Tag: میر عثمان علی خان

  • سڈنی کاٹن: قیامِ‌ پاکستان کے موقع پر حکومت کی مدد کرنے والا آسٹریلوی ہوا باز

    سڈنی کاٹن: قیامِ‌ پاکستان کے موقع پر حکومت کی مدد کرنے والا آسٹریلوی ہوا باز

    مشہور ہے کہ سڈنی کاٹن نے بطور ہوا باز صرف پانچ گھنٹے تنہا پرواز کرنے کا تجربہ کیا تھا جب اسے فائٹر پائلٹ کا عہدہ دے دیا گیا اور اس نے برطانوی فوج کی جانب سے جنگِ عظیم میں حصّہ لیا۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر پاکستان میں سڈنی کاٹن کا نام بہت سنا گیا۔ وہ ایک مشہور مہم جو، موجد اور جاسوس تھا۔

    سڈنی کاٹن وہ ہوا باز تھا جس نے انتہائی بلندی پر پرواز کا خطرہ مول لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سڈنی کاٹن کو نظام آف حیدرآباد دکن کا شاہی خزانہ یعنی سونا اور بھاری رقم اپنے جہاز میں لاد کر پاکستان لانے کی وجہ سے شہرت ملی تھی۔

    پروفیسر سہیل فاروقی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌، سڈنی کاٹن 1947ء میں پاکستان آیا تو ضرور تھا، بلکہ ایک سے زائد بار آیا تھا مگر پاکستان میں اس کا قیام کبھی بھی چند گھنٹے سے زیاده نہیں رہا۔ دراصل خود میرے لیے بھی سڈنی کاٹن کے پیشے کا تعین کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ بہت سے لوگ اسے پائلٹ بتاتے ہیں، بہت سے لوگوں کے نزدیک وه ایک برطانوی جاسوس تھا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وه اسلحے کا اسمگلر تھا۔ اور کچھ لوگوں کے نزدیک وه ایک شاطر چور تھا۔ اگر وه جاسوس، اسمگلر یا چور تھا بھی تو اس نے یہ تمام کارنامے اپنے ہوائی جہاز کی مدد سے سر انجام دیے تھے، یعنی بنیادی طور پر وه ایک ہوا باز یعنی پائلٹ تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں، دراصل اس شخص نے اپنی جان پر کھیل کر ایک ایسا دلیرانہ فعل انجام دیا کہ اگر وه نہ ہوتا "میرے منہ میں خاک” پاکستان کا وجود اپنے ابتدائی دور میں ہی خطرے میں پڑ جاتا۔

    سڈنی کاٹن سن 1894ء میں آسٹریلیا کے علاقے کوئنز لینڈ میں پیدا ہوا۔ اسے شروع ہی سے ایجادات میں دل چسپی تھی۔ اس نے اپنے لڑکپن میں ہی ایک کار ڈیزائن کی تھی جو خاصی کام یاب ثابت ہوئی۔ اپنی جوانی کی ابتدا میں کاٹن ایک موجد اور انجینیئر کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ اس کی مزید ایجادات ہوا بازی کے مخصوص لباس اور ہوائی جہازوں میں استعمال ہونے والے مختلف النوع اسلحے پر مشتمل ہیں۔ 1915ء میں کاٹن برطانیہ پہنچا جہاں اس نے برطانوی بحریہ میں بحیثیت ہوا باز شمولیت حاصل کی۔ برطانیہ کی حکومت میں آسٹریلیا، انڈیا اور کینیڈا جیسے ممالک بھی شامل تھے۔ اس مضبوط بحریہ میں بہت سے "فائٹر” اور "بومبر” ہوائی جہاز بھی شامل ہوتے تھے۔ بہرحال 16 سالہ نوجوان پائلٹ کاٹن نے برطانوی بحریہ میں شمولیت اختیار کی تو اسے صرف 5 گھنٹے جہاز اڑانے کے تجربے کے بعد جنگ عظیم اوّل کی بھٹی میں جھونک دیا گیا مگر یہ دلیر نوجوان اس بھٹی سے کندن بن کر نکلا۔ جنگ عظیم اوّل کے خاتمے پر سڈنی کاٹن کینیڈا چلا گیا جہاں اس نے طیّارے کی مدد سے فضائی سروے کا پیشہ اختیار کیا۔ 1938ء میں برطانیہ واپس آکر اس نے اپنی ذاتی کمپنی "ایرو فلمز” کے نام سے قائم کی جس کا بنیادی کام تو فضائی سروے کرنا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ کاٹن نے برطانوی سیکرٹ سروس 16-M میں بھی شمولیت اختیار کر لی اور جرمنی اور اٹلی کے خلاف جاسوسی کے محیرالعقول کارنامے سر انجام دیے۔

    سڈنی کاٹن کا شمار طیارے کے ذریعے تصویر کشی کے موجدوں میں ہوتا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران اس کی تصویریں ہزار ہا لوگوں کی زندگیاں محفوظ کرنے کا سبب بنیں۔ یہ کارنامے کاٹن نے لاک ہیڈ 12 طیارے کے زریعے انجام دیے۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو کاٹن نے برطانوی فضائیہ میں شمولیت اختیار کر لی جہاں اس نے اسکواڈرن لیڈر اور ونگ کمانڈر کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل بھی کاٹن کی بہادری اور اس کی خدمات کا معترف تھا۔

