Tag: میر انیس

  • میر انیس: مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والا شاعر

    میر انیس: مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والا شاعر

    میر انیس کا نام اردو شاعری میں بطور مرثیہ نگار ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ اس فن کے بادشاہ کہلائے اور یہی حقیقت بھی ہے کہ اس صنفِ شاعری کو میر انیس کے بعد آج تک نہ تو حوالہ و سند کے لیے کسی دوسرے شاعر کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی اس صنف میں کمال و فن نے اس پائے کا کوئی شاعر دیکھا۔ مرثیہ نگاری کو عروج بخشنے والے میر انیس کے مراثی برصغیر میں ہر مجلس اور ہر محفل میں آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔

    آج میر انیس کی برسی ہے۔ میر انیس نے اپنے مرثیوں میں کربلا میں حق و باطل کے مابین جنگ کا نقشہ اور حالات و واقعات کا تذکرہ اس کیا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے کی آنکھوں‌ میں اس کی تصویر بن جاتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ان کا طرزِ بیان بہت مؤثر اور دل گداز ہے۔ انیس نے صرف جنگ کے ہی مناظر نہیں بلکہ میدان اور فطری مناظر کی ایسی لفظی تصویریں بنائی ہیں کہ آئندہ بھی اس کی مثال دی جاتی رہے گی۔

    میر انیس نے باقاعدہ شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا تھا۔ لیکن پھر منقبت اور مرثیہ کی صنف کو اپنایا اور بڑا نام پیدا کیا۔ برصغیر کا یہ عظیم مرثیہ نگار ایک نازک مزاج اور بڑی آن بان والا بھی تھا۔ وہ امیروں اور رئیسوں کی صحبت سے دور رہے۔ چاہتے تو اودھ کے دربار میں ان پر بڑی نوازش اور تکریم ہوتی مگر وہ ایک فقیر صفت اور اپنے حال میں رہنے والے انسان تھے۔

    میر انیس کا حقیقی نام میر ببر علی تھا۔ وہ 1803ء عیسوی میں اتر پردیش کے شہر فیض آباد کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد میر مستحسن خلیق اور پر دادا میر ضاحک اپنے دور کے استاد شاعر تھے۔ دادا میر حسن اردو ادب کے معروف مثنوی گو شاعر تھے۔ یہ وہی میر حسن ہیں جنھوں‌ نے اردو ادب کو مثنوی ‘سحر البیان’ دی۔ یوں کہیے کہ شاعری میر انیس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وہ پانچ چھ برس کی عمر سے ہی شعر موزوں کرنے لگے تھے۔

    میر انیس غزل گوئی اور مرثیہ گوئی میں اپنے والد میر خلیق کے شاگرد تھے۔ کبھی کبھی اپنے والد کے کہنے پر شیخ امام بخش ناسخ کو بھی اپنی غزلیں دکھا لیا کرتے تھے اور انہی کے کہنے پر انیس کا تخلص اپنایا۔

    یہاں ہم اس غزل کے چند اشعار پیش کررہے ہیں‌ جو میر انیس نے ایک مشاعرہ میں‌ پڑھی تھی اور ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ اشعار یہ ہیں۔

    اشارے کیا نگۂ نازِ دل ربا کے چلے
    ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے

    مثال ماہیٔ بے آب موجیں تڑپا کیں
    حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے

    کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
    چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے

    لیکن پھر وہ مرثیہ گوئی کی طرف آنکلے اور یہی صنف ان کی لازوال پہچان بنی۔ ہندوستان کے ممتاز ادیب، نقاد اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں میر انیس کے بارے میں لکھا، "میں میر انیس کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو۔ کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔
    مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہوگیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہر مرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پر غیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے لیکن میر انیس زبان پرحاوی ہے۔ معمولی مصرع بھی کہیں گے توایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔”

    اسی طرح‌ نیر مسعود جیسے بڑے ادیب اور افسانہ نگار لکھتے ہیں کہ "انیس کی مستند ترین تصویر وہ ہے جو ان کے ایک قدر دان نے کسی باکمال مصور سے ہاتھی دانت کی تختی پر بنوا کر ان کو پیش کی تھی۔ انیس کی جو تصویریں عام طور پر چھپتی رہتی ہیں وہ اسی ہاتھی دانت والی تصویر کا نقش مستعار ہیں۔ لیکن ان نقلوں میں اصل کے مو قلم کی باریکیاں نہیں آسکیں۔ اصل تصویر میں میر کی غلافی آنکھیں، آنکھوں کے نیچے باریک جھریاں، رخساروں کی ہڈیوں کا ہلکا سا ابھار، ذرا پھیلے ہوئے نتھنے اور بھنچے ہوئے پتلے پتلے ہونٹ مل کر ایک ایسے شخص کا تاثر پیدا کرتے ہیں جو بہت ذکی الحس اور ارادے کا مضبوط ہے۔ دنیا کو ٹھکرا دینے کا نہ صرف حوصلہ رکھتا ہے بلکہ شاید ٹھکرا چکا ہے۔ وہ کسی کو اپنے ساتھ زیادہ بے تکلف ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا اور کسی سے مرعوب نہیں ہوسکتا۔ اور اس کی خاموش اور بہ ظاہر پر سکون شخصیت کی تہ میں تجربات اور تاثرات کا ایک طوفان برپا ہے۔”

    یہاں ہم ایک شعر سے متعلق وہ دل چسپ واقعہ بھی نقل کررہے ہیں جو ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے: میر انیس نے ایک مرثیے میں دعائیہ مصرع لکھا۔ ”یارب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے“ مگر خاصی دیر تک دوسرا مصرع موزوں نہ کرسکے۔ وہ اِس مصرع کو شعر کرنے کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کی اہلیہ سے نہ رہا گیا، وہ ان سے پوچھ بیٹھیں کہ کس سوچ میں ہیں؟ میر انیس نے بتایا تو بیوی نے بے ساختہ کہا یہ لکھ دو، ”صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے“، میر انیس نے فوراً یہ مصرع لکھ لیا اور یہی شعر اپنے مرثیے میں شامل کیا۔ ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ مرثیے کے اس مطلع کا پہلا مصرع میر انیس کا دوسرا ان کی بیوی کا ہے۔ یہ شعر بہت مشہور ہوا اور ضرب المثل ٹھیرا۔ اور آج بھی میر انیس کا یہ دعائیہ شعر ضرور پڑھا جاتا ہے۔

    اردو کے اس بے مثل شاعر نے 10 دسمبر 1874ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • یومِ وفات: میر انیسؔ آج بھی اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں

    یومِ وفات: میر انیسؔ آج بھی اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں

    میر انیسؔ آج بھی اردو زبان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔

    وہ لکھنؤ کے کلاسیکی شعرا میں‌ اپنی مرثیہ نگاری کے سبب ممتاز ہوئے اور ہندوستان بھر میں ان کی شہرت پھیل گئی۔ انھیں رثائی ادب میں خدائے سخن تسلیم کیا گیا۔ آج بھی اس فن میں وہی یکتا و بے مثل ہیں۔

    زبان و بیان پر میر انیس کو غیرمعمولی دسترس حاصل تھی۔ میر انیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس صنف کو وسیلۂ اظہار بناتے، اسے درجۂ کمال تک پہنچا دیتے اور اسے فن کی معراج نصیب ہوتی۔

    اردو زبان و ادب کا ادنیٰ‌ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ اُس دور کے شعرا کو "غزل” محبوب تھی۔ وہ اس صنف کو خلّاقی کا معیار سمجھتے تھے۔ میر انیس نے اس خیال کو باطل ثابت کر دیا اور رثائی شاعری کو جس مرتبہ و کمال تک پہنچایا وہ بجائے خود ایک مثال ہے۔

