Tag: میر تقی میر

  • بیگم لکھنوی کون تھیں؟

    بیگم لکھنوی کون تھیں؟

    علم و ادب کے رسیا اور باذوق قارئین کی اکثریت بھی شاید یہ نہ جانتی ہو خدائے سخن میر تقی میر کی ایک صاحب زادی شعر و شاعری سے نہ صرف شغف رکھتی تھیں بلکہ خود بھی شعر کہتی تھیں، لیکن ان کے کوائف اور حالاتِ زندگی کی طرح ان کے زیادہ کلام دست یاب نہیں ہوسکا‌۔

    یہاں‌ ہم ان کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کے لیے پیش کررہے ہیں۔ اس سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ وہ’بیگم‘ تخلص کرتی تھیں۔ ان کا پورا نام معلوم نہیں‌، لیکن مشہور ہے کہ شادی کے معاً بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا اور فطری امر ہے کہ اس کا میرؔ کو بہت صدمہ ہوا۔

    میر تقی میر نے دوسری شادی لکھنؤ میں کی تھی۔ اس لیے تذکرہ نگاروں نے ان کے نام کے ساتھ لکھنوی لکھا ہے۔ اسی بیگم لکھنوی کو میر کلو عرش کی بہن بتایا گیا ہے جو میر تقی میر کے فرزند تھے اور یہ بھی شاعر تھے۔ انہی کے دیوان کے دیباچے سے بیگم لکھنوی کے چند اشعار ملے ہیں۔

    بیگم لکھنوی کی غزل ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    برسوں غمِ گیسو میں گرفتار تو رکھا
    اب کہتے ہو کیا تم نے مجھے مار تو رکھا

    کچھ بے ادبی اور شب وصل نہیں کی
    ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا

    اتنا بھی غنیمت ہے تجھ طرف سے ظالم
    کھڑکی نہ رکھی روزنِ دیوار تو رکھا

    وہ ذبح کرے یا نہ کرے غم نہیں اس کا
    سر ہم نے تہِ خنجرِ خوں خوار تو رکھا

    اس عشق کی ہمّت کے میں صدقے ہوں کہ بیگمؔ
    ہر وقت مجھے مرنے پہ تیار تو رکھا

  • مشہور شاعر میر تقی میر کی ایک نعت

    مشہور شاعر میر تقی میر کی ایک نعت

    کائنات کا ذرّہ ذرّہ بہارِ عظیم کا منتظر،‌ شجر، حجر، بحر و برّ سبھی ایک نہایت روشن، دمکتی ہوئی ساعت اور مہکتی ہوئی گھڑی کا چرچا سُن رہے ہیں۔

    ہر طرف، ہر سُو اللہ کے محبوب، فخرِ کائنات، رحمتُ للعالمین، سیّدُ الانبیا نبیِ آخر الزّماں حضرت محمد ﷺ کی آمد کا جشن منایا جارہا ہے اور عشقِ رسول سے ہر دل منور و تاباں ہے۔ اس عشق کا وصف یہ ہے کہ وہ اظہار چاہتا ہے اور دنیائے سخن کے میر، جنھیں‌ ہم میر تقی میر کے نام سے جانتے ہیں، انھوں‌ نے بھی بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں‌ اپنی عقیدت اور محبّت کا اظہار کیا ہے جس سے چند منتخب بند ملاحظہ ہوں۔

