Tag: نئی دہلی

  • بھارت: ’’یکم فروری کو میرے ہاتھوں درندے مریں گے‘‘

    بھارت: ’’یکم فروری کو میرے ہاتھوں درندے مریں گے‘‘

    نئی دہلی: بھارت میں نربھیا اجتماعی زیادتی کیس میں ملوث چاروں مجرموں کو یکم فروری کو پھانسی دی جائے گی، جلاد کا کہنا ہے کہ ان کے ہاتھوں درندے مریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق 54 سالہ بھارتی جلاد کا کہنا ہے کہ اجتماعی زیادتی کرنے والے درندہ اور حیوانی صفت کے مالک ہیں انہیں انسان نہیں کہا جاسکتا، چاروں یکم فروری کو اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق 18 جنوری کو دہلی کورٹ نے نربھیازیادتی کیس میں ملوث تمام مجرمان کے خلاف ڈیتھ وارنٹ جاری کیے، چاروں کو یکم فروری کی صبح چھ بجے تہاڑ جیل میں پھانسی دی جائے گی۔

    مجرموں کو 22 جنوری کی صبح پھانسی دی جانی تھی۔ تاہم اس معاملے کے ایک مجرم مکیش سنگھ نے دہلی کورٹ میں سزائے موت کی تاریخ ملتوی کرنے کی اپیل دائر کی تھی اور رحم کی عرضی بھی صدر رام ناتھ کووند کو بھجوائی تھی جو 18 جنوری کو مسترد ہوئی۔

    دہلی ریپ کیس:ملزمان کی اپیل مسترد ‘سزائے موت برقرار

    صدر سے رحم کی بھیک مانگنے پر مجرمان کی 22 جنوری کو ہونے والی پھانسی روک دی گئی تھی۔ رحم کی عرضی مسترد ہونے کے بعد دہلی کورٹ نے اٹھارہ جنوری کو چاروں مجرمان کے خلاف حتمی فیصلہ سنایا اور یکم فروری کو پھانسی دینے کا حکم دیا۔

    واضح رہے کہ 16 دسمبر 2012 کو بھارتی شہر نئی دہلی میں اجتماعی زیادتی کا واقعہ رونما ہوا تھا، 6 مجرموں نے چلتی بس میں ریپ کرنے کے بعد لڑکی کو سڑک کنارے پھینک دیا تھا، بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے لڑکی ہلاک ہوگئی تھی۔

    خیال رہے کہ اس معاملے میں کل چھ افراد تھے جن میں ایک نابالغ تھا اور وہ تین سال کی سزا مکمل کرنے کے بعدرِہا ہوگیا جبکہ ایک دیگر نے مقدمے کے دوران ہی جیل میں پھانسی لگا کر خود کشی کر لی تھی۔

  • بھارتی خواتین اپنے ہی ملک میں خطرے کا شکار، ہر 15 منٹ میں ایک خاتون سے زیادتی

    بھارتی خواتین اپنے ہی ملک میں خطرے کا شکار، ہر 15 منٹ میں ایک خاتون سے زیادتی

    نئی دہلی: بھارت میں زیادتی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر نئی دہلی کو ریپ کیپیٹل کہا جاتا ہے، حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر 15 منٹ میں ایک خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

    سنہ 2012 میں نئی دہلی میں ہونے والے اجتماعی زیادتی کے ایک کیس نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس میں ایک میڈیکل کی طالبہ نربھیا کو چلتی بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

    مجرمان نے نہ صرف نربھیا کے ساتھ جنسی زیادتی کی بلکہ اسے اس قدر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس کی آنتیں جسم سے باہر آگئیں۔ نربھیا چند روز بعد نہایت تکلیف کی حالت میں اسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔

    مذکورہ کیس نے پورے بھارت میں آگ لگا دی اور ملک بھر میں لوگ سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے لگے، احتجاج میں سیاستدان اور بالی ووڈ فنکار تک شامل تھے۔

    اس کیس کے مجرمان کو سزائے موت سنائی گئی تاہم اس کے باوجود بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھتے جارہے ہیں۔ حال ہی میں وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کی گئی سالانہ جرائم کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2018 میں ہر 15 منٹ میں ایک خاتون نے زیادتی کا واقعہ رپورٹ کیا۔

