Tag: مینا کماری کی برسی

  • ٹریجڈی کوئین مینا کماری اور ’شیطان بیچارہ‘

    ٹریجڈی کوئین مینا کماری اور ’شیطان بیچارہ‘

    بالی وڈ میں مینا کماری نے 32 سال تک بطور اداکارہ کام کیا اور ہندی سنیما کو متعدد کلاسیکی فلمیں‌ دیں۔ وہ چار سال کی تھیں جب فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئیں۔

    بالی وڈ کی اس اداکارہ کو علم دوست کہا جاتا ہے۔ انھیں مطالعہ کا شوق تھا اور شاعری بھی کرتی تھیں۔ مینا کماری نے فلمی رسائل میں مضامین بھی لکھے جب کہ شاعری میں ان کا تخلص ناز تھا۔

    مینا کماری کو’ٹریجڈی کوئین‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی وجہ اُن کے وہ کردار تھے جو فلمی پردے پر عام ہندوستانی عورت کا دکھ اور اس کی زندگی کے المیوں کو پیش کرتے تھے، جب کہ خود اداکارہ کی زندگی رنج و الم اور محرومیوں‌ کا شکار رہی۔

    "فلمی صحافت” کے عنوان سے وشو ناتھ طاؤس نے اپنی کتاب "ہندوستانی فلموں کے سو سال، کچھ جھلکیاں” میں‌ اس مشہور اداکارہ کو ایک قلم کار کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    مشہور اداکارہ مینا کماری نے اپنے ایک مضمون میں اردو کے فلمی اخبار نویسوں کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیے تھے۔

    "ویکلی ’فلم آرٹ‘ دلّی اور ماہ نامہ ’شمع‘ کے بمبئی میں مقیم خصوصی نمائندے مسٹر راز داں ایم اے کے بارے میں اس نے لکھا کہ وہ ایک گھریلو قسم کے شریف انسان ہیں جو دورانِ گفتگو اِس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ بیگانگی کا احساس تک نہیں رہتا، عام فلم جرنلسٹ جن کم زوریوں کا شکار ہیں وہ اُن سے بہت دور ہیں۔”

    راز داں صاحب نے مینا کماری سے ہفت روزہ ’فلم آرٹ‘ کے لیے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو مینا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس عنوان سے، کس نوعیت کا مضمون تحریر کرے۔ بہرحال اس نے ایک مضمون ’’اور سپنا پورا ہو گیا‘‘ سپردِ قلم کیا اور راز داں کے حوالے کر دیا۔ مضمون شائع ہوا تو قارئین نے اُسے بہت پسند کیا اور بڑی تعداد میں تعریفی خطوط مینا کماری کے پاس پہنچے جن سے حوصلہ پا کر اُس نے بعد میں اردو میں کئی مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیجے۔

    بمبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ کے تحت چھپنے والے ممتاز ہفتہ وار فلمی رسالے ’کہکشاں‘ کے مدیر مسٹر دُکھی پریم نگری کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا کہ وہ سوالات معمول کے مطابق اچھے ڈھنگ سے کرتے ہیں لیکن ایک بار انھوں نے غیر ارادی طور پر کچھ ایسی باتیں چھاپ دیں جن سے ڈائریکٹروں میں موصوفہ کی پوزیشن خراب ہو گئی مگر بعد میں اداکارہ نے اپنی صفائی میں جو بیان جاری کیا اُس سے فضا بالکل صاف ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد دُکھی پریم نگری پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور وہاں انھوں نے کراچی کے مشہور ہفت روزہ فلمی اخبار ’نگار‘ کی ادارت کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیے اور اُسے ملک کا سب سے مقبول فلمی پرچہ بنا دیا۔

    ویکلی ’کہکشاں ‘ سے وابستہ ایک اور فلمی صحافی حسن صحرائی کے بارے میں مینا نے بتایا کہ وہ ایسے انداز سے سوال کرتے ہیں جیسے راشن انسپکٹر راشن کارڈ بناتے وقت عام طور پر پوچھا کرتے ہیں ’’آپ کا نام؟ آپ کے باپ کا نام؟ آپ کا ایڈریس؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود مینا کماری کو حسن صحرائی صاحب سے اور کوئی جھجھک نہیں ہوتی تھی اور وہ اُن کا بڑا احترام کرتی تھی۔

    ساٹھ برس قبل راقم دلّی کے مشہور علمی و ادبی رسالے ’رہنمائے تعلیم‘ کا فلم ایڈیٹر تھا۔ 1954ء میں اس کا خصوصی فلم ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان ہوا تو میں نے مینا کماری سے مضمون بھیجنے کی فرمائش کی۔ اُس نے ’شیطان بیچارہ‘ کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھ کر بھیجا جو شاملِ اشاعت کیا گیا۔ اس میں ابلیس اور جبرئیل کے مابین مذاکرات کے علاوہ کچھ شعر بھی درج تھے۔ اُن دنوں مینا کماری کمال امروہوی کی شریکِ حیات تھی اور ان دونوں کے تعلقات خوش گوار تھے۔

    مینا بنگلور سے شائع ہونے والے ماہانہ اردو فلمی جریدے ’عبرت‘ کی سرپرست تھی جسے جناب کامدار اُلدنی ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ دونوں نے مجھے اپنے پرچے کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا اور میں نے مسوری میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں ’عبرت‘ کی نمائندگی کی تھی۔

  • بالی وڈ کی باکمال اداکارہ کی ایک غزل!

    بالی وڈ کی باکمال اداکارہ کی ایک غزل!

    مینا کماری کو ملکۂ غم کہا جاتا ہے جس کا سبب فلموں میں نبھائے گئے ان کے وہ المیہ اور حزنیہ کردار ہیں‌ جو ان کے کمالِ فن کی یادگار ہیں۔ مہ جبین ان کا اصل نام تھا، لیکن فلم انڈسٹری اور اپنے لاکھوں پرستاروں میں مینا کماری کے نام سے مشہور ہوئیں۔

    اس اداکارہ کی ذاتی زندگی بھی رنج و غم اور دکھوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ ازدواجی سفر میں‌ ناکامی کے بعد کئی پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں‌ کا شکار رہیں جو 1972ء میں ان کے موت کے ساتھ ہی تمام ہوسکیں۔

    قدرت نے ماہ جبین کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ باکمال اداکارہ تو تھی ہیں، ان کی آواز بھی بہت دل نشیں تھیں، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں‌ کہ وہ شاعرہ بھی تھیں۔ مینا کماری کا تخلّص ناز تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ یہاں‌ ہم چار دہائی قبل دنیا سے ناتا توڑ لینے والی مینا کماری کی ایک غزل پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    عیادت ہوتی جاتی ہے، عبادت ہوتی جاتی ہے
    مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے

    تیرے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دَم
    ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے

    یہ کیسی یاس ہے، رونے کی بھی اور مسکرانے کی
    یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے

    کبھی تو خوب صورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
    کسی غم خانہ سے گویا محبّت ہوتی جاتی ہے

    خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
    ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے