Tag: نئی تحقیق

  • کافی ٹھنڈی پینی چاہیے یا گرم؟ نئی تحقیق

    کافی ٹھنڈی پینی چاہیے یا گرم؟ نئی تحقیق

    کافی ٹھنڈی ہو یا گرم اس کے پینے کے بہت سے طبی فوائد ہیں جو وزن کم کرنے سے لے کر سر درد، فالج، ذیابیطس اور دیگر بیماریوں سے بچانے میں بھی مددگار ہیں۔

    کافی کے سب سے بڑے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہے، جو آپ کے جسم اور خلیات کو بہتر طریقے سے کام کرنے ، بیماری کی روک تھام اور عام طور پر اچھی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

    لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھنڈی اور گرم کافی کے درمیان انتخاب اکثر الجھن میں ڈال دیتا ہے اس کیلیے کیا کیا جائے؟

    اس حوالے سے بھارت میں کی جانے والی ایک تحقیق کے ذریعے اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے نتائج ایک طبی ویب سائٹ میں شائع کیے گئے ہیں۔

    مذکورہ تحقیق کے نتائج سے یہ معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا ٹھنڈی کافی گرم کافی سے زیادہ صحت بخش ہے یا نہیں۔

    کولڈ کافی

    یہ پتہ چلتا ہے کہ کولڈ بریو کافی عام طور پر برف اور پانی سے تیار کی گئی فوری کافی کا استعمال کرتے ہوئے بنائی جاتی ہے۔
    تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کی بنیادی غذائیت گرم کافی جیسی ہے لیکن کولڈ کافی اکثر چینی، دودھ یا کریم جیسے اجزاء کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔

    یہ اضافی چیزیں اضافی کیلوریز اور شوگر میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔ یہ کیفین کے میٹابولزم کو بڑھانے والے کچھ فوائد کو کم کر سکتی ہیں۔

     گرم کافی

    گرم کافی گرم پانی کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی جاتی ہے جو ایسے مرکبات کو نکالتی ہے جن کے ہاضمے کے فوائد ہوتے ہیں۔

    گرم کافی کی گرمی گیسٹرک جوس کو متحرک کرنے اور ہاضمے کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ گرم کافی میٹابولزم پر بھی زیادہ فائدہ مند اثر ڈال سکتی ہے کیونکہ اس میں توانائی کو بڑھانے اور ہوشیار کرنے کی صلاحیت ہے۔

    گرم کافی کو صحت کے بہت سے فوائد سے بھی جوڑا گیا ہے، ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو، دل کی بیماری جیسی بیماریوں کو خطرے کو کم کرنا بھی شامل ہے۔

    صحت مند انتخاب

    اس کے علاوہ، گرم یا ٹھنڈی کافی کا صحت پر اثر نظام انہضام کی صحت، تیاری کا طریقہ، استعمال شدہ اجزاء اور صحت کے اہداف پر منحصر ہے۔

    کولڈ کافی کے مقابلے میں گرم کافی نظام ہاضمہ کو متحرک کرکے، آنتوں کی حرکت کو فروغ دے کر اور سوزش کو کم کرکے ہاضمے پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔

  • فاسٹ فوڈز کھانے کا انجام، نئی تحقیق نے خوفزدہ کردیا

    فاسٹ فوڈز کھانے کا انجام، نئی تحقیق نے خوفزدہ کردیا

    دور حاضر میں لوگ وقت کی بچت کیلئے بازاری کھانوں پر زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں جس کیلئے جنک فوڈ یا فاسٹ فوڈ منگوانے کے آرڈرز فون کال پر دینا اب عام سی بات ہوگئی اسی مناسبت سے اس کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جنک فوڈ یا الٹرا پروسیسڈ فوڈ کا زیادہ استعمال صحت کے لیے کتنا خطرناک ہے؟ فاسٹ فوڈ ہمارے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے، اس کے مضر اثرات ہارمونز کی تبدیلی کا بھی باعث بنتے ہیں۔

    مدافعتی کمزوری کے سبب ہر وقت تھکاوٹ، سستی اور طبیعت بوجھل محسوس ہوتی ہے اور آپ اپنے دن بھر کے کام احسن طر یقے سے انجام نہیں دے پاتے۔