    میر انیسؔ کے کلام کی سحر انگیزی ہی نہیں ان کا منبر پر مرثیہ پڑھنا بھی مشہور تھا۔ یعنی وہ ایک زبردست مرثیہ خواں بھی تھے۔ سانس کا زیر و بم، آواز کا اتار چڑھاؤ، جسمانی حرکت یعنی آنکھوں، ابرو، ہاتھوں کی جنبش اور اشارے سے جذبات اور کیفیات کے اظہار پر انھیں وہ قدرت حاصل تھی کہ اہلِ مجلس خود سے بیگانہ ہو جاتے، لوگوں کو تن بدن کا ہوش نہ رہتا۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تأثر کے عناصر کا اضافہ کر کے مرثیہ کی صنف کو ایک معراج عطا کی۔

    اردو زبان کا یہ عظیم شاعر 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں‌ وفات پا گیا۔ آج میر انیسؔ کی برسی ہے۔ انھوں نے 1803ء کو محلہ گلاب باڑی، فیض آباد میں آنکھ کھولی تھی۔ نام ان کا میر ببر علی اور تھا۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پر دادا امیر ضاحک بھی قادرُ الکلام شاعر تھے۔ یوں انیس کو بچپن ہی سے شاعری سے شغف ہو گیا اور زبان پر ان کی دسترس اور بیان میں مہارت بھی اسی ماحول کی دین تھی۔

    انیسؔ کا یہ شعر دیکھیے۔

    گل دستۂ معنیٰ کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
    اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

    میر انیسؔ نے غزل اور رباعی کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن مرثیہ گوئی کی صنف کو خلّاقی کی معراج تک پہنچایا۔ ان کا ایک شعر ہے۔

    لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار
    خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

    اردو کے عظیم نقّاد، شاعر و ادیب شمسُ الرّحمٰن فاروقی نے اپنے ایک انٹرویو میں‌ میر انیس کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’میں میر انیسؔ کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں، محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو، کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔

    مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہو گیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بَن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہرمرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پر غیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے، لیکن میر انیس زبان پر حاوی ہے۔

    معمولی مصرع بھی کہیں گے تو ایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔ مجھے ان کا مرثیہ دے دیں۔ اس کے ہر بند کے بارے میں بتا دوں گا لیکن مجموعی طور پر اتنا بڑا مرثیہ کیسے بن گیا اس کو اللہ میاں جانیں یا میر انیسؔ۔‘‘

    میر انیسؔ کے مرثیہ کی خصوصیات سراپے کا بیان، جنگ کی تفصیلات، رخصت اور سفر کے حالات کے ساتھ ان کی جذبات نگاری تھی جس نے مرثیے کو ایک شاہ کار اور ایسا ادبی فن پارہ بنا دیا جس کی برصغیر میں نظیر ملنا مشکل ہے۔

    بقول رام بابو سکسینہ ” ادبِ اردو میں انیس ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں۔ بحیثیت شاعر ان کی جگہ صفِ اوّلین میں ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کو زبانِ اردو کے تمام شعراء سے بہترین اور کامل ترین سمجھتے ہیں اور ان کو ہندوستان کا شکسپیئر اور خدائے سخن اور نظمِ اردو کا ہومر اور ورجل اور بالمیک خیال کرتے ہیں۔“

    انیسؔ دَم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

  • اللہ جانیں یا میر انیس!

    اللہ جانیں یا میر انیس!

    ہمہ صفت شمسُ الرّحمٰن فاروقی اپنی فکر و زاویہ نظر، اپنے مشاہدات، تجربات، وسیع مطالعے کے ساتھ اپنے تخیل اور قلم کی تحریک سے جنم لینے والی تخلیقات کے سبب نادرِ روزگار ٹھہرے۔ اردو زبان و ادب کو گراں قدر علمی و ادبی سرمائے سے مالا مال کرنے والے ہندوستان اس ادیب، شاعر، محقّق، نقّاد، مترجم اور لغت نویس کی تخلیقی جہات کا احاطہ کرنا بجائے خود ایک کام ہے۔

