Tag: میرٹھ

  • میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں 1857ء ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی نے اس کو شورش قرار دیا تو کسی نے غدر اور فوجی بغاوت سے تعبیر کیا۔ ملک کی آزادی کے بعد سے 1857ء کو آزادی کی پہلی جنگ یا قومی تحریک کے عنوان سے پکارا جاتا ہے۔ غرض کہ ڈیڑھ سو سال قبل 9 مئی 1857ء کو جو فوجی بغاوت میرٹھ سے شروع ہوئی وہ انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگِ آزادی کی پہلی آواز تھا۔

    تاریخ اور ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

    ملکی اور غیر ملکی مؤرخ 1857ء کی بغاوت کی ماہیت کے بارے میں جتنی بھی بحث کریں لیکن ہندوستان کے عوام یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ میرٹھ کی یہ بغاوت ہماری قومی تحریک کا سر چشمہ ہے۔

    خود فیلڈ مارشل لارڈ رابرٹس نے تسلیم کیا ہے کہ ’’حکومتِ ہند کے سرکاری کاغذات میں مسٹر فارسٹ کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کارتوسوں کی تیاری میں جو روغنی محلول استعمال کیا گیا تھا، واقعی وہ قابلِ اعتراض اجزاء یعنی گائے اور سؤر کی چربی سے مرکب تھا اور ان کارتوسوں کی ساخت میں فوجیوں کے مذہبی تعصبات اور جذبات کی مطلق پروا نہیں کی گئی۔

    1857ء کے اس خونیں انقلاب میں میرٹھ کے 85 بہادر سپاہیوں نے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد، جذبۂ ایثار، مادرِ وطن کی خاطر مذہبی اتحاد اور رواداری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ گائے کا گوشت کھانے والے اور گائے کی پوجا کرنے والے، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان اور منتروں کا جاپ کرنے والے ہندوؤں نے مل کر بغاوت کی۔

    میرٹھ چھاؤنی سے جو بھی سپاہی ملک کے کسی حصہ کی طرف کوچ کرتا تھا وہ نعرہ لگاتا ہوا کہتا تھا کہ ’’ بھائیو! ہندو اور مسلمانو!! انگریزوں کو اپنے ملک سے باہر کرو۔‘‘ انقلابیوں کے اس حقارت آمیز نعرے میں تین الفاظ اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے یعنی ’’ہندو اور مسلمان ‘‘۔ ان تین الفاظ میں اس بات کی تلقین کی جا رہی تھی کہ ہندو اور مسلمان مل کر یہ قومی جنگ لڑیں کیونکہ اس کے بغیر غلامی سے نجات نہیں ہو سکتی۔ اس اعلان کے بعد پورے ہندوستان میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔

    میرٹھ کے فوجیوں میں انقلاب کی روح پھونکنے والا شخص عبداللہ بیگ نام کا ایک بر طرف فوجی افسر تھا جس نے اپنے ہم وطن فوجی ساتھیوں سے کہا تھا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کارتوس تمہیں دیے جا رہے ہیں ان میں سؤر اور گائے کی چربی لگی ہوئی ہے اور سرکار تمہاری ذات بگاڑنے کی خواہش مند ہے۔ میرٹھ فوج کے دو مسلم سپاہی شیخ پیر علی نائک اور قدرت علی نے سب سے پہلے 23 اپریل 1857ء کی رات کو ملٹری میس میں ایک خفیہ میٹنگ کی اور اسی وقت ہندو اور مسلم فوجیوں نے مقدس گنگا اور قرآن شریف کی قسمیں کھا کر حلف لیا کہ وہ اس کارتوس کا استعمال نہیں کریں گے۔ 24 اپریل 1857ء کو فوجی پریڈ گراؤنڈ پر نوے فوجیوں میں سے 85 فوجیوں نے جن میں سے اڑتالیس مسلمان اور37 ہندو تھے کمپنی کمانڈر کرنل اسمتھ (Smyth) کے سامنے اعلان کر دیا کہ وہ چربی والے کارتوس اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک کہ وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہو جاتے۔ چنانچہ ایک فوجی عدالت میں ان سپاہیوں کو پیش کیا گیا اور جابر فوجی عدالت نے تمام سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی۔ سپاہیوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جو جنرل ہیوٹ (Hewitt) نے مسترد کر دی۔