    کیا سیہ کاری نے منھ کالا کیا
    بات کرنے کا نہیں کچھ منھ رہا
    رحم کر خاکِ مذلت سے اٹھا
    میرے عفوِ جرم کی تخصیص کیا
    رحمۃ لِلعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    دہر زیرِ سایۂ لطفِ عمیم
    خلق سب وابستۂ خلقِ عظیم
    تجھ سے جویائے کرم، عاصم اثیم
    سخت حاجت مند ہیں ہم تو کریم
    رحمۃ للعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    ہو رہے ہیں ہم جو دوزخ کے حطب
    سر پہ یہ اعمال لائے ہیں غضب
    رکھتے ہیں چشمِ عنایت تجھ سے سب
    تجھ سوا کس سے کہیں احوال اب
    رحمۃ لِلعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    نیک و بد تیرے ثنا خوانِ ہمم
    لطف تیرا آرزو بخشِ اُمم
    ملتفت ہو تُو، تو کاہے کا ہے غم
    تُو رحیم اور مستحقِ رحم ہم
    رحمۃ لِلعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    روؤں ہوں شرمِ گنہ سے زار زار
    بے عنایت کچھ نہیں اسلوب کار
    دل کو جب ہوتا ہے آکر اضطرار
    زیرِ لب کہتا ہوں یہ میں بار بار
    رحمۃ لِلعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    سبز برپا ہوگا جب تیرا نشاں
    آفتابِ حشر میں بہرِ اماں
    ہووے گی انواعِ خلقت جمع واں
    کیوں نہ ہو سائے میں اس کے دو جہاں
    رحمۃ للعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

  • دلّی اجڑا تو اہلِ علم نے کس شہر کا رخ کیا؟

    دلّی اجڑا تو اہلِ علم نے کس شہر کا رخ کیا؟

    اردو زبان و ادب کے شائق و شیدا، سنجیدہ اور باذوق قارئین، خاص طور پر ادب کے طالبِ علموں نے "دبستانِ لکھنؤ” کی اصطلاح سن رکھی ہو گی اور اسی طرح لفظ "لکھنویت” سے بھی واقف ہوں گے جو ایک پس منظر رکھتا ہے۔

    دبستانِ لکھنؤ سے ہم شعر و ادب کا وہ رنگ اور انداز مراد لیتے ہیں جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا تھا۔ اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو اور دہلی کی شاعری سے مختلف ہے۔

    دہلی کے حالات بگڑے اور جب لکھنؤ میں اہل ذوق اور شعرا اکٹھے ہوئے تو دیگر مراکزِ علم و ادب کے مقابلے میں دبستانِ لکھنؤ کا چرچا بھی ہونے لگا۔

    ہندوستان میں اس سے پہلے علم و ادب کے لیے دکن اور دہلی بڑے مراکز مانے جاتے تھے، لیکن دہلی میں تاج و تخت کے لیے لڑائی اور وہاں کا امن و سکون غارت ہونے کے بعد اہلِ علم و فضل نے لکھنؤ اور فیض آباد کو اپنی دانش اور سخنوری سے سجایا اور یہاں پر علم و ادب کی محفلوں کو خوب رونق بخشی۔

    میر تقی میر بھی ان شعرا میں شامل ہیں جو حالات بگڑنے پر دہلی چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے تھے۔

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا(شاعری)

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا(شاعری)

    شعرائے متاخرین، ناقدین اور ہر دور میں اردو زبان و ادب کی نادرِ روزگار ہستیوں نے جسے سراہا، جسے ملکِ سخن کا شہنشاہ مانا، وہ میر تقی میر ہیں۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کی ایک مشہور غزل جس کا مطلع اور اکثر پہلا مصرع آج بھی موضوع کی مناسبت سے ہر قول، تقریر، کہانی، قصے، تحریر کا عنوان بنتا ہے اور خوب پڑھا جاتا ہے۔

    یہ غزل باذوق قارئین کے مطالعے کی نذر کی جارہی ہے۔

    غزل
    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

    عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
    یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

    ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

    یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
    رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا

    سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
    کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

  • داد اور دادا!

    داد اور دادا!

    لکھنؤ میں ایک روز میر اور سودا کے کلام پر دو اشخاص میں تکرار ہو گئی۔

    دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے۔ بحث طول پکڑ رہی تھی اور دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا۔ تب دونوں خواجہ باسط کے پاس پہنچے اور اپنا معاملہ ان کے سامنے رکھا۔

    ”اس پر آپ کچھ فرمائیں۔“ انھوں نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔

    ”دونوں صاحبِ کمال ہیں، مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام ’آہ‘ اور مرزا صاحب کا کلام’واہ‘ ہے۔ یہ کہہ کر میر صاحب کا شعر بھی پڑھ ڈالا۔

