Tag: نئی تحقیق

  • ماہرین نے بریسٹ کینسر سمیت کئی قسم کے کینسر کے علاج سے متعلق خوش خبری سنا دی

    ماہرین نے بریسٹ کینسر سمیت کئی قسم کے کینسر کے علاج سے متعلق خوش خبری سنا دی

    ورجینیا: امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج سے بریسٹ کینسر سمیت دیگر کئی اقسام کے کینسر کے علاج سے متعلق ایک نئی امید پیدا ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی کے میسی کینسر سینٹر میں کی جانے والی اس تحقیق میں چھاتی کے کینسر کا سبب بننے والے ہارمون کو دریافت کر لیا گیا ہے۔

    اس ریسرچ کی رپورٹ جرنل برائے نیچر پارٹنر جرنلز میں شائع ہوئی ہے، بریسٹ کینسر کا سبب بننے والا ہارمون میسی کینسر سینٹر کے محقق چارلس کلیوینجر اور ان کی لیب نے دریافت کیا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کا سبب بننے والے ہارمون کی دریافت سے کئی دیگر اقسام کے کینسر کا علاج بھی ممکن نظر آنے لگا ہے۔

    ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی میں ہونے والی اس حالیہ تحقیق میں اس بات کے مضبوط شواہد ملے ہیں کہ چھاتی میں کینسر کی افزائش کا سبب بننے والا ایک ہارمون پروکلیٹین دراصل بریسٹ گروتھ کا سبب بنتا ہے، اور یہ حمل کے دوران ماں کے دودھ میں اضافے کی وجہ بھی ہوتا ہے۔

    محققین نے اس ہارمون کو بریسٹ کینسر کا اہم سبب قرار دیا ہے، انھوں نے خوش خبری سنائی کہ یہ ہارمون ٹارگیٹڈ دوا کی تیاری میں کافی مفید ثابت ہوگا، اور اس سے کئی قسم کے کینسر کا علاج کیا جا سکے گا۔

    محققین کے مطابق بریسٹ کینسر کا براہ راست سبب بننے والے اس ہارمون کے خلیات کی سطح پر پروٹین موجود ہوتا ہے، جسے رسیپٹرز کہتے ہیں۔ یہ ریسپٹرز بائیولوجیکل پیغامات وصول کرنے اور بھیجنے کے ساتھ خلیے کے افعال کو بھی ریگولیٹ کرتے ہیں۔

  • چھٹی حِس پر نئی تحقیق سامنے آ گئی

    چھٹی حِس پر نئی تحقیق سامنے آ گئی

    واشنگٹن: امریکی محققین نے ایک تحقیق میں معلوم کیا ہے کہ چھٹی حِس دماغ کے اندرونی حصے میں ہوتی ہے اور خطرے کے وقت متحرک ہو جاتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چھٹی حس کے بارے میں ابھی تک کوئی تحقیق اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی، تاہم ایک حالیہ ریسرچ اسٹڈی سے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چھٹی حِس خاص طور پر دماغ کے اندورنی حصے میں موجود ہوتی ہے۔

    اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انسان کو لاحق خطرہ دماغ کے اس حصے میں موجود حس کو متحرک کرتا ہے، اور ایسے احساسات مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔

    چھٹی حس دراصل پانچ حواس سے ہٹ کر واقعات کو دور سے سمجھنے کی صلاحیت ہے، یہ حس ہمیں بعض جذبات سے متعلق بھی معلومات فراہم کرتی ہے اور خبردار کرتی ہے۔ محققین نے چھٹی حس کی کئی اقسام بتائی ہیں، مثلاً کوئی واقعہ ہونے سے پہلے پیش گوئی کرنا، یا خیالات کو پڑھنا چھٹی حس کی اعلیٰ ترین سطح میں سے ایک ہے۔

    واضح رہے کہ چھٹی حس کے بارے میں یہ حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ لوگوں میں چھٹی حس ایک دوسرے سے کتنی مختلف ہوتی ہے، عموماً لوگ اسے ایک اضافی حس سمجھتے ہیں جو انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رد عمل کے لیے تیار رہا جائے۔