    9 مئی 1857ء کو ہندوستانی رسالے کی پلٹن کو میدان میں آنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف توپ اور گورا فوج تیار کھڑی تھی۔ پچاسی سپاہیوں کو ننگے پاؤں پریڈ کراتے ہوئے میدان میں لایا گیا اور چار سپاہیوں کو وہیں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا اور بقیہ اکیاسی سپاہیوں کی وردیاں پھاڑ کر اتار دی گئیں، فوجی میڈل نوچ لئے گئے اور وہاں پہلے سے موجود لوہاروں سے ان باغی سپاہیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔

    جو سپاہی پلٹن میدان سے واپس آ گئے تھے ان میں نفرت اور غصہ پھوٹ رہا تھا اور انہوں نے 10 مئی کو اتوار کے دن جب سبھی انگریز فوجی افسر گرجا گھر میں اتوار کی عبادت کے لئے جمع ہو رہے تھے کہ یکایک چند جوشیلے نوجوانوں نے مشتعل ہو کر ہندوستانی سپاہیوں کی بیرکوں میں آگ لگا کر آزادی کی جد و جہد کا اعلان کر دیا۔ کرنل فینس (Finnis) سب سے پہلے ان انقلابی سپاہیوں کی گولی کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد نو اور انگریزوں کو قتل کر دیا گیا جن کی قبریں آج بھی میرٹھ۔ رڑکی روڈ پر واقع سینٹ جونس سیمٹری میں اس تاریخی واقعہ کی یاد دلاتی ہیں۔ حالانکہ بہت سے مؤرخین نے ہزاروں انگریزوں کے قتلِ عام کا حوالہ دیا ہے مگر میرٹھ کے قدیمی مسیحی قبرستان میں صرف دس قبریں ہیں جو دس مئی کے واقعہ کی خاموش گواہ ہیں۔

    ان انقلابی فوجیوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں میرٹھ کے صدر بازار کی چار طوائف صوفیہ، مہری، زینت اور گلاب کو بھی بہت دخل ہے۔ ان فوجیوں کو ان طوائفوں نے ہی وطن پرستی کے لئے للکارا تھا اور اس طرح 1806ء میں قائم میرٹھ کی فوجی چھاؤنی دیکھتے دیکھتے ہی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گئی۔

    ظہیر دہلوی لکھتے ہیں کہ ان عورتوں نے لعن و طعن و تشنیع سے پنکھا جھل جھل کر نارِ فتنہ و فساد کو بھڑکانا شروع کیا اور ان کی چرب زبانی آتشِ فساد پر روغن کا کام کر گئی۔ ان عورات نے مردوں کو طعنے دینے شروع کیے کہ تم لوگ مرد ہو اور سپاہی گری کا دعویٰ کرتے ہو مگر نہایت بزدل بے عزت اور بے شرم ہو۔ تم سے تو ہم عورتیں اچھی ہیں تم کو شرم نہیں کہ تمہارے سامنے افسروں کے ہتھکڑیاں، بیڑیاں پڑ گئیں مگر تم کھڑے دیکھا کئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا۔ یہ چوڑیاں تو تم پہن لو اور ہتھیار ہم کو دے دو ہم افسروں کو چھڑا کر لاتی ہیں۔ ان کلمات نے اشتعال طبع پیدا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردانگی کی آگ بھڑک اٹھی اور مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔ میرٹھ کے اس واقعہ نے عام بغاوت کی کیفیت پیدا کر دی تھی اور آگ کی طرح یہ خبریں پھیل گئیں تھیں۔ میرٹھ چھاؤنی کی اس چنگاری نے دیکھتے ہی دیکھتے شعلۂ جوالہ بن کر پورے برِ صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    اسی دوران انقلابیوں نے میرٹھ سینٹرل جیل کے دروازے توڑ دیے، کھڑکیاں اکھاڑ پھینکیں اور ایک دن پہلے جیل میں قید اپنے ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ ان کے ساتھ تقریباً بارہ سو قیدی بھی جیل سے نکل بھاگے۔ بعض قیدی ہتھکڑی اور بیڑی لگے ہوئے وہاں سے چل دیے اور عبداللہ پور، بھاون پور، سیال، مبارک پور ہوتے ہوئے مان پور پہونچے جہاں کسی نے انگریزوں کے ڈر کی وجہ سے ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے کی ہمت نہیں کی۔ وہاں مان پور گاؤں کے ایک لوہار مہراب خاں نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قیدیوں کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کو کنویں میں ڈال دیا۔

    میرٹھ کے عالم مولانا سید عالم علی اور ان کے بھائی سید شبیر علی جو صاحبِ کشف بزرگ تھے، دل کھول کر ان باغی سپاہیوں کی مدد کی۔ شاہ پیر دروازے سے نوچندی کے میدان تک ہزاروں جوان سر بکف آتشِ سوزاں بنے ہوئے نبرد آزما دکھائی دے رہے تھے۔ یکایک کپتان ڈریک اسلحہ سے لیس ایک فوجی دستہ لئے ہاپوڑ روڈ پر نمودار ہوا اور ہجوم پر فائرنگ کر دی۔ یہاں زبردست قتلِ عام ہوا۔ 11 مئی1857ء کو بائیس حریت پسندوں کو نوچندی کے میدان میں پھانسی دے دی گئی جن میں سید عالم اور سید شبیر علی صاحبان بھی شامل تھے۔ شہر کے باشندے یہ خبر سن کر بھڑک اٹھے اور اسی دن سرکاری دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ انتظامیہ مفلوج ہو گئی۔ ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور دھوئیں سے آسمان نظر نہیں آ رہا تھا۔

    میرٹھ کے ممتاز شاعر مولانا اسمٰعیل میرٹھی جو خود اس ہنگامے کے عینی گواہ تھے ان کے بیٹے محمد اسلم سیفی اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ دس مئی 1857ء کا واقعہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی 14تاریخ اس دن تھی۔ پڑوس میں دعوت روزہ افطار کی تھی۔ مولانا اور دیگر اعزا اس میں شریک تھے۔ یکایک ہولناک شور و غل کی آوازیں بلند ہوئیں۔

    معلوم ہوا کہ جیل خانہ توڑ دیا گیا ہے اور قیدی بھاگ رہے ہیں۔ لوہار ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ شہر کے لوگ سراسیمہ ہر طرف رواں دواں نظر آ رہے تھے۔ کثیر التعداد آدمی جیل خانہ کی سمت دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ مولانا کے قلب پر اس ہنگامہ کا بہت گہرا اثر ہوا۔ اس عظیم الشان ہنگامۂ دار و گیر کا تلاطم۔ دہلی کی تباہی کا نقشہ، اہلِ دہلی کا حالِ پریشان، ان باتوں نے مولانا کے دل و دماغ پر بچپن ہی میں ایسا گہرا اثر بٹھایا کہ آئندہ زندگی میں فلاح و بہبود و خلائق کے لئے بلا لحاظ دین و ملت یا ذات پات مصروفِ کار رہے۔‘‘ مولانا اسماعیل میرٹھی کے دل میں بھی آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی جس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔

    ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
    ہے وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
    جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
    بھلی اس محل سے جہاں کچھ خطر ہو

    (برصغیر کی تاریخ پر مبنی تحقیقی کتاب "میرٹھ اور1857ء” سے اقتباس، تالیف و تدوین ڈاکٹر راحت ابرار)

  • ہراسانی سے تنگ دسویں جماعت کی طالبہ نے انتہائی قدم اُٹھالیا

    ہراسانی سے تنگ دسویں جماعت کی طالبہ نے انتہائی قدم اُٹھالیا

    بھارت کے میرٹھ میں ایک انتہائی دلخراش واقعہ رونما ہوا، 10 ویں جماعت کی طالبہ نے ہراسانی سے تنگ آکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بچی کے اہل خانہ نے محلے کے ایک نوجوان پر خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام عائد کیا ہے، پولیس نے اہل خانہ کی شکایت پر مقدمہ درج کرکے ملزم کی تلاش شروع کردی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق مقتولہ کے والدین غریب مزدور پیشہ ہیں، جو جمعرات کے روز مزدوری کرنے گئے ہوئے تھے، طالبہ گھر میں اکیلی تھی۔ اسی دوران اس نے انتہائی قدم اُٹھالیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق گھر والے گھر پہنچے تو دروازہ اندر سے بند تھا، اسے توڑ کر اندر داخل ہوئے تو بچی کی لاش پھندے سے لٹک رہی تھی۔ پولیس نے لاش کو اسپتال منتقل کرکے مزید تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