    شمسُ الرّحمٰن فاروقی کی کسی ادبی موضوع، کتاب، شاعر و ادیب سے متعلق رائے سند بنتی، معتبر ٹھہرتی اور کسی کی شخصیت سے متعلق ان کے اظہارِ‌ خیال کو ممدوح باعثِ صد اعزاز و افتخار تصوّر کرتا۔ پچھلے سال آسمانِ ادب کا یہ روشن و رخشاں ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں‌ خدائے سخن میر انیس کی مدح سرائی اور ان کی مرثیہ گوئی پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا جس سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے۔

    ’’میں میر انیس کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں، محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو، کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہوجاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔

    مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہو گیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کواپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بَن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہرمرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پرغیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے، لیکن میر انیس زبان پر حاوی ہے۔

    معمولی مصرع بھی کہیں گے تو ایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔ مجھے ان کا مرثیہ دے دیں۔ اس کے ہر بند کے بارے میں بتا دوں گا لیکن مجموعی طور پر اتنا بڑا مرثیہ کیسے بن گیا اس کو اللہ میاں جانیں یا میر انیس۔

    مرثیہ تو مرثیہ، سلام لکھنے بیٹھتا ہے تو اس میں کمال کر دیتا ہے۔ میں کبھی گھر میں سلام پڑھتا تو میری بیوی کہتی نہ پڑھو، مجھے رونا آ رہا ہے، یعنی اسے بھی رونا آتا ہے جو سلام کی باریکیوں سے واقف نہیں۔ وہ کہتے ہیں:

    ؎ زہرا کے گھر کے چاند، زمانے کے آفتاب

    میرا عقیدہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ مصرع مجھ پر بہت اثر کرتا ہے۔‘‘

  • مرثیہ گوئی جسے میر انیس و مرزا دبیر نے معراجِ کمال تک پہنچایا

    مرثیہ گوئی جسے میر انیس و مرزا دبیر نے معراجِ کمال تک پہنچایا

    اردو شاعری کے عظیم ذخیرے میں مرثیے کو بڑی اہم اور انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ اس کا تعلق مذہب یا عقیدے سے ہے بلکہ عظمت ان واقعات کی انسانی قدروں میں ہے۔ ان واقعات کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھالنے میں اور اظہار کے ان طریقوں میں ہے۔ اور ان سب چیزوں نے مل کر اسے عالمی کلاسیک یا کسی ادب کی عظیم تخلیق کا درجہ دیا ہے۔

    مرثیہ اردو کی واحد صنفِ سخن ہے جس نے ہیئت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ غزل، مثنوی، اور قصیدہ بھی قدیم اصناف میں سے ہیں، لیکن ان کی ہیئتیں ابتدا ہی سے طے تھیں۔ مرثیے کی کوئی ہیئت طے نہیں تھی۔ شروع میں جو مرثیے دکّن میں لکھے گئے، وہ غزل کی طرح مفرد اشعار پر مبنی تھے۔ فارسی میں بھی مرثیے کی یہی روایت تھی کہ وہ غزل کے انداز پر لکھے جاتے تھے اور ان کے اشعار میں کوئی اندرونی ربط نہیں ہوتا تھا۔ لوگ مجالسِ عزا کے لیے مرثیے لکھتے تھے۔ ان کا مقصد ثواب حاصل کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس کا لکھنا پڑھنا اور سننا سب ہی ثواب میں داخل ہو تو ایسے لوگ بھی اسے لکھنے لگیں گے جو فنِ شعر گوئی سے واقف نہیں ہیں۔ اس لیے فنی اعتبار سے مرثیے کو کم تر مانا جاتا تھا۔ لوگ بے جھجھک جس طرح چاہتے مرثیے لکھتے اور زبان و بیان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ مذہبی عقیدت میں چوں کہ غلطیو ں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا، اس لیے ان کے معائب پر پردہ پڑا رہتا تھا۔ بعض تذکرہ نگاروں اور شعرا نے اس کی طرف اشارے کیے ہیں۔ سودا نے تو بہت صاف صاف الفاظ میں تنبیہ کی:

    ’’لازم ہے کہ مرتبہ در نظر رکھ کر مرثیہ کہے۔ نہ برائے گریہ عوام اپنے تئیں ماخوذ کرے۔‘‘

    آنے والے ادوار میں مرثیے کو بہتر بنانے کی خواہش میں اس کی ہیئت میں بھی تبدیلیاں ہوئیں اور وہ مرثیے جو پہلے چند مختلف اشعار پر مبنی ہوتے تھے ان میں واقعات کو ربط اور تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے غزل یا قصیدے کی ہیئت کافی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے مربع مرثیے لکھے گئے۔ اس کے بعد ایک عرصے تک مربع اور مربع ترجیع بند میں مرثیے لکھے جاتے رہے۔ مربع مرثیوں نے پہلی بار مرثیے کو بند کا تصور دیا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بیان میں وسعت پیدا ہوئی اور واقعے کو اس کی تفصیلات کے ساتھ پیش کرنے کی گنجائش نکل آئی اور ان تجربات نے مرثیے کے مسدّس تک پہنچنے کی راہیں ہم وار کیں۔ اس طرح کے مرثیے دکّن میں ہی کہے جانے لگے تھے۔ درگاہ قلی خاں کے مرثیوں میں مخمس، دہرہ بند، اور ترجیح بند مرثیوں کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

    دہلی سے ادبی مرکز کے لکھنؤ منتقل ہونے پر وہاں کی سر زمین مرثیے کو بہت راس آئی۔ خلیق و ضمیر نے اس کے ادبی خد و خال کو درست کیا۔

    میر خلیق نے بیانیے کی بنیاد کو مضبوط کیا اور مرثیے میں سفر کا حال، رخصت اور شہادت کو تفصیل سے بیان کیا۔ میر ضمیر نے جنگ کی تفصیلات کا اضافہ کرکے مرثیے میں رزمیہ کے امکانات کو روشن کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سراپا بیان کرنے پر خصوصی توجہ دی۔

    سراپے کے بیان، جنگ کی تفصیلات، رخصت اور سفر کے حالات نے مرثیے کو جذبات نگاری کا بہت بڑا میدان فراہم کر دیا۔ جسے میر انیس و مرزا دبیر نے معراج ِکمال تک پہنچا دیا۔

    یہ انیس و دبیر کا کمال ہے جنہوں نے مرثیے کو ایک مکمل فن پارہ بنا دیا اور اس میں وہ طاقت پیدا کردی کہ وہ عالمی ادب سے آنکھ ملا سکے۔

    مرثیے کی انفرادیت اور اہمیت کا سبب بھی وہی ہے جو عالمی ادب کی ان تخلیقات کا ہے جن میں مذہبی عقائد کا اظہار کیا گیا ہے۔ یعنی واقعے کی انسانی و اخلاقی قدریں، زبان و بیان کی سحر کاری، اظہار و اسلوب کی دل پذیری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری پر مکمل قدرت، انیس و دبیر نے مرثیے میں یہ تمام محاسن جمع کر دیے تھے۔ اسی لیے آج اردو مرثیے کو ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔

    جدید مرثیہ نگاروں میں بہت سے مقبول مرثیہ نگاروں کے نام لیے جا سکتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت جوش ملیح آبادی کو حاصل ہے۔ انہوں نے مرثیے کو بالکل نئے طریقے سے استعمال کیا۔ ان کے یہاں مرثیے کی ہیت تو مسدّس ہی ہے، لیکن موضوع کی حیثیت سے انہوں نے انیس و دبیر کے راستے سے انحراف کر کے واقعے کو تسلسل سے بیان کرنے کے بجائے امام حسین رضی اللہ عنہ کے کردار کو اہمیت دی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے انصار و اعزا کو انقلاب کی سب سے بڑی طاقت کی شکل میں پیش کیا۔

    جدید مرثیہ نگاروں میں نجم آفندی، رزم ردولوی، نسیم امروہوی، سید آلِ رضا، رئیس امروہوی، مہدی نظمی، وحید اختر، محسن جون پوری اور بہت سے ایسے شعرا ہیں جنہوں نے مرثیے میں نئے امکانات کی تلاش کی اور اردو مرثیے کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔

    (پروفیسر شارب ردولوی کے مرثیہ گوئی سے متعلق مضمون سے انتخاب)