    جن لوگوں کی چھٹی حس طاقت ور ہوتی ہے، وہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر مستحکم، اندرونی طور پر خوش اور خود اعتماد ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے سماجی تعلقات وسیع ہوتے ہیں اور یہ کامیاب ہونے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔

    کیا چھٹی حس میں بہتری لائی جا سکتی ہے؟ جی ہاں

    اس کے لیے آپ یہ مشق کر سکتے ہیں کہ کسی چیز کا تجزیہ محض اپنی اندرونی جبلت سے کریں، یعنی اس چیز کا عقلی تجزیہ نہ کریں، اس سے اندرونی جبلت کا شعور تیز ہوگا۔

    اپنے خوابوں کو یاد رکھنے کی کوشش کریں، کیوں کہ خواب وہ خیالات اور احساسات ہیں جو آپ کے لا شعور میں پوشیدہ ہیں۔

    کسی کاغذ کا خالی ٹکڑا لیں اور کوئی بھی سوچ جو آپ کے دماغ میں گھوم رہی ہے اسے بغیر کسی ہچکچاہٹ لکھ لیں، لکھنے سے آپ کا لا شعوری ذہن مضبوط ہوگا۔

    اپنے اردگرد کے لوگوں اور بے جان اشیا کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر توجہ دینا سیکھیں تاکہ آپ کو باریک چیزیں سمجھنے میں آسانی ہو۔

    اور جب آپ کسی سے بات کر رہے ہوں تو پوری توجہ مرکوز کریں، اور اس کی تبدیلیوں اور موڈ کو دیکھیں۔

  • بلڈ پریشر کے مرض سے کیسے بچیں؟ محققین نے آسان طریقہ دریافت کر لیا

    بلڈ پریشر کے مرض سے کیسے بچیں؟ محققین نے آسان طریقہ دریافت کر لیا

    کیلی فورنیا: عام طور سے درمیانی عمر میں لوگوں کو بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کے مسئلے سے سامنا ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن یہ جتنا خطرناک ہے اتنا ہی اس سے بچنا آسان بھی ہے۔

    اس حوالے سے امریکی ریاست کیلی فورنیا کی یونی ورسٹی میں ایک تحقیق کی گئی ہے، جس کے نتائج بتاتے ہیں کہ ہر ہفتے اگر 5 گھنٹے ورزش کی جائے تو درمیانی عمر میں بلند فشار خون کے مسئلے سے تحفظ مل سکتا ہے۔

    یعنی جوانی میں اگر جسمانی سرگرمیوں اور ورزش کو معمول بنایا جائے تو درمیانی عمر میں ہائپرٹینشن جیسے خاموش قاتل مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے، یہ یاد رکھیں کہ ہائی بلڈ پریشر سے فالج اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اور دماغی تنزلی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔

    یہ ایک وسیع سطح کا طبی مطالعہ تھا جس میں 30 برس تک 3 سے 18 سال کی عمر کے 5 ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا، اور اس تحقیقی مطالعے کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف پریوینٹو میڈیسن میں شایع کیے گئے۔

    تحقیق کے دوران ان افراد کی ورزش کی عادات، لاحق ہونے والی بیماریوں، تمباکو نوشی اور الکحل کے استعمال، بلڈ پریشر اور جسمانی وزن پر نظر رکھی گئی، بلوغت کے آغاز سے ہر ہفتے کم از کم 5 گھنٹے ورزش کرنے والے 17.9 فی صد رضاکاروں کے ڈیٹا کے جائزے سے معلوم ہوا کہ ان میں ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 18 فی صد تک کم تھا، جب کہ یہ شرح درمیانی عمر میں جسمانی سرگرمیاں معمول بنانے والوں میں زیادہ تھی۔

    کیا کرونا کو شکست دینے والے افراد کے لیے ویکسین کی ایک خوراک کافی ہے؟

    محققین نے اس دوران یہ اہم نکتہ معلوم کیا کہ جسمانی سرگرمیوں کے دورانیے کو 5 گھنٹے تک بڑھانا ضروری ہوتا ہے، بالخصوص کالج میں زیر تعلیم رہنے کے دوران، بہ صورت دیگر ان میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ یاد رہے کہ مارچ 2020 میں ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنا ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ کم کر سکتا ہے۔

    اوسطاً 9 سال تک درمیانی عمر کے افراد کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوا کہ زیادہ چہل قدمی کرنے والوں میں ذیابیطس کا خطرہ 43 فی صد اور ہائپرٹینشن کا امکان 31 فی صد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق کے دوران 2 ہزار خواتین کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ درمیانی عمر میں جتنا زیادہ پیدل چلنا عادت بنائی جائے، اتنا ہی ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ کم ہو جائے گا، چہل قدمی سے خواتین میں نہ صرف ذیابیطس اور ہائپرٹینشن کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ موٹاپے کا امکان بھی 61 فی صد تک کم ہو جاتا ہے، دوسری طرف اس تحقیق میں مردوں میں چہل قدمی اور موٹاپے کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق معلوم نہیں ہو سکا۔

    محققین کا کہنا تھا چہل قدمی آسان اور مفت جسمانی سرگرمی ہے، روزانہ اپنے قدموں کو گننا ایسا آسان طریقہ ہے جس سے لوگ مختلف امراض سے خود کو بچا سکتے ہیں، جو لوگ روزانہ ورزش کے خیال سے گھبراتے ہیں، وہ بس اپنی توجہ چلتے پھرتے وقت اپنے قدموں پر مرکوز کر لیں، اس سے وہ خود جسمانی طور پر زیادہ متحرک محسوس کرنے لگیں گے، اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ معمول کی جسمانی سرگرمیاں دل کی صحت کے لیے کتنی ضروری ہے، بالخصوص درمیانی عمر میں۔

  • کرونا کو شکست دینے والے جوان افراد سے متعلق نیا انکشاف

    کرونا کو شکست دینے والے جوان افراد سے متعلق نیا انکشاف

    نیویارک: امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ بات واضح طور پر سامنے آ گئی ہے کہ کرونا وائرس کو شکست دینے والے جوان افراد ایک بار پھر اس وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نئی طبی تحقیق میں معلوم ہوا کہ اگرچہ کرونا وائرس کے مریضوں میں اینٹی باڈیز بن جاتے ہیں جو آئندہ بیماری سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، تاہم اس کے باوجود جوان افراد کو اس سے مکمل تحفظ نہیں ملتا، محققین کا کہنا ہے کہ جوان افراد کرونا وائرس سے دوبارہ بیمار ہو سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق نیویارک سٹی کے اسپتال ماؤنٹ سِنائی میں 3 ہزار سے زیادہ صحت مند جوان میرین اہل کاروں پر کی گئی، اور اس کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شایع کیے گئے، نتائج سے معلوم ہوا کہ کو وِڈ ری انفیکشن جوان افراد میں عام ہے، یعنی ایک بار کرونا سے صحت یاب ہونے کے باوجود انھیں دوبارہ انفیکشن ہو سکتا ہے۔

    محققین نے ان نتائج کے تناظر میں جوان افراد کی ویکسی نیشن کو بہت ضروری قرار دیا، کیوں کہ اس سے مدافعتی رد عمل زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور وائرس کی آگے منتقلی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ کرونا سے محفوظ لوگوں میں اس سے متاثر ہونے کا خطرہ ایک بار کرونا سے متاثرہ لوگوں کے مقابلے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے 3 ہزار 249 مردوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں، تحقیق کے دورانیے میں 1 ہزار 98 افراد (یعنی 45 فی صد) میں پہلی بار کو وِڈ کی تشخیص ہوئی جب کہ 10 فی صد میں دوسری بار بیماری کی تشخیص ہوئی۔

    تحقیق میں معلوم ہوا کہ جن افراد کو دوبارہ بیماری لاحق ہوئی، ان میں کرونا وائرس کے خلاف متحرک ہونے والی اینٹی باڈیز کی سطح کم تھی، تاہم پہلی بار بیمار ہونے والوں کے برعکس ان میں وائرل لوڈ اوسطاً 10 گنا کم تھا، اور زیادہ تر ایسے افراد میں کرونا کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔

  • ذہنی دباؤ میں کمی لانے سے متعلق ماہرین کی نئی تحقیق

    ذہنی دباؤ میں کمی لانے سے متعلق ماہرین کی نئی تحقیق

    اوہایو: امریکی یونی ورسٹی کے ماہرین نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ فاسٹ فوڈ کے کم استعمال سے اسٹریس (ذہنی دباؤ) کی سطح کم کی جا سکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اوہایو اسٹیٹ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ فاسٹ فوڈ کے کم استعمال سے ذہنی دباؤ کی سطح کم ہوتی ہے۔

    یہ سروے ریسرچ جریدے نیوٹرنٹس میں چھپی، ریسرچ اسٹڈی میں ایسی زیادہ وزن والی خواتین کو شامل کیا گیا تھا جن کی آمدنی کم تھی، اور جو کم سن بچوں کی مائیں تھیں، اور یہ پروگرام 16 ہفتوں پر مشتمل تھا۔

    ریسرچ اسٹڈی کے دوران ان خواتین نے فاسٹ فوڈ اور زیادہ چکنائی والی اسنیکس پر مشتمل خوراک کا کم استعمال کیا، جس کا نتیجہ واضح طور پر ذہنی دباؤ میں کمی کی صورت میں نکلا۔

    وہ نقصانات جو ذہنی تناؤ کی وجہ سے جسم پر مرتب ہوتے ہیں

    خواتین کا کہنا تھا کہ لائف اسٹائل میں تبدیلی کی وجہ سے ان میں اسٹریس کی کمی میں مدد ملی۔ اس پروگرام کا مقصد ذہنی دباؤ میں کمی لا کر بڑھتے ہوئے وزن کو کنٹرول کرنا، صحت بخش خوراک اور جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا تھا۔

    ریسرچ کے مرکزی مصنف اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف نرسنگ مائی وائی چانگ کا کہنا تھا پروگرام کے بہت سارے شرکا نے پہلی بار اسٹریس میں کمی کا اقرار کیا، اور کہا کہ وہ اس سے قبل ذہنی دباؤ سے بھری زندگی گزار رہے تھے۔

  • جذبات سے متعلق جدید ترین تحقیق

    جذبات سے متعلق جدید ترین تحقیق

    میساچوسٹس: ایک امریکی یونی ورسٹی کے محققین نے جذبات سے متعلق جدید تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ جذبات کی بنیاد پر مبنی انسانی رویے اور احساسات زندگی بھر رہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جذبات کے زیر اثر کیے گئے فیصلے اور اقدامات وقتی اور کم زور ہوتے ہیں، تاہم ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جذبات کی بنیاد پر مبنی رویے اور احساسات زندگی بھر قائم رہتے ہیں۔

    ایسوسی ایشن فار سائیکالوجیکل سائنس نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ لوگ جب کسی خاص چیز کے لیے اپنے احساسات کی وجہ سے کوئی رویہ اپناتے ہیں، تو یہ رویے طویل مدت تک برقرار رہتے ہیں۔

    یہ تحقیق جرنل آف سائیکالوجیکل سائنس میں چھپی، اس میں عارضی اور غیر متغیر دونوں قسم کے رویوں کی پیش گوئی سے متعلق اشارے دیے گئے ہیں، اور یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ کس طرح زیادہ دیر پا رائے قائم کرنے کے لیے لوگوں کو راغب کیا جائے۔

    یونی ورسٹی آف میساچوسٹس بوسٹن کے محقق اور اس تحقیقی مقالے کے شریک مصنف میتھیو راکلیگ کا کہنا ہے کہ ہم جان چکے ہیں کہ لوگوں کو محتاط اور عقلی طور پر سوچنے کی ترغیب دینے سے ایسے رویے پیدا ہو سکتے ہیں جو مستقبل میں کم تبدیل ہوتے ہیں، تاہم ہماری اس تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ وہ رائے جو لوگوں کے جذباتی ردِ عمل پر مبنی ہوتے ہیں، وہ بھی خاص طور سے طویل مدتی ہو سکتے ہیں۔

