Tag: میڈیکل طالبہ

  • نمرتا کے ورثا کی پولیس افسران سے ملاقات، مقدمہ درج کرانے سے انکار

    نمرتا کے ورثا کی پولیس افسران سے ملاقات، مقدمہ درج کرانے سے انکار

    لاڑکانہ: میڈیکل کالج کی طالبہ نمرتا کی لاش کی کیمیائی رپورٹ سامنے آ گئی ہے، لاش سے حاصل نمونوں میں زہریلی دوا کے شواہد نہیں ملے، نمرتا کی ہسٹرو پیتھالوجی رپورٹ چند روز میں آئے گی۔

    تفصیلات کے مطابق نمرتا کے ورثا نے آج ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سے ملاقات کی، انھوں نے اندراج مقدمہ سے انکار کر دیا، ڈی آئی جی نے ورثا کی جانب سے مقدمہ درج نہ کرانے کی تصدیق کر دی۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ نمرتا کی روم میٹس، سائیڈ روم میٹ کے ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کیے گئے، روم میٹس شمونا اور گیتا، نمرتا کے گلے سے دوپٹہ کھولنے والی سخی اپنے پہلے بیان پر قائم ہیں۔

    شمونا اور گیتا نے پولیس کو بیان دیا کہ دروازہ بند ہونے پر چوکیدار کی مدد سے تڑوایا، سخی نے کہا میں نے گلے سے بندھا ٹائٹ دوپٹہ کھولا اور اسپتال لے گئے۔

    یہ بھی پڑھیں:  ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کی لاش، 2 سہیلیوں کے بیانات سامنے آگئے

    ادھر ایس ایس پی مسعود بنگش نے میڈیا کو بتایا کہ نمرتا معاملے کو بہت باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں، اگر یہ قتل ہے تو کن عوامل کی وجہ سے ہوا، کس نے کیا اور کیسے کیا، اگر کوئی اور معاملہ ہے تو اس کے محرکات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

    ایس ایس پی نے کہا 2 سے 3 دن میں موبائل، لیپ ٹاپ فرانزک رپورٹ آ جائے گی، دوپٹے کو فرانزک کے لیے نیشنل لیبارٹری بھیجا گیا ہے، رپورٹ کا انتظار ہے، جیو فرانزک رپورٹ مکمل کر لی گئی، ہاسٹل سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لی ہے۔

    انھوں نے کہا ورثا کی کیس میں دل چسپی نہیں اس کے باوجود تفتیش جاری ہے، نمرتا کیس میں 100 فی صد سے بھی زائد میرٹ ہوگا، جس کردار نے اس میں کوئی زیادتی کی ہوگی بچ نہیں پائے گا۔

  • کراچی: میڈیکل کی طالبہ کی ہلاکت، معمہ حل نہ ہوسکا، واقعہ کئی سوالات چھوڑ گیا

    کراچی: میڈیکل کی طالبہ کی ہلاکت، معمہ حل نہ ہوسکا، واقعہ کئی سوالات چھوڑ گیا

    کراچی: شہر قائد کے علاقے انڈہ موڑ  پر مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والی میڈیکل کی طالبہ نمرہ کی موت کا معمہ حل نہ ہوسکا.

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں پولیس کی بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویہ پھر  عیاں ہوگیا، انڈہ موڑ  پر گولی لگنے سے میڈیکل کی طالب نمرہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

    22 سالہ نمرہ بیگ کو سر میں گولی لگی،  نمرہ کو جناح اسپتال لایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی، البتہ یہ تعین نہیں‌ ہوسکا کہ وہ ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بنی تھی یا پولیس کی فائرنگ کی زد میں آئی.

    عینی شاہدین کے بیانات میں بھی تضاد ہے،کچھ افراد کا کہنا تھا کہ نمرہ ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بنی،  ایک عینی شاہد کا کہنا ہے لوٹ مار کے دوران لڑکی نے شور مچایا تو ڈاکوؤں نے گولی چلادی۔ البتہ مقتولہ کے گھر تعزیت کے لیے آنے والی عینی شاہد خاتون نے اس کا ذمے دار پولیس کی فائرنگ کو قرار دیا۔

    زخمی ہونے کے بعد نمرہ کی فوری موت واقع نہیں ہوئی،  مگر فوری ایمبولینس نہ ملنے کے باعث  اسے درکار طبی امداد نہ مل سکی.

     لڑکی کے ماموں کا کہنا ہے کہ موبائل میں بیٹھے پولیس اہل کار  کہہ رہے تھے کہ بڑی غلطی ہوگئی۔ مبینہ مقابلےمیں زخمی ڈاکو آئی سی یو میں زیر علاج  ہے۔

    ابتدائی تفتیش میں پولیس نے  دعویٰ کیا کہ نمل کو چھوٹے ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ پولیس کےپ اس نائن ایم ایم اور ایس ایم جی دونوں ہتھیار تھے۔

    کیا امل کی قربانی رائیگاں گئی؟


    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں امل بل بھی پاس ہوا تھا، لیکن کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی،  ننھی امل اور مقصود کے بعد نمرہ بھی پولیس کے اناڑی پن اور قانون کے جبر کا شکار ہوگئی۔

    نمرہ کی جان بچائی جاسکتی تھی ،لیکن عباسی شہید اسپتال میں وینٹی لیٹر نہیں تھا،  جناح اسپتال میں لیڈی ایم ایل او نے پوسٹ مارٹم سے انکار کردیا، حالاں کہ قانون موجود ہے۔

    یوں لگتا ہے کہ حکومت اپنے قوانین پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں اور انتظامیہ نے پچھلے واقعات سےکوئی سبق نہیں سیکھا۔

    دوسری طرف حکومتی نمایندے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آئے۔