    آئیے وقت کی کتاب کے مزید ورق پلٹتے ہیں۔ 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت "پاکستان” کے نام سے اُبھری۔ پاکستان کو تباه کرنے کے لیے سب سے مہلک حملہ پاکستان کی معیشت پر کیا گیا۔ متحده ہندوستان کے خزانے سے جو حصہ ہمیں "معاہدهٔ تقسیم” کے تحت ملنا تھا وه ہندوؤں (سیاست داںوں) نے روک لیا تاکہ پاکستان ادائیگیاں نہ کر سکے اور دیوالیہ ہو جائے۔ شاید ایسا ہو ہی جاتا اگر اس موقع پر نظام حیدر آباد(دکن) پاکستان کی مدد کو نہ آتے۔ حیدرآباد دکّن متحده ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ خوش حالی اور فارغ البالی کا یہ عالم تھا کہ وہاں کے حکمران میر عثمان علی (جنہیں نظام دکن کہا جاتا تھا) کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا۔ نظام دکن اس آڑے وقت میں پاکستان کے کام آئے اور کثیر مقدار میں سونا پاکستان کو تحفتاً پیش کیا۔ مگر مسئلہ تھا اس سونے کو پاکستان پہنچانے کا۔ حیدر آباد دکن اگرچہ آزاد مملکت تھی مگر چاروں طرف سے ہندوستان کی سرزمین سے گھری ہوئی تھی ہندوستان نے اس سونے کی ترسیل کو رکوانے کے لیے نہ صرف یہ کہ زمینی ناکہ بندی کر دی بلکہ اپنی فضائیہ کو بھی متحرک کر دیا تاکہ ہوائی جہاز کے ذریعے بھی یہ سونا پاکستان نہ لے جایا جاسکے۔ اس موقع پر نظام حیدرآباد نے سڈنی کاٹن کی مدد حاصل کی۔ یہ سڈنی کاٹن ہی تھا جس نے تن تنہا ہندستانی فوج اور فضائیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے یہ تمام سونا بحفاظت کراچی پہنچا دیا جو اُس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ یقیناً سڈنی کاٹن نے اس کام کا بھرپور معاوضہ وصول کیا ہو گا لیکن یہ جان جوکھم کا کام تھا جسے کوئی بے حد دلیر بلکہ سر پھرا پائلٹ ہی سر انجام دے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کاٹن کو کراچی اور حیدر آباد دکن درمیان کئی پھیرے لگانے پڑے جو وه رات کی تاریکی میں لگایا کرتا تھا۔ واضح رہے کہ اسے کسی قسم کی Navigation کی سہولت بھی حاصل نہیں تھی بلکہ ہندستانی فوج اور فضائیہ تو اس کی جان کی دشمن کی تھی۔ اُس سونے کے حصول کی بدولت پاکستان اپنے معاشی نظام کو مستحکم کرنے میں کام یاب ہو سکا اور قائد اعظم نے کچھ ہی عرصے بعد اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔

    پاکستان کو تو سونا مل گیا مگر نظام دکن اور سڈنی کاٹن کی کہانی کا ایک باب ابھی باقی ہے۔ پاکستان کی مدد کرنے کی پاداش میں ہندوستان کی متعصب حکومت نظام دکن اور سڈنی کاٹن کے لہو کی پیاسی ہوگئی تھی۔ ہندوستانی حکومت کی سر توڑ کوشش کی وجہ سے برطانیہ کی سول ایوی ایشن کی تنظیم نے ہوا بازی کے اصولوں کو توڑنے، بغیر اجازت ہندستان کی فضائی حدود میں پرواز کرنے اور رات کے وقت بغیر Navigation کی مدد کے جہاز اُڑانے کے جرم میں سڈنی کاٹن کا ہوا بازی کا لائسنس منسوخ کر دیا۔ لیکن چونکہ سڈنی کاٹن جنگ عظیم دوم کا ہیرو تھا اورچرچل اس سے بہت متاثر تھا اس لیے تین ماه بعد ہی اس کا لائسنس بحال کر دیا گیا۔
    سڈنی کاٹن کا تو ہندوستانی حکومت کچھ نہ بگاڑ سکی مگر نظام دکن کو ان کے جرم کی کڑی سزا دی گئی۔ جس دن قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوئیں اس کے اگلے ہی دن ہندوستانی فوج نے موقع کا فائده اٹھاتے ہوئے حیدرآباد دکن پر تین اطراف سے فوج کشی کر دی۔ نظام پر یہ الزام لگایا گیا کہ وه ہندوستان پر حملہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں اور انہوں نے اس کے لیے نہ صرف یہ کہ بہت بڑی فوج تیار کرلی ہے بلکہ بھاری مقدار میں اسلحہ بھی حاصل کرلیا ہے اور یہ مہلک اسلحہ "مشہور اسمگلر” سڈنی کاٹن کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔ حیدرآباد دکّن کی فوج ہندستان کا مقابلہ نہ کر سکی اور اس نے شکست تسلیم کرلی۔

    سڈنی کاٹن 13 فروری 1969ء کو 75 سال کی عمر میں برطانیہ میں‌ انتقال کر گیا۔

  • حیدرآباد دکن:‌ ‘جنوبی ہند کا پاکستان’ جس پر بھارت نے 17 ستمبر کو قبضہ کرلیا

    حیدرآباد دکن:‌ ‘جنوبی ہند کا پاکستان’ جس پر بھارت نے 17 ستمبر کو قبضہ کرلیا

    13 ستمبر 1948 کو بھارت نے حیدرآباد دکن پر پولیس ایکشن کی آڑ لے کر اپنی افواج داخل کردی تھیں جس کے پانچ دن بعد نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے۔ 17 ستمبر کو ہندوستان کی اس مرفّہ الحال ریاست پر بھارت قابض ہو گیا۔

    حیدرآباد دکن ہندوستان میں‌ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ اور وہ ریاست تھی جس میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا۔ سقوطِ دکن پر تحریروں میں اہلِ قلم نے دکن کو ‘جنوبی ہند کا پاکستان’ بھی لکھا ہے۔ اس ریاست میں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں، لیکن اردو کو 19 ویں صدی کے اواخر میں سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔

    میر عثمان علی خان کو نظام حیدر آباد کہا جاتا تھا جو اپنے دور میں دنیا ایک امیر ترین شخص تھے جن کی سخاوت اور فیاضی بھی مشہور تھی۔ نظام کے پاس زر و جواہرات کے میں ایک ایسا ہیرا بھی تھا جس کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اسے پیپر ویٹ کے طور استعمال کرتے تھے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ حیدرآباد پر قبضہ کرنے کے لیے بھارت نے 36 ہزار فوجیوں کو اتارا تھا اور دوسری جانب نظام کے پاس صرف 24 ہزار سپاہی تھے جن میں سے مکمل تربیت یافتہ جوانوں کی تعداد صرف چھے ہزار تھی۔ اس کے علاوہ قاسم رضوی بھی اس ریاست میں تقریباً دو لاکھ رضا کاروں کے کمان دار تھے لیکن یہ سب عام شہری اور غیر تربیت یافتہ لوگ تھے جو صرف نظام کے وفادار اور ریاست کی خودمختاری کے حامی تھے۔

    جنوبی ہند کی اس مسلم ریاست پر بھارتی جارحیت اور انضمام کے اعلان کے ساتھ ہی آصف جاہی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا جس کے بعد نظام کی حیثیت ایک گورنر جیسی ہوگئی جو مکمل طور پر بے اختیار تھا۔ ریاست پر بھارت نے یہ حملہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات کے بعد کیا تھا جو اسے ہندوستان کے قلب میں مکمل طور پر خود مختار اور آزاد مملکت کی حیثیت سے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

    17 ستمبر کو بھارتی جنرل چودھری نے دہلی کو اطلاع دی کہ وہ حیدر آباد پر مکمل طور پر قبضہ کرچکے ہیں اور اب نظام کی فوج یا وفاداروں کی جانب سے مزاحمت کا کوئی امکان نہیں‌ ہے۔ بعد میں ریاست کے ساتویں اور آخری سلطان میر عثمان علی خان کو ریڈیو اسٹیشن پر بھارت سے الحاق کا اعلان کرنا پڑا۔

    حیدرآباد دکن میں چھٹے حکم راں اور آخری تاجدار کے دور کو زریں عہد کہا جاتا ہے جس میں ریاست خوش حال اور ہر مذہب کے لوگ امن کے ساتھ رہتے تھے۔ میر عثمان علی خان علم پرور شخصیت کے طور پر بھی مشہور ہیں اور اکثر انھیں سلطان العلوم بھی لکھا گیا ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ہندوستان کے طول و عرض‌ سے علماء اور قابل شخصیات یہاں مختلف مدارس، اسکولوں اور بالخصوص 1918ء میں میر عثمان علی خان کے حکم پر قائم کی گئی جامعہ عثمانیہ میں‌ مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ اس جامعہ میں ذریعۂ تعلیم اردو تھا۔ اس کے دارالترجمہ میں علما، فضلا نے کئی کتب کے تراجم کیے اور اردو کو ترقی اور ترویج نصیب ہوئی۔

    میر عثمان علی خان وہ شخصیت تھے جنھوں‌ نے کئی مسلم ممالک جن میں عرب سے افریقہ تک کی چھوٹی بڑی ریاستیں‌ شامل ہیں، ان کے والیان کو ضرورت اور تقاضہ کرنے پر نہ صرف مالی امداد دی بلکہ ہر جگہ علمی کام، تعلیمی اور سماجی اداروں کے قیام اور ان کو چلانے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ پاکستان کے قیام کے بعد میر عثمان علی خان نے پاکستان کو 20 کروڑ روپے کی امداد بھی دی تھی۔

  • ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن اور سلطانُ‌ العلوم

    ہندوستان کی مرفّہُ الحال ریاست حیدرآباد دکن دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ رقبہ اور آبادی کی حامل تھی جس کے حکم راں میر عثمان علی خان اپنی ثروت مندی میں ممتاز اور رفاہیتِ‌ عباد کے کاموں کے لیے مشہور تھے۔

    برطانوی راج کے خاتمے پر تمام آزاد ریاستیں پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہو گئی تھیں، لیکن دکن جو مغلوں کے دورِ آخر ہی سے ہندوستان میں‌ خودمختار اور خوش حال ریاست سمجھی جاتی تھی، آخری نظام نے اس کی خود مختار حیثیت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس سلطنتِ آصفیہ پر بھارت نے بزورِ طاقت قبضہ کرلیا اور میر عثمان علی خان اپنی ہی ریاست کے راج پرمکھ بنا دیے گئے۔

    دکن کے نظام میر عثمان علی خان اس زمانے میں‌ دنیا کے چند امیر ترین افراد میں‌ شمار ہوتے تھے۔ تقسیم کے بعد نظام نے خطیر رقم پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے دکن سے یہاں منتقل کی تھی۔ اسی ریاست میں‌ تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور بانیِ پاکستان کے اہم رفیق بہادر یار جنگ نے پرورش پائی اور آگے چل کر شعلہ بیاں مقرر اور زبردست خطیب مشہور ہوئے۔ نواب بہار یار جنگ تحریکِ‌ آزادیٔ ہندوستان کے سپاہی بھی تھے، جن کی ایک تقریر سلطنتِ آصفیہ کی خودمختاری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اس میں انھوں نے دنیا کے کئی ممالک سے دکن کا موازنہ کیا ہے جو بہت معلومات افزا ہے۔

    یہاں ہم بہادر یار جنگ کی تقریر سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی اور خاص طور پر تاریخ کے طالبِ علموں کی معلومات میں اضافہ کریں‌ گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "کسی سلطنت و مملکت کا جب ہم دوسری سلطنت یا مملکت سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس تقابل میں چند ہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ رقبہ مملکت، آبادی، رقبہ آبادی کے لحاظ سے فی مربع میل آبادی کا تناسب، آمدنی، اور اس کے ذرائع و امکانات، تعلیم و شائستگی وغیرہ۔ اور اب بیسویں صدی میں فوجی و جنگی طاقت سب سے زیادہ قابلِ لحاظ چیز بن گئی ہے۔”