    تاہم ایک نئی تحقیق میں فاسٹ فوڈز  کے مزید نقصانات کا احاطہ کیا گیا ہے جس کے مطابق ان غذاؤں کا استعمال 30 سے ​​زائد دماغی اور جسمانی امراض کے خطرے سے منسلک ہے۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈزکے مزیدار ذائقے اور آسان حصول جس میں پیک شدہ بیکڈ اشیا اور اسنیکس، میٹھے، کاربونیٹیڈ مشروبات، کینڈی، میٹھے اناج اور کھانے کے لیے تیار مصنوعات شامل ہیں نے صحت بخش غذا کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

    ویسے تو لوگوں کی بڑی تعداد یو پی ایف کے زائد استعمال سے منسلک صحت کے خطرات سے بخوبی واقف ہیں، لیکن شاید آپ اس بات کو نہیں جانتے کہ یہ فاسٹ فوڈز آپ کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ صحت کیلئے نقصان دہ ہیں۔

    محققین نے الٹرا پروسیسڈ فوڈ (یو پی ایف) کے نقصانات کو جاننے کے لیے ماضی میں کیے جانے والے 45 الگ الگ مطالعات سے ڈیٹا اکٹھا کرکے ان کا تجزیہ کیا جسے ’امبریلا ریویوایویڈینس‘ کا نام دیا گیا۔

    اس جائزے میں شامل شرکاء کی کل تعداد 10 ملین کے قریب تھی تمام میٹا تجزیہ پچھلے تین سالوں میں شائع کیے گئے تھے اور کسی کو بھی یو پی ایف تیار کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے فنڈ نہیں دیا گیا تھا۔

    محققین کے مطابق ان اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی کہ یو پی ایف کا زیادہ استعمال 32 امراض کے خطرے سے منسلک تھا جس میں اموات، کینسر، دماغی، سانس سے متعلق، قلبی، معدے اور میٹابولک مسائل شامل تھے۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈ کا زیادہ استعمال امراض قلب سے ہونے والی اموات کے تقریباً 50 فیصد بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک تھا، اسی طرح اضطراب اور عام دماغی صحت کے امراض کا خطرہ 48 سے 53 فیصد اور ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 12 فیصد زیادہ تھا۔

    اسی طرح یو پی ایف کی زیادہ مقدار کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ 21 فیصد بڑھا دیتی ہے، جس میں امراض قلب سے موت کا خطرہ 40 سے 66 فیصد، موٹاپا، ٹائپ 2 ذیابیطس، اور کم نیند کا خطرہ 22 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دمہ، معدے کی صحت، کینسر کی کچھ اقسام اور کارڈیو میٹابولک خطرے والے عوامل جیسے کہ خون میں چکنائی کا بڑھ جانا اور اچھے’ کولیسٹرول کی کم سطح سے وابستہ امراض کے ثبوت محدود تھے۔

    اس تحقیق اور اس کے نتائج نے الٹرا پروسیسڈ فوڈ کے نقصانات سے آگاہی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے جس بعد لوگوں کی بڑی تعداد ان غذاؤں کو ترک یا محدود کرنے کے بارے کافی فکر مند دکھائی دے رہی ہے اور اسی طرح صحت بخش غذاؤں کی جانب راغب ہورہی ہیں۔

  • ٹیٹو بنوانے کے خطرناک نتائج : نئی تحقیق نے خبردار کردیا

    ٹیٹو بنوانے کے خطرناک نتائج : نئی تحقیق نے خبردار کردیا

    نیویارک : ٹیٹو بنوانے کا شوق دنیا بھر میں بڑھتا جارہا ہے اور نوجوان طبقہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اور کسی بھی نقصان کی پرواہ کیے بغیر اس شوق کو اپنا رہا ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ٹیٹو بنانے کیلئے استعمال ہونے والی سیاہی (انک ) جلد کیلیے کتنی خطرناک ہے اور اس کے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

    امریکی سائنسدانوں نے ٹیٹو کی 90 فیصد سیاہی میں پائے جانے والے خطرناک اجزاء دریافت کیے ہیں، تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ٹیٹو بنانے میں استعمال سیاہی کی بوتل میں درج اجزاء میں اضافی مواد ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ٹیٹو بنانے کے دوران استعمال ہونے والی سیاہی انسانی جلد اور صحت کے لئے انتہائی مضر ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی بیماریوں خدشہ ہے۔

    محققین کے مطابق ان رنگوں کی وجہ سے خطرناک انفیکشنز جنم لیتے ہیں اور ہر رنگ دوسرے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

