تعلق مطالعہ کے شوق کے سبب قائم ہوا تھا۔ میرا جی مغربی ادب کے ذہین اور مشّاق قاری تھے۔ انھوں نے جب اپنی طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری کا آغاز کردیا اور پھر اس مطالعہ اور ادب سے گہرے شغف کی بنیاد پر میرا جی ایک مشہور رسالہ ادبی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انھوں نے ادبی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ ان کے مضامین اور تراجم کو بہت پسند کیا گیا اور اس حوصلہ افزائی نے میرا جی کو طبع زاد تحریروں اور تنقیدی مضامین لکھنے کی طرف راغب کیا اور یوں وہ ادب کی دنیا میں نام و مقام بناتے چلے گئے۔ میرا جی نے قدیم یونانی اور سنسکرت شعرا کے علاوہ بے حد مشکل علامت پسند فرانسیسی شعرا کے بھی کامیابی سے تراجم کیے۔ عمر خیام کی رباعیات کو انھوں نے بڑے سلیقے سے ہندوستانی چولا پہنایا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی برطانیہ سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی تھیں اور اردو ادب بھی نئے رجحانات اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہورہا تھا۔ اسی دور میں میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی اور آگے چل کر جدید نظم کے بانیوں میں ان کا شمار ہوا۔ ظفر سیّد نے بی بی سی پر اپنی ایک تحریر میں‌ میرا جی کے لیے لکھا تھا، وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید میرا جی کے بارے میں لکھتے ہیں، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔ وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی دوران انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔ ممتاز شاعر میرا جی نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ اردو شاعری میں‌ میرا جی کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اردو نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں: ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ شعری مجموعوں میں میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شامل ہیں۔

    اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔ میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    میرا جی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
    زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی

    گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے
    ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی

    انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے
    ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی

    سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ امید پر
    جستجو آئینۂ مد و جزر ہو جائے گی

    درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
    اب دعا اندیشہ یہ ہے کارگر ہو جائے گی

    سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
    ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی

  • میرا جی: پرلے درجے کا مخلص جس نے لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا

    میرا جی: پرلے درجے کا مخلص جس نے لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا

    منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے۔ اردو نظم کو جدّت اور بہ لحاظِ ہیئت انفرادیت عطا کرنے والے میرا جی اپنے فن و تخلیق کے لیے تو اردو ادب میں زیرِ بحث رہے ہی ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے بعض پہلوؤں سے بھی ان کے ہم عصر اہلِ قلم صرفِ نظر نہیں کرسکے اور میرا جی کے ‘اعمالِ بد’ کو بھی ادبی تذکروں اور خاکوں کا حصّہ بنایا ہے۔ آج میرا جی کی برسی ہے۔

    مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور روایت سے انحراف نے میرا جی کو باغی شاعر بھی ثابت کیا ہے اور مگر ان کی فنی عظمت کا اعتراف سبھی کرتے ہیں اور انھیں بالخصوص اردو نظم کو تنوع اور نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والا شاعر کہا جاتا ہے۔ لیکن بحیثیت انسان وہ اپنی آوارہ مزاجی اور ذہنی عیّاشی کے سبب ایسی قبیح عادات میں مبتلا رہے جو ناگفتہ بہ ہیں۔ انھیں جنسی مریض‌ بھی سمجھا گیا، 3 نومبر 1949ء کو میرا جی ممبئی میں وفات پاگئے تھے۔

    میرا جی نے زندگی کی صرف 38 بہاریں دیکھیں۔ ان کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ میرا جی 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں ملازم تھے۔ بسلسلۂ ملازمت ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہا اور میرا جی نے بھی تعلیم مختلف شہروں میں مکمل کی۔ یہ کنبہ لاہور منتقل ہوا تو وہاں‌ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی ثناء اللہ ڈار کی زندگی میں داخل ہوئی۔ انھوں نے اس کے عشق میں گرفتار ہوکر اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق ناکام رہا۔ اس کے بعد میرا جی نے محبّت اور ہوس میں کوئی تمیز نہ کی اور کئی نام نہاد عشق کیے اور رسوائیاں اپنے نام کیں۔ یہ تو ایک طرف، میرا جی نے اپنا حلیہ ایسا بنا لیا تھا کہ نفیس طبیعت پر بڑا گراں گزرتا۔ ادیبوں نے میرا جی پر اپنی تحریروں میں لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔

    علم و ادب کی دنیا سے میرا جی کا تعلق مطالعہ کے شوق کے سبب قائم ہوا تھا۔ میرا جی مغربی ادب کے ذہین اور مشّاق قاری تھے۔ انھوں نے جب اپنی طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری کا آغاز کردیا اور پھر ادب سے شغف کی بنیاد پر ایک مشہور رسالہ ادبی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور وہ مضمون نگار بن گئے، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ ادبی حلقے سے حوصلہ افزائی نے میرا جی کو طبع زاد تحریروں اور تنقیدی مضامین لکھنے کی طرف راغب کیا اور یوں وہ ادب کی دنیا میں نام و مقام بناتے چلے گئے۔ میرا جی نے قدیم یونانی اور سنسکرت شعرا کے علاوہ بے حد مشکل علامت پسند فرانسیسی شعرا کے بھی کامیابی سے تراجم کیے۔ عمر خیام کی رباعیات کو انھوں نے بڑے سلیقے سے ہندوستانی چولا پہنایا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی برطانیہ سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی تھیں اور اردو ادب بھی نئے رجحانات اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہورہا تھا۔ اسی دور میں میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی اور آگے چل کر جدید نظم کے بانیوں میں ان کا شمار ہوا۔ ظفر سیّد نے بی بی سی پر اپنی ایک تحریر میں‌ میرا جی کے لیے لکھا تھا، وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید میرا جی کے بارے میں لکھتے ہیں، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی دوران انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ اردو شاعری میں‌ میرا جی کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں:

    ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شعری مجموعے ہیں۔

    اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔ میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    یہاں ہم اردو کے جدید اردو نظم کے بانی اور مشہور شاعر میرا جی کی ایک غزل باذوق قارئین کے مطالعے کے لیے نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستا بھول گیا
    کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

    کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
    کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

    کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں، گھاتیں تھیں
    من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

    اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
    دھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا

    ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
    ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

    سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
    لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

  • جرمنی کا مشہور شاعر ہائینے اور اس کی محبوبہ

    جرمنی کا مشہور شاعر ہائینے اور اس کی محبوبہ

    ہیری ہائینے ایک طفل طرار تھا اور اگرچہ وہ جسمانی طور پر مضبوط نہ تھا لیکن اس کے احساسات تیز تھے۔ وہ مطالعے کا بے حد شوقین تھا اور ڈان کوہیٹے (Don Quixote) اور گلیور کے سفر (Gulliver’s Travels) اُس کی محبوب کتابیں تھیں۔

    ان کتابوں کے نکتہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کیوں کہ ان کتابوں ہی کی خیالی دنیائیں تھیں، جن کا نقش شاعر کے ذہن پر بہت گہرا ہوا اور نوجوانی اور آیندہ عمر میں ان طفلانہ تاثرات کا اظہار اس کے کلام میں ہوا۔

    ہائینے اپنی بہن کے ساتھ مل کر بچپن ہی سے شعر و شاعری کے مشغلہ میں حصہ لیا کرتا تھا اور دس سال کی عمر میں اس نے ایک ایسی نظم لکھی، جسے اس کے استادوں نے ایک شاہکار تسلیم کیا۔ اسکول کی طالب علمی کے زمانہ میں وہ دن رات بہت اچھی طرح پڑھائی میں مصروف رہا۔ اس دوران میں صرف ایک بار اسے غم کا سامنا ہوا۔

    ایک دفعہ وہ اسکول کے کسی مجمع میں ایک نظم پڑھ کر سنارہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہیں ایک خوبصورت لڑکی پر پڑیں۔ یہ لڑکی سامعین میں موجود تھی۔ وہ پڑھتے پڑھتے جھجکا، رک رک کر اُس نے پھر پڑھنے کی کوشش کی، لیکن بے کار، وہ خاموش ہو گیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ مشہور ماہرِ جنسیات ہیولاک ایلس لکھتا ہے کہ اس واقع سے ہائینے کی زندگی میں بچپن ہی سے اس شدت احساس کا اظہار ہوتا ہے، جو اس کی فطرت میں موجود تھی۔ گویا وہ بچپن ہی سے اپنے جذبات و تخیل کا محکوم تھا۔