    "دنیا کے جغرافیہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس وقت جو ممالک دنیا کی بساط پر سب سے اہم مہروں کا پارٹ ادا کررہے ہیں ان میں بھی اکثروں سے حیدرآباد امتیازاتِ خاص رکھتا ہے۔ جب ہم کسی ملک کی عظمت و بزرگی کا تخیل کرنے لگتے ہیں تو سب سے پہلا اور اہم سوال جو کسی شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کے رقبہ و حکومت کا خیال ہے، آج بھی سلطنتِ برطانیہ کی عظمت سب سے پہلے اس خیال سے پیدا کی جاتی ہے کہ اس کی حدودِ مملکت سے کہیں آفتاب کی روشنی دور نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں بعض ایسے بھی آزاد اور خود مختار ممالک ہیں جن میں سے بعض کا رقبہ حیدرآباد کے کسی صوبے کے برابر بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ آزادی اور خود مختاری کے ان تمام لوازم سے بہرہ اندوز ہیں جو ایک بڑی سے بڑی آزاد سلطنت رکھتی ہے۔ مثلاً یونان کا رقبہ انچاس ہزار مربع میل ہے۔ بلغاریہ کا چالیس ہزار میل، پرتگال کا پینتیس ہزار پانسو، البانیہ کا بیس ہزار، ڈنمارک کا پندرہ ہزار، ہالینڈ کا بارہ ہزار سات سو، بلجیم گیارہ ہزار مربع میل ہے اور ان سب کے مقابلے میں حیدرآباد کا رقبہ اپنی موجودہ حالت میں بیاسی ہزار چھ سو اٹھانوے مربع میل ہے۔ گویا جن آزاد بادشاہوں اور جمہوریتوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے بعض سے دگنا بعض سے چار گنا اور بعض سے چھ بلکہ سات گنا زیادہ ہے۔ لیکن اگر حیدرآباد کے اس موجودہ رقبے میں آپ برار و شمالی سرکار کے رقبے کو بھی شامل کر لیں جو بلاشبہ اور جائز طور پر مملکت حیدرآباد کا ایک جزو ہے تو بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس کا رقبہ مملکتِ یورپ کی درجۂ اوّل کی سلطنتوں، انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی اور ہسپانیہ سے زیادہ نہیں تو ان کے برابر ضرور ہوجائے گا۔”

    دوسری اہم وجہِ امتیاز جو ایک مملکت کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حکومت کے زیرِ سایہ کتنے نفوس انسانی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بعض ایسے ملک بھی دنیا کے نقشے پر ملیں گے جن کا رقبہ اس براعظم کے اس کنارے سے اُس کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آبادی اس میں ویسی ہی ملے گی جیسے ایک صحرائے لق و دق میں سبزہ و گیاہ کا نشان، آبادی کی کمی اور زیادتی کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں۔ اراضی کے بڑے حصے کا بنجر صحرا پہاڑ، اور اسی طرح دوسرے اسباب کی بنا پر ناقابلِ کاشت ہونا۔ مملکتوں کا غلط نظام حکومت اور رعایا کا اس سے مطمئن نہ ہونا، کہیں اقتصادی اور معاشی حالت کی خرابی وغیرہ۔”

    "حیدرآباد کی آبادی گزشتہ مردم شماری کی رو سے بلا شمول صوبہ برار و شمالی سرکار ایک کروڑ چوالیس لاکھ چھتیس ہزار ایک سو پچاس ہے۔ اگر اس کو رقبۂ مملکت پر تقسیم کیا جائے تو فی مربع میل 175 نفوس کا اوسط آتا ہے۔ برخلاف اس کے دنیا میں بہت سے ایسے خود مختار اور آزاد ممالک ملیں گے جن کی آبادی کو حیدرآباد کی آبادی سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس تناسبِ آبادی کی قرارداد میں ہم ان ممالک کو نظر انداز کرتے ہیں جن کے رقبہ سے متعلق اوپر بحث ہوئی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ان کی آبادی بھی رقبہ کے تناسب سے کم ہوگی اور ہے۔ مثلاً یونان جس کی آبادی صرف ستّر لاکھ ہے اور فی مربع میل اس کی آبادی کا اوسط (67) نفوس ہے۔ بلغاریہ جس کی آبادی صرف پچیس لاکھ ہے اور فی مربع میل (137) نفوس ہے۔ البانیہ کی آبادی دس لاکھ اور فی مربع میل (50) نفوس ہے۔ پرتگال کی آبادی چھپن لاکھ اور فی مربع میل (100) نفوس ہے۔”

    "مذکورہ بالا ممالک کی آبادی کے اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ یورپ کے وہ ممالک ہیں جو کہ زرخیزی کے اعتبار سے مشہور اور ہر قسم کے اقتصادی اور معاشی تفوق سے سرفراز ہیں۔ اور ان میں سے اکثروں کی اپنی بندرگاہیں ہیں۔ زراعت، تجارت ، صنعت ، کسبِ معاش کے بیسیوں ذرائع ان کو حاصل ہیں اور ان کا طریقہ حکومت بھی ترقی یافتہ کہاجاسکتا ہے جو باوجود اس کے حیدرآباد کی آبادی اور رقبے کے ساتھ کسی تناسب میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔”

