Tag: نئی تحقیق

  • زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    سنہ 2020 میں دریافت ہونے والے بلیک ہول کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق زمین کے سب سے قریب ترین بلیک ہول سسٹم میں، جس کا فاصلہ زمین سے 1 ہزار نوری سال ہے، میں دراصل کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    سنہ 2020 میں جب یہ دریافت ہوا تھا تو HR 6819 سسٹم کی غیر معمولی دریافت کے متعلق دو خیالات پیش کیے گئے تھے، ایک کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے ساتھ تھا اور دوسرے کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے بغیر تھا۔

    1 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود بلیک ہول کے خیال کو پیش کیا گیا تو اس نے شہ سرخیوں میں خوب جگہ بنائی، جبکہ دوسرے خیال کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔

    تاہم، بیلجیئم کے محقیقن نے ایک نئی تحقیق میں سسٹم کی نئی پیمائشیں لیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کس خیال کے سچ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    انہوں نے یورپی سدرن آبزرویٹری ویری لارج ٹیلی اسکوپ اور وی ایل ٹی انٹرفیرومیٹر کا رخ اس اسٹار سسٹم کی جانب کیا۔ کیوں کہ اس آلے میں ایسی صلاحیت تھی کہ ایسا ڈیٹا فراہم کر سکے جو دونوں خیالات کے مابین فرق بتا دے۔

    تمام شواہد نے ایک ویمپائر اسٹار سسٹم کی جانب اشارہ کیا، جس میں 2 ستارے ایک بہت قریبی مدار میں دیکھے گئے ہیں اور ایک ستارہ دوسرے سے مٹیریل کھینچ رہا ہے۔

    سسٹم میں کسی فاصلے پر گردش ستارے کے شواہد نہیں تھے جو بلیک ہول تھیوری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس کسی جسم پر حملہ آور ہونے کے بعد جہاں اسے مختلف نقصانات پہنچاتا ہے وہیں اس حوالے سے ایک اور اثر کا انکشاف ہوا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس جسم میں ایسے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے جو بیماری اور ریکوری کے بعد بھی برقرار رہتا ہے اور ایسا ان افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن میں بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے یا علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    سیڈرز سینائی میڈیکل سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جب لوگ کسی وائرس یا دیگر جراثیموں سے بییمار ہوتے ہیں تو ان کا جسم اینٹی باڈیز نامی پروٹینز کو متحرک کرتا ہے تاکہ حملے کو روکا جاسکے، مگر کچھ کیسز میں لوگوں میں آٹو اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو وقت کے ساتھ جسم کے اپنے اعضا اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر رہنے والے افراد میں متعدد اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز مکمل صحت یابی کے 6 ماہ بعد بھی موجود ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق سے قبل محققین کو معلوم تھا کہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی نظام پر اتنا زیادہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ آٹو اینٹی باڈیز بنانے لگتا ہے۔

    مگر اس تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا کہ معمولی بیمار یا بغیر علامات والے مریضوں میں بھی آٹو اینٹی باڈیز کی سطح وقت کے ساتھ برقرار رہ سکتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیا چیز کووڈ 19 کو ایک منفرد بیماری بناتی ہے، مدافعتی نظام کے افعال متاثر ہونے کے ایسے رجحانات طویل المعیاد علامات کے تسلسل کا باعث بن سکتے ہیں جس کو لانگ کووڈ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں 177 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں ماضی میں کووڈ کی تشخیص ہوچکی تھی۔

    ان افراد کے خون کے نمونوں کا موازنہ ایسے صحت مند افراد کے نمونوں سے کیا گیا جن کو وبا سے قبل جمع کیا گیا۔

    تحقیق میں معلوم ہوا کہ کرونا وائرس سے متاثر تمام افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کی سطح میں اضافہ ہوچکا تھا اور ان میں سے کچھ آٹو اینٹی باڈیز ایسے افراد میں بھی موجود ہوتی ہیں جن میں مدافعتی نظام صحت مند خلیات پر ہی حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے آٹو اینٹی باڈی سرگرمیوں کے سگنلز کو دریافت کیا جو عموماً دائمی ورم سے جڑے ہوتے ہہیں اور اعضا کے مخصوص نظاموں اور ٹشوز جیسے جوڑوں، جلد اور اعصابی نظام میں انجری کا باعث بنتے ہیں۔

    اب وہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کے خواہشمند ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کون سی اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والی افراد میں موجود ہوتی ہیں۔

    چونکہ اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو ویکسینز کی تیاری سے قبل کووڈ سے متاثر ہوئے تھے تو اب محققین ویکسی نیشن کے بعد بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کا جائزہ بھی لینا چاہتے ہیں۔

  • ہفتے میں دو دن ’روزہ‘ بہترین ڈائٹنگ: نئی تحقیق

    ہفتے میں دو دن ’روزہ‘ بہترین ڈائٹنگ: نئی تحقیق

    لندن: سائنس دانوں نے ایک نئی تحقیق میں کہا ہے کہ ڈائٹنگ کا بہترین اور آسان طریقہ یہ ہے کہ ہفتے میں ’دو دن فاقہ‘ کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ’پلوس وَن‘ نامی آن لائن ریسرچ جرنل کے تازہ شمارے میں ایک تحقیق شایع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کامیاب ڈائٹنگ کے لیے روزانہ کم کھانے سے بہتر ہے کہ ہفتے میں صرف 2 دن فاقہ کیا جائے، جب کہ باقی 5 دن معمول کے مطابق صحت بخش غذائیں استعمال کی جائیں۔

    یہ تحقیق کوئین میری یونیورسٹی، برطانیہ کے سائنس دانوں نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ ڈائٹنگ کے اس طریقے کو ’5:2 ڈائٹ‘ (فائیو ٹو ڈائٹ) بھی کہا جاتا ہے، جو کچھ ہی سال قبل سامنے آیا ہے اور اب بہت مقبول ہو رہا ہے۔

    ڈائٹنگ کے اس طریقے میں ہفتے کے پانچ دنوں میں معمول کی غذاؤں سے مطلوبہ کیلوریز حاصل کی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق مردوں کے لیے 2 ہزار سے 3 ہزار کیلوریز روزانہ بہتر ہیں، جب کہ خواتین کے لیے 16 سو سے 2400 تک کیلوریز لینا روزانہ مناسب ہے۔

    ہفتے کے باقی کے دو دنوں میں غذا بہت کم کر دی جاتی ہے، یعنی صرف 5 سو کیلوریز روزانہ تک، اور اسے میڈیکل سائنس کی زبان میں فاسٹنگ یعنی فاقہ کہا جاتا ہے۔

    ریسرچ کے دوران

    تحقیقی مطالعے کے لیے 3 سو ایسے رضاکار بھرتی کیے گئے جو موٹاپے میں مبتلا تھے، انھیں تین گروپس میں تقسیم کیا گیا، اور ہر گروپ میں 100 رضاکار رکھے گئے، ان سب سے 6 ہفتوں تک تین الگ الگ ڈائٹنگ پلانز پر عمل کروایا گیا۔

    جب نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ دو دن فاقہ کرنے والے اور روزانہ کم کھانے والے افراد کے درمیان کچھ خاص فرق نہ تھا، لیکن رضاکاروں نے دو دن فاقہ کرنے کا پلان زیادہ آسان پایا۔

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دو دن فاقے والا پلان حاملہ خواتین اور 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

  • بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ 19 کا خطرہ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے تاہم ان میں علامات کم ظاہر ہوتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے مگر علامات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکی ریاست یوٹاہ اور نیویارک شہر میں بالغ افراد اور بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ملتا جلتا ہوتا ہے مگر بچوں میں اکثر بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    تحقیق کے مطابق ہر عمر کے بچوں میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے۔

    یہ تحقیق ستمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران ہوئی جس میں ایک یا اس سے زائد تعداد والے بچوں پر مشتمل 310 مختلف گھرانوں کے 12 سو 36 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ان گھرانوں میں کووڈ 19 کے کیسز کا جائزہ لیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ایک گھر کے اندر کسی فرد کے کووڈ سے متاثر ہونے پر دیگر میں بیماری کا خطرہ 52 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    جب انہوں نے کووڈ کے مریضوں کی عمر کے گروپ کا تجزیہ کیا تو دریافت ہوا کہ ہر عمر کے ایک ہزار افراد میں بیماری کا خطرہ لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

