Tag: میلہ

  • ہیر رانجھا کی لوک داستان سے منسوب 100 سالہ قدیمی میلہ

    ہیر رانجھا کی لوک داستان سے منسوب 100 سالہ قدیمی میلہ

    ویڈیو رپورٹ: نوید فریاد ڈوگر

    رنگ پور میں ہیر رانجھا کی لوک داستان سے منسوب 100 سالہ قدیمی میلہ اب بھی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ ہر سال مارچ میں سجتا ہے۔

    میلے کا رنگین بازار، یہاں آنے والی طرح طرح کی آوازیں، کھیل تماشے اور تفریحی سرگرمیاں آنے والوں کو ماضی میں لے جاتی ہیں، بچوں کے لیے یہ میلہ کسی جادوئی دنیا سے کم نہیں۔ روایتی رقص، کپڑے جوتے، زیورات اور کھانوں کے اسٹالز میلے کی گہما گہمی میں بھرپور حصہ ڈالتے ہیں۔

    میلے میں کار اور ٹرین کا سفر، طرح طرح کے جھولے اور موت کا کنواں سمیت تفریح کے سارے مواقع موجود ہیں، اس میلے کو دیکھنے کے لیے لوگ پورا سال شدت سے انتظار کرتے ہیں۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • سعودی عرب میں پاکستانیوں نے میلہ سجا لیا، غیرملکی بھی پیچھے نہ رہے

    سعودی عرب میں پاکستانیوں نے میلہ سجا لیا، غیرملکی بھی پیچھے نہ رہے

    ریاض: سعودی عرب میں پاکستانیوں نے موسم بہار کی مناسبت سے بسنت میلہ سجایا جس میں مقامی افراد سمیت غیرملکیوں کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی شہر الخبر کی ساحلی پٹی پر سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے ایک خوبصورت سا پتنگ میلہ سجایا، جس میں نہ صرف پتنگ بازی ہوئی بلکہ کھانوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔

    پاکستانیوں کی جانب سے موسم بہار کے موقع پر ہمیشہ اس طرح کا خاص تہوار منایا جاتا ہے جس میں شرکت کے لیے مختلف شہروں سے ناصرف پاکستانی اور مقامی بلکہ غیرملکی بھی شریک ہوتے ہیں، اس اہتمام میں انتظامیہ کا تعاون بھی حاصل رہتا ہے۔

    پاکستان کے مختلف شہروں باالخصوص لاہور میں بسنت بازی پر پابندی ہے جبکہ سعودی عرب کے پاکستانی دل کھول کر پتنگ اڑاتے اور ایک دوسرے کی ڈور کاٹ کر خوب خوشی بھی مناتے ہیں، پاکستانی اپنا یہ شوق پورا کرنے کے لیے کبھی ریاض جبکہ عمومی طور پر الخبر میں مذکورہ میلہ سجاتے ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ 45 سال سے الخبر کی ساحلی پٹی پر اس بسنت میلے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس بار بھی خصوصی طور پر پتنگ بازی کے لیے ڈور، چرخیاں اور مختلف سائز میں رنگ برنگی خوبصورت پتنگوں کا اہتمام کیا گیا۔

    میلے کی 45ویں سالگرہ کی مناسبت سے 45 پونڈ وزنی کیک بھی کاٹا گیا۔

  • برسلز کا چاکلیٹ فیئر

    برسلز کا چاکلیٹ فیئر

    بیلجیئم کے شہر برسلز میں چاکلیٹ کا میلہ سج گیا، چاکلیٹ سے بنے ہوئے لباس اور جوتوں سمیت مختلف اشیا کو نمائش کے لیے پیش کردیا گیا۔

    بیلجیئم کا چھٹا سالانہ چاکلیٹ فیئر برسلز میں شروع ہوگیا جہاں چاکلیٹ کو مختلف انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

    مختلف ماڈلز نے چاکلیٹ سے بنے لباس پہن کر ریمپ پر واک کی، میلے میں چاکلیٹ سے بنے جوتے، ہینڈ بیگز اور زیورات بھی پیش کیے گئے۔

    علاوہ ازیں چاکلیٹ سے بنے کیمرے، ٹوتھ برش اور گیم کنٹرولرز وغیرہ نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔

    چاکلیٹ فیئر میں چاکلیٹ کو مختلف انداز میں پیش کرنے کے لیے دنیا بھر کے سینکڑوں شیفس نے محنت کی۔

    چاکلیٹ کے اس رنگوں بھرے میلے کو دیکھنے کے لیے مقامی افراد اور سیاحوں کی بڑی تعداد فیئر کا رخ کر رہی ہے۔

  • گاجی شاہ: کلہوڑا حکمرانوں کے جرنیل کے مزار پر جنوں کا میلہ

    گاجی شاہ: کلہوڑا حکمرانوں کے جرنیل کے مزار پر جنوں کا میلہ

    رباب کی موسیقی پر اپنے آنچل کو جھٹکا دیتے ہوئے زور زور سے دھمال کرتے ہوئے بلوچی لباس میں وہ لڑکی زور زور سے بولنے لگتی ہے ’اللہ تو ہار اللہ تو ہار‘ اور پھر چاروں اطراف سے کھڑے مرد عورتیں یک آواز اللہ توہار کی گونج میں گم ہوجاتے ہیں۔ (سندھی لفظ اللہ تو ہار کا مطلب ہے اللہ تمہارے سہارے ہے)۔

    یہ منظر پہاڑ کی چوٹی پر قائم مزار کا ہے جہاں پر ہر سو ایسے مناظر ملیں گے۔ دور دراز علاقوں سے آنے والی خواتین دھمال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان خواتین کے ساتھ ان کے رشتے داربھی ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ دھمال کرنے والی خاتون کو جن دھمال کرواتا ہے کیونکہ اس کا جسم جن کے قبضے میں ہے۔

    گنج بخش عرف گاجی شاہ کے مزار پر 3 دن کے میلے کے دوران اس طرح کے ہزاروں لوگ ہر سال آتے ہیں اور وہ ہی لوگ ہر سال اسی مزار پر اس ہی دن آکر دھمال کرتے ہیں۔ ہر سال آنے کا وعدہ ان سے گاجی شاہ کے گدی نشین لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ سال دھمال کرنے نہیں آؤگی تو فقیر (جن) تمہاری گردن توڑ دے گا، اور پھر مزار پر ایک بار دھمال کرنے والے کو ہر سال آنا پڑتا ہے۔

    گاجی شاہ کے میلے پر سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سرائیکی علاقے سے بڑی تعداد میں بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والی وہ خواتین پہنچتی ہیں جو عام طور پر گھروں سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ گاجی شاہ کے میلے پر ان خواتین کے ساتھ ان کے مرد اور دیگر مرد بھی تین دن تک یہاں سخت سردی میں ٹہرتے ہیں۔ جنوں کے قبضے میں صرف خواتین کی ہی نہیں مردوں کی جان بھی ہوتی ہے اور مرد بھی دھمال کرتے ہیں۔

    کراچی سے 300 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع دادو کے پہاڑی خطے میں کیرتھر کے پہاڑی سلسلے کی گود میں واقع ٹنڈو رحیم سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر گاجی شاہ کا مزار ہے اور گاجی شاہ کو ان کی وصیت کے مطابق پہاڑی کی چوٹی پر دفن کیا گیا تھا۔

    راوی بتاتے ہیں کہ گاجی شاہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی لاش کو ان کی اونٹنی پر رکھ کر اونٹنی کو چھوڑدیا جائے، جہاں اونٹنی بیٹھ جائے وہاں تدفین کروائی جائے۔ روایت یہ ہے کہ اونٹنی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گئی جہاں پر اب گاجی شاہ کا مزار ہے۔

    سہ روزہ میلہ مقامی افراد کے لیے تفریحی سامان بھی میسر کرتا ہے۔ ارد گرد کے دیہات اور چھوٹے شہروں سے ہزاروں افراد میلہ گھومنے کے لیے آتے ہیں۔ بچے، بزرگ، نوجوان ہر عمر کے لوگ یہاں آتے ہیں، منتیں مانگنے اور دھمال کرنے والوں کے مقابلے میں تفریح کے لیے آنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

