Tag: میوٹیشن

  • کرونا وائرس سے متعلق سائنس دانوں کا نیا انکشاف

    کرونا وائرس سے متعلق سائنس دانوں کا نیا انکشاف

    ٹیکساس: سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران یہ وائرس زیادہ متعدی ہو گیا ہے، جو پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق طبی ماہرین نے کہا ہے کہ کرونا وائرس پہلے سے زیادہ متعدی ہوگیا ہے، اس کی وجہ جینیاتی تبدیلیاں یا میوٹیشن ہے، اس لیے یہ انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کر رہا ہے۔

    ٹیکساس یونی ورسٹی کی اس تحقیق میں 5 ہزار سے زائد کو وِڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ اس بیماری میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، جنھوں نے اسے ممکنہ طور پر زیادہ متعدی بنا دیا ہے۔

    طبی جریدے جرنل ایم بائیو میں شائع تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی اس تبدیلی کو ڈی 614 جی کہا گیا ہے، یہ تبدیلی اسپائیک پروٹین میں ہوئی ہے جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق وائرس میں اس طرح کی میوٹیشن ایک قدرتی عمل ہے، وبا کی پہلی لہر کے دوران ہیوسٹن کے 71 فی صد مریضوں میں وائرس کی اس قسم کو دریافت کیا گیا تھا جب کہ دوسری لہر میں یہ شرح 99.9 فی صد تک پہنچ گئی ہے، اور یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھنے میں آیا ہے۔

    جولائی میں 28 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر مبنی ایک تحقیق میں کرونا وائرس کی ان اقسام کو دریافت کیا گیا، جن میں ڈی 614 جی میوٹیشن موجود تھی۔برطانیہ میں 25 ہزار سے زائد جینوم سیکونسز پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس میوٹیشن والے وائرسز دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں۔

    ٹیکساس یونی ورسٹی کی اس تحقیق میں لیبارٹری تجربات میں ثابت کیا گیا کہ ایسی ہی ایک تبدیلی سے اسپائیک پروٹین کو انسانوں میں اس اینٹی باڈی پر حملہ آور ہونے کا موقع ملا، جو اس نئے کرونا وائرس کے خلاف مدافعت کے لیے قدرتی طور پر بنتی ہے۔

    دوسری طرف محققین کہتے ہیں کہ اسپائیک پروٹین میں یہ تبدیلی بہت کم اقسام میں ہے اور بظاہر اس سے متاثرہ افراد میں بیماری کی شدت زیادہ سنگین نہیں ہوتی، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ وائرس مسلسل خود کو بدل رہا ہے۔

    جولائی میں ایک امریکی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کرونا وائرس کی نئی قسم پہلے سے زیادہ متعدی ہے مگر یہ پرانی قسم کے مقابلے میں لوگوں میں شدید بیماری پیدا نہیں کرتی۔

  • کرونا وائرس نے جینیاتی نظام میں تبدیلیاں کر کے خود کو مزید طاقت ور کر لیا: انکشاف

    کرونا وائرس نے جینیاتی نظام میں تبدیلیاں کر کے خود کو مزید طاقت ور کر لیا: انکشاف

    فلوریڈا: محققین نے نئے کرونا وائرس کو وِڈ 19 سے متعلق ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس نے جینیاتی نظام میں تبدیلیاں کر کے خود کو مزید طاقت ور بنا لیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست فلوریڈا میں اسکرپرز ریسرچ (Scripps Research) کے محققین نے کہا ہے کہ نیا کرونا وائرس پہلے سے زیادہ متعدی ہو گیا ہے، کو وِڈ نائنٹین نے اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کر لی ہیں جو اسے آسانی سے انسانی خلیات کو متاثر کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے جینیاتی نظام میں ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جن سے وہ مزید طاقت ور ہو گیا ہے، یہ تبدیلیاں وائرس کے اوپری ساخت اسپائک پروٹین میں آئی ہیں، جسے وائرس انسانی خلیات میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    لیبارٹری تجربات کے دوران محققین نے مشاہدہ کیا کہ ایک خاص قسم کی (ڈی 614 جی) میوٹیشن کی وجہ سے کرونا وائرس میں اسپائک یا کانٹے بڑھ گئے ہیں، یہ کانٹے زیادہ مستحکم نظر آئے، محققین نے بتایا کہ اس تبدیلی کی وجہ سے وائرس اب انسانی خلیات میں زیادہ آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ جینیاتی تبدیلیوں کے بعد وائرس زیادہ متعدی ہو جاتے ہیں، یعنی زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکا اور لاطینی امریکی ممالک میں یہ وائرس بڑی تیزی سے پھیلا، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، یعنی ان تبدیلیوں کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے۔

    ریسرچرز نے ابھی یہ بات معلوم نہیں کی ہے کہ تبدیلی کے بعد وائرس زیادہ جان لیوا بنا ہے یا نہیں، تاہم یہ معلوم کیا گیا ہے کہ جنوری کے وسط میں وائرس کے اندر ایک تبدیلی رونما ہوئی تھی جس سے یہ مزید (دس گنا) تیزی سے پھیلنے لگا، یہ تبدیلیاں اب 3 مختلف تجربات میں ثابت ہو گئی ہیں۔

    واضح رہے کہ یورپ اور امریکا میں کرونا وائرس کی جو قسم تیزی سے پھیلی ہے وہ وائرس کی تبدیل شدہ قسم ہے جسے محققین نے ڈی 614 جی کا نام دیا، اس تبدیلی کی وجہ سے وائرس آسانی سے خلیات پر قبضہ جمانے لگا ہے، وائرس کے داخل ہونے سے خلیات وائرل فیکٹریوں میں بدل جاتے ہیں جہاں وائرس کی مزید نقول بننے لگتی ہیں۔

    کرونا وائرس کے مختلف ٹائپ

    ریسرچ کے دوران کو وِڈ 19 کے ایک ہزار سے زائد مکمل جینومز کا مشاہدہ کیا گیا، جینیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر وائرس کو ٹائپ اے، بی اور سی میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں سے ٹائپ اے چمگادڑوں سے پینگولین اور پھر وہاں سے انسانوں میں پہنچا، یہ چینی و امریکی شہریوں میں پایا گیا، اس کا تبدیل شدہ ورژن آسٹریلیا تک پہنچا۔ لیکن دل چسپ بات ہے کہ چینی شہر ووہان میں زیادہ تر کیسز میں یہ ٹائپ اے نظر نہیں آیا۔

    ریسرچرز کے مطابق ووہان کے شہریوں میں زیادتہ تر ٹائپ بی وائرس متحرک تھا، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ٹائپ اے وائرس میں یہاں میوٹیشن یعنی تبدیلی رونما ہوئی اور یہ ٹائپ بی میں بدل گیا۔

    اس کے بعد ٹائپ بی سے ہی ٹائپ سی نے جنم لیا لیکن چین میں اس کے آثار نہیں ملے بلکہ یہ یورپ، جنوبی کوریا، سنگاپور اور ہانک کانگ میں دکھائی دیا۔

    واضح رہے کہ اب تک جمع کیے جانے والے ڈیٹا کے مطابق کرونا وائرس کی وبا 13 ستمبر 2019 سے 7 دسمبر کے درمیان پھیلنا شروع ہوئی، سائنس دان یہ بھی انکشاف کر چکے ہیں کہ اس کا آغاز جیسا کہ کہا جاتا ہے، ووہان سے نہیں ہوا، کیوں کہ وہاں مریضوں میں ٹائپ اے نہیں بلکہ ٹائپ بی وائرس تھا، یعنی تبدیل شدہ قسم۔