Tag: میر تقی میر

  • تذکرۂ میرؔ: وہ غریبُ الوطن شاعر جسے ہوائے شوق لکھنؤ لے گئی!

    تذکرۂ میرؔ: وہ غریبُ الوطن شاعر جسے ہوائے شوق لکھنؤ لے گئی!

    اردو ادب میں باقر مہدی کا نام ایک روایت شکن اور ممتاز نقاد اور بحیثیت شاعر ہی نہیں کیا جاتا بلکہ وہ ایک حد دجہ انا پرست اور درشت مزاج انسان بھی مشہور تھے۔ ہمیں خدائے سخن میر تقی میر کی انا اور خود داری کے چند واقعات بھی ادبی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ تحریر بھی میر کی زندگی اور ان کے ایک کڑے وقت سے متعلق ہے۔

    اردو ادب سے متعلق تحریریں اور اہلِ‌ قلم کے مضامین پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    یہاں ہم میر سے متعلق باقر مہدی کی تحریر کردہ چند سطریں‌ نقل کر کے آگے بڑھیں گے مگر یہ واضح کر دیں کہ یہاں باقر مہدی کی انا پرستی اور مزاج کی سختی کا ذکر میر کی شخصیت کی مناسبت سے کیا ہے۔ مقصود، شاعرِ درد و غم میر تقی میر پر اسلم فرخی کی ایک تحریر سے اقتباس پیش کرنا ہے۔

    آغاز باقر مہدی کی تحریر سے کرتے ہیں جنھوں نے میر کی زندگی کو یوں دیکھا:

    غم کے کیا معنی ہیں؟ بھوک، پیاس، در بدری، معاشی جدوجہد کی مسلسل ناکام کوششیں، ہجرت اور پھر موت کی پیہم خواہش۔ اس لیے نجات کی ساری راہیں عذاب الیم سے ہو کر گزرتی ہیں اور اس سفر کا زاد راہ ’’صبر‘‘ ہے۔ میر کی شعری شخصیت کا پہلا پتھر ’’صبر‘‘ تھا۔ کمسنی میں یتیمی، کم عمری میں تلاش معاش، عزیزوں اور رشتہ داروں کی بے رخی، محسنوں کا قتل اور بار بار سر پر مسلسل آلام کی دھوپ، رات آتی بھی ہے تو ایک عذاب اور ساتھ لاتی ہے…. بے خوابی اور بے قراری۔۔۔ ایک کم عمر لڑکا ان بحرانی حالات میں پڑوان چڑھتا ہے تو اکثر اس کی شخصیت ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے لیکن میر تو اس برگد کی طرح تھے جس کی شاخیں آندھیوں کو بھی جذب کر لیتی ہیں،

    خوگر ہوئے ہیں عشق کی گرمی سے خار و خس
    بجلی پڑی رہی ہے مرے آشیاں کے بیچ

    اسلم فرخی نے لکھنؤ میں میر کے ساتھ پیش آنے والے ایک ناخوش گوار واقعے کو اپنی تحریر میں حوالہ و سند کے ساتھ یوں سمویا ہے: میر جب تک دلّی میں رہے شاہی دربار سے بھی کچھ نہ کچھ آتا رہتا تھا، لیکن شاہی دربار کیا، ایک درگاہ رہ گئی تھی جس کا تکیہ دار خود بادشاہ تھا۔ دلّی کے صاحبانِ کمال اس بے یقینی سے دل برداشتہ ہوکر شہر چھوڑے جارہے تھے۔

    استاد الاساتذہ سراجُ الدّین علی خان آرزو لکھنؤ چلے گئے۔ مرزا محمد رفیع سودا کہ سر خیالِ شعرائے شاہ جہاں آباد تھے، لکھنؤ چلے گئے۔ میر سوز بھی لکھنؤ چلے گئے، دلّی اجڑ رہی تھی، لکھنؤ آباد ہو رہا تھا کہ وہاں داخلی اور بیرونی کش مکش نہ تھی۔

    جان و مال کا تحفّظ تھا، در و دیوار سے شعر و نغمہ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ آصفُ الدّولہ کی داد و دہش سے گھر گھر دولت کی گنگا بہہ رہی تھی۔ نئی تراش خراش، نئی وضع، ایک نیا طرزِ احساس، ایک نیا تہذیبی مرکز وجود میں آچکا تھا۔

    سوداؔ کا انتقال ہوا تو آصفُ الدّولہ کو خیال ہوا کہ اگر میر لکھنؤ آجائیں تو لکھنؤ کی شعری حیثیت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ چناں چہ آصفُ الدّولہ کے ایما سے نواب سالار جنگ نے زادِ راہ اور طلبی کا پروانہ بھجوا دیا۔

    میر لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں فرّخ آباد کے نواب نے انھیں صرف چھے دن کے لیے روکنا چاہا، مگر میر ہوائے شوق میں اڑ رہے تھے، رکے نہیں۔ حُسن افزا منزل کے مشاعرے میں ‘‘ہستی اپنی حباب کی سی ہے۔ یہ نمائش سراب کی سی ہے’’ پڑھ کر آگے بڑھ گئے اور لکھنؤ پہنچے۔

    یہ واقعہ ۱۱۹۶ھ (1782ء) کا ہے۔ میر اس وقت ساٹھ برس کے ہوچکے تھے۔ اور اب یہ راقم آثم کہ اردو ادب کے البیلے انشا پرداز مولوی محمد حسین آزاد کا سوانح نگار بھی ہے اور خوشہ چیں بھی، الفاظ کے رنگ و آہنگ اور تخیل کی تجسیم کے اس باکمال مصور کے نگار خانے کی ایک تصویر آپ کی نذر کرتا ہے اور سلسلۂ سخن کو یوں رونق دیتا ہے کہ ‘‘لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔

    ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستو لیے کا کمر سے بندھا۔ ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کے عرض کے پائنچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخلِ محفل ہوئے تو شہرِ لکھنؤ میں نئے انداز، نئی تراش، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انھیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔

    میر صاحب بے چارے غریبُ الوطن، زمانے کے ہاتھ پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفوِ تقصیر چاہی، صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہوگیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔

    آزاد کے نگار خانے کا ورق ختم ہوا۔ میر صاحب آصفُ الدّولہ کے یہاں حاضر ہوئے۔ آصفُ الدّولہ لطف و کرم سے پیش آئے۔ دو سو روپے ماہ وار وظیفہ مقرر ہوا۔ نواب بہادر جاوید خان کے یہاں بائیس روپے ماہ وار ملتے تھے اور میر صاحب خوش تھے کہ روزگار کی صورت برقرار ہے، اب دو سو ملتے ہیں اور میر صاحب فریاد کرتے ہیں۔

    خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
    وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

    لکھنؤ میں میر صاحب نے عمرِ عزیز کے اکتیس برس گزارے۔ دلّی میں دل کی بربادی کے نوحے تھے، لکھنؤ میں دل اور دلّی دونوں کے مرثیے کہتے رہے:

    لکھنؤ دلّی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
    میر کو سر گشتگی نے بے دل و حیراں کیا

    1810ء کو نوّے برس کی عمر میں میر صاحب کا انتقال ہوا۔

    مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میر
    کیا دوانے نے موت پائی ہے

  • میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی زبان میں۔ اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میرؔ کا نام اس فہرست میں ضرور داخل کرنا ہو گا۔

    یہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جنھوں نے موزونی طبع کی وجہ سے یا اپنا دل بہلانے کی خاطر یا دوسروں سے تحسین سننے کے لیے شعر کہے ہیں، بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمہ تن شعر میں ڈوبے ہوئے تھے اور جنھوں نے اپنے کلام سے اردو کی فصاحت کو چمکایا اور زبان کو زندہ رکھا۔

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    یہ شعر کس قدر سادہ ہے، اس سے زیادہ آسان، عام اور معمولی الفاظ اور کیا ہوں گے لیکن اندازِ بیان درد سے لبریز ہے اور لفظ لفظ سے حسرت و یاس ٹپکتی ہے۔ اردو کیا مشکل سے کسی زبان میں اس پائے کا اور ایسا درد انگیز شعر ملے گا۔ ایک دوسری بات اس شعر میں قابلِ غور یہ ہے کہ جو شخص دوسروں کو غل نہ کرنے اور آہستہ بولنے کی ہدایت کر رہا ہے، وہ بھی بیمار کے پاس بیٹھا ہے، اور اس پر لازم ہے کہ یہ بات آہستہ سے کہے۔ اس کے لئے یہ ضرور ہے کہ لفظ ایسے چھوٹے، دھیمے اور سلیس ہوں کہ دھیمی آواز میں ادا ہو سکیں۔ اب اس شعر کو دیکھیے کہ لفظ تو کیا ایک حرف بھی ایسا نہیں جو کرخت ہو یا ہونٹوں کے ذرا سے اشارے سے بھی ادا نہ ہو سکتا ہو۔

    جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
    تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا

    اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں، مگر شعر کس قدر پُر درد ہے، دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیز بنا دیا ہے۔ یہ سلاست اور یہ اندازِ بیان اور اس میں یہ درد میرؔ صاحب کا حصہ ہے، ان اشعار کے سامنے صنائع و بدائع، تکلف و مضمون آفرینی، فارسی، عربی ترکیبیں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔

    (مقدمۂ انتخابِ میر از مولوی عبدالحق سے اقتباس)

  • ’’کیا اُدھر باغ بھی ہے؟‘‘

    ’’کیا اُدھر باغ بھی ہے؟‘‘

    محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں ایک دوست سے کہا کہ مجھے خبر نہیں کہ اس میں کوئی پائیں باغ بھی ہے۔

    واقعہ نہایت مشہور ہے لیکن اسے محمد حسین آزاد کے گل و گلزار الفاظ میں سنا جائے تو لطف اور ہی کچھ ہوگا، ’’میر(میر تقی میر) صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انھیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا۔ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھا کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں۔ کئی برس گزر گئے، اسی طرح بند پڑی رہیں، کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔

    ایک دن کوئی دوست آئے، انھوں نے کہا، ’’ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے؟‘‘ میر صاحب بولے، ’’کیا ادھر باغ بھی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ اسی لئے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھٹے پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے، ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اِس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اُس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپ ہو رہے۔

    کیا محویت ہے! کئی برس گزر جائیں، پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر، ثمرہ اس کا یہ ہوا کہ انھوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا۔ خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے، آج تک لوگ ورقے الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘

    اس بیان کے داخلی تضادات کو دیکھتے ہوئے شاید ہی کسی کو اس بات میں کوئی شک ہو کہ یہ واقعہ محض سنی سنائی گپ پر مشتمل ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے جن دو تذکروں پر کثرت سے بھروسا کیا ہے، ان میں یہ واقعہ مذکور نہیں۔ میری مراد قدرت اللہ قاسم کے ’’مجموعۂ نعز‘‘ اور سعادت خاں ناصر کے ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ سے ہے۔ لیکن ’’آب حیات‘‘ کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا ہے اور آج تک میر کے بارے میں عام تصور یہی ہے کہ وہ مردم بیزار نہیں تو دنیا بیزار ضرور تھے۔

    دنیا اور علائق دنیا سے انھیں کچھ علاقہ نہ تھا، اپنے کلبۂ احزاں میں پڑے رہنا، دلِ شکستہ کے اوراق کی تدوین کرنا اور اپنی غزلوں کے ’’پھٹے پرانے مسودے‘‘ مجمتمع کرتے رہنا گویا ان کا وظیفۂ حیات تھا۔ اگر مولانا محمد حسین آزاد کا بیان کردہ واقعہ فرضی ہے تو اغلب ہے کہ اس کی بنیاد میر کے حسبِ ذیل شعر پر قائم کی گئی ہوگی۔ دیوانِ پنجم میں میر کہتے ہیں:

    سرو لب جو لالہ و گل نسرین و سمن ہیں شگوفہ ہے
    دیکھو جدھر اک باغ لگا ہے اپنے رنگیں خیالوں کا باغ

    (عظیم شاعر میر تقی میر کے فن و شخصیت پر معروف ادیب، نقّاد اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریر سے اقتباس)

  • جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی

    جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی

    شاعر کو تلمیذِ رحمانی بھی کہا گیا ہے اور پیغمبر کا بھی درجہ دیا گیا ہے، لیکن میر تقی میر تنہا شاعر ہیں جن کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔

    ولی دکنی، سودا، نظیر اکبرآبادی، انیس، غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو شاعری میں عظمت کے تنہا مسند نشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام شعرا میں سرفہرست میر ہی کا نام رہے گا۔ ڈیڑھ سو برس سے اردو کے عظیم شعراء میر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے آئے ہیں اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ ’’آپ بے بہرہ ہے ہے جو معتقد میر نہیں۔‘‘

    یوں تو میر کی بد دماغی کے بہت سے افسانے مشہور ہیں لیکن انہوں نے خود اپنی آپ بیتی ’’ذکرِ میر‘‘ میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ رعایت خاں کے نوکر تھے لکھتے ہیں، ’’ایک چاندنی رات میں خان کے سامنے ڈوم کا لڑکا چبوترے پر بیٹھا گا رہا تھا۔ (خان نے) مجھے دیکھا تو کہنے لگا کہ میر صاحب، اسے اپنے دو تین شعر ریختے کے یاد کرا دیجیے تو یہ اپنے ساز پر درست کر لے گا۔ میں نے کہا، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگا میری خاطر سے۔ چونکہ ملازمت کا پاس تھا۔ طوعا و کرہا تعمیل کی اور پانچ شعر ریختے کے اسے یاد کرائے۔ مگر یہ بات میری طبعِ نازک پر بہت گراں گزری۔ آخر دو تین دن کے بعد گھر بیٹھ رہا۔ اس نے ہر چند بلایا، نہیں گیا، اور اس کی نوکری چھوڑ دی۔‘‘ (بحوالہ، میر کی آپ بیتی۔ نثار احمد فاروقی)

    (علی سردار جعفری کے مضمون بعنوان میر: صبا در صبا سے اقتباس)

  • میرؔ کو شعراء نے دھڑکنوں میں‌ جگہ دی، مگر اردو تنقید نے کیا رویہ اپنایا؟

    میرؔ کو شعراء نے دھڑکنوں میں‌ جگہ دی، مگر اردو تنقید نے کیا رویہ اپنایا؟

    میر کے ساتھ ہماری تنقید کا کیا رویہ ہے؟ زمانے بدلتے رہے مگر اردو تنقید افسوس ناک حد تک آہستہ رو رہی ہے۔

    میر کبھی گم نامی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی قبر پر ریل چل گئی تو کیا ہوا، تمام اردو شعراء نے اپنی دھڑکنوں میں ہمیشہ میر کو جگہ دی۔ ان کی کلیات بھی چھپتی رہی مگر وقفے وقفے سے۔ پھر بھی میر کے پرستاروں کو شکایت رہی کہ ان کی پذیرائی کم ہوئی۔ مجھے اثر لکھنوی اور ڈاکٹر سید عبداللہ سے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہ میر کو ہر دل عزیز بنانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے کہ ان بزرگوں نے اپنی ساری ذہانت کو میر کے مطالعے میں صرف کر دیا ہے مگر برا ہو اردو تنقید کا جو شاعری میں افکار اور احساسات و جذبات کو الگ الگ خانوں میں دیکھنے کی عادی ہے۔
    ناصر کاظمی ایسا فہیم شاعر بھی میر پر مضمون لکھتے ہوئے قدم قدم پر جھجھکتا ہے اور آخر میں میر اور اقبال کے یہاں مماثلت تلاش کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔

    وارث علوی کی زبان میں ’’معنی کس چٹان پر بیٹھا ہے‘‘ یعنی شاعری میں اقدار و افکار کی جستجو، جذبات اور احساسات سے الگ چہ معنی دارد؟ غالب ایسا عظیم شاعر بھی میر کی استادی کو اس طرح تسلیم کرتا ہے کہ میر کے انداز یعنی سہلِ ممتنع میں شاعری کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ میر کے کلام میں بے پناہ تاثیر، زبان میں ندرت، جذبات کے اظہار میں شائستگی اور شعری صداقت، ساری نزاکتوں کا ایک آئینہ در آئینہ سلسلہ ملتا ہے۔

    میری رائے میں 1857ء کے تباہ کن اثرات سے ہم بے طرح گھبرا گئے تھے۔ حالی نے غیرشعوری طور سے اس روایت کو مجروح کر دیا جس سے ہم میر سے منسلک تھے۔ میں حالی پر الزم نہیں لگاتا، اس لیے کہ انگریز حکومت کے مہلک اثرات کی وجہ سے ہم آج تک اپنی ثقافتی تفہیم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ کبھی ہم ماضی میں پناہ ڈھونڈتے ہیں بنیاد پرستوں کی طرح اور کبھی مغرب زدہ لوگوں کی بنائی ہوئی ’’جنت‘‘ کو اپنا مستقبل سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ ہمارا ماحول کیا تھا اور اب کیا ہے؟ نہ جانے کس نے ہمیں یہ سمجھا دیا تھا کہ ’’وقت کی آواز‘‘ عشقیہ شاعری کے خلاف ہے جب کہ میر کی شاعری کار زارِ حیات کی سب سے دل کش آواز تھی۔ اسی وقت سے ہماری تنقید نے میر فہمی کی راہ کھول دی تھی۔ حسن عسکری نے ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’اگر لوگ میر کے اس شعر کی جدلیات کو سمجھ لیں تو جو انقلاب رونما ہوگا وہ مارکس کے انقلاب سے کہیں بڑا ہوگا۔‘‘ (حوالہ: انسان اور آدمی)

    ظاہر ہے کہ یہ جملہ صرف ’’ترقی پسندوں‘‘ کو چھیڑنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ میر کا شعر ہے،

    وجہِ بے گانگی نہیں معلوم
    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    اس شعر میں جو نکتہ قابلِ غور ہے وہ علیحدگی، بےگانگی (Alienation) کو جنم دیتا ہے اور ہم صنعتی نظام میں داخل ہوئے تھے کہ اس کا شکار ہو گئے۔ اب ہماری بیگانگی دشمنی میں بدلتی جارہی ہے۔ اردو کی سب سے جان دار روایت عشقیہ شاعری کی تھی۔ عشق ہی تصوف اور بھکتی تحریروں کی جان تھا۔ ہماری مشترکہ تہذیب کی بنیاد تھا (قرۃ العین حیدر کے نئے ناول ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں اس دور کے چند مناظر اور کردار دیکھے جاسکتے ہیں ) ہم نے انجانی اصلاحی اقدار کے فریب میں آکر اپنی ’جڑوں ‘سے خود کو کاٹ لیا ہے اور آج ہم زندگی کی سزا پا رہے ہیں اور ادب میں خون ناحق کو بہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور حیران و ششدر ہیں۔ ہم خود اپنے جرائم کی سزا پا رہے ہیں، کم از کم بقول میر ہمارے سینے تو سوزِ عشق سے منور ہوتے،

    اعجازِ عشق سے ہم جیتے رہے وگرنہ
    کیا حوصلہ کہ جس میں آزار یہ سمائے

    آج ہمارے پاس عشق کا سوزِ دروں ہے نہ عمل کی لگن۔ ہم۔ سب۔ ایک معنی میں ایلیٹ کے ’’کھوکھلے آدمی‘‘ بن کر رہ گئے ہیں!

