Tag: میری کیوری

  • نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    دنیا کا سب سے معتبر اعزاز نوبل انعام اب تک کئی خواتین کو مل چکا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    نوبل انعام پہلی بار جس خوش نصیب خاتون کے حصے میں آیا وہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس داں میری کیوری تھیں۔ وہی میری کیوری جنہوں نے ریڈیم کی دریافت کی تھی۔

    سنہ 1867 میں پیدا ہونے والی میری کا تعلق وارسا کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ ذہین تھی اور اس نے بہت کم عمری میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔

    جب اس کی والدہ اور بڑی بہن کا انتقال ہوا تو اسے مجبوراً گھر چلانے کے لیے ملازمت کرنی پڑی۔ اس کی پہلی ملازمت ایک معلمہ کی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب خود اس کی تعلیم نامکمل تھی۔

    اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا تاہم پولینڈ کی یونیورسٹیوں میں اس وقت خواتین کا داخلہ ممنوع تھا۔ میری نے اپنے طور پر طبیعات اور ریاضی کی کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    وہ سائنس کے شعبے میں آگے جانا چاہتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سائنسی ایجادات اور دریافتیں برے کاموں سے زیادہ بہتری کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    6 سال تک ملازمت کرنے کے بعد وہ اتنی رقم جمع کرسکی کہ فرانس جاسکے اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرسکے۔

    فرانس آنے کے بعد بھی میری نے اپنی زندگی کا زیادہ تر عرصہ نہایت غربت میں گزارا۔ وہ طویل وقت تک سخت محنت کرتی رہتی جبکہ بعض اوقات وہ پورا دن ایک ڈبل روٹی، پنیر اور ایک کپ چائے پر گزارا کرتی۔

    یونیورسٹی میں اس کے تمام ہم جماعت مرد تھے جو اکثر مشکل تھیوریز سمجھنے کے لیے اس کی مدد لیا کرتے تھے۔ میری نے طبیعات کی ڈگری حاصل کی اور اس کے ساتھ ہی ایک فرانسیسی طبیعات داں سے شادی کرلی۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    یہ وہ دور تھا جب ایکسرے نیا نیا دریافت ہوا تھا اور میری اسے سمجھنے اور اس پر کام کرنے کے لیے نہایت پرجوش تھی۔ میری ہی تھی جس نے تیز (تابکار) شعاعوں کی دریافت کی اور انہیں ریڈیو ایکٹیوٹی کا نام دیا۔

    یہ بہت بڑی دریافت تھی جو اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کی تھی۔ اس دریافت کو طبیعات میں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا لیکن یہ نامزدگی صرف میری کے شوہر کے لیے تھی۔

    شدید صنفی امتیاز کے اس دور میں لوگ یقین نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی عورت سائنس پر بھی کام کرسکتی ہے؟

    اس کے شوہر کے اصرار پر بالآخر اس کی محنت کو بھی تسلیم کیا گیا اور دونوں کو انعام کے لیے نامزد کیا گیا، بعد ازاں میری نے اپنے شوہر کے ساتھ نوبل انعام جیت لیا اور اس کے ساتھ ہی وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

    اس وقت آئن اسٹائن نے میری کی ہمت بندھائی اور تمام تنقید اور طنز کو نظر انداز کرنے کو کہا۔ آئن اسٹائن نے میری کو نصیحت کی، ’کبھی بھی حالات یا لوگوں کی وجہ سے اپنی ذات کو کمتر مت جانو‘۔

    یہ وہ وقت تھا جب لیبارٹریز میں صرف مرد ہوا کرتے تھے اور میری ان میں واحد خاتون تھیں، لیکن وہ ان کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔

    میری نے بعد ازاں مزید 2 عناصر پولونیم اور ریڈیم دریافت کیے۔ اس دریافت پر اسے ایک بار پھر نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا، اور اس بار یہ انعام کیمیا کے شعبے میں تھا۔

    جنگ عظیم اول کے دوران میری کو ایک تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ ایکسریز سے زخمی فوجیوں کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے تاہم ایکسرے مشین اس وقت بہت مہنگی تھیں۔

    اس موقع پر بھی میری نے ہمت نہیں ہاری اور ایک ہلکی پھلکی ایکسرے مشین ایجاد کر ڈالی جو ٹرک کے ذریعے اسپتال تک پہنچائی جاسکتی تھی۔ اس مشین کی بدولت 10 لاکھ فوجیوں کی جانیں بچائی گئیں۔

    ساری زندگی تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے والی میری بالآخر انہی شعاعوں کا شکار ہوگئی، اس کا انتقال 4 جولائی 1934 کو ہوا۔

    میری کیوری نہ صرف نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں بلکہ وہ اب تک واحد خاتون ہیں جنہیں 2 مختلف شعبوں میں نوبل انعام ملا۔ ان کی دریافتوں نے جدید دور کی طبعیات اور کیمیائی ایجادات میں اہم کردار ادا کیا۔

    وہ کہتی تھیں، ’ہمیں یقین ہونا چاہیئے کہ خدا نے ہمیں کسی نے کسی صلاحیت کے تحفے سے نواز ہے۔ ہمیں بس اس تحفے کو پہچاننا ہے اور اس مزید مہمیز کرنا ہے‘۔

  • بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    ایجادات اور تخلیق قدرت کی جانب سے عطا کی گئی ذہانت کے ساتھ ساتھ انتھک محنت، ریاضت اور بے شمار جاگتی راتوں اور بے آرام دنوں کے بعد سامنے آتی ہیں۔

    اگر یہ ایجاد نسل انسانی کے لیے فائدہ مند ہو تو نہ صرف اپنے موجد بلکہ دنیا کے ہر شخص کی زندگی بدل سکتی ہے۔ تاہم تخلیق کا یہ عمل کچھ لوگوں کے لیے موت کا پیغام بھی ثابت ہوتا ہے۔

    ایک تخلیق کار کو، چاہے وہ سائنس دان ہو، شاعر ہو، مصور یا مصنف، اپنی تخلیق بہت عزیز ہوتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے بدقسمت موجد بھی گزرے ہیں جو اپنی ہی تخلیق کردہ ایجاد کے ہاتھوں موت سے ہمکنار ہوگئے۔


    ریڈیم

    ریڈیم میری کیوری نامی خاتون کی دریافت ہے جنہوں نے طویل عرصے تک اس پر تحقیق کی اور اس دریافت پر 2 بار نوبیل انعام کی حقدار ٹہریں۔

    تاہم سنہ 1934 میں وہ طویل عرصے تک تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے کے باعث لیو کیمیا (ہڈیوں کے گودے کے کینسر) کا شکار ہو کر انتقال کر گئی تھیں۔


    ایرو ویگن

    ایرو ویگن نامی گاڑی کا موجد ویلیرین اباکووسکی سنہ 1921 میں اپنی ایجاد کردہ گاڑی کی پہلی آزمائش کے دوران ہلاک ہوگیا۔

    ایئر کرافٹ کے انجن پر چلنے والی یہ گاڑی پہلے تجربے کے دوران اس وقت الٹ گئی تھی جب وہ نہایت برق رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔


    پیراشوٹ سوٹ

    ایک آسٹریلوی نزاد فرانسیسی موجد فرنز ریچلٹ نے سنہ 1912 میں پیرا شوٹ سوٹ ایجاد کیا تھا۔ اس کا مقصد ان پائلٹوں کی جان بچانا تھی جو طیارے کے کسی حادثے کا شکار ہونے کے بعد طیارے سے چھلانگ لگانا چاہتے ہوں۔

    پیراشوٹ سوٹ مکمل ہونے کے بعد اس کی آزمائش کے لیے ایفل ٹاور کا انتخاب کیا گیا۔ اس موقع پر میڈیا کو بھی دعوت دی گئی۔

    تاہم بدقسمتی سے پہلی آزمائشی اڑان ہی بری طرح ناکامی سے دو چار ہوئی اور سوٹ کا موجد اپنے بنائے ہوئے سوٹ میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔


    ٹائی ٹینک

    سنہ 1912 میں گلیشیئر سے ٹکرا کر ایک خوفناک حادثے کا شکار ہونے والے جہاز ٹائی ٹینک کا موجد بھی اس حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔

    جہاز کا چیف ڈیزائنر تھامس اینڈریوز جونیئر اس وقت پانی میں ڈوب گیا جب وہ لائف بوٹ میں بیٹھنے کے لیے لوگوں کی مدد کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: کیا ٹائی ٹینک واقعی برفانی تودے سے ٹکرایا تھا؟


    جدید پرنٹنگ مشین

    جدید پرنٹنگ کا بانی ولیم بلاک سنہ 1867 میں اپنی ہی بنائی ہوئی پرنٹنگ مشین میں آ کر اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھا۔

    روٹری پرنٹنگ پریس نامی اس مشین میں تصاویر کو گردش کرتے سلنڈر کے ذریعے پرنٹ کیا جاتا ہے۔

    حادثے کے وقت ولیم نے چرخی کو چلانے کے لیے اس پر اپنی ٹانگ سے زور آزمائی کی جس پر اچانک مشین چل پڑی اور ولیم کی ٹانگ برق رفتاری سے گھومتی چرخی میں آکر کٹ گئی۔

    نو دن تک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اس کی ٹانگ کا انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا جس کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔


    پانچ تکلیفیں ۔ موت کا طریقہ

    ایک چینی شخص لی سی کی جانب سے قیدیوں کو سزا دینے کے لیے ایجاد کیا جانے والا یہ طریقہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا۔

    اس طریقے میں مجرم کے جسم کو گودا جاتا، اس کی ناک اور دونوں پاؤں کاٹ دیے جاتے، بعد ازاں اسے جنسی اعضا سے بھی محروم کردیا جاتا جس کے بعد مجرم اذیت ناک تکالیف کی تاب نہ لا کر خود ہی ہلاک ہوجاتا۔

    تاہم 208 قبل مسیح میں اس وقت کے قن خانوادے کے ایک بادشاہ کی حکم عدولی کے جرم میں موجد کو بھی اسی کے ایجاد کردہ طریقے کا حقدار قرار دیا گیا اور ہزاروں لوگوں کی اذیت ناک موت کا سبب بننے والا یہ شخص خود بھی اسی طریقے سے موت کا شکار ہوگیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