    اس سے قبل بھارت کی ریاست تلنگانہ میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوا، 10 ویں جماعت کی طالبہ کی اسکول جاتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے کے باعث جاں بحق ہوگئی۔

    رپورٹ کے مطابق 10ویں جماعت کی طالبہ گزشتہ روز اسکول جا رہی تھی کہ اسے اسکول کے قریب دل کا دورا پڑا جسے وہ برداشت نہ کرپائی۔

    پڑوسی کے گھر جانے پر سفاک باپ نے 5 سالہ بیٹی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے

    بھارتی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ طالبہ کی عمر 16 سال تھی، بچی کو اسپتال فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اسے ہنگامی طبی امداد دی گئی پھر اسے دوسرے اسپتال بھی منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے اس کی موت کی تصدیق کر دی۔

  • ویڈیو: ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے بچے کی آنت سے 28 کیڑے نکال لیے

    ویڈیو: ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے بچے کی آنت سے 28 کیڑے نکال لیے

    میرٹھ: بھارتی ریاست اترپردیش کے ایک اسپتال میں ڈاکٹروں نے ایک بچے کی آنت سے 28 بڑے کیڑے نکال لیے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست اتر پردیش کے ضلع میرٹھ میں واقع لالا لجپت رائے میڈیکل کالج میں ایک 5 سالہ لڑکے کی بڑی آنت سے سرجنز نے کامیاب آپریشن کے ذریعے بڑے کیڑے نکال لیے۔

    بچہ چند دنوں سے پیٹ میں درد، الٹی اور پیٹ پھولنے کی تکلیف میں مبتلا تھا، ڈاکٹروں نے معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ بچے کی آنتوں میں رکاوٹ ہے، جس کا سبب کیڑے تھے۔

    سرجن ڈاکٹر سندیپ مالیان نے بچے کے والدین کو آپریشن کا مشورہ دیا، انھوں نے ڈاکٹر شیتل، ڈاکٹر ترون، ڈاکٹر وپن دھاما و دیگر ٹیم کی مدد سے ایک کامیاب آپریشن کر کے آنت سے تمام کیڑے نکال لیے۔

    ڈاکٹرز نے آپریشن کی ویڈیو بھی جاری، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرجن آنت کاٹ کر اس میں سے فورسپس کے ذریعے ایک ایک کر کے بڑے کیڑے نکال رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق آپریشن کے بعد مریض پہلے سے بہتر حالت میں ہے۔

    ڈاکٹر سندیپ نے بتایا کہ اس طرح کے کیڑے پیٹ میں تب پیدا ہوتے ہیں جب بچہ مٹی کھائے یا سبزیوں میں لگی گندگی پیٹ میں چلی جائے۔

  • نوجوان چلتے چلتے اچانک گر کر مر گیا

    نوجوان چلتے چلتے اچانک گر کر مر گیا

    بھارت میں ایک نوجوان شخص سڑک پر چلتے چلتے اچانک گر کر ہلاک ہوگیا، ڈاکٹرز اس کی موت کی وجہ جاننے میں ناکام ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ ریاست اتر پردیش کے شہر میرٹھ میں پیش آیا، ایک گلی میں گھروں کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں سارا واقعہ ریکارڈ ہوگیا۔

    فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ رات کے وقت 4 دوست کہیں جا رہے ہیں، ان میں سے ایک دوست کو اچانک چھینک آتی ہے۔

    چھینک آنے کے بعد وہ لڑکا اپنا سر پکڑ لیتا ہے اور اس کے بعد گلے پر ایسے ہاتھ رکھتا ہے جیسے حلق میں کچھ پھنس گیا ہے۔

    اس کے بعد ذرا سا چلنے کے بعد لڑکا اچانک گر جاتا ہے۔

    اس کے دوست پہلے تو سمجھ نہیں پاتے کہ اسے کیا ہوا ہے، بعد ازاں وہ اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور بائیک پر اسپتال لے جاتے ہیں۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جب لڑکے کو اسپتال لایا گیا تو وہ بے حس و حرکت تھا اور تھوڑی دیر بعد اس کی موت کی تصدیق ہوگئی۔

