Tag: میرا جی کی شاعری

  • میرا جی: بڑا شاعر جسے مے نوشی کی طرح شاید اپنی بداعمالیاں بھی عزیز تھیں!

    میرا جی: بڑا شاعر جسے مے نوشی کی طرح شاید اپنی بداعمالیاں بھی عزیز تھیں!

    ہندوستان میں حلقہ اربابِ ذوق کا قیام اور ترقّی پسند تحریک کے شور میں کئی نام سامنے آئے جنھوں نے گلستانِ ادب کو نئی فکر، نظریے کے ساتھ اپنے منفرد اسلوب، اندازِ بیان، جدید لب و لہجے اور نئے آہنگ کے ساتھ ایسی تخلیقات سے سجایا جس میں عصری شعور کو بہت اہمیت دی گئی تھی۔ یوں کہیے کہ ادب میں یک رنگی کا دور گیا اور انسان کو اس کی کلیّت کے حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کا آغاز ہوا۔

    اسی زمانے میں ادب میں صنفِ‌ سخن کی بات کی جائے تو شعرا نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مرّوجہ تصوّر کو بھی تبدیل کردیا۔ شعری موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیئت میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور آزاد نظم کو مقبولیت ملی۔ آزاد نظم میں ایک بہت ہی مقبول نام ”میرا جی “ کا بھی ہے جو فن و ادب میں تو یگانہ و ممتاز شخصیات میں شمار ہوئے، لیکن اپنی عادات اور اوصاف میں بدنام ہوئے۔ ان سے اکثر ادیب و شاعر بھی کتراتے اور میل جول میں‌ محتاط رہتے۔ تاہم انھیں اپنی رسوائی عزیز رہی اور وہ بدنامی اور لعن طعن سے بے نیاز اپنی ڈگر پر قائم رہے۔

    جدید نظم نگاری اور اردو شاعری میں بڑا نام و مقام پیدا کرنے والے میرا جی کی زندگی کا سفر 38 برس پر محیط ہے۔ انھوں نے اپنی کج روی، بلا نوشی اور بے اعتدالیوں سے زندگی کو بہت مختصر کر لیا تھا۔ خود کو تماشا بنا کر رسوائیوں کو سینے سے لگائے ان کی عمرِ عزیز کے چند برس لاہور میں، تین چار سال دہلی میں اور آخری تین چار برس بمبئی میں خواری اور بدحالی کے عالم میں گزرے۔

    میرا جی 3 نومبر 1949ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ان کی ذہنی و جسمانی حالت اور کیفیت کو دیکھتے ہوئے انھیں جنسی اور نفسیاتی مریض بھی کہا گیا اور ان کی اس حالت کا ذکر ان کے ہم عصروں نے کیا ہے۔ میرا جی کی بد قماشیوں اور بدکاریوں کی داستانیں منٹو، اخلاق احمد، قیوم نظر، سلیم احمد نے تو بیان کی ہی ہیں، خود میرا جی نے خود کو سچّا، کھرا اور بے باک ثابت کرتے ہوئے اپنی قبیح عادات اور زندگی کے ناپسندیدہ پہلوؤں پر لکھا ہے۔

    میرا جی کے فنی سفر کی بات کریں تو انھوں نے ابتدائی دور میں‌ سامری کا تخلص اپنایا، لیکن بعد میں میرا جی کے نام سے شہرت پائی۔‌

    میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔‌ وہ 1913ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا مستند اور مضبوط حوالہ ان کی نظم گوئی ہے۔ کم عمری ہی میں‌ شاعری کا آغاز کرنے والے میرا جی نے نظم کے میدان میں متعدد تجربات بھی کیے اور اس صنفِ سخن کو منفرد انداز اور نئے موضوعات دیے۔