  • آفتابِ سخن میر انیس کا یومِ وفات

    آفتابِ سخن میر انیس کا یومِ وفات

    میر انیس کو اردو زبان کا فردوسی کہا جاتا ہے جو 10 دسمبر 1874ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج جہانِ سخن کے اس نام وَر اور قادرُ الکلام شاعر کا یومِ وفات ہے۔

    میر انیس 1803ء میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے اور انیس نے اس ورثے کے ساتھ شعروسخن کی دنیا میں‌ بڑا نام و مقام حاصل کیا۔

    میر انیس کو بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ ابتدائی زمانہ میں انھوں نے حزیں تخلص کیا اور بعد میں اپنے وقت کے مشہور شاعر استاد ناسخ کے مشورے سے انیس رکھا۔ میر انیس نے غزلیں بھی کہیں مگر مرثیہ گوئی میں کمال حاصل کیا اور اس صنفِ سخن کو بلندی پر پہنچا دیا۔

    میر ببر علی انیس کو وفات کے بعد ان کے مکان میں سپردِ خاک کیا گیا اور 1963ء میں ان کے مدفن پر عالی شان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    میر انیس نے مرثیہ گوئی میں‌ جو کمال اور نام و مرتبہ حاصل کیا اردو ادب میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ انھیں‌ آج بھی انسانی جذبات اور ڈرامائی انداز میں‌ شاعری کے ذریعے اپنا مدعا بیان کرنے والے شعرا میں سرفہرست رکھا جاتا ہے۔

    انیس کا کمال یہی نہیں تھاکہ بلکہ انھوں نے زبان و بیان کے حوالے سے بھی اردو مرثیہ کو اس خوب صورتی سے سجایا کہ اس کی مثال نہیں‌ ملتی۔شاعری میں منظر نگاری، کردار اور واقعہ پیش کرنا میر انیس کا ہی ہنر عظیم تھا۔

  • دو سو کے بجائے چار سو روپے!

    دو سو کے بجائے چار سو روپے!

    اردو کے نام ور مرثیہ گو شاعر مرزا سلامت علی دبیر بہت حلیم الطبع، منکسر مزاج اور صلح کل انسان تھے اور یہ ان کی شخضیت کے وہ پہلو تھے جن کا اعتراف ان کے حامیوں اور مخالفوں سب کو تھا۔

    انیسؔ کی طبیعت میں ایک بانکپن اور اشتعال پزیری تھی اور ان کی آن بان اور نازک مزاجی مشہور تھی۔

    مزاجوں کا یہ فرق اپنی مخالف جماعت والوں کے ساتھ دونوں استادوں کے سلوک میں بھی نمایاں تھا۔ دبیر کا ایک واقعہ اس طرح ملتا ہے۔

    ایک سید صاحب کو کربلائے معلیٰ جانے کے لیے دو سو روپے درکار تھے۔

    انھوں نے دبیر سے درخواست کی کہ وہ ایک رئیس سے سفارش کرکے جو انیس سے خصوصیت رکھتے تھے انھیں مطلوبہ رقم دلوا دیں۔

    دبیر نے انھیں ساتھ لیا اور رئیس کے یہاں جاکر سفارش کی۔ رئیس نے دو سو کے بہ جائے چار سو روپے سید کو دیے اور کہا، ”میر صاحب! یہ دو سو روپے تو آپ کے مطلوبہ ہیں اور دو سو روپے اس شکریے میں نذرِ سادات کرتا ہوں کہ مرزا صاحب قبلہ کفش خانے پر تشریف لائے۔“

    (ڈاکٹر نیّر مسعود کی کتاب معرکہ انیس و دبیر سے)

  • میاں بیوی کا "مشترکہ” شعر!

    میاں بیوی کا "مشترکہ” شعر!