    اس بات کو کئی سال گزر گئے۔ ہائینے سترہ سال کا تھا اور اس کا امیر چچا سلیمان ہائینے اس بات کی بے کار کوشش میں تھا کہ اپنے بھتیجے کو تجارت کی طرف لگا دے۔ اس زمانہ میں ہائینے کی ملاقات اس عورت سے ہوئی، جس نے اس کے دل میں پہلی اور آخری بار ایک گہرے جذبہ کو بیدار کیا تھا۔ لیکن اس جذبہ کی اس کے سوا اور کسی طرح تسکین نہ ہوسکی کہ شاعر کی نظمیں اس سے چمک اٹھیں۔ ہائینے نے کبھی اس عورت کا نام تک اپنی زبان پر نہ آنے دیا اور میر تقی کی طرح ساری عمر ایک غیر سر زمین میں جا کر گزار دی اور اپنی محبوبہ کی شخصیت کو ہمیشہ چھپائے رکھا۔ یہاں تک کہ اس کی موت کے بھی بہت بعد میں جا کر لوگوں کو معلوم ہوا کہ جس عورت کے متعلق شاعر ایسے میٹھے اور دکھ بھرے گیت گاتا رہا ہے اور جس کی شخصیت پر وہ میریا، زلیما اور ایوسے لینا کے ناموں کے پردے ڈالتا رہا ہے، وہ اس کی بنتِ عم (چچا زاد) ایمیلی ہائینے تھی۔

    1856ء میں ہائینے اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    (از میرا جی)

  • ایک بڑا شاعر جسے دنیا محبوبہ کے نام سے جانتی ہے

    ایک بڑا شاعر جسے دنیا محبوبہ کے نام سے جانتی ہے

    صاحبان علم کہتے ہیں کہ اردو ادب میں تین شخصیات کا کردار غیر معمولی ہے ۔ تینوں کا اسلوب اور ادبی مہمات عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں ۔ انھوں نے معاشرتی اور اخلاقی رسوم سے بغاوت کی ۔ ان کرداروں کی وجہ سے آج اردو ادب زرخیز ہے اور اس کا دامن وسیع تر ہے ۔ ان شخصیات میں مرزا غالب ، سعادت حسن منٹو اور میرا جی شامل ہیں ۔ غالب اور منٹوکو تو قارئین سالہا سال سے خراج تحسین پیش کرتے آ رہے ہیں تاہم میرا جی ایک ایسے شاعر تھے جو اپنے قارئین کو تو خاطر خواہ متاثر نہ کر سکے تاہم انھوں نے اپنے بعد لکھے جانے والی شاعری پر گہرا اثر چھوڑا ۔

    آزاد نظم اور علامتی شاعری کو اردو ادب میں فروغ دینے والوں میں میرا جی کا نام سرفہرست ہے ۔ آج کا مضمون میرا جی کی زندگی کے ایسے واقعہ کے متعلق ہے جس نے انھیں پوری دنیا میں میرا جی کے نام سے مشہور کر دیا ۔ میرا جی 1912 میں پیدا ہوئے اور جواں عمری میں 1949 میں محض 37 برس کی عمر میں انتقال ہوگئے ۔ میرا جی کا اصل نام ثنااللہ ڈار تھا ۔ نوجوانی میں لاہور میں انھیں ایک بنگالی لڑکی میرا سین سے عشق ہو گیا مگر وہ کبھی اس سے اظہار محبت کر نہ سکے ۔

    میرا سین لاہور کے جین مندر کے قریب واقع عمارت میں رہائش پزیر تھی اورایف سی کالج میں پڑھتی تھی ۔ ثنااللہ ڈار نے اس لڑکی کو ایک دن راستے میں روک کر صرف اتنا کہا کہ وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا مگر وہ لڑکی نظر انداز کر کے اآگے بڑھ گئی ۔ میرا جی لڑکی سے اظہار محبت تو نہ کر سکے مگر وہ اس کے گھر کے سامنے یونیورسٹی گراونڈ میں سارا دن بیٹھ کر اس کی بالکنی کو دیکھتے رہتے جس میں الگنی پر میرا سین اپنی رنگ برنگی ساڑھیاں سکھانے کے لیے ڈالتی ۔

    کچھ عرصہ بعد میرا سین واپس کلکتہ چلی گئی مگر میرا جی اسی گراونڈ میں بیٹھ کر خالی بالکتی کو تکتے رہ گئے ۔میرا جی کےناآسودہ عشق کی گواہ وہ عمارت آج بھی مخدوش حالت میں جین مندر میں موجود ہے ۔ میرا سین تو رخصت ہو گئی مگر یہیں سے ثنااللہ ڈار سے میرا جی کا سفر شروع ہوا ۔ میراسین کا امیج میراجی کے لیے ایک تخلیقی تجربہ بن گیا۔

    وہ عمر بھراس امیج کے حصار میں رہے .ثناءاللہ ڈار نے سب سے پہلے اپنا نام بدلا ، گھر بار چھوڑا اور تمام عمر دربدر بھٹکتا رہا ۔ میرا سین کے جانے کے بعد میرا جی نے شعر و ادب سے رشتہ جوڑ لیا اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا ۔ 1938 سے1941 تک وہ ادبی دنیا سے وابستہ رہے جس کے بعد لاہور میں اآل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے ۔