    ڈاکٹرز تاحال اس کی موت کی وجہ جاننے میں ناکام ہیں۔

  • ایک ہی دن میں 2 ٹک ٹاک اسٹارز نے کیوں خود کشی کر لی؟

    ایک ہی دن میں 2 ٹک ٹاک اسٹارز نے کیوں خود کشی کر لی؟

    میرٹھ: بھارت میں 2 ٹک ٹاک اسٹار نے ایک ہی دن میں پھانسی لگا کر خود کشی کر لی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر میرٹھ میں 22 سالہ طالبہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، سندھیا چوہان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ٹک ٹاک اسٹار تھی اور ملک میں ٹک ٹاک پر پابندی سے کافی مایوس تھی۔

    بھارت میں لاک ڈاؤن کے باعث سندھیا چوہان دہلی یونی ورسٹی بند ہونے کے بعد میرٹھ کے علاقے پلوپورم گرین پارک میں واقع گھر پر تھی، گزشتہ شام اس نے کمرے میں خود کو بند کر کے گلے میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی۔

    سندھیا چوہان ٹک ٹاک پر کافی مشہور تھی، اس کی ویڈیوز وسیع سطح پر پسند کیے جاتے تھے، جاننے والوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں ٹک ٹاک پر پابندی لگنے کے بعد وہ مایوس تھی، کئی ماہ سے وہ ذہنی دباؤ کا بھی شکار تھی تاہم اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی، ٹک ٹاک پر پابندی کے بعد اس نے انتہائی قدم اٹھایا۔

    بھارت نے ٹک ٹاک سمیت 59 ایپلیکشنز پر پابندی عائد کردی

    گزشتہ روز جب سندھیا اپنے کمرے سے نہ نکلی تو پولیس کو اطلاع دی گئی، پولیس نے کمرے کا دروازہ توڑا تو چھت سے سندھیا کی لاش جھول رہی تھی، اسپتال میں ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کی۔

    دہلی یونیورسٹی کی طالبہ سندھیا چوہان

    معلوم ہوا کہ نوجوان طالبہ ایک سب انسپکٹر سنجے چوہان کی بیٹی تھی، وہ دہلی یونی ورسٹی میں پڑھ رہی تھی اور وہیں ہاسٹل میں مقیم تھی۔

    ٹک ٹاک سمیت دیگر چینی ایپلیکیشنز پر پابندی سے بھارت کو بڑا دھچکا

    گزشتہ روز میرٹھ کے علاقے کنکر کھیڑا میں بھی ایک ٹک ٹاک اسٹار 35 سالہ مونیکا تیاگی نے خود کشی کی ہے، وہ ایک بیوٹی سیلون بھی چلاتی تھی جو لاک ڈاؤن میں بند ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے اس نے پھانسی لگا کر خود کشی کر لی۔

  • دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    بھیا احسان الحق سے، جن کے ہاں میں بستی نظام الدین (دہلی) میں مقیم تھا، میرے بزرگوں کے پرانے مراسم تھے۔ ان کا لقب فقیر عشقی نظامی تھا اور عرف عام میں انھیں‌ بھیا جی کہتے تھے۔

    ایک زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور فلسفی تخلص کرتے تھے۔ وہ میرٹھ کے مشہور بھیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے تمول اور امارت کا بہت شہرہ تھا۔ اپنے والد کی زندگی میں بھیا احسان الحق میرٹھ میں رہتے تھے، مگر 1918ءمیں ان کے انتقال کے بعد جائیداد اور بعض دوسرے امور کی دیکھ بھال کے سلسلے میں انھیں دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔

    میرٹھ سے دہلی آکر وہ اس مکان میں قیام پذیر ہوئے جو جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں سنگم تھیٹر سے متصل تھا اور انھیں اپنے والد کے ترکے میں ملا تھا۔ اس مکان کو بھیا احسان الحق نے ”اردو منزل “ کا نام دیا اور اس کا ایک حصہ دس پندرہ سال تک خواجہ حسن نظامی کے لیے وقف رہا۔