    میر انیس نے ایک مرثیے میں دعائیہ مصرع لکھا۔

    ”یارب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے“ مگر خاصی دیر تک دوسرا مصرع موزوں نہ کرسکے۔

    وہ اِس مصرع کو شعر کرنے کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کی اہلیہ سے نہ رہا گیا، وہ ان سے پوچھ بیٹھیں‌ کہ کس سوچ میں ہیں؟

    میر انیس نے اپنا یہ مصرع پڑھا اور کہا کہ شعر مکمل کرنا چاہتا ہوں‌، مگر کچھ موزوں‌ نہیں‌ ہو رہا۔

    بیوی نے بے ساختہ کہا یہ لکھ دو، ”صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے“

    میر انیس نے فوراً یہ مصرع لکھ لیا اور یہی شعر اپنے مرثیے میں‌ شامل کیا۔

    یا رب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے
    صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

    اگر میر انیس کے مرثیوں‌ کا مطالعہ کریں‌ تو ایک جگہ یہ شعر یوں‌ ملتا ہے اور اسے محافل میں‌ بھی اسی طرح‌ پڑھا جاتا ہے۔

    بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
    صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

    ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ مرثیے کے اس مطلع کا پہلا مصرع میر انیس کا دوسرا ان کی بیوی کا ہے۔ یہ شعر زبان کی لطافت اور محاورے کی چاشنی کی وجہ سے بہت مشہور ہوا اور ضرب المثل ٹھیرا۔ آج بھی جب خاص طور پر کربلا کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں‌ تو میر انیس کا یہ دعائیہ شعر ضرور پڑھا جاتا ہے۔

  • میں شعرکہہ رہا ہوں، مجھے داد دیجئے

    میں شعرکہہ رہا ہوں، مجھے داد دیجئے

    آج شاعری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، شاعری جذبات کی عکاسی اورالفاظ میں کہانی کے ساتھ ساتھ افراد اور قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے،  یوم شاعری کا مقصد شاعری کی اہمیت کو اجاگرکرنا ہے۔

    یوم شاعری سال 1999 سے منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے مطابق یہ تقریب منانا شروع کی گئی تھی۔ سال دو ہزار نو سے روس میں شاعری کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات ایوان ادباء میں منعقد کی جاتی ہیں۔

    یوم شاعری کا مقصد نوجوان شاعروں کو اپنی تصانیف متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے۔ جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔

     جب شاعری خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی، اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔ فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    فنِ شعرِ گوئی نے جب عقیدت کی راہ پر سفرشروع کیا تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان بھی۔

    اس حوالے سے تاریخ دانوں کے مطابق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ تیئیسویں صدی قبل از مسیح میں موجودہ ایران کی سرزمین پر واقع ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہیدوُآنا نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار شاعری کی تھی۔

    شاعری کیا ہے ؟؟

     کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے، ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔

    شاعری کی اقسام

    شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم غزل ہے، صنف غزل قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے۔ لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے ساتھ مخصوص ہے۔

    مشہوراصناف میں حمد نعت مثنوی مسدس نظم پابند نظم آزاد نظم قصیدہ رباعی سلام گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں قلی قطب شاہ، میرتقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی اوربہادرشاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔

    تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے شعراء بامِ شہرت کے عروج پر فائر ہوئے جن میں فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، محسن نقوی،احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی ‘ افتخار عارف‘ حمایت علی شاعر اور جون ایلیاء جیسے عظیم نام ملتے ہیں۔

  • میر انیس کی 144 ویں برسی

    میر انیس کی 144 ویں برسی

    ٓج اردو زبان کے محسن شاعر خدائے سخن میر ببر علی انیس کا 144 واں یوم وفات ہے، انہوں نے صنف مرثیہ میں طبع آزمائی کی اور ان کی رزمیہ شاعری کے سبب اردو کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین زبانوں میں ہونے لگا۔

    میر انیس 1803 میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔

    انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنؤی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔

    ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

    شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 سال کی عمر میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

    انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

    میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291 مطابق 10 دسمبر 1874 کو لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963 میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    مرزا دبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی۔

    آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
    طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس

    یہی شعر ان کے لوح مزار پر بھی کندہ ہے۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔

    انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

    رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
    وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

    کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
    جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

    خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
    انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو