Tag: نئی قسم

  • اومیکرون کی نئی قسم سب سے زیادہ پھیلنے والی قرار

    اومیکرون کی نئی قسم سب سے زیادہ پھیلنے والی قرار

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا اومیکرون کی نئی قسم ایکس بی بی 1.5 کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح کیا ہے کہ کرونا اومیکرون کی نئی قسم ایکس بی بی 1.5 اب تک کی سب سے تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے، تاہم یہ لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    ایکس بی بی 1.5 اومیکرون کی قسم ایکس بی بی ون سے تبدیل شدہ قسم ہے جو چند ماہ سے دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    اس وقت ایکس بی بی 1.5 کی قسم سب سے زیادہ امریکا میں پھیل رہی ہے، تاہم یہ قسم دنیا کے دیگر 29 ممالک میں بھی موجود ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق اب تک کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایکس بی بی 1.5 تیزی سے پھیلنے والی اومیکرون کی نئی قسم ہے مگر ڈیٹا سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ قسم لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    ساتھ ہی ادارے نے واضح کیا کہ جلد ہی ایکس بی بی 1.5 کے اثرات اور اس کے کیسز کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری کی جائے گی مگر دستیاب ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم میں مبتلا افراد زیادہ بیمار نہیں ہو رہے۔

    ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں نے کرونا سے ہونے والی انتہائی کم اموات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ممکنہ طور پر نئی قسم سے بھی اموات کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا، کیوں کہ کرونا سے بچاؤ کے اقدامات کام کر رہے ہیں۔

    ادارے کے عہدیداروں کے مطابق اب تک ایکس بی بی 1.5 کے کیسز 29 ممالک میں رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم یہ قسم سب سے زیادہ امریکی ممالک میں پھیل رہی ہے اور امریکا میں ہر ہفتے اس کے کیسز میں دگنا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایکس بی بی 1.5 اومیکرون کی دو قسموں یعنی ایکس بی بی اور ایکس بی بی ون کی تبدیل شدہ قسم ہے۔ ایکس بی بی اور ایکس بی بی ون کے کیسز پاکستان میں بھی رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم تاحال پاکستان میں ایکس بی بی 1.5 کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

    اس وقت دنیا بھر میں ایکس بی بی کی تینوں اقسام کے علاوہ چین میں بی بی ایف سیون کی قسم بھی پھیل رہی ہے۔

    بی بی ایف سیون اومیکرون کی پہلے سے موجود بی اے 5.2.1.7 اور بی اے فائیو قسموں کی تبدیل شدہ قسم ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں اومیکرون کی متعدد قسمیں سامنے آ چکی ہیں، جن میں عام قسمیں درج ذیل ہیں۔

    بی اے ون ۔ بی اے ٹو ۔ بی اے تھری ۔ بی اے فور ۔ بی اے فائیو

    بی اے ۔4 ۔ بی اے ۔5 ۔ بی اے ۔3

    بی کیو ون ۔ بی کیو 1۔1 ۔ ایکس ای

    بی اے 12۔2 ۔ بی اے 75۔2 ۔ بی اے 2۔75۔2 ۔ بی بی ایف سیون

    ایکس بی بی ۔ ایکس بی بی ون ۔ ایکس بی بی 1.5

  • کرونا وائرس کی ایک اور قسم زیادہ خطرناک قرار

    کرونا وائرس کی ایک اور قسم زیادہ خطرناک قرار

    کرونا وائرس کی ایک قسم ایم یو پر کی جانے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ یہ قسم اینٹی باڈیز کے خلاف بہت زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کی جانے والی کرونا وائرس کی ایک قسم کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مو یعنی ایم یو قسم وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خلاف بہت زیادہ مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ تحقیق جاپان میں کی گئی۔

    ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے خلاف انسانی دفاع (ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ دیگر اقسام سے کیا گیا۔

    اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات کا موازنہ ایسے 18 افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا، جن کی ویکسی نیشن ہوچکی تھی یا وہ کووڈ 19 کا شکار رہ چکے تھے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ کرونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خلاف دیگر تمام اقسام بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔ بیٹا کرونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار دیا جاتا ہے۔

    مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں گزرے اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔

    دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف 18 افراد کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    مگر ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے مو قسم سے ویکسی نیشن کروانے والوں یا اس بیماری کا سامنا کرنے والوں میں بیماری کے خطرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مو قسم قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف دیگر اقسام کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

    اسی طرح کورونا کی یہ قسم ویکسی نیشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف 7.6 گنا زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔

  • جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور نئی قسم دریافت کی گئی ہے جو اب تک کئی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں متعدد تشویشناک میوٹیشنز موجود ہیں۔

    سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیقی مقالے کے مطابق سی 1.2 نامی اس نئی قسم کو سب سے پہلے مئی میں جنوبی افریقہ کے 2 صوبوں ماپو مالانگا اور خاؤٹنگ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    کرونا کی یہ قسم اب تک افریقہ، اوشیانا، ایشیا اور یورپ کے 7 دیگر ممالک میں بھی دریافت کی جا چکی ہے۔

    سائنسدانوں نے بتایا کہ کرونا کی اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز زیادہ تیزی سے پھیلنے اور اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت جیسی صلاحیتوں سے منسلک ہیں، یہ بات اہم ہے کہ یہ نئی قسم تشویشناک میوٹیشنز کے مجموعے پر مبنی ہے۔

    کرونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث اس کی قسم ڈیلٹا نمودار ہوئی جسے سب سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا، جو اب دنیا بھر میں بالا دست قسم بنتی جارہی ہے۔

    عام طور پر وائرس کی نئی اقسام میں ہونے والی میوٹیشنز کے مدنظر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔

    اگر وہ زیادہ متعدی یا بیماری کی شدت بڑھانے کا باعث ثابت ہو تو انہیں تشویشناک اقسام میں شامل کردیا جاتا ہے، سی 1.2 جنوبی افریقہ میں 2020 کی وسط میں کرونا کی پہلی لہر کا باعث بننے والی قسم سی 1 میں تبدیلیوں سے ابھری ہے۔

    کوازولو نیٹل ریسرچ انوویشن اینڈ سیکونسنگ پلیٹ فارم اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار کمیونیکل ڈیزیز کی مشترکہ تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے بارے میں بتایا گیا۔

  • ویتنام: ہوا میں تیزی سے پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کا انکشاف

    ویتنام: ہوا میں تیزی سے پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کا انکشاف

    ہنوئی: ویتنام میں کو وِڈ 19 کی نئی ہائبرڈ قسم کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ اور بھارت میں پہلی بار سامنے آنے والی کرونا وائرس کی زیادہ متعدی اقسام کے بعد اب ویتنام میں ایک نئی ہائبرڈ قسم کی نشان دہی ہوئی ہے۔

    یہ نئی ہائبرڈ قسم برطانوی اور بھارتی اقسام کی خصوصیات کی بھی حامل ہے، جس کی وجہ سے یہ انتہائی متعدی ہے۔

    ویت ناک کے وزیر صحت نگوین تھان لونگ نے ہفتے کو بتایا کہ اس وائرس میں برطانوی اور بھارتی اقسام کی خواص موجود ہیں، اس وائرس کی یہ ہائبرڈ قسم ہوا میں بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے، جلد وزارت کی جانب سے ورلڈ جِین میپ پر اس نئی قسم کا اعلان کر دیا جائے گا۔

    انھوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے نئے مریضوں میں جین سیکوئسنگ کے دوران اس ہائبرڈ قسم کا انکشاف ہوا، یعنی یہ دراصل بھارتی قسم ہے جس میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، اور اس کی اصلی قسم برطانوی تھی۔

    واضح رہے کہ برطانیہ اور بھارت میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی دو تبدیل شدہ اقسام، ویتنام میں بھی جاری وبا کی موجودہ لہر کے دوران زیادہ تر کیسز کی وجہ ہیں۔

    ویتنام میں اب تک صرف 6 ہزار 713 کرونا کیسز سامنے آئے ہیں، جب کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 143 نئے کیسز کی تصدیق ہوئی، اور اب تک مجموعی طور پر کرونا انفیکشن سے 47 افراد جان سے گئے۔

  • کرونا وائرس کی ایک اور قسم کے بارے میں پریشان کن انکشاف

    کرونا وائرس کی ایک اور قسم کے بارے میں پریشان کن انکشاف

    کرونا وائرس کے پھیلنے کے ایک سال بعد اب اس وائرس میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں جنہوں نے ماہرین کو پریشان کر رکھا ہے، حال ہی میں کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کے بارے میں پریشان کن انکشاف ہوا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ برازیل میں سب سے پہلے نمودار ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ برازیل میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پی 1 ماضی میں کووڈ سے متاثر ہونے والے افراد میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    برازیل کرونا وائرس کی وبا سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے بالخصوص میناوس نامی شہر پر سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2020 کے وسط میں میناوس کے 75 فیصد کے قریب افراد کرونا کی پہلی لہر سے متاثر ہوئے تھے اور کچھ ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ اس شہر میں بیماری کے خلاف اجتماعی مدافعت پیدا ہوگئی ہے۔

    مگر سنہ 2020 کے اختتام پر اس شہر میں کووڈ کی دوسری لہر سامنے آئی جس میں پی 1 قسم کا ہاتھ تھا۔