    یعنی 4 سال کے ایک ہزار بچوں میں 6.3، 5 سے 11 سال کی عمر کے 4.4، 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں 6 اور بالغ افراد میں 5.1 میں اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور بالغ افراد میں کرونا وائرس کی شرح لگ بھگ ایک جیسی ہوتی ہے اور اس سے بچوں میں ویکسی نیشن کی افادیت اور محفوظ ہونے کی برق رفتاری سے جانچ پڑتال کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں جب یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف عمر کے افراد میں علامات ظاہر ہونے کی شرح کیا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ 4 سال سے کم عمر 52 فیصد بچوں میں کووڈ سے متاثر کے بعد علامات ظاہر نہیں ہوتیں، 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 50 فیصد، 12 سے 17 سال کے گروپ میں 45 فیصد جبکہ بالغ افراد میں محض 12 فیصد تھی۔

  • وہ عنصر جو کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا خطرہ بڑھائے

    وہ عنصر جو کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا خطرہ بڑھائے

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مریضوں کے پھیپھڑوں میں کرونا وائرس کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جانا ممکنہ طور پر موت کی وجہ بنتا ہے۔

    نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسن اور نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کی اس تحقیق کے نتائج سابقہ خیالات سے متضاد ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ نمونیا یا جسمانی مدافعتی ردعمل کی شدت بہت زیادہ بڑھ جانا کووڈ سے ہلاکت کا خطرہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں ان کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار یا وائرل لوڈ کی مقدار دیگر سے 10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے وائرس کی تعداد پر جسم کی ناکامی اس وبا کے دوران اموات کی بڑی وجہ ہے۔

    اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ وائرس سے متاثر ہونے پر مدافعتی نظام جسم کے صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور جان لیوا ورم پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    مگر اس تحقیق میں اس حوالے سے کوئی شواہد دریافت نہیں ہوسکے بلکہ ماہرین نے دریافت کیا کہ مدافعتی ردعمل پھیپھڑوں میں وائرس کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں سیکنڈری انفیکشنز، وائرل لوڈ اور مدافعتی خلیات کی تعداد کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج سے کورونا وائرس کے مریضوں کے زیریں نظام تنفس کے ماحول کا اب تک کا سب سے تفصیلی سروے فراہم کیا گیا ہے۔

    تحقیق میں نیویارک یونیورسٹی لینگون کے زیر تحت کام کرنے والے طبی مراکز میں زیرعلاج رہنے والے 589 کووڈ کے مریضوں کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔

    ان سب مریضوں کو مکینکل وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی جبکہ 142 مریضوں کے سانس کی گزر گاہ کلیئر کرنے کا برونکواسکوپی بھی ہوئی تھی۔

    ماہرین نے جائزہ لیا کہ ان افراد کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار کتنی تھی جبکہ مدافعتی خلیات کی اقسام اور وہاں موجود مرکبات کا بھی سروے کیا گیا۔

    تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کووڈ سے ہلاک ہونے والے مریضوں میں ایک قسم کے مدافعتی کیمیکل کی پروڈکشن اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کے مقابلے میں اوسطاً 50 فیصد کم ہوجاتی ہے۔

    یہ کیمیکل جسم کے مطابقت پیدا کرنے والے مدافعتی نظام کا حصہ ہوتا ہے جو حملہ آور جرثوموں کو یاد رکھتا ہے تاکہ جسم مستقبل میں اس سے زیادہ اچھے طریقے سے نمٹ سکے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مدافعتی نظام میں مسائل کے باعث وہ کورونا وائرس سے مؤثر طریقے سے کام نہیں کر پاتا، اگر ہم مسئلے کی جڑ کو پکڑ سکیں، تو ہم مؤثر علاج بھی دریافت کرسکیں گے۔

  • کرونا وائرس سے خون کے خلیات متاثر ہونے کے حوالے سے نیا انکشاف

    کرونا وائرس سے خون کے خلیات متاثر ہونے کے حوالے سے نیا انکشاف

    برلن: جرمنی کے طبی ماہرین نے ایک تحقیق کے نتائج کے حوالے سے کہا ہے کہ کووِڈ 19 سے کچھ مریضوں کے خون کے خلیات میں طویل المیعاد تبدیلیاں آنے کا امکان سامنے آیا ہے۔

    طبی جریدے بائیو فزیکل جنرل میں شائع تحقیق کے مطابق کووِڈ کو شکست دینے کے بعد بھی کئی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے خون کے خلیات میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کرونا کی طویل المیعاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے لانگ کووِڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کووِڈ کو شکست دینے والے افراد کو مہینوں تک مختلف طبی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، جیسا کہ تھکاوٹ اور مختلف اعضا کو نقصان پہنچنا۔

    ماہرین نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کچھ مریضوں کے خون کے خلیات کے حجم اور افعال کو بدل سکتا ہے، چوں کہ خون کے خلیات کسی بھی فرد کے مدافعتی رد عمل کا حصہ ہوتے ہیں اور جسم میں آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں، تو ان میں آنے والی تبدیلیاں طویل المیعاد پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہیں۔

    اس طبی تحقیق کے لیے میکس پلانگ زینٹریم کے ماہرین نے 40 لاکھ سے زیادہ خون کے خلیات کا تجزیہ کیا، جو لانگ کووِڈ کے 17 مریضوں، کووِڈ کو شکست دینے والے 14 افراد اور 24 صحت مند رضاکاروں (کنٹرول گروپ) کے نمونوں سے حاصل کیے گئے۔

    سائنس دانوں نے رئیل ٹائم ڈیفارمیبلٹی سائٹومٹری کا طریقہ کار استعمال کر کے پہلی بار یہ معلوم کیا کہ کووِڈ 19 خون کے سرخ اور سفید خلیات کے سائز اور سختی کو تبدیل کر دیتا ہے، اور یہ تبدیلی بعض اوقات مہینوں تک رہتی ہے، تحقیق کا یہ نتیجہ وضاحت کرتا ہے کہ کیوں بعض متاثرہ افراد کرونا انفیکشن سے ٹھیک ہونے کے بعد بھی طویل عرصے تک علامات کی شکایت کرتے ہیں۔

    رئیل ٹائم ڈی فارمیبیلٹی سائٹومٹری نامی طریقہ کار میں فی سیکنڈ ایک ہزار خون کے نمونے ایک تنگ پتی سے گزارے گئے، جن میں خون کے مدافعتی خلیات اور سرخ خلیات بھی شامل تھے جو جسم میں آکسیجن کی فراہمی کا کام کرتے ہیں، آخری مرحلے میں ایک کیمرے سے خلیات کے حجم اور ساخت میں تبدیلیوں کو ریکارڈ کیا گیا، نتائج سے انکشاف ہوا کہ لانگ کووِڈ کے مریضوں کے خون کے سرخ خلیات کنٹرول کے مقابلے میں بہت زیادہ مختلف تھے۔

    محققین نے بتایا کہ ہم بیماری کے دوران اور اس کو شکست دینے کے بعد خلیات میں واضح اور طویل المیعاد تبدیلیوں کو شناخت کرنے کے قابل ہوئے ہیں، اس سے یہ بھی ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ اس بیماری سے بہت زیادہ بیمار افراد میں خون کی شریانوں کی بندش اور کلاٹس کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے، اور اسی طرح مریض کے جسم میں آکسیجن کی منتقلی کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔

    طبی ماہرین نے بتایا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں کے مدافعتی خلیات صحت مند افراد کے مقابلے میں ’نرم‘ ہوجاتے ہیں جو ضرورت سے زیادہ مدافعتی رد عمل کا عندیہ ہے، اور ہمیں مدافعتی خلیات میں سائٹوسکیلٹن کا شبہ ہے جو اکثر خلیات کے افعال میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔

    خیال رہے کہ مجموعی طور پر بیماری کو شکست دینے کے 7 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کے مریضوں میں خون کے خلیات بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، محققین کے مطابق کچھ مریضوں کے خلیات میں آنے والی تبدیلیاں اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد معمول پر آ جاتی ہیں۔

  • ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ماہرین نے ریاضی کا مضمون چھوڑنے والے طلبہ کو بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    عام طور سے اسکولوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بچے میتھس (ریاضی) کے مضمون سے سخت نالاں ہوتے ہیں، اور الجبرا، فریکشن اور بہت سارے فارمولوں میں پھنسے بچے، کسی بھی صورت ریاضی کا مضمون چھوڑنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک نئی سائنسی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ ریاضی (mathematics) چھوڑنے سے دماغ پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور اگر 16 برس کی عمر میں ریاضی کا مضمون چھوڑا تو اس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

    انسانی دماغ کی بہتر نشونما کے لیے ریاضی کے سوالوں کی بے حد ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاضی کا مضمون چھوڑنے سے دماغ کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

    سائنسی تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے سولہ سال کی عمر میں جو طلبہ میتھمیٹکس چھوڑ دیتے ہیں، ان میں بدستور ریاضی پڑھنے والوں کی نسبت ایک قسم کے دماغی کیمیکل کی سطح کم رہ جاتی ہے، جو دماغ اور ادراکی قوت کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ریسرچرز نے دیکھا کہ جن طلبہ نے سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد ریاضی چھوڑ دیا، ان میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ نامی کیمیکل کی مقدار کم پائی گئی، جو کہ دماغ (brain) کی شکل پذیری کے لیے اہم ہوتا ہے۔

    نیورو ٹرانسمیٹر کے طور پر کام کرنے والے اس کیمیکل کی کمی دماغ کے ایک اہم حصے پری فرنٹل کارٹیکس (prefrontal cortex) میں پائی گئی، جو ریاضی، یادداشت، سیکھنے، استدلال کی صلاحیت اور مسائل کے حل کے لیے مدد کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ ’تجرباتی نفسیات‘ کے محققین نے اس مطالعے کے لیے 14 سے 18 برس کی عمر کے 130 طلبہ کو شریک کیا، 16 سال سے زائد عمر کے طلبہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑ چکے ہیں، اور چھوٹے بچوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ریاضی چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان سب کو ایک برین اسکین اور ادراکی تجزیے سے گزارا گیا، اور پھر 19 ماہ بعد پھر دیکھا گیا۔

    جریدے پرسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع شدہ اس مقالے کے مطابق محققین نے سولہ سال کے بعد ریاضی پڑھنے اور نہ پڑھنے والے طلبہ میں دماغی کیمیکل کی کارکردگی میں واضح فرق دیکھا، تاہم 19 ماہ بعد بچوں کا ٹیسٹ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں میں گاما امینوبیوٹرک ایسڈ کی بہتر نشوونما ہوئی وہ سوالوں کو بہ آسانی حل کر سکے۔

    تحقیق کے بعد سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ریاضی کی مشکل مساوات کو حل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنا دماغ کے اس حصے کو مضبوط بناتا ہے، اور لوگوں کو ممکنہ طور پر بعد کی زندگی میں مشکل مسائل حل کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی کے نیورو سائنس کے پروفیسر، روئی کوہن قدوش نے کہا کہ ریاضی میں دل چسپی نہ رکھنے والے بچوں کو اس کے مطالعے پر مجبور کرنا بھی صحیح نہیں ہے، بلکہ ہمیں ان کے لیے متبادل راستے ڈھونڈنے چاہئیں تاکہ ان کے دماغ کی ورزش ہو سکے۔

  • کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کیوں کم ہو جاتی ہے؟

    کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کیوں کم ہو جاتی ہے؟

    کینیڈا: سائنس دانوں نے کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کی کم ہونے کی وجہ معلوم کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا کے مریضوں میں آکسیجن کی سطح کم کیوں ہو جاتی ہے؟ اس سلسلے میں نئی طبی تحقیق سامنے آ گئی ہے، ایرانی نژاد مسلمان سائنس دان نے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