    بعد میں ان کا تبادلہ دلی کر دیا گیا ۔ 1945 میں وہ بمبئی چلے گئے مگر وہاں کام نہ ملا ۔ وہ پونا بھی گئے مگر حالات بہتر نہ ہو سکے ۔ اس موقع پر اخترالایمان نے مدد کی اوراپنے رسالے خیال کی ادارت انھیں سونپ دی ۔ میرا جی بہت سی بری عادتوں میں بھی مبتلا تھے جن میں کثرت شراب نوشی اور طوائقوں کے پاس جانا جیسے ان کی ذات کا حصہ تھا وہ عجیب و غریب حلیہ بنا کر رکھتے کبھی سر منڈوا لیتے اور کبھی لمبی زلفیں رکھ لیتے جنھیں شاید کبھی کبھار بی وہ دھونے کی زحمت گوارا کرتے ۔ وہ ہمیشہ میلے کچیلے کپڑوں میں پھرتے , گلے میں مالا اور ہاتھ میں تین گولے ہوتے جن پر سگریٹ کی پنیاں چڑھی ہوتیں ۔

    غرض میرا جی ہیت کذائی اورغلیظ عادات نے ان کی ذات کو عوام کے لیے افسانہ بنا دیا ان کی شخصیت ہی ہمیشہ قاری اور ان کی شاعری کے درمیان رکاوٹ بنی رہی ۔ نشے اور دیگر غلط کاریوں نے میرا جی کی صحت کو بری طرح متاثر کیا اور بالآخر وہ 1949 میں بمبئی کے ایک خیراتی ادارے میں کسپمبرسی کے عالم میں انتقال کر گئے ۔

    میرا جی

    ان کے جنازے میں فقط پانچ لوگ ہی شریک ہوئے ۔ ممکن ہے یہ ہیت کذائی ، شراب نوشی اور دیگر غلط عادات کی وجہ ان کا ناکام عشق ہی بنا ہوا ۔ میرا جی نے ایک عورت کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا اس کے نام کا چوغہ پہن لیا ۔ لوگ اس کا اصل نام بھول گۓاور اسے میرا سین کا عاشق میرا جی کہتے تھے ۔ اس دور میں اختر شیرانی اور سلمی کا قصہ بھی مشہور تھا مگر اختر شیرانی جنوں کی اس حد تک نہیں پہنچا تھا جو میرا جی کی معراج تھا ۔ میرا جی ایک جنونی تھا جس نے ایک عام سی بنگالن لڑکی کے لیے اپنا آپ برباد کر دیا اور شاید میرا سین کو اس کی خبر تک نہ تھی ۔

    وہ خود تو واپس چلی گٸی مگر میرا جی کو لاہور ، دلی اور بمبٸی کی سڑکوں پر دربدر چھوڑ گٸی ۔ میرا سین اور جین مندر میں واقع گھر کے حوالے سے محمد حسین اآزاد کے پوتے اور معروف مصنف و شاعر اآغا سلمان باقر نے ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ تقسیم کے بعد میرا سین کا گھر مقبول احمد جعفری کوالاٹ ہوا جو جعفریہ کالونی کے سیکرٹری کوآپریٹوبھی رہے ۔ ایک دن جعفری صاحب نے انھیں بتایا کہ یہ گھر میرا جی کی محبوبہ میرا سین کا ہے ۔ انھوں نے ایک ساڑھی اور خوبصورت سی لڑکی کی تصویر بھی دکھائی کہ یہ میرا سین اور اس کی ساڑھی ہے جو یہاں الماری کے نچلے حصے میں پڑی رہ گئی ۔

    آغا سلمان باقر کے مطابق وہ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی جس کے لیے میرا جی اپنے جنون میں حق بجانب تھے ۔ یہ بات ادبی حلقوں میں خاصے عرصہ تک موضوع گفتگو رہی ۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اس تصویر اور ساڑھی کے میرا سین سے کسی بھی تعلق کو رد کر دیا ان کا کہنا تھا کہ میرا سین کا خاندان 1940 کے اآس پاس لاہور چھوڑ گیا تھا-

    1946 میں قیوم نظر کو دلی سے لکھے گئے۔ خط میں میرا جی نے لکھا کہ پرسوں بیس مارچ تھی اور میرا سین کی ملازمت میں چودہ سال گزر گئے ۔ لہذا تقسیم ہند تک ساڑھی یا تصویر کا اس جگہ پر موجود رہنا ممکن نہیں یہ لڑکی کوئی اور ہو گی میرا سین نہیں ۔ ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میرا جی نے یہ سارا ڈھونگ رچایا تھا تاکہ ان کے جنونی عشق کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہے ۔ حسن عسکری کہتے ہیں کہ ایک دن ایک بنگالی لڑکی راستے سے گزر رہی تھی جسے دیکھ کر اس کے دوستوں نے چھیڑا کہ یہ ثناءاللہ ڈار کی محبوبہ میرا سین ہے ۔

