Tag: می ٹو

  • علی ظفر کے خلاف مہم، عائشہ ظفر اور مہوش اعجاز نے خاموشی توڑ دی

    علی ظفر کے خلاف مہم، عائشہ ظفر اور مہوش اعجاز نے خاموشی توڑ دی

    لاہور: جہاں ایک طرف نامور پاکستانی اداکار اور گلوکار علی ظفر کے خلاف میشا شفیع کی می ٹو کی جھوٹی مہم کا پول کھل گیا ہے وہاں دوسری طرف ان کی اہلیہ عائشہ ظفر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مہوش اعجاز نے بھی خاموشی توڑ دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پرائیڈ آف پرفارمنس علی ظفر کے خلاف ہتھک عزت کی مہم انجام کے قریب پہنچ چکی ہے، ہراسانی کا الزام لگانے والی میشا شفیع کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو گیا ہے کیوں کہ وہ ابھی تک ثبوت پیش نہیں کر سکی ہیں۔

    باخبر سویرا میں علی ظفر کی اہلیہ عائشہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سب ہماری پوری فیملی کے لیے بہت مشکل تھا، میرے والد دل کے مریض ہیں، مجھے ان کی بہت فکر تھی، میں خود بھی ہائی بلڈ پریشر کی مریض ہوں، اگر کوئی حادثہ ہوتا تو اس کے لیے کون ذمہ دار ہوتا۔

    باخبر سویرا کے پروگرام کے بعد میشا شفیع کی حمایت کرنے والے کئی سوشل ایکٹویسٹس کی آنکھیں کھل گئیں، خاتون بلاگر مہوش اعجاز نے بھی علی ظفر کے خلاف ٹویٹ کرنے پر معذرت کی، ایک اور خاتون صوفی نے بھی ہراسانی کے جھوٹے الزامات پر معافی مانگی تھی۔ مہوش اعجاز نے باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میشا شفیع کو میں نے بہت سپورٹ کیا تھا، میری ان سے اور ان کی فیملی سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔

    مہوش نے کہا کہ اس ساری مہم کو جب کچھ عرصہ گزر گیا اور میشا کی جانب سے وہ ثبوت سامنے نہیں آئے جن کے بارے میں وہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس موجود ہیں، تو مجھے شک ہونے لگا، سب سے بڑا سوال جو میرے سامنے اٹھا وہ یہ تھا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر کیوں گئیں، ان کے پاس تو یہاں وکیل بھی تھے۔ جب میں نے علی ظفر سے معافی مانگی تو میرے خلاف بھی تنظیمیں کھڑی ہو گئیں۔

    واضح رہے کہ میشا شفیع کو می ٹو مہم کا غلط استعمال مہنگا پڑ گیا ہے، علی ظفر کے خلاف عدالت میں کیس ہارنے کے بعد اب ایف آئی اے سائبر کرائم نے بھی میشا شفیع اینڈ کمپنی کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا۔ گلوکار اور اداکار علی ظفر کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ڈھائی سالہ تحقیقات کے بعد 9 ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی۔

    ملزمان میں علی گل پیر، عفت عمر، فریحہ ایوب، لینا غنی، حمنہ رضا، ماہم اور فیضان رضا شامل ہیں۔

    ایف آئی کی جانب سے ملزمان کو دفاع کے تین سے زائد مواقع فراہم کیے گئے، ایف آئی آر کے متن کے مطابق میشا شفیع اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ یا ثبوت پیش نہ کر سکیں، ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے می ٹو مہم کو بھی نقصان پہنچا۔

    گزشتہ سال باخبر سویرا کے پروگرام میں علی ظفر نے کہا تھا کہ ان کے خلاف الزام سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ لگایا گیا ہے، اس سازش میں میشا شفیع، اس کی دوست اور وکیل شامل ہیں۔ علی ظفر پر ہراسگی الزامات اور می ٹو مہم چلانے کے لیے بے شمار جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے، ان اکاؤنٹس کے ذریعے علی ظفر اور ان کی فیملی کے خلاف نازیبا الفاظ اور تصاویر شایع کی گئیں۔

    علی ظفر کو ‘بدنام کرنے کی سازش’ کرنے کا مقدمہ درج، میشا شفیع اور عفت عمر نامزد

    باخبر سویرا میں علی ظفر کی اہلیہ عائشہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سب ہماری پوری فیملی کے لیے بہت مشکل تھا، میرے والد دل کے مریض ہیں، مجھے ان کی بہت فکر تھی، میں خود بھی ہائی بلڈ پریشر کی مریض ہوں، اگر کوئی حادثہ ہوتا تو اس کے لیے کون ذمہ دار ہوتا۔