    اس سال بھارت میں 34 ہزار سے زائد زیادتی کے واقعات رپورٹ کیے گئے، ان میں سے صرف 85 فیصد کے ملزمان کو گرفتار کیا جاسکا جبکہ سزائیں صرف 27 فیصد ملزمان کو ہوئیں۔

    بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف ہولناک اور سنگین ترین جرائم کو بھی غیر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور پولیس ان کی تفتیش میں نہایت سستی و غفلت برتتی ہے۔

    حکومتی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن للیتا کمار منگلم کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے بنائی گئی فاسٹ ٹریک عدالتوں میں بہت کم جج ہیں جبکہ ملک میں فارنزک لیبز بھی کم ہیں۔

    سنہ 2015 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق فاست ٹریک عدالتوں میں مقدمات کی سماعت تو تیزی سے ہوتی ہے، تاہم مقدمات کی تعداد بہت زیادہ اور عدالتیں بہت کم ہیں۔

    علاوہ ازیں بھارت کے کئی علاقوں میں معاشرتی روایات کی وجہ سے زیادتی کے واقعات کو رپورٹ بھی نہیں کیا جاتا، جبکہ زیادتی کے بعد قتل ہونے کے واقعات کو بھی صرف قتل کی واردات کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔

  • حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

    حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

    سیاسی جبر کے مخالف، مساوات کے پرچارک اور انصاف کے متوالے حبیب جالب کے انقلابی ترانے ہندوستان میں گلی گلی گونج رہے ہیں۔

    جالب کی نظموں کے اشعار نعروں کی صورت مودی سرکار کو للکار رہے ہیں۔ بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران خاص طور پر نوجوانوں نے پاکستان کے اس عظیم انقلابی شاعر کی مشہور ترین نظم دستور کو اپنا نعرہ اور پرچم بنا لیا ہے۔

    حبیب جالب نے ظلم، زیادتی اور ناانصافی کے خلاف جو ترانے لکھے، وہ مقبول ہوئے۔ جو شعر کہا وہ زبان زدِ عام ہوا۔ کسی دور میں مصلحت سے کام نہ لینے والے حبیب جالب ہر مظلوم کے دل کی آواز بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ آمریت اور سیاسی جبر کے خلاف بات کریں، طبقاتی نظام سے لڑنا ہو یا کروڑوں عوام کے حق کے لیے آواز اٹھانی ہو، آج بھی حبیب جالب کے ترانے اور ان کے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے۔

    مودی کے جنون کی نذر ہوتے بھارت اور ہندتوا کی آگ میں جلتے ہندوستانی معاشرے کے سنجیدہ، باشعور، نڈر اور بے باک عوام شاعرِ انقلاب کی مشہور نظم ‘‘دستور’’ سے حق و انصاف کا الاؤ بھڑکاتے ہوئے سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ اجتماعات کے دوران حبیب جالب کی نظمیں‌ پڑھی جارہی ہیں اور بینروں‌ پر ان کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔

    گزشتہ دنوں‌ ایک تصویر دنیا کے سامنے آئی جس میں‌ بھارتی لڑکی نے بینر اوڑھا ہوا ہے جو جالب کی مشہور نظم دستور کے اشعار سے سجا ہوا ہے۔

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

    ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

    میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
    میں بھی منصور ہوں، کہہ دو اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

    ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
    چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں

    تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا!

  • میرا کوئی ساتھی پکڑا گیا تو مسلمان ہو جاؤں گی: ہندو طالبہ کا احتجاجی اعلان

    میرا کوئی ساتھی پکڑا گیا تو مسلمان ہو جاؤں گی: ہندو طالبہ کا احتجاجی اعلان

    نئی دہلی: بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ظالمانہ اقدامات پر ایک ہندو طالبہ نے رد عمل کے طور پر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کے خلاف قانون پر احتجاج کی آگ مزید پھیل گئی ہے، بھارتی پولیس نے مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع کر دیے، مظفر نگر اور کانپور میں گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی۔

    احتجاج میں ہلاکتوں کی تعداد اب تک 28 ہو گئی ہے، جب کہ ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