    تحقیق میں شامل کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ماہرین کہنا تھا کہ ہمارے ماڈل سے عندیہ ملتا ہے کہ پی 1 کرونا وائرس کی دیگر اقسام سے زیادہ متعدی ہے اور دیگر اقسام سے ہونے والی بیماری سے جسم میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔

    محققین نے پی 1 میں 17 میوٹیشنز کو دریافت کیا جن میں سے 3 اسپائیک پروٹین میں ہوئی تھیں۔

    اسپائیک پروٹین میں ہونے والی 3 میوٹیشنز سے اس نئی قسم کو انسانی خلیات کو مؤثر طریقے سے جکڑنے میں مدد ملی، جن میں سے ایک میوٹیشن این 501 وائے برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں دریافت اقسام میں بھی دیکھی گئی تھی۔

    اس میوٹیشن سے وائرس کے لیے انسانی خلیات کو جکڑنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے جبکہ ایک اور میوٹیشن ای 484 کے تھی جو وائرس کو موجودہ مدافعتی ردعمل کو پیچھے چھوڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی 1 کورونا وائرس کی اوریجنل قسم کے ساتھ ساتھ دیگر اقسام کے مقابلے میں 1.4 سے 2.2 گنا زیادہ متعدی ہے۔

    اسی طرح یہ قسم پرانی اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں پیدا ہونے والی امیونٹی کی شرح کو بھی 10 سے 46 فیصد تک کم کر سکتی ہے، جس سے لوگوں میں دوسری بار کووڈ کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    محققین کے مطابق میناوس کے رہائشیوں میں پی 1 سسے متاثر ہونے پر موت کا خطرہ دیگر اقسام کے مقابلے میں 1.2 سے 1.9 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

    برازیل میں دریافت ہونے والی یہ نئی قسم پاکستان سمیت متعدد ممالک تک پھیل چکی ہے۔

  • فلپائن میں بھی کرونا وائرس کی نئی قسم رپورٹ

    فلپائن میں بھی کرونا وائرس کی نئی قسم رپورٹ

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کی نئی اقسام سامنے آنے کے بعد اب فلپائن میں ایک اور نئی قسم کا انکشاف ہوا ہے، ماہرین اس نئی قسم کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    فلپائن میں محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ نئی قسم کا پتہ تب چلا جب طبی اہلکاروں نے کرونا وائرس کے 85 نئے کیسز کا جائزہ لیا۔

    محکمہ صحت کے مطابق کرونا وائرس کی اس نئی قسم کا نام پی 3 ہے اور پورے فلپائن میں ابھی تک اس نئی قسم کے 98 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئی قسم کے پھیلنے اور اس سے ہونے والی اموات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

    خیال رہے کہ فلپائن میں اب تک کرونا وائرس کے 6 لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ اب تک 13 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔

  • برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں موجود کرونا وائرس کی نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا اور متعدی ہے۔ ماہرین نے کرونا کی اس قسم سے اموات کی شرح کا تعین بھی کیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ جان لیوا ہے۔

    برسٹل، لنکا شائر، واروک اور ایکسٹر یونیورسٹیوں کی اس مشترکہ تحقیق میں یکم اکتوبر 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران کرونا وائرس کی برطانوی قسم سے متاثر 54 ہزار مریضوں کا موازنہ اتنی ہی تعداد میں پرانی قسم سے بیمار ہونے والے افراد سے کیا۔

    ماہرین نے عمر، جنس، نسل، علاقے اور سماجی حیثیت جیسے عناصر کو مدنظر رکھ کر یقینی بنایا کہ اموات کی وجہ کوئی اور نہ ہو۔

    یہ کسی طبی جریدے میں شائع ہونے والی پہلی تحقیق ہے جس میں کرونا کی برطانوی قسم سے اموات کی شرح کا تعین کیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اصل قسم سے شرح اموات ہر ایک ہزار میں 2.5 تھی مگر برطانوی قسم میں یہ شرح ہر ایک ہزار میں 4.1 تک پہنچ گئی، جو 64 فیصد زیادہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے بلکہ یہ زیادہ جان لیوا بھی نظر آتی ہے۔

    اس نئی قسم کے نتیجے میں اموات کی شرح میں اضافے کی وجوہات کو مکمل طور پر واضح نہیں کیا گیا، تاہم حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والے کچھ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ بی 1.1.7 سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہے، جس کے باعث وائرس نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے بلکہ مخصوص طریقہ علاج کی افادیت کو بھی ممکنہ طور پر متاثر کرسکتا ہے۔

    برطانیہ میں یہ نئی قسم سب سے پہلے ستمبر میں سامنے آئی تھی اور اس کی دریافت کا اعلان دسمبر 2020 میں کیا گیا تھا، جو اب تک درجنوں ممالک تک پہنچ چکی ہے اور امریکا میں یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں 35 سے 45 فیصد زیادہ آسانی سے پھیل رہی ہے۔