    یہ سارے فیک اکاؤنٹس اس وقت اچانک ختم کر دیے گئے جب علی ظفر نے ایف آئی اے میں شکایت درج کرائی، باخبر سویرا کے پروگرام کے بعد میشا شفیع کی حمایت کرنے والے کئی سوشل ایکٹویسٹس کی آنکھیں کھل گئیں، خاتون بلاگر مہوش اعجاز نے علی ظفر کے خلاف ٹویٹ کرنے پر معذرت کی، ایک اور خاتون صوفی نے بھی ہراسانی کے جھوٹے الزامات پر معافی مانگی تھی۔

    گلوکارہ میشا شفیع نے 2 سال قبل علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا، جب کہ علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ الزمات ملٹی نیشنل کمپنی کے میگا کنٹریکٹ سے نکلوانے کے لیے لگائے گئے، میشا نے دھمکی بھی دی تھی جس کے بعد منظم سازش کے ذریعے می ٹو مہم چلائی گئی، 19 اپریل 2018 کو میشا نے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا، یہ کیس عدالت میں وہ ہار چکی ہیں۔

  • می ٹو مہم کے بعد امریکی مردوں نے خواتین سے گریز شروع کردیا

    می ٹو مہم کے بعد امریکی مردوں نے خواتین سے گریز شروع کردیا

    نیویارک: امریکا میں حال ہی میں کیے گئے سروے میں انکشاف ہوا کہ می ٹو مہم کے بعد مردوں نے ہم پیشہ خواتین کے ساتھ وقت گزارنے سے گریز شروع کردیا ہے۔

    سروے کرنے والی آن لائن تنظیم سروے منکی کے مطابق امریکا میں اب دو تہائی مرد براہ راست کسی خاتون کے ساتھ کام کرنے کو پریشان کن سمجھتے ہیں۔

    5 ہزار بالغ امریکی افراد سے کیے گئے اس سروے میں 36 فیصد افراد نے کہا کہ وہ خواتین سے ملنے جلنے سے گریز کرتے ہیں کہ پتہ نہیں وہ اسے کیا سمجھ لیں۔ اسی طرح سینئر افراد بھی اپنی جونیئر ہم پیشہ خواتین کے ساتھ وقت گزارنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔

    سروے کے مطابق خواتین پیشہ ورانہ تعلقات کھو رہی ہیں جس سے ان کی ترقی نہیں ہو پاتی۔ سروے میں بین الاقوامی ادارے لین ان کی صدر ریچل تھامس کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مرد یہ نہیں جانتے کہ دوری اختیار کرنے سے خواتین کے لیے مواقعوں میں کمی آرہی ہے۔

    ریچل کے مطابق یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ ہم غلط سمت میں جا رہے ہیں، وہ بھی ایسے وقت میں جب خواتین کے لیے برابری کے حقوق حاصل کرنا انتہائی حساس معاملہ بن چکا ہے۔

    واضح رہے کہ ہالی ووڈ سے شروع ہونے والی می ٹو مہم میں خواتین نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اور جنسی ہراساں کیے جانے کی کہانیاں شیئر کی تھیں جس کے نتیجے میں متعدد معروف افراد کو اپنے بڑے بڑے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور انہیں مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

    می ٹو بحث کے بعد خواتین کے لیے یکساں تنخواہوں اور نمائندگی کے بارے میں بھی گفتگو کی گئی۔

  • علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا

    علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا

    کراچی: معروف پاکستانی گلوکار اور اداکار علی ظفر نے میشا شفیع پر ایک ارب روپے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گلوکار علی ظفر کے وکیل نے میشا شفیع کے خلاف لاہور سیشن کوٹ میں ایک ارب روپے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل پر ہراسگی کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگایا گیا‘۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ میشا شفیع نے سستی شہرت کے لیے علی ظفر پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے اور لیگل نوٹس کے باوجود معافی نہیں مانگی لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ وہ خاتون گلوکارہ کو 1 ارب ہرجانہ ادا کرنے کا حکم جاری کرے۔