    دلی کی ایک ہندو طالبہ نے احتجاجاً اعلان کیا ہے کہ میرے کسی ساتھی کو حراستی مرکز میں ڈالا گیا یا ہندو مسلم کے نام پر تفریق کی گئی تو میں بھی مسلمان ہو جاؤں گی، مذہب تبدیل کر لوں گی، ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں، ایک کو گولی ماروگے تو دوسرا کھڑا ہوگا۔

    خیال رہے کہ مسلمانوں کے خلاف قانون پر بھارتی صدر کی جانب سے دستخط کے بعد زور پکڑنے والے ملک گیر احتجاج میں ہندو شہری بھی بڑی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں، فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دلی میں نوجوان لڑکیاں اپنے والدین کے خلاف جا کر احتجاج میں شرکت کر رہی ہیں۔ ایک طالبہ کو ان کے والدین نے کالج سے نکالنے اور اس کی شادی کروانے کی دھمکی بھی دی۔

    دوسری طرف بھارت میں پولیس مسلمانوں کے گھروں پر حملے کرنے لگی ہے، مظفر نگر میں پولیس نے گھروں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی، گھر میں کھڑی قیمتی گاڑی کے شیشے ڈنڈے مار کر توڑ ڈالے۔ یوپی میں سماجی کارکن اور اداکارہ صدف جعفر سمیت 925 افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں، ہٹلر کی گود میں مودی والا پوسٹر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا جسے جرمن ٹی وی نے بھی نشر کیا، چنئی میں احتجاج میں شریک جرمن طلبہ کو بھارت چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مظفر نگر میں منا کشی چوک سے میرٹھ روڈ تک پولیس نے مسلمانوں کی 52 دکانیں سیل کر دیں، 14 اضلاع میں موبائل سروس بند کر دی گئی ہے۔ نئی دلی کی جامعہ مسجد کے باہر مسلمانوں کا متنازع قانون کے خلاف احتجاج پر پولیس نے راستے سیل کر دیے۔ بنگلورو، کرناٹک، سمیت دیگر شہروں میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

  • جامعہ ملیہ کے طلبہ کا دہلی میں امیت شاہ کی رہایش گاہ تک مارچ کا اعلان

    جامعہ ملیہ کے طلبہ کا دہلی میں امیت شاہ کی رہایش گاہ تک مارچ کا اعلان

    نئی دہلی: جامعہ ملیہ کے طلبہ نے دہلی میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی رہایش گاہ تک مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شہریت کے متنازع قانون پر بھارت میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، حیدر آباد دکن، دہلی اور لکھنؤ سمیت متعدد شہروں میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد احتجاج کر رہے ہیں۔ مودی سرکار کی سرپرستی میں ریاستی پولیس کے ہاتھوں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے جامعہ ملیہ کے طلبہ نے دہلی میں امیت شاہ کی رہایش گاہ تک مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔

    ادھر مودی سرکار کی لگائی آگ نے پورے بھارت کو لپیٹ میں لے لیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں ظلم ڈھانے والی مودی سرکار کا اپنا گھر بھی جلنے لگا، دہلی، لکھنؤ، حیدر آباد دکن، کولکتہ، بنگلورو سمیت شہر شہر گلی گلی مودی مخالف نعروں سے گونج رہی ہے۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ کانگریس رہنماؤں راہول گاندھی، پریانکا گاندھی کو پولیس نے پولیس تشدد کے متاثرین سے ملنے میرٹھ جانے سے روک دیا ہے، راہول کا کہنا تھا کہ پولیس نے انھیں روکا اور بغیر کاغذ دکھائے واپس جانے کو کہا، ہم نے پولیس کو بتایا کہ صرف 3 لوگ ہیں، دفعہ 144 کی خلاف ورزی نہیں، لیکن پولیس اہل کار واپس جانے پر اصرار کرتے رہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  متنازع ایکٹ کے خلاف احتجاج، بھارتی اداکارہ پر وحشیانہ تشدد، گرفتارکرلیا گیا