  • کھانے پینے کی پابندی کے حوالے سے موٹے افراد کے لیے بڑی خوش خبری

    کھانے پینے کی پابندی کے حوالے سے موٹے افراد کے لیے بڑی خوش خبری

    امریکی محققین نے موٹاپے کے شکار افراد کو خوش خبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہ ایسی کئی چیزیں کھا سکتے ہیں جن پر پہلے ڈاکٹرز پابندی عائد کرتے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی محققین نے موٹے افراد پر کھانے پینے کی پابندی ختم کر دی ہے، ایک نئی امریکی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اب موٹے افراد کیک، پنیر اور چربی سے بھرپور کھانا کھا سکتے ہیں۔

    زیادہ وزن کے شکار افراد کی بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کا وزن کم ہو جائے، اس مقصد کے لیے وہ ورزشیں کرتے اور خوارک میں احتیاط برتتے ہیں لیکن حال ہی میں کی گئی تحقیق نے سب کو حیران کر دیا ہے۔

    ایک امریکی یونی ورسٹی میں کی گئی نئی تحقیق میں موٹے افراد کے لیے مرغن غذا کو بھی صحت بخش قرار دیا گیا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ چربی سے بھر پور غذا معدے کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ہے، جسم کے اندر سوزش اور خلیات کو زخمی ہونے سے بچانے کے لیے بھی چربی سے بھرپور کھانا بہت مفید ہے۔

    موٹاپا: رات گئے کھانے کے شوقین افراد کیلئے خوشخبری

    اس قسم کی یہ پہلی تحقیق نہیں ہے، اس سے قبل امریکا ہی میں آئس کریم سے متعلق یہ تحقیق سامنے آئی تھی کہ آئس کریم کھانے سے جسم میں موجود چربی کم ہو جاتی ہے، اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اور اگر جسم میں کیلشیم کی مقدار کم ہونا شروع ہو جائے تو موٹاپا بڑھ جاتا ہے۔

    اس سلسلے میں محققین نے ایسی آئس کریم کھانے کی تجویز دی جس میں کیلوریز 120 سے زیادہ نہ ہوں، ایسی آئس کریم کا مرد ایک سے ڈیڑھ کپ کھا سکتے ہیں، جب کہ عورتوں کے لیے اس کی مقدار ایک کپ تجویز کی گئی۔

    تاہم ماہرین نے یہ بھی واضح کیا کہ دن بھر میں آئس کریم کا کپ ملا کر 1500 کیلوریز سے زیادہ نہیں کھانے چاہیئں۔

  • بچوں سے متعلق کرونا کی نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    بچوں سے متعلق کرونا کی نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    سیؤل: کرونا وائرس سے متعلق نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بچوں میں وائرس کی تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے اور اکثر اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔

    جنوبی کوریا میں کرونا وائرس سے 91 بچوں پر ہونے والی نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان میں سے 20 میں وائرس کی بالکل بھی علامات ظاہر نہیں ہوئیں،18 بچوں میں علامات ابتدا میں نہیں تھیں لیکن بعد میں نمودار ہوئیں جبکہ 53 میں بیماری کا آغاز علامات سے ہی ہوا۔

    جریدے جاما پیڈیاٹرکس میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ صرف ان بچوں کے کرونا ٹیسٹ ہوئے، جن میں علامات نظر آئیں تھیں جبکہ متعدد متاثرہ بچے اس عمل سے گزر نہیں سکے۔

    محققین نے تحقیق کے نتائج کے ساتھ جاما پیڈیاٹرکس میں ایک الگ مقالے میں بتایا کہ متاثرہ بچے علامات یا اس کے بغیر بھی توجہ میں نہیں آئے ہوں گے اور انہوں نے اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھی ہوں گی اور ممکنہ طور پر اپنی برادری کے اندر وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کیا ہوگا۔