    مزید پڑھیں: گلوکارہ میشا شفیع اورعلی ظفر تنازع میں‌ نیا موڑ‌ سامنے آگیا

    واضح رہے کہ رواں برس اپریل میں گلوکارہ میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ علی ظفر نے انہیں ایک زائد بار جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔

    علی ظفر نے ان الزامات پر میشا شفیع کو قانونی نوٹس بھیجا تھا جس کے مطابق میشا شفیع ان پر لگائے گئے الزامات واپس لیں ورنہ وہ ان پر 100 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیں گے۔

    میشا شفیع کے وکیل بیرسٹرمحمد احمد پنسوٹا نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نوٹس موصول ہوگیا ہے ہم جائزہ لے رہے ہیں، میشا کی جانب سے علی ظفر پر لگائے گئے تمام الزامات سچ پر مبنی ہے۔

    اسے بھی پڑھیں: علی ظفر کا میشا شفیع کو لیگل نوٹس، معافی مانگنے کا مطالبہ

    گلوکارہ نے ہراسانی کے معاملے پر بیرسٹرمحمد احمد پنسوٹا اور خواتین کے حقوق کی وکیل نگہت داد کےذریعے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    چند دن قبل ہالی ووڈ کے معروف فلم پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر بالی ووڈ کی کئی اداکاروں نے یکے بعد دیگرے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جس نے ہالی ووڈ انڈسٹری سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔

    معروف ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی سمیت اب تک ہالی ووڈ کی 20 سے زائد اداکارؤں نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ اپنے کیرئیر کے ابتدائی دور میں تھیں تب ہاروی نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی، 2 اداکاراؤں نے ہاروی پر ریپ کا الزام بھی لگایا۔

    اداکاراؤں کے ان الزامات کے بعد امریکا اور برطانیہ کے تمام تحقیقاتی ادارے متحرک ہوگئے اور ہاروی وائنسٹن کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئیں۔

    ہاروی نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک فلم ساز ادارہ ’میرا مکس فلمز‘ بنایا تھا، اس ادارے نے ہاروی سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا، جبکہ اس کے نام پر بنے دوسرے ادارے ’دی وائنسٹن‘ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی اسے برطرف کر دیا ہے۔

    یہی نہیں بلکہ آسکر اور بافٹا ایوارڈز کی تنظیموں نے بھی اپنی جیوری سے ہاروی کی رکنیت معطل کر دی ہے۔

    جنسی ہراسمنٹ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کا آغاز ہوگیا جس کے تحت دنیا بھر کی خواتین نے آواز اٹھائی کہ وہ زندگی میں کس مرحلے پر جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنیں۔

    یہ ہیش ٹیگ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بے حد مقبول ہوا اور بھارتی اداکارہ ودیا بالن اور ریچا چڈھا سمیت متعدد خواتین نے اس معاملے پر آواز اٹھائی کہ انہیں کس عمر میں، کن حالات میں اور کس طرح جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا گیا۔

    تاہم پاکستان میں اس مہم کو اتنی پذیرائی نہ مل سکی۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ آسکر ایوارڈ یافتہ فلمساز شرمین عبید چنائے کی کچھ متنازعہ ٹوئٹس نے معاملے کو ایک اور رنگ دے دیا اور ہراسمنٹ کا لفظ ہر مرد و خواتین کے منہ سے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں سنا جانے لگا جس نے اس معاملے کی حساسیت کو کم کردیا۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف شعبہ جات کی چند خواتین سے رابطہ کیا اور ان سے ان کے کیریئر میں ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کے تجربات کے بارے میں پوچھا۔

    عافیہ سلام ۔ صحافی / سماجی کارکن

    مختلف سماجی اداروں سے منسلک عافیہ سلام اس بارے میں کہتی ہیں کہ پاکستان میں دراصل جنسی ہراسمنٹ کا مطلب غلط لیا جاتا ہے۔ ’جب آپ خود کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ انتہا پر پہنچ کر سوچتے ہیں کہ آپ کے ساتھ جسمانی طور چھیڑ چھاڑ یا زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے‘۔

    شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی خواتین کی اکثریت نے اس معاملے میں اپنی آواز اٹھانے سے گریز کیا۔ بقول عافیہ سلام کے، جب انہوں نے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا تو ان کی اپنی بیٹی نے پریشان ہو کر ان سے پوچھا، ’یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ کیا واقعی آپ کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے‘۔