    جریدے اسٹیم سیل رپورٹس میں شائع شدہ نئے طبی مطالعے میں مرکزی مصنف ایسوسی ایٹ پروفیسر شکر اللہ الہٰی کا کہنا ہے کہ خون میں آکسیجن کی کمی کو وِڈ 19 کے مریضوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمارے نزدیک اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کرونا وائرس انسانی جسم میں خون کے سرخ خلیات کی پیدوار کو متاثر کرتا ہے۔

    ریسرچ کے دوران طبی ماہرین کی ٹیم نے کرونا وائرس سے متاثرہ 128 مریضوں کا معائنہ کیا، ان میں شدید بیمار، کم بیمار اور معمولی علامات والے افراد سب شامل تھے۔

    ایسوسی ایٹ پروفیسر شکر اللہ الہٰی

    محققین نے دیکھا کہ جیسے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، خون میں اُن سرخ خلیات کا سیلاب امڈ آتا ہے جو ابھی پوری طرح سے بنے نہیں ہوتے، اور بعض اوقات خون میں موجود خلیوں کی کُل تعداد میں ان کا تناسب 60% تک پہنچ جاتا ہے، جب کہ صحت مند آدمی کے خون میں اس کا تناسب 1 فی صد یا بالکل نہیں ہوتا۔

    شکر اللہ کا کہنا تھا کہ خون کے یہ خام خلیے آکسیجن منتقل نہیں کرتے، اور انھیں کرونا وائرس کا شدید خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے، جب کرونا وائرس خون کے ان خام سرخ خلیوں کو حملے میں تباہ کر دیتا ہے، تو جسم ان کی جگہ خون کے مکمل سرخ خلیے (جن کی عمر 120 روز سے زیادہ نہیں ہوتی) نہیں لا پاتا، اس طرح خون میں آکسیجن منتقل کرنے کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے۔

    شکر اللہ الہٰی کے مطابق ان کی ٹیم کی تحقیق سے 2 اہم نتائج سامنے آئے ہیں، پہلا یہ کہ کرونا وائرس سے خون کے نامکمل سرخ خلیے متاثر ہوتے ہیں، جب وائرس ان خلیوں کو مار دیتا ہے تو پھر انسانی جسم ہڈیوں کے مغز سے مزید نامکمل سرخ خلیوں کو کھینچ کر مطلوبہ آکسیجن کی رسد پوری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تاہم اس سے محض وائرس کے لیے مزید اہداف ہی جنم لیتے ہیں۔

    دوسرا یہ کہ خون میں نامکمل سرخ خلیے درحقیقت طاقت ور ’امیونو سپریسیو سیلز‘ ہوتے ہیں، جو انسانی جسم میں اینٹی باڈیز کی تیاری کو دبا دیتے ہیں اور کرونا وائرس کے خلاف خلیوں کی مدافعت کو بھی کچل دیتے ہیں، اس کے نتیجے میں انسان کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔

    اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سوزش کے خاتمے کے لیے استعمال ہونے والی دوا ’ڈیکسا میتھاسون‘ کرونا وائرس کے علاج میں کیوں مؤثر ہے؟

  • سائنس دانوں کی بڑی کامیابی، کینسر کا نیا اور محفوظ علاج دریافت

    سائنس دانوں کی بڑی کامیابی، کینسر کا نیا اور محفوظ علاج دریافت

    ایڈنبرا: برطانوی سائنس دانوں نے کینسر کے خلیات کو محفوظ طریقے سے ختم کرنے کا کامیاب ٹیسٹ کر لیا، اس ٹیسٹ میں انھوں نے ’ٹروجن ہارس‘ کا نیا طریقہ استعمال کیا جس نے کیموتھراپی کے خاتمے کی امید پید اکر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی یونی ورسی ایڈنبرا کے سائنس دانوں نے سرطان کے مہلک خلیات کے خلاف جنگ کے لیے ٹرائے گھوڑے کا حربہ استعمال کیا ہے، جسے انھوں نے ٹروجن ہارس دوا کہا، اس دوا کے استعمال سے قریبی صحت مند خلیات اور ٹشوز کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

    اس تجرباتی طبی مطالعے کے دوران سائنس دانوں نے ایک ’ٹروجن ہارس‘ دوا تیار کی ہے، جو قریبی صحت مند ٹشو کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے خلیوں اور بیکٹیریا کو ہلاک کرتی ہے، اسے نئے علاج کی دریافت کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

    تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کے لیے کہ یہ تکنیک محفوظ اور ابتدائی مرحلے کے کینسر کے علاج کے لیے تیز رفتار ہے، مزید جانچ کی ضرورت ہے، وہ یہ بھی امید کرتے ہیں کہ اس سے دوا کے خلاف مزاحم بیکٹیریا سے نمٹنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

    اس طریقہ کا رمیں ایڈنبرا یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے کینسر کو ہلاک کرنے والے چھوٹے مالیکیول SeNBD کو ایک کیمیائی غذائی مرکب کے ساتھ ملایا تاکہ مہلک خلیوں کو دھوکے سے اسے کھلایا جا سکے اور ان کی زہریلی فطرت بھی بیدار نہ ہو۔

    اس تجرباتی مطالعے میں نہ صرف زیبرا مچھلی بلکہ انسانی خلیات پر ٹیسٹ کیا گیا جو کامیاب رہا، تاہم محققین سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں مزید تجربات کی ضرورت ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ دوا کے ساتھ کیمیائی غذائی مرکب کو اس  لیے شامل کیا گیا ہے، کیوں کہ کینسر زدہ خلیے نہایت بھوکے ہوتے ہیں اور انھیں توانائی کے لیے بڑی مقدار میں غذا کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ عام طور پر تن درست خلیوں سے زیادہ کھاتے ہیں۔

    ایڈنبرا یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے بتایا کہ کیمیکل غذائی مرکب کے ساتھ SeNBD ملانے سے یہ دوا نقصان دہ خلیات کے لیے، ان کی زہریلی فطرت کو ہوشیار کیے بغیر ایک زبردست شکاری کا روپ دھار لیتی ہے۔

    یہ دوا بنانے والے ایڈنبرا یونی ورسٹی کے محققین نے اس کا ٹروجن ہارس سے، اور اس کے اثرات کا موازنہ ’میٹابولک وارہیڈ‘ سے کیا ہے۔ یہ ننھے مالیکیول SeNBD روشنی سے متحرک ہونے والا فوٹوسنسٹائزر بھی ہے، یعنی یہ خلیات کو تب ہی مارتا ہے جب یہ مرئی روشنی سے حرکت میں آئیں۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ سرجنز یہ قطعی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کب دوا کو فعال کرنا چاہتے ہیں، اس سے تن درست ٹشوز تباہ ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، اور بال جھڑنے جیسے دوا کے مضر اثرات کو بھی روکا جا سکتا ہے، جو کہ دیگر اینٹی کینسر (دافع سرطان) ایجنٹس کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    اس تحقیقی مطالعے کے یہ نتائج جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے ہیں، اس تحقیق کے سربراہ محقق پروفیسر مارک وینڈرل نے بتایا کہ یہ تحقیق نئے علاج ڈھونڈنے کے سلسلے میں نہایت اہم پیش رفت سامنے لائی ہے، ایسا نیا علاج جسے آسانی سے روشنی کی شعاع ریزی کے ذریعے فعال کیا جا سکتا ہے، جو کہ عام طور پر بہت محفوظ ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ SeNBD اب تک بنائے گئے ننھے ترین فوٹو سینسٹائزرز میں سے ایک ہے، اور اس کے ’ٹروجن ہارس‘ کے طور پر استعمال نے اختراعی طب میں نئے مواقع کا ایک در کھول دیا ہے۔ ڈاکٹر سام بینسن نے بتایا کہ دوا دینے کے اس مکینزم کا مطلب یہ ہے کہ دوا خلیے کے سامنے یعنی مرکزی دروازے سے دی جائے، بجائے یہ کہ خلیے کے دفاع کے ذریعے وار کرنے کا راستہ ڈھونڈا جائے۔

