Tag: مین بکر پرائز

  • ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

    ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

    مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے پاکستانی ادیب، فکشن نگار انتظار حسین کی خود نوشت "جستجو کیا ہے؟” ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ہندوستان کے کئی سفر کی داستان ہے۔

    اس دوران انھوں نے اپنی بستی کا تفصیلی سفر کیا اور اپنے زمانے کے مشترکہ ہندوستان کی یادداشتوں کی بنیاد پر دو ملکوں کی داستان، اس کی تہذیب اور ان میں بسنے والے ایک جیسے لوگوں کی فکر کے امتزاج سے بنی ایسی مشترک قدروں کو محفوظ کرنے کی سعی کی جنھیں فراموش کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کتاب میں انھوں نے اردو کے آخری داستان گو میر باقر علی کے بارے میں بھی لکھا ہے میر باقر علی کو دہلی کا سحر طراز داستان گو کہا جاتا ہے جنھیں‌ زبان و بیان پر غضب کی قدرت تھی۔ داستان سناتے تو سماں باندھ دیتے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں:

    ان (میر باقر علی) کی داستانِ حیات کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے، یا شاید وہ زندگی ہی اس طور گزری ہے کہ اس کے درجہ بدرجہ زوال کے ساتھ دلّی کا بھی درجہ بدرجہ زوال دیکھتے چلے جائیے۔

    آگے رجواڑوں سے بلاوے آتے تھے۔ کس ٹھسے کے ساتھ وہاں جاتے تھے اور راجوں مہاراجوں کو داستان سناتے تھے۔ وہ دروازہ بند ہوا تو دلّی کے دیوان خانوں میں ساتھ عزّت کے بلائے جاتے۔ رفتہ رفتہ وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ پھر دلّی کے رئیس چھنا مل کے یہاں داستان سنانے پر ملازم ہو گئے۔ ماہوار تنخواہ مبلغ چالیس روپے۔ پھر وہ در بھی بند ہو گیا۔

    اب ایرا غیرا نتھو خیرا جس کی گرہ میں دو روپے ہیں وہ گھر پر میر صاحب کو بلائے اور داستان سن لے۔ پھر بقول شاہد صاحب، ’’جب لوگوں کو دو روپے بھی اکھرنے لگے تو میر صاحب نے گھر پر داستان کی محفل سجانی شروع کر دی۔‘‘ ایک آنے کا ٹکٹ خریدو اور میر باقر علی سے داستان سن لو۔ مگر پھر کیا ہوا۔ دلّی میں بائیسکوپ آگیا۔ دلّی والوں نے داستان سے منھ موڑا اور بائیسکوپ پر ٹوٹ پڑے۔

    انتظار حسین میر باقر علی اور داستان گوئی کے ختم ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

    تب میر صاحب نے داستانیں طاق میں رکھیں اور چھالیاں کتر کتر کے بیچنے لگے۔ پہلے ان کی زبان چلتی تھی، اب ان کا سروطہ(سروتا) چلتا تھا۔ کیا گول گول چھالیا ں کترتے تھے۔ گلی محلہ میں انھیں اس حال میں پھیری لگاتے دیکھ کر کوئی پوچھ بیٹھتا کہ میر صاحب یہ چھالیاں اور آپ، تو جواب دیتے کہ ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں، انھیں وہ آداب یاد دلا رہا ہوں۔‘‘ بس دلّی والوں کو پان کھانے کے آداب سکھاتے سکھاتے ہی دنیا سے گزر گئے۔ داستان گوئی کی روایت نے شاہی درباروں سے آغاز کیا تھا، ایک سروطے پر جاکر وہ ختم ہوئی۔

  • مین بکر پرائز پہلی بار ایک عرب فکشن نگار کے نام

    مین بکر پرائز پہلی بار ایک عرب فکشن نگار کے نام

    لندن: عمان کی جوخہ الحارثی نے ادب کا بین الاقوامی ایوارڈ مین بکر پرائز اپنے نام کر کے تاریخ‌ رقم کر دی.

    تفصیلات کے مطابق عمان کی ادیبہ جوخہ الحارثی پہلی عرب فکشن نگار ہیں، جنھیں اس اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا.

    مین بکر پرائز کے ججز کا کہنا تھا کہ اس ناول میں کہانی بھرپور، مائل کرنے والی اور شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہے۔

    ان کا ناول ’سیلیسٹیل باڈیز‘ ایک خاندان سے تعلق رکھنے والی تین عمانی بہنوں کی زندگیوں اور تبدیلیوں‌ کا کمال مہارت سے احاطہ کرتا ہے.

    ایوارڈ جیتنے کے بعد جوخہ الحارثی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت پر جوش ہیں، زرخیر عرب تہذیب کے لیے ایک دریچہ کھل گیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ آزادی اور محبت جیسی اقدار اور جذبے سے بین الاقوامی قارئین نے تعلق محسوس کیا.

    مزید پڑھیں: ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    جوخہ الحارثی کے اس ایوارڈ یافتہ نام کا ترجمہ امریکی ماہر تعلیم مالین بوتھ نے کیا ہے، جن کے ساتھ وہ انعامی رقم بانٹیں گی۔

    جوخہ الحارثی پہلی عمانی مصنفہ ہیں، جن کی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہوا، اس سے پہلے جوخہ الحارثی تین ناول شایع ہوچکے ہیں.