    تب عافیہ نے ہراسمنٹ کی صحیح لفظوں میں تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنسی ہراساں کرنے کا مطلب جنسی زیادتی نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’جنسی ہراسمنٹ اور جنسی حملہ دو الگ چیزیں ہیں، جنسی حملہ کرنا تشدد کے زمرے میں آتا ہے جبکہ جنسی طور پر ہراساں ہونا ایک عام بات ہے اور بدقسمتی سے شاید ہی کوئی پاکستانی عورت اس ہراسمنٹ سے محفوظ رہی ہو‘۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ ہر وہ شے جو آپ کو عدم تحفظ کا احساس دے، ہراسمنٹ ہے۔ ’اب یہ ہراسمنٹ خواتین کی طرف سے خواتین کے لیے، اور مردوں کی طرف سے مردوں کے لیے بھی ہوسکتی ہے، لیکن جب جنس مخالف کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ جنسی ہراسمنٹ کہلاتی ہے‘۔

    انہوں نے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عمر کے اس حصے میں جب زندگی اپنی تمام تر آسائشوں سے بھرپور سے ہے، ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ ’نوجوانی میں کالج، یونیورسٹی کے لیے بسوں میں لٹک کر بھی سفر کیا ہے، بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر بسوں کا انتظار بھی کیا ہے، اس وقت اندازہ ہوتا تھا کہ عورت ہونا کتنا مشکل ہے‘۔

    باہر نکلنے والی خواتین کو گھورے جانا بھی نہایت پریشان کرتا ہے۔ اس بارے میں عافیہ کا کہنا تھا، ’خواتین کو گھورنے کے لیے تو شکل و صورت، اور عمر کی کوئی قید نہیں۔ پاکستان میں شعوری یا لا شعوری طور پر خواتین کو گھورے جانا بدقسمتی سے ایک نہایت عام بات بن چکی ہے، لیکن جو اس گھورنے کی ہراسمنٹ کا شکار ہورہی ہوتی ہیں کوئی ان سے جا کر پوچھے، ایسے وقت میں دل چاہتا ہے کہ انسان کہیں کسی کمرے میں چھپ کر بیٹھ جائے اور کبھی باہر نہ نکلے‘۔

    خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے

    صوبہ پنجاب، اقوام متحدہ برائے خواتین (یو این ویمن) کے تعاون سے مختلف شہروں کے عوامی مقامات کو خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں چند روز قبل پنجاب حکومت اور یو این وومین کا ایک ایونٹ منعقد ہوا جس میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوشوں کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا گیا۔

    تقریب کے دوران پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف وومین کی چیئرمین فوزیہ وقار نے بتایا، ’ایک بار ایک نو عمر لڑکا مجھے گھور رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تم آخر دیکھ کیا رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا، کچھ خاص نہیں، بس خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے‘۔

    گویا یہ کام نا چاہتے ہوئے لاشعوری طور پر سرزد ہوتا ہے جو خواتین کا باہر نکلنا عذاب بنا دیتا ہے۔

    حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی جہاں خواتین کے بغیر برقعہ اور نقاب کے باہر نکلنے پر پابندی ہے، وہاں بھی لوگ برقع میں ملبوس خواتین کو گھورنے سے باز نہیں آتے۔ کسی انگریز نے اس صورتحال کا مشاہدہ کیا تو اسے بی ایم او ۔ بلیک موونگ آبجیکٹ کا نام دے ڈالا۔

    مرد کا ساتھ ہونا ضروری

    عافیہ سلام نے کہا کہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی بعض اوقات آپ کو باہر نکلنے کے لیے کسی مرد کا ساتھ چاہیئے ہوتا ہے چاہے وہ آپ کا 10 سالہ بھائی ہی کیوں نہ ہو۔

    انہوں نے کہا، ’اکثر لڑکیاں فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جاتی ہیں تاکہ وہ اس سیٹ پر بیٹھے جس کے دوسری طرف کوئی مرد موجود ہو۔ راشن لینے جارہے ہیں تو دکان داروں کی غیر ضروری چھیڑ چھاڑ اور گفتگو سے بچنے کے لیے بھی کسی مرد کا ساتھ ضروری ہے‘۔