    میرتقی میر بنیادی طور سے رومانی کرب کے شاعر تھے مگر یہ کرب صرف جنسی تشنگی اور دیوانگی کی دین نہیں تھا، اس میں آئندہ مستقبل کے خواب کی پنہاں آرزوئیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ یہی نہیں اپنے ماحول کی ساری تہذیبی شکست و ریخت بھی شامل تھی۔ اطالوی ناقد ماریو پراز (Mario Praz) نے یوروپی شاعری (اٹھارہویں صدی) کو اسی اصطلاح سے جانچنے کی کوشش کی تھی۔ اٹھارہویں صدی کا یورپ بھی ہنگاموں اور انقلابوں کا مرکز تھا۔ انقلابِ فرانس نے یورپ کو پہلی بار انسانیت کو مساوات، اخوت اور آزادی کا پیغام دیا تھا۔ اس دور کے شاعر بھی اسی جانکاہ درد و غم سے سرشار تھے جس سے کہ رومانی کرب کی پہچان ہوتی ہے۔

    روسو کے اعترافات (دوجلدیں ) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت سے انسانی دوری کتنی مہلک ہوگی۔ ماریو پراز کا خیال تھا کہ مسرت کی جستجو ہی درد و غم کی راہ سے گزرتی ہے اور درد ہی مسرت کی جستجو کی منزل ہے۔ اس طرح خوشی اور غم کی جذباتی کشمکش حزنیہ لب و لہجے کو جنم دیتی ہے جو رومانی کرب کی نشان دہی کرتا تھا۔ میر کی شاعری میں جو گھلاوٹ، نرمی اور سپردگی ہے، وہ اسی غم کی قبولیت کی وجہ سے کہ درد ہی مسرت کی جان ہے اور مسلسل کرب ہی جہدِ حیات ہے۔

    انگریزی رومانی شعرا سے میر کا تقابل پروفیسر احمد علی نے بھی کیا تھا۔ احمد علی نے اپنی کتاب سنہری روایت (The Golden Tradition) میں میر کی عظمت کا اعتراف کیا ہے، یہ کتاب آج بھی مطالعے کے قابل ہے، گو کہ اس کو شائع ہوئے پندررہ برس گزر چکے ہیں (مطبوعہ کولمبیا یونیورسٹی امریکہ ۱۹۷۳ء) میر تقی میر کی شاعری کو ان کی کشادہ شخصیت، بے پناہ تخلیقی قوت اور فکر خیز تخیل (Imagination) کی رہینِ منت ٹھہرایا ہے۔ یہی نہیں ان کی (احمدعلی) رائے میں میر کے پائے کا شاعر انگریزی رومانی شعرا میں کوئی نہیں تھا۔ فراق اردو میں یہی بات کہہ چکے ہیں۔ وہ میر کی شاعری میں ’دل‘ کے استعارے کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری یہ بات اپنے مضمون میں کہہ چکے ہیں (سردار جعفری ایک عرصے تک مجنوں سے اس لیے خفا رہے کہ مرحوم نے کئی شعر ایسے لکھے تھے جو میر کے نہیں ہیں۔ خیر) احمد علی کا خیال ہے کہ میر کے ذہن کی جستجو ہمیں ان اشعار سے کرنی چاہیے جو میر نے دل کو محور بنا کر کہے تھے، اس لیے کہ دل ہی عشق اور زندگی کا سرچشمہ ہے اور یہ اشعار بھی پیش کیے ہیں،

    جا کے پوچھا جو میں یہ کارگہِ مینا میں
    دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
    کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
    ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
    دل ہی سارے تھے یہ اک وقت میں جو کر کے گداز
    شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں سے شیشہ

    یہی نہیں، احمد علی کا خیال ہے کہ ایک معنی میں میر ایک وجودی شاعر تھے اور سارتر کا بیان نقل کرتے ہیں :Existence Precedes Essence یعنی وجود روح سے پہلے ہے۔ میر کا خیال ہے، ’’مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا‘‘ کی مثال بھی دیتے ہیں۔ میر پر انگریزی میں جو چند مضامین اور کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں یہ کتاب زیادہ ’’شہرت‘‘ کی مستحق تھی، اس لیے کہ اس کتاب میں میر کے اچھے خاصے ترجمے بھی شامل ہیں۔

    اور ایک سوال میر ے ذہن میں آتا ہے کہ میر کی عشقیہ شاعری کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ کیا اب یہ عہد پارینہ کی ایک شعری داستان ہے اور بس۔۔؟ سرمایہ دارانہ سماج میں ہر شے فروخت ہو سکتی ہے۔ اب عشق یا تو محض جنسی شے (بدن کی تہذیب کہاں؟) یا تفریح کا سامان۔ ایک ایسے دور میں جب ہم میر کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت اور معصومیت سے نئی لذت کے ساتھ دوچار ہوتے ہیں یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب وہ ’’رومانی کرب‘‘ اپنی جاذبیت بڑی حد تک کھو چکا ہے مگر کسی حد تک معصومیت حسن کی اور عشق کی کشمکش کو بڑی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔

    عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
    قیس کی آبرو کا پاس رہا
    عشق کا گھر ہے میر سے آباد
    ایسے پھر خانماں خراب کہاں

    رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
    جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

    دور بیٹھا غبار میر ان سے
    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    یہ خود کلامی کا ’’جادو‘‘ بھی رکھتی ہے۔ پروفیسر مسعود حسین ادیب نے میر کی شاعری کو ’’عشق کی زبان‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ مجھے اکثر یہ احساس ہوا ہے کہ میر کے آنسو’’پارس پتھر‘‘ تھے، جس لفظ کو چھو لیتے تھے کندن بن جاتا تھا۔ اس طرح جسمانی حسن کا بیان بھی ساری لطافتیں لیے ہوئے ہے،

    ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
    جیسے جھمکے ہے پڑا گوہرِ تر پانی میں

    حسن کی بالیدگی کا یہ عالم شاید ہی کسی اردو شاعر نے کبھی سوچا اور بیان کیا ہو گا۔ میر کی عشقیہ شاعری ایک جمالیات کی نئی دستاویز تھی جس میں انبساط کے کم رنگ تھے مگر زرد رنگ سب سے نمایاں تھا جیسے ڈچ مصور وان گاف کی مصوری! آج میر کی عشقیہ شاعری ایک ایسی ’’فردوسِ گمشدہ‘‘ کی یاد دلاتی ہے جس میں دوزخ کو سیر کرنے کے لیے ملا دیا گیا ہو۔

    (ممتاز نقاد اور روایت شکن قلم کار باقر مہدی کے مضمون کا ایک حصّہ ہند و پاک سمینار جامعہ ملیہ (نئی دہلی) میں ۱۹۸۳ء میں پڑھا گیا تھا)

  • میرؔ کا تذکرہ جن کے آئینۂ فکر میں پُرخلوص تجربات کا جوہر شامل ہے

    میرؔ کا تذکرہ جن کے آئینۂ فکر میں پُرخلوص تجربات کا جوہر شامل ہے

    کہا جاتا ہے کہ مولانا حسرت موہانی نے سرتاج الشّعرا میر تقی میر کے اُن بہتّر اشعار کا انتخاب کیا تھا جو ان کی نظر میں میر کے بہترین اشعار تھے یہ میر کے بہتّر نشتر کے نام سے مشہور ہیں۔

    حسرت نے یہ انتخاب اپنے رسالے اردوئے معلٰی میں شایع کیا تھا، لیکن آج وہ انتخاب کسی کے علم میں‌ نہیں‌ ہے۔ میر تقی میر کو اپنے کلام کی وقعت اور اپنی عظمت کا بہت احساس تھا، سو یہ تعلّی انھیں زیب دیتی ہے:

    جانے کا نہیں شور سخن کا مِرے ہرگز
    تا حشر جہاں میں مِرا دیوان رہے گا

    خدائے سخن کہلانے والے میر تقی میرؔ نے 1810ء میں آج ہی کے دن وفات پائی تھی۔ آج بھی میر اور ان کے بہتّر نشتر اشعار کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ میر کے یومِ وفات کی طرح ان کے جائے مدفن پر بھی اختلاف ہے۔ ان کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں‌ اور لکھنؤ میں ایک جگہ کو ان کی قبر بتایا جاتا ہے۔

    میر تقی میر نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزل میں ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعورِ فن اور ہی مزہ دیتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا:

    مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
    درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

    ہوتے ہوئے بھی ایک عمومی رنگ رکھتے ہیں

    نام وَر ادیب اور نقّاد رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔ "آج تک میر سے بے تکلف ہونے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آج اس پرانی زبان کی بھی نقل کی جا تی ہے جس کے نمونے جہاں تہاں میر کے کلام میں ملتے ہیں لیکن اب متروک ہو چکے ہیں۔ بر بنائے عقیدت کسی کے نقص کی پیروی کی جائے، تو بتایئے، وہ شخص کتنا بڑا ہوگا۔”

    میرؔ کے آبا و اجداد کا تعلق حجاز سے تھا۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے۔ اس سر زمین پر اوّل اوّل جہاں قدم رکھے، وہ دکن تھا۔ دکن کے بعد احمد آباد، گجرات میں پڑاؤ اختیار کیا۔ میرؔ کے والد کا نام تذکروں میں میر محمد علی لکھا گیا ہے اور وہ علی متّقی مشہور تھے۔ میرؔ کے والد درویش صفت اور قلندرانہ مزاج رکھتے تھے۔ میرؔ نے اکبر آباد (آگرہ) میں 1723ء میں جنم لیا۔ تنگ دستی اور معاشی مشکلات دیکھیں۔ والد کی وفات کے بعد مزید مصائب اٹھائے۔ ان کا زمانہ بڑا پُر آشوب تھا۔ سلطنتِ مغلیہ زوال کی طرف گام زن تھی اور شاہانِ وقت، نواب و امراء سبھی بربادی دیکھ رہے تھے۔ میر نے دلّی چھوڑی اور لکھنؤ پہنچ گئے اور وہیں‌ زندگی بھی تمام کی۔

    محمد حسین آزاد اپنی کتاب ’آب حیات‘ میں لکھنؤ کے مشاعرے میں شرکت کے موقع پر اُن کا حلیہ کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں: ’ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا، ناگ پھنی کی انی دار جوتی، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار۔

    دلّی میں‌ تو میر اپنے اور چند ہم عصروں کا تذکرہ یوں کرتے تھے، ’دلّی میں صرف ڈھائی شاعر ہیں۔ ایک میں، ایک سودا اور آدھا میر درد۔‘ میر نے درد کو آدھا شاعر اس لیے کہا تھا کیوں کہ وہ صرف غزل کے شاعر تھے جب کہ اس دور میں‌ شاعر مثنوی، قصیدہ، رباعیات میں‌ بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔

    آل احمد سرور لکھتے ہیں، میرؔ کو بچپن ہی میں مہربان ’’چچا‘‘ اور شفیق باپ کی موت کی وجہ سے ایک محرومی کا احساس ہوا۔ بھائی نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ محرومی کے احساس میں ظلم کا احساس بھی شامل ہو گیا۔ دہلی میں انہیں خان آرزو جیسے سنجیدہ اور ثقہ آدمی کی صحبت ملی مگر خان آرزوؔ کی شفقت انھیں نصیب نہ ہوئی۔ قصور خاں آرزوؔ کا زیادہ ہے یا میرؔ کا۔ اس کے متعلق کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خاں آرزوؔ میرؔ کے اطوار سے خوش نہ تھے۔ یہ اطوار اخلاقی اعتبار سے کتنے ہی قابل اعتراض کیوں نہ ہوں ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ مجھے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک عالم اور ایک ’‘رند‘‘ کے مزاج میں جو فرق ہو سکتا ہے وہ یہاں بھی موجود تھا۔ اس فرق نے اپنا رنگ دکھایا۔ میرؔ، خان آرزو سے رخصت ہوئے، ایک گھنے سایہ دار درخت کا سایہ ان کے لیے عذاب ہوگیا۔ انھوں نے کڑی دھوپ کی آزادی پسند کی اور اس سائے میں جو چوٹیں ان کے دماغ پر لگی تھیں انھیں ساتھ لیے ہوئے اپنی انانیت کے سہارے زندگی کے خارزار میں مردانہ وار نکل کھڑے ہوئے۔

    مؤرخ رعنا صفوی میر کی قبر کے بارے میں‌ کہتی ہیں‌ کہ لکھنؤ میں میر کی قبر اور قبرستان اب صرف تاریخ کا حصہ رہ گئے ہیں۔ مؤرخین اور مداحوں نے ان کی قبر تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزوں کے زمانے میں اس پر ریل کی پٹری بچھا دی گئی تھی۔ صفوی، جن کی پرورش 1960 کی دہائی میں لکھنؤ میں ہوئی، بتاتی ہیں کہ ان کا گھر ان ہی ریل کی پٹریوں کے سامنے تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پٹری کے کنارے وہاں ایک دروازہ ہوا کرتا تھا، جسے بڑے بزرگ کہتے تھے کہ وہاں میر کی قبر ہوا کرتی تھی۔‘

    آج وہاں سے کچھ قدم دور میر کے نام سے ’نشانِ میر‘ نامی ایک علامتی ڈھانچہ ہے اور اس کا بھی حال بُرا ہے۔ دستیاب تاریخی ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ اکھاڑہ بھیم نامی مقام پر میر کا قبرستان تھا لیکن اب وہ علاقہ اکھاڑہ بھیم کے نام سے جانا بھی نہیں جاتا۔

    آل احمد سرور نے میر پر اپنے مضمون میں لکھا ہے، میرؔ بہرحال اپنے دور کی پیداوار ہیں لیکن ان کی شاعری کی اپیل آفاقی ہے، وہ اپنے اظہار میں اپنے دور سے بلند بھی ہو جاتے ہیں اور ذہن انسانی کے ایسے سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں جو ہر دور کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ کارگہ شیشہ گری کا کام صرف میرؔ کے زمانے میں ہی نازک نہیں تھا، آج بھی نازک ہےاور اگرچہ آج سانس آہستہ لینے کا زمانہ نہیں ہے پھر بھی اس شعر کو پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے ہم سانس روک لیتے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ موجودہ دور کے سارے کمالات کے باوجود جسم و جان کا رشتہ ایک ڈورے سے بھی زیادہ نازک ہے اور زندگی ایک پل صراط کی طرح ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔

  • میر غم کے شاعر نہ ہوتے تو ہمارے لیے بڑے شاعر بھی نہ ہوتے

    میر غم کے شاعر نہ ہوتے تو ہمارے لیے بڑے شاعر بھی نہ ہوتے

    میر کو غم کا شاعر بتایا جاتا ہے۔

    اگر اس سرسری اور مبہم رائے کو تسلیم کر لیا جائے تو داغ اور میر اور ان کے قبیل کے چند دوسرے شاعرو ں کو چھوڑ کر اردو غزل کا کون شاعر ہے جوغم پرست نہیں اور جس کی آوازغم کی آواز نہیں۔ خاص کر میر کے دور میں جو اردو غزل کا سب سے بڑا دور مانا جاتا ہے، غم دوستی اور یاس پرستی ہر چھوٹے بڑے شاعر کے خمیر میں داخل تھی اور اس کے کلام کی اصل روح تھی۔ یہاں تک کہ سودا کی غزلوں کا بھی بیشتر حصہ غم ناکی ہی کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔

    سودا جیسا چنچل مزاج رکھنے والا جو قصیدہ اور ہجو کا بھی ایسا ہی ماہر ہو، جب اپنے زمانے کی دھندلی فضا کے دل بجھا دینے والے اثرات سے بچ نہ سکا تو ہم کسی اور کو کیا کہیں۔

    ایک بات اور بھی قابلِ لحاظ ہے۔ سودا کی ہجوؤں کو اچھی طرح غور سے پڑھیے تو پتہ چل جائے گا کہ وہ بھی اپنے زمانے سے شدید ناآسودگی ظاہر کر رہی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہاں غم نفرت اور حقارت کے جذبہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جو بالآخر اشعار میں طنز، تمسخر اور استہزا کی صورت میں نمودار ہو رہے۔ اس سلسلہ میں یہ یاد رکھیے کہ طنز نگار اور مسخرا درپردہ سنجیدہ لوگوں سے زیادہ یاس پرست ہوتا ہے۔ اس کو زندگی میں کوئی حسین اور روشن پہلو نظر نہیں آتا، ورنہ وہ اپنے طنز اور ظرافت کے لیے مواد ہی نہ پائے۔

    اس کے علاوہ سودا کے اکثر قصیدے جو نعت اور منقبت میں لکھے گئے ہیں ان کا لہجہ عام طور سے وہی ہے جو ان کی غزلو ں کا ہے۔ خاص کر تشبیہیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ غزل سے زیادہ عبرت و بصیرت کا احساس پیدا کرکے ہم کو زندگی کی تمام دنیوی قدروں سے دل برداشتہ کر دیتی ہیں۔ یہ سودا کا مزاج نہیں تھا، بلکہ ان کے زمانے کا مزاج تھا۔

    ہاں تو ہم کو یہ تسلیم کرنے میں تأمل نہیں کہ میر غم کے شاعر ہیں۔ میر کا زمانہ غم کا زمانہ تھا اور اگر وہ غم کے شاعر نہ ہوتے تو وہ اپنے زمانے کے ساتھ دغا کرتے اور ہمارے لیے بھی اتنے بڑے شاعر نہ ہوتے۔ بعد کے ادوار کے لیے وہی بڑا شاعر ہوا ہے جو اپنے زمانہ کی سچی مخلوق ہو اور اس کی پوری نمائندگی کرے۔ لیکن میر اور ان کے دور کے دوسرے شاعروں کے درمیان آخر فرق کیا ہے؟ اور وہ ہمارے لیے ایسے ناقابلِ تردید بڑے شاعر کیوں ہیں؟