    واضح رہے کہ یونانی داستانوں میں ٹرائے کے ایک عظیم الجثہ گھوڑے کا ذکر ملتا ہے، یونانی فوجیوں نے لکڑی کا ایک بہت بڑا گھوڑا تیار کیا تھا جو اندر سے خالی تھا، جس میں انھوں نے بڑی تعداد میں فوجی چھپائے تاکہ ٹرائے شہر میں داخل ہو سکیں، یونانی فوجیوں نے جنگ ختم کرنے کا ڈراما کیا اور کہا کہ یہ گھوڑا وہ ٹرائے کو تحفے میں دینا چاہتے ہیں، اس طرح انھوں نے شہر میں داخل ہو کر اسے تباہ و برباد کر دیا۔

  • کرونا وائرس سے بازوؤں میں بھی خون جمنے کا انکشاف

    کرونا وائرس سے بازوؤں میں بھی خون جمنے کا انکشاف

    نیو جرسی: امریکا میں کرونا وائرس کے مریض کے بازو میں بلڈ کلاٹ کا پہلا کیس سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست نیو جرسی کے روٹگرز رابرٹ وُڈ جانسن میڈیکل اسکول کے محققین نے کرونا وائرس کے ایک ایسے کیس کی نشان دہی کی ہے جو بازو میں خون کا لوتھڑا بننے کا پہلا کیس ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کو وِڈ 19 کے نتیجے میں پہلی بار کسی فرد کے بازوؤں میں بلڈ کلاٹ کا کیس سامنے آیا ہے، ان کا خیال ہے کہ اس کیس کے مطالعے سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح کرونا وائرس سے ہونے والا انفلامیشن (ورم، سوجن) خطرناک بلڈ کلاٹس کی وجہ بن سکتا ہے اور ان کا علاج کیسے بہتر طور سے کیا جائے۔

    یہ دریافت طبی جریدے جرنل وائرسز میں شائع ہوئی ہے، یہ مطالعاتی کیس دراصل روٹگرز کے کرونا کے ایک ہزار اسپتال داخل مریضوں کے مطالعے کا حصہ تھا، جنھیں مارچ اور مئی 2020 کے درمیان داخل کیا اور ڈسچارج کیا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل کو وِڈ کے نتیجے میں نچلے حصے یعنی ٹانگوں کی گہری رگوں میں بلڈ کلاٹس کو دریافت کیا جا چکا ہے مگر یہ پہلی بار ہے کہ ایک 85 سالہ شخص کے اوپری بازو میں کو وِڈ کے نتیجے میں خون کے جماؤ کو دیکھا گیا۔ ڈیپ وین تھرمبوسس (DVT) دراصل ایک خطرناک حالت ہے جس میں جسم میں گہرائی میں واقع کسی رگ میں خون کا لوتھڑا بنتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ مذکورہ مریض بائیں بازو میں سوجن کی شکایت کے ساتھ آیا تھا جس کے بعد اسے مزید معائنے کے لیے اسپتال بھیجا گیا اور وہاں اوپری بازو میں بلڈ کلاٹ اور کو وِڈ کی تشخیص ہوئی، تاہم کرونا کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ اس فرد کے خون میں آکسیجن کی سطح میں کمی نہیں آئی مگر اسے بلڈ کلاٹ کے باعث اسپتال میں داخل کیا گیا۔

    روٹگرز میڈیکل اسکول کی اسسٹنٹ پروفیسر آف میڈیسن پائل پارکھ نے بتایا کہ 30 فی صد مریضوں میں بازوؤں میں سے بلڈ کلاٹ پھیپھڑوں تک سفر کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، ایسے مریضوں کو دیگر پیچیدگیوں سے مسلسل سوجن رہنا، درد اور ہاتھوں کی تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔

    یہ تحقیق بتاتی ہے کہ جب معالجین کے پاس کرونا کے مریض غیر واضح سوجن کے ساتھ آئیں، تو انھیں فوری طور پر رگوں میں خون کے لوتھڑوں (DVT) کی ٹیسٹنگ پر توجہ دینی چاہیے۔

    خاتون پروفیسر پائل پارکھ کا کہنا ہے کہ اگر آپ پہلے بھی ڈیپ وین تھرمبوسس کا شکار ہوئے ہیں، تو آپ کو کرونا لاحق ہونے کے بعد خون کے لوتھڑے بننے کا شدید خطرہ لاحق ہے، اس لیے آپ کو چوکس رہنا چاہیے۔