    ان کے مطابق وہ تمام حالات جو آپ کو مردوں کی موجودگی میں غیر آرام دہ، غیر محفوظ اور ذہنی طور پر پریشان کرے، ہراسمنٹ کے زمرے میں آتی ہے۔ ’چاہے وہ خاتون کی موجودگی میں مردوں کی آپس میں معنی خیز گفتگو ہو، خاتون سے براہ راست ذو معنی گفتگو ہو، بلا سبب دیکھنا ہو یا بغیر کسی ضرورت کے بات کرنا ہو۔ یہ ہراسمنٹ کا ابتدائی مرحلہ ہے‘۔

    دیگر مرحلوں میں دفاتر میں خواتین کے کاموں میں بلا وجہ مین میخ نکالنا، کسی ذمہ داری کے لیے مردوں کو صرف اس لیے ترجیح دینا کہ ’خواتین کیا کرسکتی ہیں‘، میٹنگز میں خواتین کی بات نہ سننا، اور اس کے بعد براہ راست خاتون کی ذات کو نشانہ بنانا، برا بھلا کہنا، خواتین کو کمتر محسوس کروانا آجاتے ہیں۔

    مزید دیگر مرحلوں میں خواتین ملازمین کا استحصال کرنا، ان کی سہولیات جیسے تنخواہ، تعطیلات وغیرہ میں خلل ڈالنا، انہیں جان بوجھ کر دیر تک دفتر میں بٹھائے رکھنا شامل ہے۔

    عافیہ کا کہنا تھا کہ پہلے کے زمانے اور تھے، پہلے جب دو دوست یا دو بھائی آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا انداز گفتگو اور الفاظ الگ ہوتے ہیں، لیکن اسی وقت ان کے بیچ کوئی خاتون یا ان کی بہن آجاتی تو ان کا انداز گفتگو بالکل مختلف اور تمیز دار ہوجاتا تھا، ’مگر اب یہ صورتحال خال ہی نظر آتی ہے‘۔

    عافیہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب نئی نسل میں لڑکا اور لڑکی میں کوئی تخصیص ہی نہیں رہی، اکثر لڑکیاں بھی اپنے مرد دوستوں یا کولیگز کے ساتھ نامناسب انداز گفتگو اور گالیوں سے بھرپور خراب زبان میں گفتگو کرتی ہیں اور پھر آگے چل کر یہی عادت جنسی ہراسمنٹ کے زمرے میں جا پہنچتی ہے۔

     مرد بھی ہراسمنٹ کا شکار

    عافیہ کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی یہ صورتحال صرف خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آتی بلکہ کم عمر لڑکے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ’اپنے ملازمین، بڑے کزنز، استادوں کی طرف سے لڑکوں کو ہراس کیا جانا بھی عام بات ہے جو ان پر منفی ذہنی اثرات مرتب کرتا ہے جو تاعمر ان کے ساتھ رہتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق ’خواتین تو پھر اس معاملے میں کسی سے مدد لے سکتی ہیں، لڑکے بیچارے تو شرمندگی کے مارے کسی کو بتا ہی نہیں سکتے۔ وہ ساری عمر نہیں بتا پاتے کہ ان کے ساتھ بچپن میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے‘۔

    ڈاکٹر آزادی فتح ۔ استاد

    یونیورسٹی میں باشعور طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہوئے ایک خاتون استاد کو کس قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر آزادی فتح کہتی ہیں کہ اپنے کولیگز کی طرف سے بہت کم ایسی شکایات ہوتی ہیں، تاہم نوجوان طلبا کی جانب سے بے حد ہراسمنٹ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر آزادی جامعہ کراچی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچرر اپنی ذمہ داریاں انجام دے چکی ہیں۔

    ان کے مطابق طالب علموں کی جانب سے بعض اوقات جملے کسے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ پیش آتی ہے جب کوئی طالبہ حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے اسی یونیورسٹی میں بطور معلمہ اپنے فرائض انجام دینے لگتی ہے۔ اب اسے ان لڑکوں کو پڑھانا ہے جو صرف ایک سال قبل تک اس کے کلاس فیلوز یا جونیئرز تھے، تو ایسی صورت میں وہ اپنے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کو درگزر کرنا ہی بہتر سمجھتی ہے۔