    ان کے والد ریلوے میں‌ انجینئر تھے جن کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا جہاں وہ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ اسی نسبت سے انھوں‌ نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا۔ وہ ترقی پسند تحریک کا زمانہ تھا اور ادب میں نئے تجربات کیے جارہے تھے۔ میرا جی نے حلقۂ ارباب ذوق میں دل چسپی لینا شروع کی اور 1937ء میں رسالہ ادبی دنیا کے نائب مدیر بنے۔ 1941ء میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی۔ چند سال دلّی میں گزارے اور پھر بمبئی چلے گئے جہاں ایک ادبی رسالہ “خیال” جاری کیا۔

    میرا جی کو باغی اور روایت شکن شاعر بھی کہا جاتا ہے جنھوں‌ نے اردو نظم گوئی میں موضوع اور تکنیک کے حوالے ہم عصروں سے الگ راستہ اختیار کیا۔ ان کے متعدد مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں گیتوں‌ کی کتاب کے علاوہ مشرق و مغرب کے نغمے، میرا جی کی نظمیں اور نگار خانہ سرِفہرست ہیں۔

    معروف ادیب اور محقق جمیل جالبی نے میرا جی کا کلام اکٹھا کر کے کلیات شایع کروائی تھی۔

    میرا جی نے غیر ملکی ادب کے اردو تراجم کے ساتھ ان تخلیقات کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے کئی اسکرپٹ اور مضامین تحریر کیے، کالم لکھے اور ترجمہ نگاری کے فن میں بھی نام کمایا۔

  • دماغ چوئٹّا

    دماغ چوئٹّا

    سَن تو ٹھیک یاد نہیں، ہاں پندرہ سولہ سال ادھر کی بات ہے، میں حسبِ معمول لاہور گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ‘‘نیرنگِ خیال’’ گر رہا تھا اور ‘‘ادبی دنیا’’ ابھر رہا تھا۔ کرشنؔ چندر، اور راجندرؔ سنگھ بیدی خوب خوب لکھ رہے تھے۔ صلاحؔ الدین احمد اور میراجیؔ کی ادارت میں ‘‘ادبی دنیا’’ اِس نفاست سے نکل رہا تھا کہ دیکھنے دکھانے کی چیز ہوتا تھا۔

    میرا جیؔ کی شاعری سے مجھے کچھ دل چسپی تو نہیں تھی، مگر ایک عجوبہ چیز سمجھ کر میں اِسے پڑھ ضرور لیتا تھا۔ اسے سمجھنے کی اہلیت نہ تو اس وقت تھی اور نہ اب ہے۔ اس کے مختصر سے مختصر اور طویل سے طویل مصرعے خواہ مخواہ جاذبِ نظر ہوتے تھے۔ چھوٹے سےچھوٹا مصرع ایک لفظ کا اور بڑے سے بڑا مصرع اتنا کہ ‘‘ادبی دنیا’’ کے جہازی سائز کی ایک پوری سطر سے نکل کر دوسری سطر کا بھی آدھا پونا حصہ دبا لیتا تھا۔

    خیر تو مطلب وطلب تو خاک سمجھ میں آتا نہ تھا۔ البتہ میرا جیؔ کی نظم میں وہی کشش ہوتی تھی جو ایک معمّے میں ہوتی ہے، مگر ان کی نثر میں بَلا کی دل کشی ہوتی تھی۔ مشرق کے شاعروں اور مغرب کے شاعروں پر انہوں نے سلسلے وار کئی مضامین لکھے تھے اور سب کے سب ایک سے بڑھ چڑھ کر۔ اس کے علاوہ ادبی جائزے میں جس دقّتِ نظر سے میرا جیؔ کام لیتے بہت کم سخن فہم اس حد کو پہنچتے۔