    بات یہ ہے کہ دوسرے یا توغم غلط کرنے کی کوشش میں لگ گئے یا غم کے شکار اور زندگی کے لیے بیکار ہو کر رہ گئے۔ میر نے غم کو نہ صرف ایک مقدر کی طرح تسلیم کر لیا، بلکہ غم کو زندگی کی ایک نئی قوت میں تبدیل کر دیا۔ ان کے مشہور چار مصرعے پڑھیے،

    ہر صبح غموں میں شام کی ہے ہم نے
    خوننابہ کشی مدام کی ہے ہم نے
    یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
    مر مر کے غرض تمام کی ہے ہم نے

    یہ شکست خوردگی یا مغلوبیت یا وہ سپردگی نہیں جو انفعالیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ وہ جذبۂ بغاوت ہے جو نفس کی تربیت اور زندگی کی معرفت کی تمام منزلوں سے گزر کر ایک جوہری قوت یا عنصری تاثیر بن گیا ہے۔ میر ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو ذاتی محرومیوں اور نا مرادیوں میں اس طرح کھو جاتے کہ یہ ہوش باقی نہ رہتا کہ گرد و پیش میں دوسروں پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ اپنے اور دوسرے کے غم کو ’’غمِ عشق‘‘ کی زبان یعنی غزل کے روایتی اسلوب میں بیان کرتے تھے۔ لیکن ان کا پیغام تڑپنا، تلملانا اور چھاتی پیٹنا نہیں ہے۔ وہ ان تمام آلام و مصائب میں بھی جو انتہائی شکست کا نتیجہ ہوتی ہے، سینہ تانے رہنے اور سر اونچا رکھنے کا حوصلہ ہمارے اندر پیدا کرتے ہیں۔

    (مجنوں گورکھپوری کے مضمون سے اقتباس)

  • انوری و خاقانی اور میر

    انوری و خاقانی اور میر

    ولی دکنی، سودا، نظیر اکبرآبادی، انیس، غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو شاعری میں عظمت کے تنہا مسند نشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام شعرا میں سرفہرست میر ہی کا نام رہے گا۔

    حالانکہ آج عام مقبولیت کے اعتبار سے غالب اور اقبال، میر سے کہیں آگے ہیں اور ان کی کتابیں کلیات میر کے مقابلہ میں بہت زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ان کے اشعار زیادہ زبان زد ہیں۔ ان کے اثرات جدید شاعری پر زیادہ نمایاں ہیں۔ پھر بھی غالب اور اقبال کی شاعرانہ عظمت کے منکر موجود ہیں۔ مگر میر کی استادی سے انکار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر عہد میں بڑے سے بڑے شاعر نے اپنا سر میر کی بارگاہ میں جھکا دیا ہے۔

    ’’لکھنؤ کے چند عمائد و اراکین جمع ہو کر ایک دن آئے کہ میر صاحب سے ملاقات کریں اور اشعار سنیں۔

    دروازے پر آکر آواز دی۔ لونڈی یا ماما نکلی۔ حال پوچھ کر اندر گئی۔ ایک بوریا لاکر ڈیوڑھی میں بچھایا۔ انہیں بٹھایا۔ اور ایک پرانا سا حقہ تازہ کر کے سامنے رکھ گئی۔

    میر صاحب اندر سے تشریف لائے۔ مزاج پرسی وغیرہ کے بعد انہوں نے فرمائشِ اشعار کی۔ میر صاحب نے اوّل کچھ ٹالا، پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے۔ اگرچہ ناگوار ہوا مگر بہ نظرِ آداب و اخلاق انہوں نے نارسائیِ طبع کا اقرار کیا اور پھر درخواست کی۔ انہوں نے پھر انکار کیا۔ آخر ان لوگوں نے گراں خاطر ہو کر کہا کہ حضرت انوری و خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں۔ آپ کا ارشاد کیوں نہ سمجھیں گے۔

    میر صاحب نے کہا کہ یہ درست ہے۔ مگر ان کی شرحیں، مصطلحات اور فرہنگیں موجود ہیں اور میرے کلام کے لیے فقط محاورۂ اہلِ اردو ہے، یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اور اس سے آپ محروم۔ یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا:

    عشق برے ہی خیال پڑا ہے، چین گیا آرام گیا
    دل کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا شام گیا

    اور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی ’ی‘ کو ظاہر کرو اور پھر یہ کہیں گے کہ ’ی‘ تقطیع میں گرتی ہے۔ مگریہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔‘‘

    (میر: صبا در بدر از علی سردار جعفری سے اقتباس)

  • سکندرِ اعظم اور میر تقی میر

    سکندرِ اعظم اور میر تقی میر

    سکندر کا نام ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے تاریخِ عالم میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ‘سکندرِ اعظم’ یا ‘الیگزینڈر دی گریٹ’ کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ اس نے نوجوانی ہی میں لگ بھگ آدھی دنیا فتح کر لی تھی اور زندگی وفا کرتی تو شاید وہ پوری دنیا کا فاتح بن جاتا۔

    شاید آپ نے بھی کسی کو اس کی مسلسل اور شان دار کام یابیوں پر مبارک باد دیتے ہوئے ‘مقدّر کا سکندر’ کہا ہو، لیکن سکندرِ اعظم جیسا خوش بخت تاریخ میں‌ شاذ ہی ملے گا۔ سکندر نے کئی جنگیں لڑیں۔ تاریخ‌ میں اس کے ایسے کئی کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے جنھیں عظیم اور بے مثال کہا جاسکتا ہے۔

    محققین نے لکھا ہے کہ وہ میسیڈونیا (مقدونیہ) کے شاہی خاندان کا فرد تھا جس نے 356 قبلِ مسیح میں جنم لیا۔ بہت کم عرصے میں اس کی حکومت یورپ سے لے کر ایشیا تک پھیل گئی تھی۔ سکندرِ اعظم کی سلطنت یونان سے لے کر ترکی، شام، مصر، ایران، عراق اور ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔

    فارس کی فتح کے بعد سکندر نے ہندوستان کا راستہ دیکھا، جہاں راجہ پورس اس کے مقابلے پر آیا، لیکن کہتے ہیں‌ کہ سکندر نے اسے شکست دینے کے باوجود اس لیے بخش دیا کہ وہ ایک جواں مرد اور جری و بہادر تھا۔ ہندوستان میں سکندر کی آمد اور یہاں مختلف علاقوں سے ہوکر دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کی فوج سے لڑائی اور فتح کا ذکر بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ یونانی مؤرخین جن میں آرین، اسٹربیو اور دوسرے شامل ہیں، اس بات پر متّفق ہیں کہ سکندر 626 قبلِ مسیح میں ٹیکسلا سے ہوتا ہوا دریائے جہلم کے کنارے پہنچا تھا۔ یہاں کا علاقہ راجہ پورس کے زیرِ نگیں تھا۔ راجہ پورس کی ریاست کوئی بڑی ریاست نہیں تھی۔ پورس نے سکندر کی اطاعت قبول نہ کی تو مقابلہ شروع ہو گیا۔ پورس کی فوج نے یونانیوں کو دریا کے دوسری جانب روکے رکھنے کی کوشش کی، مگر ایسا نہ ہوسکا اور پورس کی فوج کو شکست ہوگئی۔

    سکندرِ اعظم کی عظمت کا ترانہ تو شاید رہتی دنیا تک پڑھا جائے گا، اور اردو کے ایک عظیم شاعر میر تقی میر نے بھی اپنے اشعار میں‌ اس کی شان و شوکت کا ذکر کیا ہے، لیکن ساتھ ہی اُس حقیقت کو ہمارے سامنے رکھ دیا ہے، جسے ہر دور کا حاکم، صاحبِ اختیار، اور دولت مند فراموش کیے رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک دن اس کا وجود خاک میں مل جاتا ہے۔ میر تقی میر کے اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    صاحبِ جاہ وشوکت و اقبال
    اک اذاں جملہ اب سکندر تھا

    تھی یہ سب کائنات زیرِ نگیں
    ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا

    لعل و یاقوت ، ہم زر و گوہر
    چاہیے جس قدر، میسر تھا

    آخرِ کار جب جہاں سے گیا
    ہاتھ خالی، کفن سے باہر تھا

  • غریبُ الوطن میرؔ، جن کے حلیے کا لکھنؤ میں‌ مذاق اڑایا گیا

    غریبُ الوطن میرؔ، جن کے حلیے کا لکھنؤ میں‌ مذاق اڑایا گیا

    میر جب تک دلّی میں رہے شاہی دربار سے بھی کچھ نہ کچھ آتا رہتا تھا، لیکن شاہی دربار کیا، ایک درگاہ رہ گئی تھی جس کا تکیہ دار خود بادشاہ تھا۔ دلّی کے صاحبانِ کمال اس بے یقینی سے دل برداشتہ ہوکر شہر چھوڑے جارہے تھے۔

    استاد الاساتذہ سراجُ الدّین علی خان آرزو لکھنؤ چلے گئے۔ مرزا محمد رفیع سودا کہ سر خیالِ شعرائے شاہ جہاں آباد تھے، لکھنؤ چلے گئے۔ میر سوز بھی لکھنؤ چلے گئے، دلّی اجڑ رہی تھی، لکھنؤ آباد ہو رہا تھا کہ وہاں داخلی اور بیرونی کش مکش نہ تھی۔

    جان و مال کا تحفّظ تھا، در و دیوار سے شعر و نغمہ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ آصفُ الدّولہ کی داد و دہش سے گھر گھر دولت کی گنگا بہہ رہی تھی۔ نئی تراش خراش، نئی وضع، ایک نیا طرزِ احساس، ایک نیا تہذیبی مرکز وجود میں آچکا تھا۔

    سوداؔ کا انتقال ہوا تو آصفُ الدّولہ کو خیال ہوا کہ اگر میر لکھنؤ آجائیں تو لکھنؤ کی شعری حیثیت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ چناں چہ آصفُ الدّولہ کے ایما سے نواب سالار جنگ نے زادِ راہ اور طلبی کا پروانہ بھجوا دیا۔

    میر لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں فرّخ آباد کے نواب نے انھیں صرف چھے دن کے لیے روکنا چاہا، مگر میر ہوائے شوق میں اڑ رہے تھے، رُکے نہیں۔ حُسن افزا منزل کے مشاعرے میں ‘‘ہستی اپنی حباب کی سی ہے۔ یہ نمائش سراب کی سی ہے’’ پڑھ کر آگے بڑھ گئے اور لکھنؤ پہنچے۔

    یہ واقعہ ۱۱۹۶ھ (1782ء) کا ہے۔ میر اس وقت ساٹھ برس کے ہوچکے تھے۔ اور اب یہ راقم آثم کہ اردو ادب کے البیلے انشا پرداز مولوی محمد حسین آزاد کا سوانح نگار بھی ہے اور خوشہ چیں بھی، الفاظ کے رنگ و آہنگ اور تخیل کی تجسیم کے اس باکمال مصور کے نگار خانے کی ایک تصویر آپ کی نذر کرتا ہے اور سلسلۂ سخن کو یوں رونق دیتا ہے کہ ‘‘لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔

    ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستو لیے کا کمر سے بندھا۔ ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کے عرض کے پائنچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخلِ محفل ہوئے تو شہرِ لکھنؤ میں نئے انداز، نئی تراش، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انھیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔

    میر صاحب بے چارے غریبُ الوطن، زمانے کے ہاتھ پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفوِ تقصیر چاہی، صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہوگیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔

    آزاد کے نگار خانے کا ورق ختم ہوا۔ میر صاحب آصفُ الدّولہ کے یہاں حاضر ہوئے۔ آصفُ الدّولہ لطف و کرم سے پیش آئے۔ دو سو روپے ماہ وار وظیفہ مقرر ہوا۔ نواب بہادر جاوید خان کے یہاں بائیس روپے ماہ وار ملتے تھے اور میر صاحب خوش تھے کہ روزگار کی صورت برقرار ہے، اب دو سو ملتے ہیں اور میر صاحب فریاد کرتے ہیں۔

    خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
    وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

    لکھنؤ میں میر صاحب نے عمرِ عزیز کے اکتیس برس گزارے۔ دلّی میں دل کی بربادی کے نوحے تھے، لکھنؤ میں دل اور دلّی دونوں کے مرثیے کہتے رہے:

    لکھنؤ دلّی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
    میر کو سر گشتگی نے بے دل و حیراں کیا

    1810ء کو نوّے برس کی عمر میں میر صاحب کا انتقال ہوا۔

    مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میر
    کیا دوانے نے موت پائی ہے

    (اسلم فرخی کے مضمون سے اقتباس)