    محققین نے امریکا میں نو مختلف تیار کنندگان سے ٹیٹو کی سیاہی کا تجزیہ کیا، جن میں عالمی کمپنیوں سے لے کر چھوٹے پروڈیوسروں تک سب شامل تھے اور ان کے مواد کا لیبل پر درج معلومات سے موازنہ کیا۔

    حیرت انگیز طور پر سیاہی میں سے 90فیصد میں درج شدہ یا غیر فہرست شدہ اضافی رنگوں سے مختلف روغن موجود تھے۔

    فیزڈاٹ او آر جی کی رپورٹ کے مطابق سیاہی میں ایک اینٹی بائیوٹک شامل ہے جو عام طور پر پیشاب کی نالی کے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے اور دوسری فینکسی تھنول جو شیر خوار بچوں کے لیے ممکنہ صحت کے خطرات کا باعث بنتی ہے شامل تھی۔

    بنگھمٹن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر آف کیمسٹری جان سویرک نے کہا کہ اس تحقیق سے ہمارا مقصد ٹیٹو بنانے والوں اور ان کے گاہکوں کو خبردار کرنا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیٹو کے رنگوں میں موجود مرکری سلفائیڈ کی وجہ سے جلد خطرناک بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہے، سرخ رنگ کی وجہ سے جلد کی سوزش اور ایگزیما ہوجاتا ہے جبکہ سبز اور جامنی رنگ کی وجہ سے جلد پرچھوٹے چھوٹے ابھار اور دانے نکل آتے ہیں۔

    واضح رہے کہ ٹیٹو کلچر بہت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے، مغربی ممالک میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس ٹرینڈ کو فالو کرتی دکھائی دیتی جبکہ پاکستان میں بھی مغربی کلچر سے متاثر ہوکر ٹیٹو بنوانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

  • نئی تحقیق میں عارضہ قلب کے حوالے سے چونکا دینے والا انکشاف

    نئی تحقیق میں عارضہ قلب کے حوالے سے چونکا دینے والا انکشاف

    نئی تحقیق میں عارضہ قلب کے حوالے سے چونکا دینے والا انکشاف سامنے آیا ہے کہ اور ذہنی تناؤ کو بھی اس کا سبب قرار دیا گیا ہے۔

    امریکا میں دل کی صحت کے حوالے سے ایک تحقیق کی گئی جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ابتدائی جوانی میں شدید تناؤ کا شکار ہونے والے افراد میں دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسے افراد اپنی بعد کی عمر میں دل کے مسائل کا سامنا کرسکتے ہیں۔

    کئی لوگ کم عمری میں ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، اب ماہرین نے تحقیق کے بعد یہ راز افشا کیا ہے کہ ایسے اشخاص میں عمر بڑھنے کے ساتھ دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس حوالے سے محققین نے یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے وابستہ چائلڈ ہیلتھ اسٹڈیز میں حصہ لینے والے 13 سے 24 سال کی عمر کے 276 افراد سے ڈیٹا حاصل کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا۔

    مطالعے کے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انتہائی تناؤ کی سطح والے افراد بعد کی عمروں میں زیادہ وزن بڑھاتے ہیں ان میں موٹاپے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان افراد میں دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بڑھتی عمر کے تناؤ کا شکار لوگوں کی صحت زیادہ خراب تھی اور عمر بڑھنے کے ساتھ ان کا فشار خون بھی بڑھ گیا تھا۔

  • جلد پر ہونے والی خارش کی اصل وجہ دریافت، نئی تحقیق

    جلد پر ہونے والی خارش کی اصل وجہ دریافت، نئی تحقیق

    خارش ایک نہایت تکلیف دہ بیماری ہے، یہ دیگر کئی امراض کی وجہ سے لگتی ہے ان میں کچھ جلد کی بیماریاں اور کچھ اندرونی بیماریاں ہوتی ہیں۔

    خارش اکثر خشک جلد کی وجہ سے ہوتی ہے، یہ بوڑھے لوگوں میں عام ہے کیونکہ عمر کے ساتھ جلد خشک ہونے لگتی ہے، خارش کم ہو تو اس کا علاج ممکن اور آسان ہوتا ہے، اگر یہ شدت اختیار کرجائے تو اس کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن اب سائنسدانوں نے پہلی بار اس خارش کے پیچھے وجوہات کو دریافت کرلیا ہے۔

    سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ صرف بیکٹیریا ہی خارش کا براہ راست سبب ہو سکتے ہیں، اس سے پہلے کی تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ جرثومہ یا ’مائیکروب‘ جو عام طور پر جلد پر قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے، ایگزیما جیسی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔

    جرنل سیل نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں دریافت ہوا کہ ’اسٹیفولوکوکس اورئیس‘ نامی ایک عام بیکٹیریا خارش کا باعث بنتا ہے، یہ جراثیم دماغ کو مسلسل خارش کے سگنل بھیجتے ہیں۔

    خارش

    یہ پہلی بار ہے کہ سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ صرف بیکٹیریا ہی خارش کا براہ راست سبب ہو سکتے ہیں، اس سے پہلے کی تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ جرثومہ یا ’مائیکروب‘ جو عام طور پر جلد پر قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے، ایگزیما جیسی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔

    تاہم اب نئی تحقیق میں کیے گئے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیکٹیریا اینزائم جاری کرتا ہے جو جلد میں ایک پروٹین کو ایکٹی ویٹ یا فعال کرتا ہے جس کے نتیجے میں جلد سے دماغ کو خارش کے سگنل بھیجے جاتے ہیں۔ اسٹیفولوکوکس اورئیس نامی بیکٹیریا کی موجودگی اور اس کے نتیجے میں اینزائمز کا اخراج جلد پر جرثوموں کے قدرتی توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔

    اس توازن کو بحال کرنے کے لیے خارش کا احساس اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک جلد کے مائیکروبیل میں توازن بحال نہ ہو جائے اور مریض آرام پانے کے لیے اپنی جلد کو مسلسل کھرچتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں جلد پھٹ جاتی ہے اور نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ہارورڈ میڈیکل اسکول میں امیونولوجی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر آئزک چیو کا کہنا ہے کہ ہمیں نئی وجہ مل گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ کھجلی یا خارش محسوس کرتے ہیں، اس جراثیم کا نام اسٹیف اورئیس ہے جو ایٹوپک ڈرمیٹائٹس والے مریضوں میں موجود ہوتے ہیں۔ اس دریافت سے معلوم ہوا کہ جلد کے بیکٹیریا اور طبی صورتحال سے ہونے والی سوزش ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    مصنف ڈاکٹر لیوین ڈینگ نے کہا کہ جب ہم نے مطالعہ شروع کیا تو یہ واضح نہیں تھا کہ خارش سوزش کے نتیجے میں ہوتی یا نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ خارش اور سوزش دو الگ الگ حالت ہیں، خارش پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ سوزش کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن خارش کی وجہ سے سوزش مزید خراب ہوسکتی ہے۔

  • رات 9 بجے کے بعد کھانا کھانے سے جان لیوا بیماری کا خطرہ، تحقیق

    رات 9 بجے کے بعد کھانا کھانے سے جان لیوا بیماری کا خطرہ، تحقیق

    رات کو دیر سے کھانا نقصان دہ نہیں لگتا لیکن ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ رات 9 بجے کے بعد کھانا کھانے سے فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    نیچر کمیونیکیشنز جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں محققین نے ایک لاکھ سے زائد فرانسیسی افراد کا جائزہ لیا۔

    مطالعہ میں شامل تمام شرکاء نے 15 فوڈ ڈائریاں مکمل کیں جن میں انہوں نے ہفتے کے دن (یعنی ہفتے کے دن) اور چھٹی کے دن (یعنی ہفتے کے آخر میں) کھانے کے اوقات کی اطلاع دی۔

    کل تعداد کا ایک تہائی ان لوگوں پر مشتمل تھا جنہوں نے رات 8 بجے سے پہلے کھانا کھایا، جبکہ یہی تناسب رات 9 بجے کے بعد کھانے والوں پر مشتمل تھا۔

    اس سات سالہ تحقیق کے دوران دل کے دورے اور فالج سمیت قلبی امراض کے تقریباً 2000 کیسز سامنے آئے۔

    جن لوگوں نے رات کا کھانا دیر سے کھایا (رات 9 بجے کے بعد) ان میں فالج یا ’’منی اسٹروک‘‘ ہونے کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں جو 8 بجے سے پہلے کھاتے تھے۔

    محققین کے مطابق، انسانوں نے دن میں جلدی کھانے کے لیے ارتقاء کیا ہے۔ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں کھانا ہضم کرنے سے خون میں شوگر کی سطح اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔

    فرانس کی یونیورسٹی آف سوربون پیرس نورڈ سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے سینئر مصنف ڈاکٹر برنارڈ ساراؤر نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو رات کا کھانا دیر سے نہ کھانے کے لیے کہا گیا تھا اور یہ تحقیق بتاتی ہے کہ اس مشورے کی کچھ منطق تھی۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشرہ اب 24/7 ہے، جہاں لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے، اور ہم میں سے بہت سے لوگ رات کو دیر سے کھاتے ہیں لیکن جو لوگ دیر سے کھاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مصروف ہیں ان کی صحت کے خطرات بڑھ سکتے ہیں اور یہ رجحان خواتین میں زیادہ عام ہے۔ مطالعہ میں حاصل کردہ نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • کیا آپ کو اسٹرا بیری کے اس اہم فائدے کا علم ہے؟

    کیا آپ کو اسٹرا بیری کے اس اہم فائدے کا علم ہے؟

    اگر آپ اسٹرابیری کو پسند نہیں کرتے تو آپ یقیناً غلطی پر ہیں کیونکہ آپ اس کے حیران کن فوائد سے آگاہ نہیں ہیں، یہ ایک لذیذ اور عرق سے بھرپور غذا ہے بلکہ یہ کسی بھی طرح سپر فوڈ سے کم نہیں۔

    اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور اسٹرابیری اپنی مزیدار میٹھی خوشبو اور ذائقے کی بدولت سب کا پسندیدہ پھل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ، وٹامن اے، پوٹاشیم، کیلشیم، میگنیشیم اور فولیٹ سمیت غذائی اجزاء کا ایک شاندار ذریعہ ہیں۔

    اسٹرابیری آپ کی مجموعی صحت کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی مفید تصور کی جاتی ہے یہ آپ کو بغیر کسی چکنائی، سوڈیم اور کولیسٹرول کے مختلف وٹامنز، فائبر اور اینٹی آکسیڈینٹس جسے پولی فینولس کہا جاتا ہے فراہم کرتی ہے، تاہم ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ آپ کو ڈیمنشیا سے بھی تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    سنسناٹی یونیورسٹی کے محققین کی طرف سے کی گئی ایک نئی تحقیق میں اسٹرابیری کا روزانہ ایسے افراد میں استعمال جن میں ڈیمنشیا کا خطرہ موجود تھا ان میں خطرے میں کمی نوٹ کی گئی۔

    علمی کمی اور اسٹرابیری کے درمیان تعلق کو جاننے کے لیے ایک تحقیق کی گئی جس میں 30 ایسے بالغ شرکاء کا انتخاب کیا گیا جن میں ہلکی علمی خرابی موجود تھی۔

    تین ماہ تک جاری رہنے والی اس تحقیق کے دوران شرکاء کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اسٹرابیری کھانے سے گریز کریں، جبکہ اس کے متبادل کے طور پر انہیں روزانہ اسٹرابیری کے سپلیمنٹ پاؤڈر کا ایک پیکٹ پانی میں ملا کر ناشتے کے ساتھ استعمال کرنے کو کہا گیا تھا۔

    اس تحقیق میں شامل آدھے شرکاء کو ایک کپ اسٹرابیری کے برابر پاؤڈر کا پیکٹ جبکہ آدھے شرکاء کو پلیسبو دیا گیا تھا۔

    تین ماہ کے بعد محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ جن شرکاء نے اسٹرابیری کا پاؤڈر استعمال کیا تھا، انہوں نے ورڈ لسٹ لرننگ ٹیسٹ میں اس گروپ کے مقابلے میں نمایاں طور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جنہیں پلیسبو پاؤڈر دیا گیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے ڈپریشن اور ذہنی صحت میں کمی کی علامات میں بھی نمایاں بہتری نوٹ کی۔

    یو سی کالج آف میڈیسن کے شعبہ نفسیات اور طرز عمل نیورو سائنس کے پروفیسر رابرٹ کریکورین کا کہنا ہے کہ اسٹرابیری اور بلیو بیری دونوں میں اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جسے اینتھوسیاننز کہتے ہیں یہ میٹابولک اور علمی اضافہ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جو لوگ باقاعدگی سے اسٹرابیری یا بلوبیری کھاتے ہیں ان کی عمر بڑھنے کے ساتھ علمی زوال کی رفتار بھی کم ہوتی ہے۔

