Tag: نئی اقسام

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام کے بارے میں ایک اور انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی اقسام کے بارے میں ایک اور انکشاف

    واشنگٹن: حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی نئی قسموں میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو خود کو ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد کرتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی تیزی سے پھیلنے والی اقسام میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو اس وائرس کو بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد کرتی ہیں۔

    امریکا کے اسکریپرز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں جرمنی اور نیدر لینڈز کے ماہرین نے بھی کام کیا تھا اور اس میں میوٹیشنز کے بارے میں اہم تفصیلات کا انکشاف کیا گیا۔

    تحقیق میں اسٹرکچرل بائیولوجی تیکنیکوں کا استمال کر کے جانچ پڑتال کی گئی کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کس طرح وائرس کی اوریجنل قسم اور نئی اقسام کے خلاف کام کرتی ہیں اور ان کے افعال برطانیہ، جنوبی افریقہ، بھارت اور برازیل میں دریافت اقسام کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

    کرونا کی تشویش کا باعث بننے والی اقسام میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117، جنوبی افریقہ میں دریافت قسم بی 1351، برازیل میں دریافت قسم پی 1 اور بھارت میں دریافت قسم بی 1617 شامل ہیں۔

    یہ اقسام ووہان میں پھیلنے والی وائرس کی اوریجنل قسم کے مقابلے میں زیادہ متعدی قرار دی جاتی ہیں اور حالیہ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ان اقسام کے خلاف اوریجنل وائرس سے بیمار ہونے کے بعد یا ویکسی نیشن سے بننے والی اینٹی باڈیز کم مؤثر ہوتی ہیں۔

    ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ یہ نئی اقسام کچھ کیسز میں ویکسی نیشن کے باوجود لوگوں کو بیمار کرسکتی ہیں اور اسی لیے ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ یہ اقسام کس طرح مدافعتی ردعمل سے بچنے کے قابل ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین میں آنے والی 3 میوٹیشنز کے 417 این، ای 484 کے اور این 501 وائے پر توجہ مرکوز کی۔

    اکٹھے یا الگ الگ یہ میوٹیشنز کرونا کی بیشتر نئی اقسام میں دریافت ہوئی ہیں اور یہ سب وائرس کے ریسیپٹر کو جکڑنے والے مقام پر ہیں۔

    محققین نے اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی اور دریافت کیا کہ ان میں سے بیشتر اینٹی باڈیز کی وائرس کو جکڑنے اور اسے ناکارہ بنانے کی صلاحیت کافی حد تک کم ہوجاتی ہے۔

    اسٹرکچرل امیجنگ ٹیکنیکس کو استعمال کر کے ماہرین نے وائرس کے مختلف حصوں کا نقشہ بناکر جانچ پڑتال کی کہ کس طرح میوٹیشنز ان مقامات پر اثر انداز ہوتی ہیں جن کو اینٹی باڈیز جکڑ کر وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی اوریجنل قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کا ردعمل بہت مؤثر ہوتا ہے مگر مخصوص اقسام اس سے بچنے کی اہلیت رکھتی ہیں، چنانچہ بتدریج ویکسینز کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

  • کیا ویکسین کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بھی تحفظ دے سکے گی؟

    کیا ویکسین کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بھی تحفظ دے سکے گی؟

    واشنگٹن: کرونا وائرس کی نئی اقسام نے اب تک بننے والی ویکسینز کی اثر انگیزی پر تحفظات کھڑے کردیے تھے اب حال ہی میں ایک اور تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی اقسام جو امریکی ریاست کیلی فورنیا، ڈنمارک، برطانیہ، جنوبی افریقہ، جاپان اور برازیل میں دریافت ہوئی ہیں، سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ویکسینز ان کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں۔

    حال ہی امریکا میں اس حوالے سے ہونے والی ایک طبی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔

    میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی، میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ برازیل اور جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام فائزر اور موڈرنا کی کووڈ ویکسینز سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کو کم مؤثر بناسکتی ہیں۔

    تحقیق میں ماہرین نے دیکھا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز وائرس کی اصل قسم اور نئی اقسام پر کس حد تک مؤثر طریقے سے کام کرتی ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ جب ہم نے نئی اقسام پر وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی تو دریافت کیا کہ جنوبی افریقی قسم اینٹی باڈیز کے خلاف 20 سے 40 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

    اسی طرح برازیل اور جاپان میں دریافت 2 اقسام پرانی قسم کے مقابلے میں اینٹی باڈیز کے خلاف 5 سے 7 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اینٹی باڈیز وائرس کو سختی سے جکڑ کر انہیں خلیات میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، جس سے بیماری سے تحفظ ملتا ہے۔