    بارہ فروری سے تین روزہ میلہ جاری ہے، ان تین دنوں کے دوران عارضی بازار لگتے ہیں، ہوٹل کھولے جاتے ہیں، ایک ٹینٹ سٹی بن جاتا ہے اور میلے پر آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس چشمے کو بھی دیکھنے ضرور جاتی ہے جو پہاڑوں کی وسط سے بڑے طمطراق کے ساتھ برق رفتاری سے پانی پھینکتا ہوا گاجی شاہ کے مزار کے سامنے سے بہتا ہے۔

    موسیقی پر گردن ہلا کر زور زور سے دھمال کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ رباب، الغوزہ، اور سرندہ کی موسیقی پر مست ہوجانے کا جواز ان لوگوں کے سامنے بیشک جنوں کی کہانی ہو لیکن نفسیاتی ماہرین اس عمل کو نفسیاتی بیماری تصور کرتے ہیں۔

    نفسیاتی ماہرین ہسٹریا اور دیگر بیماریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس طرح کی دیگر بیماریوں کے شکار لوگ موسیقی پر دھمال کرنے کے بعد خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں اور ایسا تصور کرنے لگتے ہیں کہ اب ان کی بیماری ختم ہوگئی یا ان کی نظر میں اب آسیب یا جن بھاگ گئے، لیکن ضروری نہیں کہ اس طرح کے عمل میں شامل تمام لوگ نفسیاتی مریض بھی ہوں البتہ دھمال کرنے والوں کچھی تعداد ایسی ہوتی ہے۔

    اب سوال یہ کہ آخر گاجی شاہ کون ہیں؟ اور ہزاروں جن ان کے مزار پر کہاں آتے ہیں؟ گنج بخش یا گاجی شاہ سولہویں صدی کا فوجی کمانڈرتھا جنہوں نے سندھ میں کلہوڑا راج سے قبل مقامی افراد کی مزاحمتی تحاریک کو کمانڈ کیا تھا۔

    سولہویں صدی کی یہ تحاریک مغل بادشاہوں کی سلطنت کے خلاف شروع ہوئیں جس میں میاں وال تحریک نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کے بعد مغل بادشاہوں نے سندھ کی حکمرانی مقامی کلہوڑا حکمرانو ں کے حوالے کی تھی۔

    میاں نصیر محمد کلہوڑو کی قیادت میں پہلی لڑائی لڑی گئی تھی جس میں گاجی شاہ نے خدا آباد سے لے دادو ضلع کے پورے پہاڑی خطے میں میاں وال تحریک کی قیادت کی تھی۔ 1696 عیسوی میں میاں نصیر محمد، کلہوڑا دور کا پہلا حکمران بنا۔ اس کے بعد میاں یار محمد کلہوڑو، میاں غلام شاہ اور میاں نور محمد حکمران بنے۔

    تقریباً ایک صدی پر مشتمل کلہوڑا راج کا 1783 عیسوی میں خاتمہ ہوا تھا۔ اس کے بعد نہ صرف کلہوڑا حکمرانوں اور ان کے خلیفوں اور ساتھیوں کے مقبرے بنے، گاجی شاہ کا مقبرہ بھی اسی دور کی علامت ہے لیکن عقیدت مندوں نے گاجی شاہ کو ایک جرنیل اور نڈر کمانڈر سے جنوں کا پیر بنا دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چترال میں بزرگوں کے لیے ایک روزہ تہوار

    چترال میں بزرگوں کے لیے ایک روزہ تہوار

    صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر چترال میں بزرگ شہریوں کی تفریح طبع کی غڑض سے قاقلشٹ کے سر سبز میدان میں سینئر سٹیزن کے نام سے ایک روزہ تہوار منایا گیا۔

    چترال کے بالائی علاقے کروئی جنالی اور بونی کے بزرگ شہریوں کے لیے مقامی تنظیم نے قاقلشٹ کے جنت نظیر میدان میں ایک روزہ تہوار منایا جس میں کثیر تعداد میں علاقے کے بزرگ شہریوں نے شرکت کی اور مختلف روایتی کھیل کھیلے اور روایتی رقص کیا۔

    یہ تنظیم سنہ 2004 سے بزرگ شہریوں کا دن منا رہی ہے اور ان کے لیے تقریبات اور میلے کا اہتمام بھی کرتی ہے۔

    ایک بزرگ شہری حاجی نادر کا کہنا ہے کہ پہلے وہ اپنے بکریوں اور مال مویشیوں کو چراہ گاہ لے جاتے تھے۔ اس خموقع پر ایک جشن منایا جاتا جس میں دودھ سے بنے ہوئے پکوان تیار کر کے مہمانوں کو پیش کیے جاتے، تاہم اب یہ روایت ختم ہورہی ہے۔

    مزید پڑھیں: موسم بہار میں منائے جانے والے تہوار

    اس تنظیم نے بزرگ شہریوں کو صحت مند تفریح فراہم کرنے کے لیے اس تہوار کی روایت شروع کی جو ہر سال موسم سرما کے اختتام پر قاقلشٹ کے اس سر سبز میدان میں منائی جاتی ہے۔

    تہوار میں فٹ بال، کرکٹ، مقامی ہاکی، رسہ کشی، پتھر پھینکنے اور نشانہ بازی کے علاوہ دیگر مختلف روایتی کھیل کھیلے جاتے ہیں جن کا مقصد اس روایتی اور ثقافتی ورثے سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا ہے۔

    ایک مقامی شخص کا کہنا ہے کہ یورپ اور مغربی ممالک میں بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس منتقل کردیا جاتا ہے مگر چترال کی مہذب قوم اپنے بزرگوں کو خوش کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ہر سال یہ جشن مناتی ہے جس میں عید جیسا سماں ہوتا ہے۔ جشن میں چھوٹے، بڑے، جوان اور بچے بھرپور انداز سے شرکت کرتے ہیں اور بے حد لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    تہوار میں کھیلا جانے والا بزرگ شہریوں کا رسہ کشی کا کھیل نہایت دلچسپ ہوتا ہے اور اس میں ایک ٹیم دوسری ٹیم کو شکست دینے کے لیے زور لگانے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی آوازیں بھی نکالتے ہیں تاکہ اپنے ٹیم کے اراکین کی حوصلہ افزائی کریں اور مخالف ٹیم مرعوب ہو۔

    تہوار کے آخر میں کامیاب کھلاڑیوں میں انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔ اس رنگا رنگ تقریب کو دیکھنے کے لیے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

  • پیرس میں گیم کے شوقین افراد کیلئے میلہ سج گیا

    پیرس میں گیم کے شوقین افراد کیلئے میلہ سج گیا

    پیرس میں گیم کے شوقین افراد کیلئے میلہ سج گیا ہے، بچے اور بڑےسب ہی گیم کھیلنے مِیں مگن ہیں۔

    پیرس میں گیم کھیلنے کے شوقین افراد کیلئے رنگا رنگ گیم ویک جاری ہے، رنگا رنگ شو مِیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس گیم بچوں سے لیکر سب کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔

    کوئی پلے اسٹیشن کھیل رہا ہے، تو کوئی تھری ڈی گیمز کی دنیا میں گم نظر آیا، گیم ویک میں گوگل کا تیار تھری ڈی اوکیولس بھی پیش کیا گیا، جسے پہن کر شرکا نے تھری ڈی گیمز کے مزے لئے ۔

    دوسری جانب پیرس میں فیشن کی رنگینیاں عروج پر ہیں، کشتی میں خوبرو ماڈلز نے کیٹ واک کر کے سب کو حیران کردیا۔

    خوشبو وں کے شہر پیرس میں رنگا رنگ فیشن شو کشی میں سجایا گیا،کشتی میں لگی رونق اور دلفریب و دلکش ملبوسات پہنی ماڈلز نے خوب داد وصول کی۔

    فیشن شو میں ماڈلز دیدہ زیب گاون پہن کر اتریں تو شائقین دیکھتے ہی رہ گئے، معروف ڈیزائنر نے فیشن شو میں دلکش اور دیدہ زیب ملبوسات کے ساتھ اسٹائلش جوتوں کی کلیکشن بھی پیش کی جسے خوب سراہا گیا۔