    عمر بڑھنے کے ساتھ ہماری علمی صلاحیتیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں، اسی طرح موٹاپے اور انسولین کے خلاف مزاحمت کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے اس طرح اعصابی سوزش میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے تاہم اسٹرا بیری کا استعمال علمی خرابی کو کم کرنے کے ساتھ آپ کی مجموعی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے۔

  • سائنسدانوں نے پودوں سے بات کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا

    سائنسدانوں نے پودوں سے بات کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا

    سائنسدانوں نے انتھک محنت کے بعد پودوں کے ساتھ باتیں کرنے کا طریقہ جان لیا ہے، نئی تحقیق میں اس راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ پیڑ، پودوں سے باتیں کرنا کس طرح ممکن ہے۔

    غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پودوں کے ساتھ روشنی پر مبنی پیغام رسانی کا استعمال کرتے ہوئے ان سے گفتگو ممکن ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ٹیم نے روشنی کے ذریعے پودوں سے گفتگو کرکے اس خیال کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ اب پودوں کی زبان سمجھنا اور انھیں سمجھانا آسان ہوگا جب کہ انھیں مستقبل کے خطرات اور شدید موسم کے حوالے سے خبردار کرنا بھی ممکن ہوگا۔

    محققین روشنی کو بطور پیغام رساں استعمال کرتے ہوئے ایسے آلات بنا رہے ہیں جو انسانوں کی پودوں اور پودوں کی انسانوں کے ساتھ ابلاغ کو ممکن بنا سکیں۔ ابتدائی طور پر تمباکو پر کیے جانے والے تجربوں سے مشاہدہ ہوا کہ روشنی کے ذریعے پودوں کے قدرتی دفاعی نظام کو فعال کیا جاسکتا ہے۔

    اہم بات یہ ہے کہ انسانوں کے لیے بھی روشنی کے ذریعے پیغام رسانی کی جاتی ہے جیسے روزمرہ زندگی میں ٹریفک سگنلز میں روشنی کو استعمال کرتے ہوئے انھیں پیغام دیا جاتا ہے۔

    اس تحقیق کے سربراہ محقق ڈاکٹر ایلکزینڈر جونز کے مطابق اگر ہم پودوں کو مستقبل میں آنے والی وبا یا کیڑوں کے حملے کے حوالے سے خبردار کر دیں تو وہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے اپنا قدرتی دفاعی نظام فعال کرسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر ایلکزینڈر کے مطابق ہیٹ ویو یا خشک سالی جیسے شدید موسمی اثرات سے پودوں کو آگاہ کیا جاسکتا ہے، اس طرح پودے صورتحال کے مطابق اپنی نشو نما کا طریقہ کار بدل سکتے ہیں یا پانی کا ذخیرہ کرسکتے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے کاشتکاری کے عمل کو زیادہ مؤثر اور پائیدار بنانے کے ساتھ کیمیکلز کی ضرورت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ ہائی لائیٹر نامی آلہ جو روشنی کی مخصوص کیفیت کو استعمال کرتے ہوئے پودوں کے مخصوص جین کو فعال کرتا ہے اس کے ذریعے انسان پودوں سے بات کرسکتے ہیں۔

  • غمگین گانا سننا فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ نئی تحقیق

    غمگین گانا سننا فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ نئی تحقیق

    اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی ایسا شخص اداس و غمگین رہنا پسند کرتا ہو، لیکن یہاں ایک سوال ہے کہ ہم  غمگین ہونے کے بعد بھی کیوں غمگین گانے یعنی ’سیڈ سانگز‘ سننا پسند کرتے ہیں؟ جبکہ خوشی بکھیرنے والے بے شمار گیت موجود ہیں۔

    ماہرین کی نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس بات کا تعلق سیڈ سانگز سننے سے نہیں بلکہ اس کی بہت سی دوسری وجوہات ہیں جس میں سے زیادہ تر کا تعلق مثبت احساسات کو اجاگر کرنا ہے یعنی ذہنی صحت کو فائدہ پہنچانا ہے۔

    ییل یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹرجوشوا نوپ کی جانب سے کیے گئے ایک تجربے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہم اس لیے اداس گانوں کا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ ہمیں جوڑ کر رکھنے میں اہم ہوتے ہیں اور یادوں سے الگ تھلگ نہیں کرتے۔

    تجرباتی نتائج میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ موسیقی کے سامعین کے احساسات مختلف ہو جاتے ہیں، وہ مختلف قسم کی موسیقی سنتے ہیں جن میں خوشی، محبت، اداسی اور غمی کے احساسات ہوتے ہیں۔

    ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق ڈاکٹر نوپ نے اس بارے میں مزید وضاحت کی کہ ’آپ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں تو اس صورت میں مختلف نوعیت کی موسیقی سنیں۔‘

    گزشتہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جو لوگ غمگین گانے سنتے ہیں وہ اپنے دکھوں میں اضافہ کرنے کے لیے ایسا نہیں کرتے، رپورٹ کے مطابق ’اداس گانے انہیں زیادہ خوش ہونے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔‘

    دریں اثنا ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ لوگ اداس گانوں کو اس لیے زیادہ ترجیح دیتے ہیں کہ وہ ان کے گمشدہ احساسات کے قریب ہوتے ہیں، ’غمگین گانے اس لیے سنتے ہیں کہ انہیں سکون دیتے ہیں۔‘

    اس حوالے سے ہی ایک اور متوازی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رویے یا موڈ کے لیے اداس گانے ہی ہماری ترجیح کیوں ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل غمگین گانے ہمیں جذباتی طور پر سہارا دیتے ہیں بلکہ ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اداس گانوں کے بول ہمارے گمشدہ ماضی کو سامنے لانے میں کسی حد تک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق رونا انسانی رویے کے لیے ایک بہترعمل کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح دکھی موسیقی ہمارے جذبات کے بہاؤ کے لیے ایک اچھی راہ گزر ثابت ہو سکتی ہے۔

  • ای سگریٹ سے کون سی بیماری لاحق ہو سکتی ہے؟ امریکا میں نئی تحقیق

    ای سگریٹ سے کون سی بیماری لاحق ہو سکتی ہے؟ امریکا میں نئی تحقیق

    کینٹکی: امریکی یونیورسٹی لوئس ویل کے محققین نے کہا ہے کہ ای سگریٹ کے دھوئیں میں موجود ٹھوس ذرات (کیمکلز) سے دل کی دھڑکن بے ترتیبی کا شکار ہو سکتی ہے۔

    سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشن میں شائع شدہ مقالے کے مطابق یہ تحقیق کرسٹینا لی براؤن انوائرمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ای سگریٹ کے کیمیکل والے دھوئیں سے جانوروں میں دل کی دھڑکن میں واضح بے قاعدگی پائی گئی۔

    اس تحقیقی مطالعے کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ای سگریٹ میں موجود مائع ذرات کے اندر مخصوص کیمیکلز سے اگر واسطہ پڑے تو اس سے اریتھمیا (دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جانا) اور کارڈیک الیکٹریکل ڈسفنکشن (دل کی دھڑکنوں کو مربوط رکھنے والے برقی سگنلز کی خرابی) کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

    اس تحقیق کے مرکزی محقق، اور لوئس ویل یونیورسٹی میں فزیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر الیکس کارل نے بتایا کہ ہماری اس تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ ای سگریٹس میں جو ’ای لیکوئڈز‘ شامل ہیں، ان میں موجود کیمیائی مادوں کے ساتھ قلیل مدتی رابطہ بھی لوگوں کے دل کی دھڑکن کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ای سگریٹ، جس سے کچھ مخصوص فلیور یا سالوینٹ وہیکلز یعنی کیمیکلز کے ذرات کو منتقل کرنے والا دھواں خارج ہوتا ہے، یہ دل کے برقی ترسیل میں خلل ڈال سکتا ہے، اس ناقص سگنلگ کی وجہ سے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے۔

    ای سگریٹ سے پیدا ہونے والے ان اثرات کی وجہ سے آرٹری (دل کی شریان) اور وینٹریکل (دل کا نچلا خانہ) متاثر ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے دو بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں؛ ایک، دل کی دھڑکن بہت تیز (ٹیکی کارڈیا) ہو جاتی ہے، اور دوم، دل کی دھڑکن بہت سست (بریڈی کارڈیا) یا بے قاعدہ ہو جاتی ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے اچانک دل بند ہو سکتا ہے۔