    خواجہ صاحب بستی نظام الدین میں اپنے گھر سے روزانہ صبح یہاں آجاتے، دن بھر اپنا دفتر جماتے اور کام کرتے اور رات کو اپنے گھر واپس جاتے۔ ان سے ملنے جلنے والے بھی یہیں آتے۔ اردو منزل میں اکثر و بیش تر علمی و ادبی صحبتیں جمتیں اور نشستیں برپا ہوتیں جن کے باعث اسے دہلی کے ایک اہم ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون نے 1960 میں بھیا احسان الحق کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر دس پندرہ افراد کا ہونا روز کا معمول تھا اور سارے اخراجات بھیا احسان الحق اٹھاتے تھے۔

    خواجہ حسن نظامی سے بھیا احسان الحق کی پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی تھی جب وہ کالج کے طالب علم تھے۔ یہ ملاقات تاحیات رفاقت کی بنیاد بن گئی اور بہت جلد خواجہ صاحب کے مقربین خاص میں ملا واحدی کے ساتھ بھیا احسان الحق سرفہرست ہوگئے۔

    بھیا احسان الحق کو شروع ہی سے تصوف، ادب اور صحافت سے بہت دل چسپی تھی۔ وہ وحدتُ الوجود کے قائل اور قول و فعل میں صوفیائے کرام کی انسان دوست تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور صحافت کے ذریعے قوم کے سماجی شعور کو نکھارنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔

    خواجہ حسن نظامی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے طرزِ تحریر کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ 1913میں انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کی معیت میں ہفت روزہ ”توحید“ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے خواجہ حسن نظامی کو میرٹھ بلایا۔ مسجد مچھلی بازار کانپور کی تحریک کے سلسلے میں جو اثر انگیز مضامین اس پرچے میں شائع ہوئے ان کی بنا پر حکومت نے اسے بند کردیا جب تک یہ پرچہ نکلتا رہا، خواجہ حسن نظامی میرٹھ میں بھیا احسان الحق کے مہمان رہے۔


    (معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے، یہ سطور ان کے دہلی میں قیام کے دوران اہلِ علم اور صاحبانِ کمال سے ملاقاتوں کے ایک تذکرے سے لی گئی ہیں)

  • نئی دہلی: مسلم لڑکے سے دوستی، پولیس کا ہندو لڑکی پر تشدد

    نئی دہلی: مسلم لڑکے سے دوستی، پولیس کا ہندو لڑکی پر تشدد

    نئی دہلی : بھارتی ریاست اتتر پردیش کی پولیس نے مسلمان لڑکے سے دوستی کرنے والی ہندو لڑکی کے لیے نازیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا، واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو پولیس نے ملوث اہلکاروں کو معطل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع میرٹھ پولیس کی خاتون اہلکار کو نوجوان لڑکی پر تشدد کرنے اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کی ویڈیو سامنے آنے پر اعلیٰ پولیس حکام نے معطل کردیا ہے۔

    بھارتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرد پولیس اہلکار نوجوان لڑکی کو مسلمان لڑکے سے دوستی کرنے پر ہراساں کررہا ہے جبکہ خاتون پولیس کانسٹیبل مسلسل لڑکی پر ٹھپڑوں کی برسات کرتی رہی۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعہ دو روز قبل پیش میرٹھ میں پیش آیا تھا جہاں مقامی افراد اور کچھ ‘وشوا ہندو پریشاد’ کے کارکنوں نے ایک مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کو ایک ساتھ پکڑا تھا۔

    میڈیا کا کہنا ہے ‘وشوا ہندو پریشاد’ کے کارکنوں کی جانب سے لڑکے اور لڑکی پر تشدد بھی کیا تھا تاہم کسی نے پولیس کو فون کیا اور پولیس اہلکار ہندو لڑکی اور مسلم لڑکی کو الگ الگ گاڑی میں گرفتار کرکے لے گئے۔

    بھارتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ‘وشوا ہندو پریشاد’ کے کارکنوں کی جانب سے لڑکی کے والد پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ مسلمان لڑکے کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائے۔

    پولیس موبائل کے اندر اہلکاروں نے نہ صرف لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ساتھ ہی اسے نازیبا جملے بھی ادا کیے گئے، واقعے کی ویڈیو سوشل پر وائرل ہونے کے بعد پولیس کے رویے پر شدید تنقید شروع ہوگئی تھی اور پولیس حکام نے خاتون کانسٹیبل سمیت چاروں پولیس اہلکاروں کو مرطل کردیا ہے۔