    میرا جی اس بات پر دکھاوے کے لیے چڑتے رہے تاکہ دوست اس معاملے کو مزید اچھالیں اور یوں ایک بے بنیاد افسانے کو وہ ساری زندگی نبھاتے رہے اور اپنے ناآسودہ عشق کی تشہیر کے لیے انہوں نے زندگی گزارنے کا یہ انداز چنا ۔

    اخترالایمان نے بھی رشید امجد کو اپنے ایک خط میں میرا جی کے عشق کے متعلق لکھا کہ میرا جی کے اس سے عشق کو زیادہ اہمیت نہ دیں ایسی کئی لڑکیاں تھیں ۔ انیس ناگی کہتے ہیں کہ میرا سین سے اتنی طویل خیالی رفاقت اور جذباتی وابستگی محض دکھاوا نہیں ہو سکتی ۔یہ ایک والہانہ پن تھا ایسی دیوانگی تھی جو اس کی شاعری میں ٰبھرپور طریقے سے نمایاں ہوٸی اور یہ میرا جی کی شخصیت کا آدرشی پہلو تھا جسے انھوں نے برقرار رکھا ۔

  • یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

    یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

    مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور انحراف نے میرا جی کو باغی شاعر بنا دیا تھا۔ اردو نظم کو موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والے اس شاعر کے منفرد طرزِ فکر اور اندازِ بیان نے کئی نظم نگاروں کو متاثر کیا، لیکن ان کی ذات کثرتِ مے نوشی، رنگین مزاجی اور بعض قبیح عادات کے سبب نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔ میرا جی نے 1949ء میں آج ہی کے دن ممبئی میں وفات پائی۔

    صرف 38 سال جینے والے میرا جی کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں تھے جن کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا اور یوں میرا جی نے تعلیم و تربیت کے مراحل بھی مختلف شہروں طے کیے۔

    نثاءُ اللہ ڈار کے والد نے لاہور میں اقامت اختیار کی تو میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی اس کی زندگی میں داخل ہوئی اور اس کے عشق میں انھوں نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق میں ناکام رہا اور بعد کے برسوں میں وہ عشق اور ہوس میں تمیز کیے بغیر نجانے کتنی زلفوں کے اسیر ہوئے اور رسوائیاں اپنے نام کرتے رہے۔ یہ بدنامیاں ایک طرف حلیہ بھی ان کا ایسا تھا کہ نفیس طبیعت پر ان کا ساتھ گراں گزرتا۔ خاکہ نگاروں نے لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔ ان کی ظاہری حالت، اور شخصی کم زوریوں کو ان کے بدخواہوں اور دشمنوں نے خوب موضوع بنایا ہے، لیکن اس سے میرا جی کی فنی عظمت کم نہیں‌ ہوتی۔

    میرا جی کو شروع ہی سے مطالعہ کا شوق اور علم و ادب سے لگاؤ رہا۔ طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری شروع کر دی اور علم و ادب سے شغف کے سبب وہ معروف اور قابلِ‌ ذکر رسالے ادبی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انھوں نے مضامین لکھنے کا آغاز کیا، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ حوصلہ افزائی ہوئی تو میرا جی کی طبع زاد تخلیقات اور تنقیدی مضامین بھی رسالے میں شایع ہونے لگے اور ادیبوں اور باذوق قارئین کی توجہ حاصل کی۔

    جب میرا جی نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس وقت ہند پر برطانیہ کا تسلط تھا اور ہندوستان آزادی کی لڑائی میں لڑ رہا تھا۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی اور اردو ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس وقت میرا جی نے حلقہ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی۔

    ڈاکٹر انور سدید نے میرا جی کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی عرصلے میں انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔

    میرا جی نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ میرا جی اردو شاعری میں ایک تاریخی اور نئی روایت قائم کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ اردو شاعری میں‌ ان کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے بھی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں:

    ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شعری مجموعے ہیں۔

    سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔

    میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    اردو زبان کے مشہور شاعر اور جدید نظم کے بانی میرا جی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستا بھول گیا
    کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

    کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
    کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

    کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں، گھاتیں تھیں
    من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

    اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
    دھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا

    ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
    ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

    سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
    لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

  • میرا جی: بڑا شاعر جسے مے نوشی کی طرح شاید اپنی بداعمالیاں بھی عزیز تھیں!

    میرا جی: بڑا شاعر جسے مے نوشی کی طرح شاید اپنی بداعمالیاں بھی عزیز تھیں!

    ہندوستان میں حلقہ اربابِ ذوق کا قیام اور ترقّی پسند تحریک کے شور میں کئی نام سامنے آئے جنھوں نے گلستانِ ادب کو نئی فکر، نظریے کے ساتھ اپنے منفرد اسلوب، اندازِ بیان، جدید لب و لہجے اور نئے آہنگ کے ساتھ ایسی تخلیقات سے سجایا جس میں عصری شعور کو بہت اہمیت دی گئی تھی۔ یوں کہیے کہ ادب میں یک رنگی کا دور گیا اور انسان کو اس کی کلیّت کے حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کا آغاز ہوا۔

    اسی زمانے میں ادب میں صنفِ‌ سخن کی بات کی جائے تو شعرا نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مرّوجہ تصوّر کو بھی تبدیل کردیا۔ شعری موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیئت میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور آزاد نظم کو مقبولیت ملی۔ آزاد نظم میں ایک بہت ہی مقبول نام ”میرا جی “ کا بھی ہے جو فن و ادب میں تو یگانہ و ممتاز شخصیات میں شمار ہوئے، لیکن اپنی عادات اور اوصاف میں بدنام ہوئے۔ ان سے اکثر ادیب و شاعر بھی کتراتے اور میل جول میں‌ محتاط رہتے۔ تاہم انھیں اپنی رسوائی عزیز رہی اور وہ بدنامی اور لعن طعن سے بے نیاز اپنی ڈگر پر قائم رہے۔

    جدید نظم نگاری اور اردو شاعری میں بڑا نام و مقام پیدا کرنے والے میرا جی کی زندگی کا سفر 38 برس پر محیط ہے۔ انھوں نے اپنی کج روی، بلا نوشی اور بے اعتدالیوں سے زندگی کو بہت مختصر کر لیا تھا۔ خود کو تماشا بنا کر رسوائیوں کو سینے سے لگائے ان کی عمرِ عزیز کے چند برس لاہور میں، تین چار سال دہلی میں اور آخری تین چار برس بمبئی میں خواری اور بدحالی کے عالم میں گزرے۔

    میرا جی 3 نومبر 1949ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ان کی ذہنی و جسمانی حالت اور کیفیت کو دیکھتے ہوئے انھیں جنسی اور نفسیاتی مریض بھی کہا گیا اور ان کی اس حالت کا ذکر ان کے ہم عصروں نے کیا ہے۔ میرا جی کی بد قماشیوں اور بدکاریوں کی داستانیں منٹو، اخلاق احمد، قیوم نظر، سلیم احمد نے تو بیان کی ہی ہیں، خود میرا جی نے خود کو سچّا، کھرا اور بے باک ثابت کرتے ہوئے اپنی قبیح عادات اور زندگی کے ناپسندیدہ پہلوؤں پر لکھا ہے۔

    میرا جی کے فنی سفر کی بات کریں تو انھوں نے ابتدائی دور میں‌ سامری کا تخلص اپنایا، لیکن بعد میں میرا جی کے نام سے شہرت پائی۔‌

    میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔‌ وہ 1913ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا مستند اور مضبوط حوالہ ان کی نظم گوئی ہے۔ کم عمری ہی میں‌ شاعری کا آغاز کرنے والے میرا جی نے نظم کے میدان میں متعدد تجربات بھی کیے اور اس صنفِ سخن کو منفرد انداز اور نئے موضوعات دیے۔

    ان کے والد ریلوے میں‌ انجینئر تھے جن کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا جہاں وہ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ اسی نسبت سے انھوں‌ نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا۔ وہ ترقی پسند تحریک کا زمانہ تھا اور ادب میں نئے تجربات کیے جارہے تھے۔ میرا جی نے حلقۂ ارباب ذوق میں دل چسپی لینا شروع کی اور 1937ء میں رسالہ ادبی دنیا کے نائب مدیر بنے۔ 1941ء میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی۔ چند سال دلّی میں گزارے اور پھر بمبئی چلے گئے جہاں ایک ادبی رسالہ “خیال” جاری کیا۔

    میرا جی کو باغی اور روایت شکن شاعر بھی کہا جاتا ہے جنھوں‌ نے اردو نظم گوئی میں موضوع اور تکنیک کے حوالے ہم عصروں سے الگ راستہ اختیار کیا۔ ان کے متعدد مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں گیتوں‌ کی کتاب کے علاوہ مشرق و مغرب کے نغمے، میرا جی کی نظمیں اور نگار خانہ سرِفہرست ہیں۔

    معروف ادیب اور محقق جمیل جالبی نے میرا جی کا کلام اکٹھا کر کے کلیات شایع کروائی تھی۔

    میرا جی نے غیر ملکی ادب کے اردو تراجم کے ساتھ ان تخلیقات کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے کئی اسکرپٹ اور مضامین تحریر کیے، کالم لکھے اور ترجمہ نگاری کے فن میں بھی نام کمایا۔

  • فوج کا کپتان اور انار کلی چوک کا تھانے دار

    فوج کا کپتان اور انار کلی چوک کا تھانے دار

    ‘‘ماورا’’ چھپ گئی۔ چغتائی صاحب نے اس کا بہت خوب صورت گرد پوش بنایا تھا۔ کرشن چندر نے دیباچہ لکھا تھا۔

    جیسا کہ توقع تھی کتاب ملک میں بہت مقبول ہوئی۔ اور ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ کچھ رسائل و جرائد میں اس کے خلاف تنقیدیں بھی چھپیں مگر اس کی مقبولیت پر کچھ اثر نہ پڑا۔

    اس دوران میں دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا۔ اور وہ کپتان بن کر ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد واپس آئے تو دلّی میں میرے ہی پاس آکر ٹھہرے۔

    ان کی عدم موجودگی میں ‘‘ماورا’’ کا دوسرا ایڈیشن چھپ گیا تھا جس کی ایک جلد میں خرید لایا تھا۔ خوش خوش اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔

    اچانک ان کا چہرہ غصّے سے متغیر ہوگیا۔ ناشر نے دوسرے ایڈیشن میں ان کی وہ نظمیں بھی رسائل سے لے کر شامل کر دی تھیں جو انہوں نے ‘‘ماورا’’ کے چھپنے کے بعد پچھلے ڈیڑھ دو سال میں کہی تھیں۔ حالاں کہ انہوں نے ناشر کو اس کی سخت ممانعت کردی تھی۔ راشد شاید ان نظموں کو اپنے دوسرے مجموعے کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

    وہ اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے۔ رات کو نیند بھی نہ آئی۔ بس تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر وردی پہن کر گھر سے نکل گئے، تین چار دن غائب رہے۔ اس کے بعد آئے تو بڑے ہشاش بشاش، لپٹ لپٹ کر گلے ملے اور قہقہے لگاتے رہے۔

    بولے، جانتے ہو میں کہاں سے آرہا ہوں؟ لاہور سے۔ میں اس صبح اپنے دفتر سے اجازت لے کر لاہور روانہ ہوگیا تھا۔ میں سیدھا انار کلی چوک کے تھانے میں پہنچا۔

    میں نے تھانے دار سے کہا، میں فوج میں کپتان ہوں۔ میں جنگ کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب ہم جنگ پر ملک سے باہر جائیں تو سرکار ہمارے پیچھے ہمارے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ اب دیکھیے میرے ساتھ میرے پبلشر نے کیا کیا، اس کے بعد میں نے تھانے دار کو اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔

    اس نے کہا، صاحب آپ فکر نہ کریں، میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس نے فوراً سپاہی بھیج کر ناشر کی دکان پر تالا ڈلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جس پریس میں کتاب چھپی تھی اس کے مالک کو بھی طلب کر لیا۔

    ‘‘ماورا’’ کا ناشر بڑا اکڑ باز تھا۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کبھی کبھی مار پیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی، مگر راشد کی اس کارروائی سے اس کی ساری اکڑ فوں نکل گئی۔ گڑگڑا کر راشد سے معافی مانگی اور کہا کہ میں پوری رائلٹی کے علاوہ ایک ہزار روپیہ اس کا ہرجانہ بھی دوں گا۔

    پریس والے بے قصور تھے، انہیں معاف کردیا گیا۔ البتّہ ان کے رجسٹر سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ پہلا ایڈیشن ایک ہزار نہیں جیسا کہ اس میں درج تھا بلکہ دو ہزار جلدوں کا چھاپا گیا تھا۔ چنانچہ ناشر کو ایک ہزار کی مزید رائلٹی ادا کرنی پڑی۔

    (نذر محمد راشد المعروف ن م راشد اردو کے عظیم شاعر اور جدید نظم کے بانیوں میں سے ایک تھے جن سے متعلق نام وَر افسانہ نگار غلام عبّاس کے مضمون ‘راشد:چند یادیں’ سے یہ پارے نقل کیے گئے ہیں)

  • سیفو، یونان کی نام وَر شاعرہ جو بہت بدنام بھی ہے!

    سیفو، یونان کی نام وَر شاعرہ جو بہت بدنام بھی ہے!

    سرزمینِ یونان کو گہوارۂ علم و حکمت کہا جاتا ہے۔ قدیم تہذیبوں، ثقافتی تنوع اور رنگارنگی کے لیے مشہور یونان میں نہ صرف علم و ادب پروان چڑھا بلکہ اس سرزمین نے حُسن و عشق کی لازوال داستانوں کو بھی جنم دیا جنھیں آج بھی دہرایا جاتا ہے۔

    دنیا تسلیم کرتی ہے کہ یونانی تہذیب و ثقافت نے تاریخِ عالم پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اسی سَرزمین کا ایک تابندہ ستارہ سیفو یا ساپفو (Sappho) ہے جسے یونان کی ممتاز شاعرہ مانا جاتا ہے۔ اس شاعرہ کی زندگی اور موت بھی افسانوں اور قصّے کہانیوں سے آراستہ ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سیفو 630 قبلِ مسیح میں شمالی یونان کے خوب صورت جزیرے لیسبوس کے علاقے ایریسوس میں پیدا ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یونان کے اس شہر میں‌ آزادئ نسواں کا چرچا تھا۔ سیفو مقامی عورتوں کو شاعری اور موسیقی کی تعلیم دیتی تھی۔ سیفو ایک شاعرہ کی حیثیت سے تو شناخت بنا ہی چکی تھی، لیکن لیسبوس میں‌ بدنام بھی بہت تھی۔ اسے ہم جنس پرست بھی کہا جاتا تھا، جب کہ اس کے کئی اسکینڈل بھی مشہور تھے۔ بعض روایات میں سیفو کو طوائف بھی کہا گیا ہے۔

    اردو ادب کے نام وروں میں میرا جی اور سلیم الرّحمٰن نے سیفو پر تفصیل سے لکھا ہے۔ انھوں نے سیفو سے منسوب اکثر باتوں کو فرضی اور مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔ بعض‌ ناقدین اور تذکرہ نویسوں کا خیال ہے کہ سیفو کی شاعری اور شہرت نے اس کے حاسدین جن میں‌ مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں، کو اس کے بارے میں‌ غلط باتیں‌ پھیلانے پر اکسایا اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔

    یونان کی اس ممتاز مگر بدنام شاعرہ کی شادی ایک امیر کبیر تاجر سے ہوئی جو چند سال بعد ہی دنیا سے چل بسا تھا۔

    اس شاعرہ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ مٹیلین کے ایک نوجوان ملّاح فاڈن پر عاشق تھی۔ فاڈن حسن و زیبائی میں بے مثل تھا۔ کچھ عرصہ فاڈن نے سیفو سے عشق لڑایا، لیکن پھر کنارہ کش ہو گیا۔ سیفو اس کی بے وفائی پر زندگی سے دلبرداشتہ ہوگئی اور زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

    مشہور ہے کہ سیفو نے خود کُشی کے لیے دریائے ایپی کا انتخاب کیا۔ وہ ایک چٹان پر چڑھی اور دوڑتے ہوئے چھلانگ لگا دی جہاں دریا کی لہروں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ خود کُشی کا یہ واقعہ 570 قبلِ‌ مسیح کا ہے۔ تاہم بعض مؤرّخین اس خودکشی کو افسانہ قرار دیتے ہیں۔

    سیفو کی شاعری میں وارداتِ قلبی اور معاملہ بندی جیسے مضامین ملتے ہیں‌ جن میں سوز و گداز اور وارفتگی ہے۔ جدید نظم کے مشہور شاعر میرا جی نے سیفو کے متعلق لکھا ہے:

    ’’سیفو نہ صرف اپنے زمانے میں یونان کی سب سے بڑی شاعرہ گزری ہے بلکہ خالص تغزّل کے لحاظ سے وہ آج تک دنیا کی سب سے بڑی شاعرہ تصور کی جاتی ہے۔ اور اس کی شاعری میں دو باتوں نے ایک خاص دل چسپی پیدا کی ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ اس کا کلام کم یاب بلکہ نادر ہے۔ اب تک صرف ساٹھ کے قریب ٹکڑے اس کی شاعری کے مل سکے ہیں، اور اُن میں بھی صرف ایک نظم مکمل ہے اور دو تین بڑے ٹکڑے ہیں، باقی سب دو دو، تین تین سطروں کے جواہر پارے ہیں بلکہ بعض ٹکڑے تو صرف چند الفاظ پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ ادھورے ٹکڑے بھی چمکتے ہوئے ہیرے ہیں اور بھڑکتے ہوئے شعلے۔ دوسری بات اس کی رنگین سوانح حیات ہے۔‘‘