    "اب چند ان ممالک پر بھی نظر ڈالیے جو گورقبہ اراضی حیدرآباد سے دو چند اور بعض صورتوں میں چہار چند رکھتے ہیں لیکن آبادی میں حیدرآباد کے ساتھ ان کو کوئی نسبت نہیں دی جاسکتی۔ مثلاً شہنشاہیتِ ایران جس کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا آٹھ گنا زیادہ ہے یعنی چھے لاکھ تیس ہزار مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ ہے۔ آبادی کا تناسب فی مربع میل صرف (16) نفوس پر مشتمل ہے۔ حکومتِ نجد و حجاز کا رقبہ گو حیدرآباد سے بارہ گنا زیادہ یعنی دس لاکھ مربع میل ہے لیکن آبادی صرف پندرہ لاکھ اور تناسب (ڈیڑھ) کس فی مربع میل ہے۔ عراق کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا دو گنا زیادہ یعنی ڈیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔ لیکن آبادی صرف تیس لاکھ اور تناسب بیس کس فی مربع میل ہے۔ مصر کا رقبہ حیدرآباد سے چار گنا زیادہ یعنی تین لاکھ ترسٹھ ہزار دو سو میل لیکن آبادی تقریباً برابر یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ اور تناسب آبادی (38) ایشائی ترکی کا رقبہ تقریبا پانچ گنا زیادہ یعنی چار لاکھ مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ بیس لاکھ ہے اور تناسب صرف (30)۔ افغانستان کا رقبہ بھی تقریباً تین گنا زیادہ یعنی دو لاکھ پینتالیس ہزار مربع میل ہے۔ لیکن آبادی نصف سے بھی کم یعنی ترسٹھ لاکھ اسی ہزار اور تناسب صرف (26)۔ اب اندازہ کیجیے۔”

    "حیدرآباد اپنی آبادی کے اعتبار سے نہ صرف یورپ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں بلجیم، ہالینڈ، البانیہ، یونان، پرتگال، ڈنمارک، بلغاریہ وغیرہ سے بڑھ کر ہے بلکہ ایشیا کی بڑی بڑی سلطنتوں ایران، ترکیہ، مصر، نجد و حجاز، عراق، افغانستان اور نیپال وغیرہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور تمام تقابلِ برار کو شامل کیے بغیر ہے جو مملکتِ آصفیہ کا ایک زرخیز اور آباد صوبہ ہے۔ اگر اس کو شامل کر لیا جائے تو شاید یورپ کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی حیدرآباد کا آبادی کے معاملے میں مقابلہ نہ کرسکیں۔”

    "آپ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایشیا کے بعض ممالک جو اپنے رقبے میں زیادتی پر ناز کرسکتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔ ان کے رقبۂ مملکت کا بیشتر حصّہ غیر آباد، ویران اور سنسان ہے۔ اگر کوئی شخص ویرانوں، کھنڈروں اور غیر آباد مقاموں میں کھڑا ہو کر رابنسن کروسو کی طرح صدا بلند کرسکتا ہے اور دنیا اس کو ایک باعظمت و جبروت بادشاہ مان سکتی ہے تو پھر غیر آباد ممالک بھی بیشک حیدرآباد کے مقابلے میں اپنا تفوق جتاسکتے ہیں لیکن اگر مملکت کے لیے آبادی شرط ہے اور وہ حیدرآباد کی مناسبت سے ان کے یہاں کچھ بھی نہیں تو ان کو حیدرآباد کے تفوق کو ماننا پڑے گا۔ برخلاف ان ممالک کے جہاں میلوں تک رقبۂ اراضی صحرا یا پہاڑوں کی شکل میں بیکار ہے۔”

    دکن سے متعلق تقریر کے معلومات افزا اقتباسات کے بعد اس ریاست کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے بارے میں جان لیں کہ انھوں نے برصغیر کی اسلامی درس گاہوں، جدید تعلیمی اور سماجی اداروں کی ہر طرح سے سرپرستی اور مالی امداد کی۔ اسی سبب انھیں سلطانُ العلوم بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر آباد دکن کے اس درویش اور سخی حکم راں نے دین و ملّت کے لیے بھی اپنے خزانوں کا منہ کھول کر رکھ دیا اور ایک عاشقِ‌ رسول کی حیثیت سے اور اپنی آخرت کا سامان کرنے کے لیے میر عثمان علی خان نے خطیر رقم سے مسجدِ نبوی اور خانۂ کعبہ میں کاموں کے علاوہ وہاں جنریٹر اور بجلی کی فراہمی کے منصوبے کو انجام تک پہنچایا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن میں ایک ہوٹل، بلڈنگ مدینہ مینشن بنائی اور ایک ٹرسٹ بنایا، جس کی آمدنی مکّہ، مدینہ میں‌ کاموں اور حاجیوں کے اخراجات پورے کرنے پر صرف کی جاتی تھی۔

    میر عثمان علی خان نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کو 20 کروڑ روپے عطیہ دیا تھا، جس سے نئی مملکت کے اخراجات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی گئیں۔

  • ”وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں…“

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد حکومتِ پاکستان نے مجھے یقین دلایا تھا کہ حیدرآباد پر بھارت کے قبضے سے میرا سفارتی رتبہ اور حیثیت متاثر نہیں ہوگی اور تمام مراعات برقرار رہیں گی۔

    نواب زادہ لیاقت علی خاں کو حکومت کی اس یقین دہانی کا شدت سے احساس تھا اور جن دشوار حالات میں، میں اپنے مؤقف کو نباہ رہا تھا، وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے۔

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ریلوے نے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی۔ جب نواب زادہ صاحب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا ”مشتاق! کیا تم اپنی ذمے داری سے دست بردار ہونا چاہتے ہو…؟“ میں نے جواب دیا ”میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب تک حکومتِ پاکستان میرے اسنادِ تقرر کو تسلیم کرتی ہے، میرے لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

    میرے اس جواب پر لیاقت علی خاں نے خود ریلوے والوں سے کہہ کر ملازمت کی پیش کش واپس کرا دی۔ اس کے بعد وہ معمول سے بھی زیادہ میرا خیال کرنے لگے۔ اس کے برخلاف غلام محمد صاحب جن سے حیدر آباد کے معاملات میں مجھ سے براہِ راست تعلق تھا، کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جاؤں۔ چناں چہ انھوں نے خود ہی مجھے مرکزی سیکریٹریٹ میں عہدے کی پیش کش کرا دی، جسے میں نے نواب زادہ علی لیاقت علی خان سے پوچھے کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔

    اس پر غلام محمد صاحب مجھ سے کئی دنوں تک بہت ناراض رہے۔ علاوہ ازیں بعض اعلیٰ عہدے داروں کے روّیے سے یہ تاثر ہونے لگا کہ وہ میری سفارتی پوزیشن کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب تک جہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اب وہاں بے اعتنائی اور بے رخی برتی جانے لگی۔ بعض حضرات موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے تھے، جس سے ان کے دل کی بات ظاہر ہو جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک حیدر آبادی مہاجر کی شادی ایک وزیرِ مملکت کے گھرانے میں طے پائی۔ حیدر آباد کا نمائندہ ہونے کی بنا پر میں برات کا سربراہ تھا۔ جیسے ہی برات دلہن کے گھر داخل ہوئی، ایک بڑے افسر نے خواجہ ناظم الدّین صاحب کو، جو مہمان خصوصی تھے، مخاطب کر کے کہا ”لیجیے جناب اب حیدر آبادی ہماری لڑکیوں کو بھی لے جانے لگے۔“ مجھے یہ مذاق بھونڈا اور بے موقع معلوم ہوا اور میں نے جواباً عرض کیا ”مگر جنابِ عالی، وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ کوئی باہر نہیں جائے گا۔“ مطلب یہ کہ آپ حیدر آبادیوں کے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کو برا کیوں مناتے ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ شرمندہ ہوگیا اور خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس جواب کو بہت سراہا۔

    ان حالات میں نواب زادہ صاحب کی شفقت اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی حمایت کے باوجود میں روز بروز یہ محسوس کرنے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرے مشن میں دل چسپی میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور جو مراعات مجھے شروع سے حاصل تھیں یا قاعدے کے مطابق یا انصاف کی رُو سے مجھے ملنی چاہیے تھیں، ان کے بارے میں ’احتیاط‘ برتی جانے لگی اور جو غلط استدلال میری اسناد کی پیش کشی کے وقت بروئے کار لایا گیا، وہ آہستہ آہستہ میری حاصل شدہ مراعات کو بھی متاثر کرنے لگا۔ مثلاً موٹر پر لگائی جانے والی پلیٹ کا ہی معاملہ تھا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ جو سفارتی مراعات میرے ہم رتبہ سفیر کو نئی دہلی میں حاصل تھیں، جس میں پلیٹ کا امتیازی نشان بھی شامل تھا، مجھے بھی ملنی چاہییں، لیکن اس پر ٹال مٹول ہوتا رہا۔

    (نواب مشتاق احمد خان حیدر آباد دکن کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے تھے جن کی خود نوشت ’کاروانِ حیات‘ کے عنوان سے شایع ہوئی، یہ پارے اسی کتاب سے لیے گئے ہیں)

  • شہزادی نیلوفر کا تذکرہ جنھیں حیدرآباد کا کوہِ نور کہا جاتا تھا

    شہزادی نیلوفر کا تذکرہ جنھیں حیدرآباد کا کوہِ نور کہا جاتا تھا

    شہزادی نیلوفر کی ایک ملازمہ کی موت زچگی کے دوران طبّی سہولیات کی کمی کے سبب ہوئی تھی۔ یہ ان کی پسندیدہ ملازمہ تھی جس کی موت کی خبر سن کر شہزادی کو شدید صدمہ پہنچا تھا۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد شہزادی نیلوفر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ زچگی کے دوران سہولیات کی کمی یا پیچیدگی کی صورت میں مناسب اور ضروری سامان کی عدم دست یابی کی وجہ سے کسی بھی حاملہ عورت یا اس کے بچّہ کی زندگی خطرے سے دوچار نہ ہو۔

    شہزادی نیلوفر فرحت بیگم صاحبہ کی والدہ ترکی کے حکم ران خاندان کی فرد تھیں۔ نیلوفر سلطان عبدالمجید خان کی بھانجی اور سلطان مراد خان مرحوم کی پوتی تھیں۔ شہزادی نے 4 جنوری 1916 کو استنبول کے ایک محل میں آنکھ کھولی۔ دو سال کی عمر میں اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئیں۔ اس زمانے میں مرفّہ الحال ریاست حیدرآباد دکن کے سلطان میر عثمان علی خان اسلامی دنیا میں اپنی سخاوت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ وہ دنیا کے امیر ترین شخص تھے جس نے مقاماتِ مقدسہ کی تزئین و آرائش، تعمیر و مرمّت کے لیے ذاتی دولت بے دریغ خرچ کی۔ نیلوفر کی شادی میر عثمان علی خان کے صاحب زادے سے ہوئی تھی۔

    نیلوفر نے اپنے سسر اور نظامِ دکن میر عثمان علی خان کو اپنی خادمہ کی وفات کی خبر دی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح زچگی کے دوران عورتوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں اور نامناسب طبّی سہولیات کی وجہ سے دکن میں اموات کی شرح بڑھ رہی ہے، جس پر ان کی خواہش ہے کہ کام کیا جانا چاہیے، اس موقع پر شہزادی نے جب جدید اسپتال قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور نظام نے انھیں اجازت دی اور ہر قسم کے تعاون و امداد کا وعدہ کیا، اسی کوشش کے نتیجے میں شہزادی نیلوفر کے نام سے اسپتال کا قیام 1949 میں ممکن ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شہزادی نیلوفر خود لاولد تھیں۔

    1931ء میں شہزادی کا عقد شہزادہ والا شان نواب معظم جاہ بہادر سے ہوا تھا اور 21 سال بعد علیحدگی ہوگئی تھی۔ رخصتی کے بعد شہزادی نیلوفر حیدرآباد دکن آئیں اور یہاں‌ خواتین کی ترقی اور بہبود کے لیے کئی کام کیے جن میں عورتوں کی صحّت، علاج معالجہ اور بچّوں کی نگہداشت کے لیے مراکز کا قیام اور عملہ و سہولیات کی فراہمی بھی شامل ہیں۔

    شہزادی نیلوفر 12 جون 1989 کو پیرس میں‌ وفات پاگئی تھیں۔

  • جذباتیت کے ہاتھوں ’تحریک‘ کا انجام

    جذباتیت کے ہاتھوں ’تحریک‘ کا انجام

    تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد (دکن) کے سلسلے میں ہوا تھا، ویسا شاید ہی اور کسی مسئلے کے بارے میں ہوا ہو۔

    حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔

    اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلے میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات‘ روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔

    حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا ’مجلس اتحاد المسلمین‘، اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔

    اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اُگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعے پر ریاست عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔ ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔

    ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آرہا تھا، خبریں یہ تھیں کہ حیدرآباد میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔

    نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اِسٹل اگریمنٹ کے نام سے ایک سمجھوتا ہوا، جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلے پر سوچ بچار کیا جائے گا۔

    سنا گیا کہ اس سمجھوتے کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا۔۔۔!

    ادھر حیدر اباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک ’نظام‘ پر تُھو تُھو ہونے لگی اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے ’بی بی سی‘ کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔

    اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے، مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔ تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

    جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی، جسے ’پولیس ایکشن‘ کا نام دیا گیا تھا، تو چند جوشیلے رضاکار ٹینکوں کی زد میں آکر کچلے گئے، کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔

    ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم‘ جذبات کی ندی چڑھی ہوئی، جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی، مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے اِکا دُکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد، پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔

    ادھر اور ہی گُل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعے سے سازش کی بو آنے لگی۔

    حیدر آباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتا کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اُکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا۔ حیدر آباد کالونی۔

    (انتظار حسین کے کالم ’زوالِ حیدرآباد کی کہانی‘ سے پارہ)

  • یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    آج ہندوستان کی عظیم اور خوش حال ترین ریاست حیدر آباد دکن کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جنھوں نے اردو کو ریاست کی زبان کا درجہ دیا اور اس کی سرپرستی اور علم و ادب کے فروغ کے لیے اپنے وسائل اور دولت خرچ کی۔

    دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    اردو زبان اور ہندوستان بھر کی عالم فاضل شخصیات، شعرا و ادیب، محقق، ماہرِ لسانیات، لغت نویس، مترجم، معلم الغرض ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ نے دربارِ دکن سے عزؑت و توقیر، انعام و اکرام اور وظائف پائے اور یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن میں مختلف حکومتیں قائم رہیں۔ اس خطے نے قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ دیکھا اور 1724ء میں یہاں آصفیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی اور بعد میں اس خاندان کے فرماں روا نظام دکن کے نام سے مشہور ہوئے۔

    میر محبوب علی خان اسی خاندان کے چھٹے حکم راں تھے۔ وہ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو قبول کیا اور اس کی سرپرستی کی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    بدقسمتی کہیے یا کم علمی کہ آج ہندوستان کی ایک نہایت خوش حال اور مرفہ الحال ریاست کے اس فرماں روا کا ذکر کم ہی ہوتا ہے جس نے اردو کو اپنے دربارِ خاص میں جاودانی اور پائندگی دی تھی۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور فروغ پایا۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی اور اس کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے جس کا ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو زبان تھا۔

    میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو اس عالمِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

  • نام وَر ہندوستانی مؤرخ اور ماہرِ آثار و ثقافت زبیدہ یزدانی کی برسی

    نام وَر ہندوستانی مؤرخ اور ماہرِ آثار و ثقافت زبیدہ یزدانی کی برسی

    نام وَر مؤرخ اور ماہرِ ثقافت زبیدہ یزدانی 11 جون 1996ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔ انھوں نے ہندوستان کی تاریخ پر کتب اور متعدد علمی مضامین لکھے اور پیشہ وَر مؤرخ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زبیدہ یزدانی کا خاص موضوع حیدرآباد دکن تھا جس پر ان کے کام کو سند اور معتبر حوالہ مانا جاتا ہے۔

    27 اپریل 1916ء کو پیدا ہونے والی زبیدہ یزدانی کے والد ڈاکٹر غلام یزدانی بھی ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ہندوستان میں تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے ان کا اہم کردار رہا جب کہ ان کی تصنیف کردہ کتب یادگار اور اہم تاریخی حوالہ ثابت ہوئیں۔ وہ حیدرآباد، دکن میں نظام کے دور میں آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر تھے اور اجنتا اور ایلورا کے غاروں‌ کے تحفظ کے لیے کام کرنے کے علاوہ مختلف مذاہب کے تاریخی معبدوں کی ازسرِ نو تعمیر و مرمت بھی اپنی نگرانی میں کروائی۔ زبیدہ یزدانی نے بھی اپنے والد کی طرح تاریخ و آثار، تہذیب و ثقافت میں دل چسپی لی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، وہ اکسفورڈ میں داخلہ لینے والی اوّلین ایشیائی خواتین میں سے ایک تھیں۔

    زبیدہ یزدانی کی پہلی کتاب "Hyderabad during the Residency of Henry Russell 1811 – 1820” تھی جب کہ دوسری اہم کتاب "The Seventh Nizam: The Fallen Empire” کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ زبیدہ یزدانی سماجی اور تعلیمی کاموں کے لیے بھی مشہور تھیں۔

    حیدرآباد دکن کی تاریخ اور ثقافت کی ماہر زبیدہ یزدانی نے اسی مردم خیز خطّے میں علم و فنون کی آبیاری کے لیے مشہور اور عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے ویمن کالج میں استاد کی حیثیت سے وقت گزارا اور اس دوران اپنا علمی اور تحقیقی کام بھی جاری رکھا۔ انھوں نے 1976ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے شوہر میر یٰسین علی خان کے ساتھ برطانیہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور وہیں انتقال کیا۔

  • حکیم وجاہت حسین اور فیروز دونوں تعلیم سے نابلد تھے!