    ڈاکٹر آزادی نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے سبب اب استاد اور طالب علم کا تعلق صرف درسگاہ تک محدود نہیں رہا، ’اب سوشل میڈیا پر آپ کے طلبا بھی آپ کے دوست ہیں جو آپ کی تصاویر پر کمنٹس کرتے ہیں اور بعد ازاں اسے کلاس میں بھی بتاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ طالب علم میسجز کر کے پرسنل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز استاد اور مذکورہ شاگرد کے درمیان ایک لکیر کھینچ دیتی ہے اور اب وہ معلمہ اس شاگرد کے ساتھ خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدم تحفظ کا یہ احساس آپ کو خواتین کولیگز کی جانب سے بھی ہوتا ہے جب وہ دیکھتی ہیں کہ آپ پراعتماد ہیں، اور مرد و خواتین کولیگز سے ایک ہی لہجے میں بات کر رہی ہیں، ایسے میں دیگر کولیگز کا کہنا ہوتا ہے، ’کیا بات ہے بہت ہنس ہنس کر باتیں ہورہی ہیں‘۔

    ڈاکٹر آزادی کے مطابق یہ رویہ آپ کو ذہنی طور پر بے سکون کردیتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پاتے۔

    ڈاکٹر سارہ خرم ۔ ڈاکٹر

    اس بارے میں جب ہم نے طب کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر سارہ خرم سے بات کی انہوں نے طب کے شعبے میں موجود کئی اخلاقی اصول و قوانین کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ جب ایک مریض ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتا ہے تو وہ اس کو اپنی تمام تفصیلات دے دیتا ہے۔

    ان کے مطابق ’ایسے کئی کیسز ہوچکے ہیں جب میڈیکل پروفیشنلز نے ان معلومات کا غلط استعمال کیا۔ یہ ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ جب مریض اپنی بیماری و دیگر تمام تفصیلات اپنے طبی ماہر کو بتاتا ہے کہ تو وہ معلومات اس کے پاس امانت ہوتی ہیں۔ مریض اپنے ڈاکٹر کو ان تمام محسوسات و کیفیات سے آگاہ کردیتا ہے جو وہ عموماً کسی سے نہیں کہتا۔ ’اب ڈاکٹر کو مریض کے نجی معاملات پر اخلاقی دسترس حاصل ہوجاتی ہے اور اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ان معلومات کو اپنے پاس راز ہی رکھے‘۔

    اسی طرح انہوں نے کہا کہ جب کوئی خاتون کسی مرد ڈاکٹر یا مرد کسی خاتون ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو ڈاکٹر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں صرف ڈاکٹر ہی بن کر چیک کرے، مرد یا عورت بن کر نہیں۔ یہ اصول اس وقت بے حد ضروری ہے جب آپ مریض کے جسم کو چیک کر رہے ہیں۔

    بینش گل ۔ ایئر ہوسٹس

    اس حوالے سے جب ایک فضائی میزبان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنی ایئرلائن کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ذاتی طور پر جنسی ہراسمنٹ کا تجربہ ہوچکا ہے۔

    ان کے مطابق ایک معاملے کے سلسلے میں انہیں کسی غلطی کا ذمہ دار ٹہرایا گیا تو ان سے اچھوتوں کی طرح برتاؤ کیا جانے لگا۔ دفتر میں کئی مقامات پر ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ معاملہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا۔

    بینش نے بتایا کہ اس شعبے میں آنے والی بعض خواتین ضروت مند بھی ہوتی ہیں جو بحالت مجبوری کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے خواتین عملے کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے ان کے ساتھ مرد عملے کی جانب سے بدسلوکی، اور بدزبانی عام ہے۔

    زینب مواز ۔ مصورہ

    زینب مواز ایک مصورہ ہیں اور مختلف اداروں سے آرٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کے مشہور آرٹ کالج میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔

    اپنے تجربات کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ اس پیشے میں طاقت کا استعمال عام ہے۔ ’بطور ٹیچر مجھ پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ با اثر افراد کے بچوں کو امتحانات میں پاس کروں۔ اس طرح سے ان طلبا کا حق مارا جاتا تھا جو واقعی قابل ہوتے تھے‘۔

    زینب کہتی ہیں کہ ہمارے پاس زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔ وہ ہراسمنٹ سینئرز، جونیئرز اور کولیگز کسی کی بھی جانب سے ہوسکتی ہے۔


    مذکورہ بالا تمام خواتین کی متفقہ رائے تھی کہ ہراسمنٹ اب ایسا موضوع نہیں رہا جس سے آنکھیں چرا لی جائیں۔ اس موضوع پر بات کرنے اور اس سے تحفظ کے بارے میں سوچنے کی ازحد ضرورت ہے۔