    ہاں تو میں لاہور گیا تو مال روڈ پر ‘‘ادبی دنیا’’ کے دفتر بھی گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو صلاح الدین احمد نظر نہیں آئے۔ سامنے ایک عجیب وضع کا انسان بیٹھا تھا۔ زلفیں چھوٹی ہوئی، کھلی پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، استواں ناک، موزوں دہانہ، کترواں مونچھیں، منڈی ہوئی ڈاڑھی، تھوڑی سے عزم ٹپکتا تھا۔ نظریں بنفشی شعاعوں کی طرح آر پار ہوجانے والی۔ خاصی اچھی صورت شکل تھی، مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ موانست کی بجائے رمیدگی کا احساس ہوا۔

    گرمیوں میں گرم کوٹ! خیال آیا کہ شاید گرم چائے کی طرح گرم کوٹ بھی گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتا ہو گا، دل نے کہا ہو نہ ہو میرا جیؔ ہو۔ یہ تو اس شخص کی شاعری سے ظاہر تھا کہ غیرمعمولی انسان ہوگا۔

    پوچھا ‘‘صلاحؔ الدین احمد صاحب کہاں ہیں؟’’ بولے ‘‘کہیں گئے ہوئے ہیں۔’’ پوچھا ‘‘آپ میرا جی ہیں؟’’ بولے ‘‘جی ہاں۔’’ میں نے اپنا نام بتایا۔ تپاک سے ملے۔ کچھ دیر ان سے رسمی سی باتیں ہوئیں۔ ان کے بولنے کاانداز ایسا تھا جیسے خفا ہو رہے ہوں، نپے تلے فقرے ایک خاص لہجے میں بولتے اور چپکے ہوجاتے۔ زیادہ بات کرنے کے وہ قائل نہ تھے، اور نہ انہیں تکلف کی گفتگو آتی تھی۔ پہلا اثر یہ ہوا کہ یہ شخص اکھل کھرا ہے، دماغ چوئٹا ہے۔

    مختصر سی بات چیت کے بعد اجازت چاہی۔ باہر نکلے تو میرے ساتھی نے کہا ‘‘ارے میاں یہ تو ڈاکو معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ضرور کوئی خون کیا ہے، دیکھا نہیں تم نے؟ اس کی آنکھیں کیسی تھیں؟’’ میں نے کہا ‘‘یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ وہ کیا ہے۔ مگر آدمی اپنی وضع کا ایک ہے۔’’

    تھوڑے ہی عرصہ بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اب کے دلّی میں۔ ریڈیو پر وہ تقریر کرنے آئے تھے۔ مجھ سے ملنے میرے گھر آئے۔ جب گئے تو بہت کچھ پہلا اثر زائل کرگئے۔ آدمی تو برا نہیں ہے۔ دماغ چوئٹّا بھی نہیں ہے ورنہ ملنے کیوں آتا؟

    پھر ایک دفعہ آئے اور بولے کہ ‘‘ریڈیو میں مُلازمت کے لیے بُلایا ہے۔’’ مجھے کچھ تعجب سا ہوا کہ یہ شخص ریڈیو میں کیا کرے گا؟ بہرحال معلوم ہوا کہ گیت لکھیں گے اور نثر کی چیزیں بھی۔ تنخواہ ڈیڑھ سو ملے گی۔ میں نے کہا ‘‘تنخواہ کم ہے۔ ادبی دُنیا میں آپ کو کیا ملتا تھا؟’’ بولے ‘‘تیس روپے’’۔ میں نے حیرت سے کہا ‘‘بس!’’ کہنے لگے‘‘مولانا سے دوستانہ تعلقات تھے۔’’ میں نے کہا ‘‘تو ٹھیک ہے۔ حسابِ دوستاں درِ دل۔’’

    معلوم ہوا کہ بیوی بچے تو ہیں نہیں کیوں کہ شادی ہی نہیں کی۔ اپنے خرچے بھر کو ڈیڑھ سو روپے بہت تھے۔ چنانچہ میراجیؔ ریڈیو میں نوکر ہوگئے اور ان سے اکثر ملاقات ہونے لگی۔

    (معروف ادیب، انشا پرداز، خاکہ و سوانح نگار شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے ایک پارہ)