    حکیم وجاہت حسین اور فیروز دونوں تعلیم سے نابلد تھے!

    فانی صاحب کا ناندیڑ تبادلہ ہو گیا، مگر وہ اس تبادلے سے خوش نہ تھے۔ پھر ان کے ملکی اورغیر ملکی ہونے کا قصہ چلا۔ اس نے انھیں اور بھی مضمحل بنا دیا۔

    آخری صدمہ شریکِ زندگی کی وفات کا پہنچا جس نے ان کی کمر توڑ دی۔ وہ پیکرِ حزن و یاس پہلے ہی تھے، اس صدمے نے انھیں مجسم حُزن و یاس بنا دیا۔

    ان کے دو صاحب زادے تھے۔ حکیم وجاہت حسین اور فیروز۔ دونوں تعلیم سے نابلد تھے۔ یہ صدمہ انھیں اور کھائے جاتا تھا۔

    اسی زمانے میں ان کی شہزادہ نواب معظّم جاہ بہادر متخلص بہ شجیع کے دربار میں رسائی ہوئی۔ صدق جائسی، شاہد، ماہر القادری ان کے دربار سے وابستہ ہو چکے تھے کہ ان کے دربار کی رونق فانی صاحب بنے۔

    نواب معظّم جاہ بہادر رات کے راجا تھے۔ شب کے آٹھ بجے سے رات کے تین بجے تک ان کی محفلیں شعروشاعری اور بذلہ سنجی سے رونق پاتی تھیں۔

    فانی بوڑھے ہو چکے تھے۔ وہ رات کی شب بیداریوں سے زچ آچکے تھے۔ کبھی کبھی رات کی بیداریوں سے تنگ آکر کہتے کہ مقدر میں یہ بھی لکھا تھا۔

    ایک روز میں شام کو ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، قدوسی صاحب خوب آئے۔ میں نے اپنا قطعۂ تاریخِ وفات کہا ہے۔ غالب مرد اور بمرد کی تبدیلی اس میں نہیں ہوگی۔

    میں نے کہا ابھی آپ کو بہت جینا ہے اور اردو ادب کی خدمت کرنی ہے۔ بولے یہ تو ٹھیک ہے، لیکن سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ آپ بھی سن لیجیے اور یاد رکھیے۔

    او از جہاں گزشت کہ آخر خدا نبود
    او آں چناں بزیست تو گوئی خدانداشت
    طغیانِ ناز بیں کہ بلوحِ مزارِ اُو
    ثبت است سالِ رحلتِ فانیؔ خدانداشت

    آخر وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ فانیؔ صاحب بیمار پڑے۔ کئی مرتبہ میں ان کی علالت میں مزاج پُرسی کو گیا۔ پیچش میں مبتلا تھے۔ آخر 1941ء میں اس یگانہ روزگار شاعر نے عالمِ بقا کی راہ اختیار کی۔

    فانی کی تجہیز و تکفین کا انتظام نواب معظّم بہادر کی طرف سے ہوا اور اس گنجینۂ شاعری کو حضرت یوسف صاحب، شریف صاحب کے بیرونی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    (نام وَر ادیب اور مشہور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی کی کتاب میری زندگی کے پچھتر سال سے ایک ورق)

  • میر عثمان علی خان کی فیاضی اور علم پروری

    میر عثمان علی خان کی فیاضی اور علم پروری

    سَرزمینِ دکن پر جامعہ عثمانیہ کا قیام اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان کی فیاضی کا اظہار ہے۔ انھوں نے ایک مقامی زبان کی ترقی و ترویج میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ ان ہی کے لیے مخصوص ہے اور آج وہی زبان ذریعہ تعلیم بنی ہوئی ہے۔

    انھوں نے ترجمے کا شعبہ قائم کیا جہاں اس قدر وسیع کام ہوا کہ دنیا کی ہر زبان کی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا جو غیر معمولی کام ہے۔

    اعلیٰ حضرت سے متعلق بعض لوگوں نے منفی خیالات پیش کیے ہیں جن پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آصف سابع کی شخصیت کا ایک خوب صورت پہلو یہ بھی رہا کہ انھوں نے فضول خرچی سے ہر دم اجتناب کیا اور کفایت شعاری کو اپنا شعار بنا لیا۔

    رکھ رکھاؤ، نفاست، تہذیب اور شائستگی کا وہ عملی نمونہ تھے۔ تعلیمی اداروں کی سرپرستی کرنے کو وہ فرض عین سمجھتے تھے۔

    نظام آرتھوپیڈک اسپتال، جامعہ نظامیہ، حکمت اور طب کو فروغ دینے کے لیے عثمانیہ دوا خانہ، عثمانیہ یونیورسٹی، میڈیسن کی تعلیم کے انتظامات اور دوسرے شعبوں کا قیام ان کی زندگی کے اہم کارنامے ہیں اور آج حیدر آباد دکن میں تعلیم کی جو روشنی نظر آ رہی ہے وہ اعلٰی حضرت ہی کی مرہون منت ہے۔

    قدیم حیدر آباد میں اکثر لوگ فارغ اوقات میں کتب خانے چلے جاتے تھے۔ آصفیہ لائبریری، سالار جنگ لائبریری میں نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ آج بھی ہے۔

    عثمانیہ یونیورسٹی کے کیمپس میں بھی ایک لائبریری اب بھی ہے جہاں بے شمار اہم کتابیں دست یاب ہیں۔

    (حیدر آباد (دکن) کے آخری نظام میر عثمان علی خان کی سخاوت، فیاضی اور علم پروری کے حوالے سے ایک مضمون سے چند پارے)