    سرہانے میر کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    اس کے بعد مرزا کا شعر پڑھا۔

    سودا کی جو بالیں پہ گیا شورِ قیامت
    خدامِ ادب بولے، ابھی آنکھ لگی ہے

    ان میں سے ایک شخص، جو سودا کا طرف دار تھا، ان کے پاس پہنچا اور اپنی تکرار اور خواجہ باسط سے ملاقات کا احوال بھی بیان کر دیا۔ سودا نے جب میر کا شعر سنا تو مسکرائے اور بولے۔

    ”شعر تو میر صاحب کا ہے، مگر داد خواہی ان کے دادا کی معلوم ہوتی ہے۔“

  • جب میر تقی میر نے صمصمام الدّولہ کی تصحیح کی

    جب میر تقی میر نے صمصمام الدّولہ کی تصحیح کی

    صمصام الدّولہ کا اصل نام خواجہ عاصم تھا اور وہ قمر الدّین خاں آصف جاہ اوّل کے دربار سے وابستہ تھے۔ شاعرانہ ذوق بلند اور زبان و بیان نہایت فصیح و شستہ۔ خود بھی فارسی میں کلام کہتے تھے۔

    ایک روز ان کے ایک عزیز نے میر تقی میر سے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میر محمد علی متّقی کے صاحب زادے ہیں۔ میر متّقی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور ان کا مختصر احوال بھی گوش گزار کر دیا۔ صمصام الدّولہ نے انھیں دیکھا اور بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے مجھ پر احسانات تھے۔ لہٰذا، میں میر کے لیے ایک روپیا وظیفہ مقرّر کرتا ہوں۔

    یہ سن کر میر تقی میر نے کہا کہ حضور اس سلسلے میں تحریری حُکم جاری فرما دیں تاکہ کوئی اعتراض نہ کر سکے۔ صمصام الدّولہ نے اس کے جواب میں کہا کہ ‘‘قلم دان کا وقت نہیں ہے۔

    ’’ اس پر میر تقی میر نے تبسّم کیا۔ صمصام الدّولہ سے رہا نہ گیا اور انھوں نے تبسّم کی وجہ دریافت کی۔

    میر نے جواب میں کہا کہ اس کا سبب میرا آپ کی بات دو وجوہ سے نہ سمجھ پانا ہے۔ اوّل یہ کہ اگر آپ یہ فرماتے کہ قلم دان بردار اس وقت حاضر نہیں ہے، تو بات درست تھی۔ دوم یہ کہ آپ فرماتے کہ یہ دست خط کا وقت نہیں ہے، تب بھی درست ہوتا۔ تاہم یہ کہنا کہ وقتِ قلم دان نیست (قلم دان کا وقت نہیں ہے) کچھ انوکھی بات ہے۔ میر نے مزید کہا کہ قلم دان لکڑی کا ہونے کے باعث وقت سے واقف نہیں ہے۔ یہ سن کر صمصام الدّولہ نے خوشی کا اظہار کیا اور میر کی ذہانت کا اعتراف کیا۔

    نواب صاحب سے ملاقات کے وقت ان کے ایک جملے کی تصحیح کے ساتھ میر نے زبان و بیان پر اپنی گرفت کا اظہار کر کے گویا یہ ثابت کیا کہ وہ جس کا وظیفہ مقرر کرچکے ہیں، اس عنایت کے لائق بھی ہے اور کوئی معمولی شخص نہیں ہے۔

    اردو شاعری میں میر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میر تقی میر 1722 میں پیدا ہوئے۔ آگرہ میں ان کے والد علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ کم عمری میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے تھے۔ کہتے ہیں یہیں سے میر کی زندگی میں مصائب و آلام کا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب صاحب اور میر کی ملاقات کے اس دل چسپ تذکرے کے ساتھ اس عظیم شاعر کی ایک غزل بھی آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے
    یہ نمائش سراب کی سی ہے
    نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے
    پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
    بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
    حالت اب اضطراب کی سی ہے
    میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
    اسی خانہ خراب کی سی ہے
    میر ان نیم باز آنکھوں میں
    ساری مستی شراب کی سی ہے