    مگر یہ عمل اسی وقت کام کرتا ہے جب اینٹی باڈی کی ساخت وائرس کی ساخت سے مثالی مطابقت رکھتی ہو، اگر وائرس کی اس جگہ کی ساخت مختلف ہو جہاں اینٹی باڈیز منسلک ہوتی ہیں، یعنی کرونا وائرس کا اسپائیک پروٹین، تو اینٹی باڈیز اسے مؤثر طریقے سے شناخت اور ناکارہ بنانے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔

    اسی کے لیے ویکسین کے خلاف وائرس کی مزاحمت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق جنوبی افریقہ کی 3 اقسام ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت کرتی ہیں اور ان سب کے اسپائیک پروٹین کے مخصوص میں ایک جیسی 3 میوٹیشنز موجود ہیں، جو ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ نئی اقسام کی جانب سے اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت قابل تشویش ضرور ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ویکسینز مؤثر نہیں۔

  • کرونا وائرس کے انوکھے کیس نے ماہرین کو پریشان کردیا

    کرونا وائرس کے انوکھے کیس نے ماہرین کو پریشان کردیا

    برازیلیا: برازیل میں 2 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں کرونا وائرس کی 2 اقسام سے ایک ہی وقت میں متاثر ہونے کا انکشاف ہوا ہے، 2 اقسام کا ایک دوسرے سے ملنا وائرس کی نئی اقسام کے بننے کا باعث بنتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برازیل کے سائنسدانوں نے ایسے 2 کیس رپورٹ کیے ہیں جو بیک وقت کرونا وائرس کی 2 مختلف اقسام سے بیمار ہوئے۔ اس تحقیق کے نتائج آن لائن جاری کیے گئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر 2 اقسام سے بیک وقت بیمار ہونے سے بیماری کی شدت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے اور دونوں مریض اسپتال میں جائے بغیر صحت یاب ہوگئے، ویسے تو یہ صرف 2 کیسز ہیں مگر یہ پہلی بار ہے کہ جب کرونا وائرس کی 2 اقسام سے بیک وقت متاثر کیس کو رپورٹ کیا گیا۔

    اس سے قبل سائنس دانوں نے نظام تنفس کے دیگر امراض جیسے انفلوائنزا کی مختلف اقسام سے بیک وقت متاثر ہونے کو ضرور ریکارڈ کیا ہے۔

    متاثر ہونے والے دونوں مریضوں میں کرونا وائرس کی 2 مختلف اقسام کو دریافت کیا گیا تھا جو برازیل میں کافی عرصے سے گردش کر رہی تھیں اور ان کا جینیاتی مواد ایک دوسرے سے مختلف تھا۔

    اس دریافت سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کرونا وائرس بہت تیزی سے نئی میوٹیشنز کو اپنالیتا ہے، کیونکہ کرونا وائرسز اپنے جینیاتی سیکونس میں بڑی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں۔

    جب اس کی 2 اقسام ایک خلیے کو بیک وقت متاثر کرتی ہیں تو وہ ایک دوسرے سے اپنے جینوم کے بڑے حصوں کا تبادلہ کرسکتی ہیں اور ایک مکمل نیا سیکونس تیار کرسکتی ہیں۔

    آسان الفاظ میں 2 اقسام کا ایک دوسرے سے ملنا ہی اس وائرس کی نئی اقسام کے بننے کا باعث بنتا ہے۔

    مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وائرس کی 2 اقسام ایک خلیے کو بیک وقت متاثر کریں، ورنہ ایک فرد متعدد اقسام سے متاثر ہو مگر ان کا آپس میں رابطہ نہ ہو تو نئی قسم بننے کا امکان نہیں ہوگا۔

  • امریکا میں کرونا وائرس کی نئی اقسام دریافت، ماہرین تشویش میں مبتلا

    امریکا میں کرونا وائرس کی نئی اقسام دریافت، ماہرین تشویش میں مبتلا

    واشنگٹن: دنیا بھر میں کرونا وائرس کی نئی اقسام دریافت ہورہی ہیں، امریکا میں حال ہی میں اس وائرس کی 7 نئی اقسام دریافت ہوئی ہیں جس سے ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا میں کرونا وائرس کی 7 نئی اقسام دریافت ہوئی ہیں جس نے سائنسدانوں کو فکرمند کردیا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر زیادہ متعدی ہوسکتی ہیں۔

    حال ہی میں ہونے والی نئی تحقیق میں امریکا میں کرونا وائرس کی 7 نئی اقسام دریافت ہونے کا انکشاف کیا گیا جو مختلف ریاستوں میں نظر آئی ہیں اور ان سب میں ایک میوٹیشن مشترک ہے۔

    لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ سائنس سینٹر کے وائرلوجسٹ جرمی کمیل کا کہنا ہے کہ اس میوٹیشن کے ساتھ خفیہ طور پر کچھ ہورہا ہے۔

    ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ میوٹیشن نئی اقسام کو زیادہ متعدی بنا سکتی ہیں، یا نہیں، مگر وائرس کے جین میں ہونے والی میوٹیشن سے بظاہر اسے انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد ملتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرسز ماحولیاتی ضروریات کے مطابق خود کو بدل سکتے ہیں، مثال کے طور پر ایچ آئی وی اس وقت نمودار ہوا جب متعدد اقسام کے وائرسز بندروں اور بن مانسوں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔

    ڈاکٹر جرمی نے کرونا وائرس کی نئی اقسام کو اس وقت دریافت کیا جب وہ لوزیانا میں کرونا وائرس کے نمونوں کے سیکونس بنا رہے تھے۔

    جنوری 2021 کے اختتام پر انہوں نے متعدد نمونوں میں ایک نئی میوٹیشن کا مشاہدہ کیا، اس میوٹیشن نے کرونا وائرس کی سطح پر موجود پروٹینز یعنی اسپائیک پروٹینز کو بدلا جو 12 سو مالیکولر بلڈنگ بلاکس یا امینو ایسڈز پر مبنی ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان تمام نمونوں میں ایک میوٹیشن نے 677 ویں امینو ایسڈ کو بدلا، تحقیقات کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ میوٹیشن والے تمام وائرسز میں ایک ہی لائنیج ہے۔

    بعد ازاں انہوں نے وائرسز کے جینومز ایک آن لائن ڈیٹا بیس پر اپ لوڈ کیے جس کو دنیا بھر کے سائنسدان استعمال کر رہے ہیں۔

    اگلے دن انہیں نیو میکسیکو یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈیرل ڈومان کی ای میل موصول ہوئی، جن کی ٹیم نے اسی قسم کو اپنی ریاست میں دریافت کیا گیا تھا، جس میں یہی میوٹیشن ہوئی تھی۔ مزید تحقیقات پر ڈاکٹر جرمی اور ان کی ٹیم نے مزید 6 نئی اقسام کو دریافت کیا جن میں وہی میوٹیشن ہوئی تھی۔

    یہ کہنا مشکل ہے کہ میوٹیشن سے یہ اقسام زیادہ متعدی ہوگئی ہیں، بلکہ محققین کے خیال میں ان کے عام ہونے کی وجہ کرسمس کی تعطیلات کے دوران ملک بھر میں کیے جانے والے سفر ہوسکتے ہیں یا ریسٹورنٹس یا کارخانوں میں سپر اسپریڈرز ایونٹس اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔

    تاہم سائنسدان فکرمند ہیں کیونکہ میوٹیشن سے یہ خیال قابل قبول محسوس ہوتا ہے کہ اس سے وائرس کے لیے انسانی خلیات میں داخلہ آسان ہوجاتا ہے۔

  • کرونا وائرس کا شکار افراد سے متعلق حیران کن انکشاف

    کرونا وائرس کا شکار افراد سے متعلق حیران کن انکشاف

    کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کو کچھ عرصے کے لیے کرونا وائرس کے دوبارہ حملے سے تحفظ مل جاتا ہے تاہم اب حال ہی میں ایک انکشاف ہوا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ماضی میں کسی بھی قسم کے کرونا وائرس کا سامنا مدافعتی نظام کو نئے کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے۔

    اس نئی تحقیق میں جانچ پڑتال کی گئی کہ کرونا وائرسز کس طرح انسانی مدافعتی نظام پر اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا کہ ان سے پیدا ہونے والا اینٹی باڈی ردعمل نئے کرونا وائرس کے خلاف کس طرح کام کرتا ہے۔

    امریکا کے ٹرانزیشنل جینومکس ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے جسم میں ایک ایسا اینٹی باڈی ردعمل بیدار ہوتا ہے جو ماضی کے کرونا وائرسز کا سامنا ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے، جس سے ہمیں لگتا ہے کہ متعدد افراد کو اس وائرس کے حوالے سے پہلے سے کسی قسم کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے سائنسدانوں کو تشخیص اور علاج کی نئی تیکنیکیں تیار کرنے میں مدد مل سکے گی، بلڈ پلازما کی افادیت کی جانچ پڑتال کے ساتھ ویکسینز یا مونوکلونل اینٹی باڈی تھراپیز کو ڈیزائن کرنا ممکن ہوسکے گا، جس سے لوگوں کو کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بچایا جاسکے گا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج میں مدافعتی نظام کے ان حصوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جہاں دیگر کرونا وائرس سے سابقہ ہونے پر اینٹی باڈی ردعمل نظر آتا ہے، جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح بڑھانے کے لیے بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔

    انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز نئے کرونا وائرس کے عناصر کو جکڑ سکتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں کرونا وائرسز کی مختلف اقسام کا سامنا نئے وائرس کے خلاف مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