    محققین نے بتایا کہ ایسے خطے جہاں ماسک کا استعمال زیادہ نہیں کیا جا رہا، بغیر علامات والے مریض کسی برداری کے اندر بیماری کو خاموشی سے پھیلا سکتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق بغیر علامات یا علامات والے متاثرہ بچے 17دن تک وائرس کو جسم سے خارج کرتے ہیں اور اس دوران دیگر تک پہنچا سکتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بغیر علامات والے والے 14 دن تک وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں جبکہ یہ بھی دریافت کیا گیا کہ 50 فیصد سے زیادہ بچے 21 دن بعد بھی وائرس کو پھیلا رہے تھے۔

    امریکا کے چلڈرنز نیشنل میڈیکل سینٹر کی لیبارٹری میڈیسین کی سربراہ میگن ڈیلانے کا کہنا تھا کہ جنوبی کورین تحقیق میں ماہرین یہ جاننے میں کامیاب رہے کہ ہوسکتا ہے کہ بچے گھر میں تندرست ہوں مگر ان میں سے کچھ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

  • موٹاپے کے حوالے سے نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

    موٹاپے کے حوالے سے نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

    لندن: نئی سائسنی تحقیق میں طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ موٹاپا دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    ہم میں سے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ موٹاپا صرف دل کی بیماریوں اور ذیابیطس کا سبب بنتا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ موٹاپا دماغی امراض کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ایک نئی تحقیق کے مطابق موٹاپا صرف انسانی جسم کے لیے ہی نہیں بلکہ دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپے کے باعث دماغی تنزلی کا باعث بننے والے الزائمر امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    تحقیق کے دوران 17 ہزار سے زائد مردوں اور خواتین کے دماغی اسکین کیے گئے جن کی اوسط عمر 41 سال تھی، تحقیق میں دماغ کے 128 حصوں میں دوران خون کا جائزہ لیا گیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ موٹاپے سے دماغ کے ان 5 حصوں کو خون کی فراہمی کم ہوجاتی ہے جو الزائمر امراض سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

    طبی جریدے جرنل آف الزائمر ڈیزیز میں شائع تحقیق میں محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی وزن میں اضافہ دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

  • حافظ قرآن شوگر ، بلڈ پریشر اور ڈپریشن سے محفوظ رہتے ہیں ، نئی تحقیق

    حافظ قرآن شوگر ، بلڈ پریشر اور ڈپریشن سے محفوظ رہتے ہیں ، نئی تحقیق

    جدہ : تحقیق میں یہ بات سامنے آئی حافظ قرآن افراد کا دماغ عام افراد سے زیادہ قوی ہوتا ہے، جس سے وہ دیگر بیماریوں مثلاََ شوگر ، بلڈ پریشر اور ڈپریشن سے محفوظ رہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق قرآن کریم کی کرامات و معجزات بے شمار و لاثانی ہیں جن میں کسی قسم کی شک کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ، عظیم آسمانی کتاب میں بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی ، اصلاح و بھلائی کے قواعد و ضوابط موجود ہیں ۔

    صدیوں سے علماومفکریں اس عظیم کتاب پر تحقیق کرتے ہیں اور نئے نئے معجزات سامنے آتے ہیں ۔

    سعودی اخبار کے مطابق سعودی عرب کے مشرقی صوبے القصیم یونیورسٹی کے شعبہ طب میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ حافظ قرآن افراد کا دماغ عام افراد سے زیادہ قوی ہوتا ہے، 81 فیصد حفاظ شوگر ، بلند فشار خون کے علاوہ ڈپریشن کا مرض لاحق نہیں ہوتا۔

    قصیم یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے کافی عرصے تک متعدد افراد کا جائزہ لیااور تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ افراد جنہوں نے کم از کم 10 سپارے حفظ کررکھے ہیں، ان میں ڈپریشن 81 فیصد ، شوگر 71 فیصد اور بلڈ پریشر کا مرض 64 فیصد ان افراد کے مقابلے میں کم ہے جنہوں نے محض چند صورتیں ہی حفظ کی ہیں ۔

    طبی تحقیقی ٹیم نے بریدہ کی مساجد سے لوگوں کا انتخاب کیا جن کی عمر55 برس اور اس سے زائد تھی۔