    مودی سرکار پر مسلمان مخالف شہریت کا متنازع قانون واپس لینے کے لیے دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے، جامعہ ملیہ سے علی گڑھ یونی ورسٹی تک مختلف جامعات کے طلبہ اور طالبات سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ دہلی میں کانگریس نے شہریت کے متنازع بل کے خلاف احتجاج کیا، جس میں اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رہنماؤں پریانکا گاندھی اور راہول گاندھی نے شرکت کی۔

    راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ مودی بھارت کو تقسیم کر رہے ہیں، بھارتی میڈیا اور مودی سرکار نفرت پھیلا رہے ہیں، مظاہرین پر تشدد کی آڑمیں اپنی نا اہلی چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    ادھر مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بینر جی کولکتہ میں احتجاجی ریلیوں کی قیادت کر رہی ہیں۔

  • 1920: نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    1920: نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک تاریخی حیثیت کی حامل درس گاہ ہے جس کی بنیاد انگریز دور میں اس وقت کی نہایت قابل، باصلاحیت شخصیات اور جذبۂ حریت سے سرشار علما اور بیدار مغز راہ نماؤں نے رکھی تھی۔ یہ صرف مسلمان قیادت نہ تھی بلکہ گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی شخصیات نے بھی اس میں اپنا حصّہ ڈالا تھا۔

    یہ یونیورسٹی 1920 کی یادگار ہے جسے علی گڑھ میں قیام کے صرف پانچ برس بعد یعنی 1925 میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔ تقسیم کے بعد ہندوستانی سرکار نے اسے قانونی طور پر یونیورسٹی کا درجہ دے کر مل کی بڑی درس گاہوں میں شمار کیا۔

    علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھنے والوں میں مولانا محمود حسن دیوبندی، محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبد المجید خواجہ اور ذاکر حسین کے نام سرِفہرست ہیں جو اپنے وقت کی انتہائی قابل شخصیات اور آزادی کے متوالے شمار ہوتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام اس زمانے میں تحریکِ حریت کو آگے بڑھانے کے سلسلے کی ایک کڑی بھی تھا۔ یہ ادارہ اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ یہاں سے نکل کر عصری علوم میں یگانہ اور اسلامی ذہن و فکر کی حامل شخصیات معاشرے کا حصّہ بنیں۔

    اس موقع پر مسلمان اور ہندو راہ نما بھی انگریز سرکار کی مخالفت میں اکٹھے تھے۔ اس درس گاہ کو انگریز سرکار کی امداد سے دور رکھ کر ایسی فضا کو پروان چڑھانا تھا جس میں ہندوستان کی آزادی کا جوش اور ولولہ محسوس ہو اور ساتھ ہی عصری تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت بھی کی جاسکے۔ ان راہ نماؤں کا مقصد یہ تھاکہ نوجوان سیاسی و سماجی طور پر مستحکم ہوں اور اپنے وطن کو آزادی کے بعد ترقی و خوش حالی کے راستے پر لے جاسکیں۔

    دہلی منتقلی کے بعد حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری جیسی بے لوث اور علم دوست ہستیوں نے اس کا وقار بلند کیا اور اسے تن آور درخت بنانے کے لیے اپنا وقت دیا۔ اس جامعہ کو گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی شخصیات کا تعاون اور ان کی حمایت بھی حاصل تھی۔

    22 نومبر 1920 کو حکیم اجمل خان اس درس گاہ کے پہلے چانسلر منتخب کیے گئے جب کہ مسلمانوں کے عظیم لیڈر اور حریت پسند راہ نما محمد علی جوہر کو وائس چانسلر کا عہدہ سونپا گیا تھا۔

    تاریخی حوالوں کے مطابق گاندھی جی نے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے یہ عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی تھی، مگر انھوں نے انکار کر دیا تھا۔

    شہریت کے ترمیمی قانون کے بعد بھارت میں حکومتی اقدام کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور پولیس کی جانب سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر تشدد اور گرفتاریوں کی خبریں دنیا بھر میں بھارت کی رسوائی کا سبب بن رہی ہیں۔ بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ اور خصوصا مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ریاستی سطح پر اس کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

  • علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی پولیس اور طلبا آمنے سامنے، طلبا کے خلاف لاٹھی چارج

    علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی پولیس اور طلبا آمنے سامنے، طلبا کے خلاف لاٹھی چارج

    علی گڑھ: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں طلبا اور پولیس کے تصادم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا مشتعل ہوگئے، علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا اور پولیس میں شدید تصادم ہوا۔

    دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں مظاہرین پر پولیس کے وحشیانہ تشدد کی خبریں سامنے آئیں تو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا بھی سراپا احتجاج بن گئے۔

    اتوار کی شام کو علی گڑھ کے طلبا نے جامعہ ملیہ کے طلبا سے اظہار یکجہتی کے طور پر ریلی نکالی تو اتر پردیش پولیس ان پر چڑھ دوڑی۔ ریلی نکالنے والے طلبا کو پولیس نے کیمپس کے دروازوں پر ہی روکنا چاہا اور یہیں سے تصادم شروع ہوگیا۔

    طلبا کی بڑی تعداد باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی، ذرائع کا کہنا ہے کہ طلبا نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی جس کو جواز بنا کر پولیس نے نہتے طلبا پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔

    طلبا اور پولیس کے تصادم میں 20 طلبا اور 10 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والے طلبہ کی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے۔

    پولیس کے اس عمل کو غیر ضروری اس لیے قرار دیا جارہا ہے کیونکہ کہا جارہا ہے کہ طلبا بالکل پرامن تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ پولیس اہلکار یونیورسٹی کے باہر کھڑی موٹر سائیکلوں کو توڑ رہے ہیں۔

    تصادم کے چند گھنٹوں بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے اور مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے جامعہ کے گرد پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔

    اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے بھی عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کی وجہ بننے والے شہریت بل کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کو اندر داخل ہونے اور مداخلت کرنے کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا۔ کیمپس میں داخل ہونے کے بعد علاقے میں انٹرنیٹ سروس بلاک کردی گئی۔ یونیورسٹی کو 5 جنوری تک کےلیے بند کردیا گیا ہے۔

    پولیس نے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل کو فوری طور پر خالی کروایا جائے تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے ان سے کچھ وقت مانگا ہے تاکہ طلبا کو سمجھا بجھا کر یونیورسٹی خالی کروائی جائے۔

    یاد رہے کہ حال ہی میں پیش کیے جانے والے متنازعہ شہریت بل کے خلاف کلکتہ، گلبارگا، مہاراشٹرا، ممبئی، سولاپور، پونے، ناندت، بھوپال، جنوبی بنگلور، کانپور، احمد آباد، لکھنو، سرت، مالا پورم، آراریہ، حیدر آباد، گایا، اورنگ آباد، اعظم گڑھ، کالی کٹ، یوات مل، گووا اور دیو بند میں شدید مظاہرے کیے جارہے ہیں اور پولیس کو ان سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔

    مختلف علاقوں میں بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستے عورتوں سمیت مظاہرین پر بے پناہ تشدد کر رہے ہیں۔ پرتشدد مظاہروں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

    احتجاجی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ متنازع شہریت ترمیمی بل واپس لیا جائے، مظاہرین مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو بھارتی آئین کے مطابق مکمل حقوق دینے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، مظاہرین نے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رکھنے اور ہر قربانی دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

  • بھارت، فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی، 43 افراد ہلاک

    بھارت، فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی، 43 افراد ہلاک

    نئی دہلی : بھارتی دارالحکومت میں واقع فیکٹری میں ہولناک آتشزدگی کے نتیجے میں 43 افراد ہلاک ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے علاقے اناج منڈی میں واقع ایک عمارت میں اتوار کی صبح خوفناک آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں درجنوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔

    ریسکیو اور فائر فائٹرز عملے نے عمارت سے 56 افراد کو زندہ باہر نکال لیا ہے تاہم بچائے گئے متعدد افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔

    دہلی پولیس نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آگ لپیٹ میں آکر 43 افراد ہلاک جبکہ 56 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ فیکٹری رہائشی علاقے میں قائم تھی جس میں 59 افراد کام کررہے تھے۔

    ترجمان رسیکیو ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ متاثرہ فیکٹری میں اسکول بیگ، بوتلیں اور اسی طرح کا دیگر سامان تیار کیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ رواں برس اکتوبر میں بھارتی گجرات میں بھمبر روڈ پر پلازہ میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی تھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، آتشزدگی کے نتیجے میں 12 سالہ بچی جاں بحق اور 2 افراد زخمی ہوئے تھے۔

  • نئی دہلی میں خطرناک فضائی آلودگی ، آکسیجن فروخت ہونے لگی

    نئی دہلی میں خطرناک فضائی آلودگی ، آکسیجن فروخت ہونے لگی

    نئی دہلی : آلودہ شہروں میں سرفہرست بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافے کے بعدآکسیجن فروخت ہونے لگی، خالص آکسیجن میں 15 منٹ سانس کی قیمت 300 روپے مقرر کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نئی دہلی دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے، سموگ نے سانس لینا دشوار کر دیا، سموگ کے اس راج میں نئی دہلی میں خالص آکسیجن میں 15 منٹ سانس لینے کی پیشکش کی جا رہی ہے، یہ پیشکش اپنی نوعیت کی پہلی آکسیجن بار کی جانب سے کی جارہی ہے۔

    آکسی پیور(خالص آکسیجن)کے نام سے کھلنے والی اس بار میں 15 منٹ سانس لینے کے 300 روپے لیے جا رہے ہیں، آکیسجن میں لیونڈر،لیمن گراس اورمنٹ کی خوشبو کی آمیزش کی گئی ہے، پندرہ منٹ تک آکسی پیور بار میں جا کر اپنے منہ پر ماسک پہنیں اور خالص آکسیجن میں سانس لیں۔

    آکسی پیور کے مالک 26 سالہ آیاویر کمارنے کہاکہ یہ دہلی میں اپنی نوعیت کی پہلی کمرشل سہولت ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عام شہری، شہر کی انتہائی آلودہ فضا سے کچھ دیر کے لیے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ روزانہ 30 سے 40 تک گاہک آتے ہیں، گاہکوں کو یہ سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو آکسیجن کے چھوٹے ڈبے اپنے ساتھ لے جائیں تاکہ وہ صاف ہوا میں سانس بھی لے سکیں اور ان کی معمول کی مصروفیات زندگی بھی متاثر نہ ہوں، جیسے جیسے سموگ بڑھتی ہے تو ہمارے ہاں رش بھی بڑھتا جاتا ہے۔

    عوام نے آلودگی میں کمی کے لئے موثراقدامات نہ کرنے پرمودی سرکارکوکڑی تنقید کا نشانہ بنایا، ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں سموگ کے باعث دل کی بیماریوں میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ حکام نے لوگوں کوغیرضروری طورپرگھروں سے نہ نکلنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

  • بابری مسجد کیس: بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھارتی مسلمان غیر مطمئن

    بابری مسجد کیس: بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھارتی مسلمان غیر مطمئن

    حیدرآباد: مسلمانوں کی تاریخی عبادت گاہ بابری مسجد کیس پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھارتی مسلمانوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی مسلمان بابری مسجد کیس کے فیصلے پر غیر مطمئن ہیں، بھارتی مسلم رہنما اسدالدین اویسی نے کہا سپریم کورٹ سپریم ہے لیکن بے عیب نہیں، اس کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔

    بھارتی مسلم رہنما کا کہنا تھا کہ ہم اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے تھے، ہمیں 5 ایکڑ زمین کی خیرات کی ضرورت نہیں، مسلمانوں کو 5 ایکڑ زمین کا فیصلہ مسترد کر دینا چاہیے۔

    ادھر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کیس کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد برائے فروخت نہیں، فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے، اس کے بدلے سو ایکڑ زمیں بھی دیں گے تو قبول نہیں۔

    تازہ ترین:   بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

    وکلا نے کہا فیصلہ تاریخی حقائق کا غلط حساب کتاب ہے، مسجد کی تعمیر کو تو تسلیم کیا گیا لیکن زمین ہندوؤں کو دے دی گئی، فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دیں گے۔

    واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے بھارتی حکومت کی زیر نگرانی بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا اور مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔

    بھارتی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنا دیا، فیصلے میں سنی اور شیعہ وقف بورڈز کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