    امریکی حکام کا اندازہ ہے کہ یہ نئی قسم رواں سال مارچ میں امریکا میں سب سے زیادہ پھیل جانے والی قسم ہوگی۔

    اس نئی قسم سے لاحق ہونے والا سب سے بڑا خطرہ اس کا زیادہ تیزی سے پھیلنا ہی ہے، ایک اندازے کے مطابق یہ پرانی اقسام کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے، تاہم کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ شرح اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کرونا وائرس کی نئی قسم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کرونا وائرس کی نئی اقسام سامنے آرہی ہیں اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نئی اقسام پرانی قسم سے مختلف اور زیادہ طاقتور ہوسکتی ہیں۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برازیل میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے۔

    برطانیہ اور برازیل کے ماہرین کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ پی 1 نامی کرونا وائرس کی یہ نئی قسم 2.2 گنا زیادہ متعدی اور کووڈ سے پہلے بیمار ہونے والے افراد کی مدافعت کو 61 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔

    یہ تحقیق ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی اور اسے پری پرنٹ سرور پر جاری کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی 1 کے نتیجے میں کرونا وائرس کے کیسز میں برازیل کے شہر میناوس میں اضافہ ہوا اور وہاں 2020 کے اختتام میں وبا کی دوسری لہر سامنے آئی۔

    یہ دوسری لہر اس لیے بھی طبی ماہرین کے لیے پریشان کن تھی کیونکہ پہلی لہر کے دوران وہاں بہت زیادہ کیسز کے بعد اجتماعی مدافعت (ہرڈ امیونٹی) کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا۔

    تحقیق کے دوران نومبر 2020 سے جنوری 2021 کے دوران اس شہر میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے والے افراد کے نمونوں سے وائرس کے جینیاتی سیکونس بنائے گئے۔

    محققین نے دریافت کیا کہ اس قسم کے نمونوں کی شرح 7 ہفتوں کے دوران صفر سے 87 فیصد تک بڑھ گئی۔

    انہوں نے اس نئی قسم میں 17 میوٹیشنز کو شناخت کیا جن میں سے 10 اسپائیک پروٹین کی سطح پر ہوئیں، جس کو یہ وائرس انسانی خلیات میں داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    اسپائیک پروٹین میں ہونے والی 3 میوٹیشنز سے اس نئی قسم کو انسانی خلیات کو مؤثر طریقے سے جکڑنے میں مدد ملی، جن میں سے ایک میوٹیشن این 501 وائے برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں دریافت اقسام میں بھی دیکھی گئی تھی۔

    ماہرین نے ان تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر جانچ پڑتال کی کہ اس سے وائرس کی انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔

    انہوں نے ڈیٹا سے ماڈلز تیار کیے جن سے ثابت ہوا کہ کرونا وائرس کی اوریجنل قسم کے ساتھ ساتھ دیگر اقسام کے مقابلے میں 1.4 سے 2.2 گنا زیادہ متعدی ہے۔

    اسی طرح یہ قسم پرانی اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں پیدا ہونے والی امیونٹی کی شرح کو بھی 25 سے 65 فیصد تک کم کرسکتی ہے، جس سے لوگوں میں دوسری بار کووڈ کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پی 1 میں کافی کچھ تبدیل ہوا ہے جو کہ باعث تشویش ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    لندن: برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پاکستان سمیت کئی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ہے۔

    امپریئل کالج لندن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم بی 117 کے نتیجے میں کووڈ کیسز ری پروڈکشن یا آر نمبر 0.4 سے 0.7 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    عام طور پر کسی وبائی مرض کے بنیادی ری پروڈکشن نمبر کے لیے ایک اعشاری نظام آر او ویلیو کی مدد لی جاتی ہے، یعنی اس ویلیو سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مرض کا شکار فرد مزید کتنے لوگوں کو بیمار کرسکتا ہے۔

    خسرے کا آر او نمبر 12 سے 18 ہے جبکہ 2002 اور 2003 میں سارس کی وبا کو آر او 3 نمبر دیا گیا تھا، اس وقت برطانیہ میں کووڈ کا آر نمبر 1.1 سے 1.3 کے درمیان ہے اور کیسز میں کمی لانے کے لیے اسے ایک سے کم کرنا ضروری ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کہ وائرس کی دونوں اقسام کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، یہ بہت بڑا فرق ہے کہ وائرس کی یہ قسم کتنی آسانی سے پھیل سکتی ہے، یہ وبا کے آغاز کے بعد سے وائرس میں آنے والی سب سے سنجیدہ تبدیلی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی شرح میں نومبر میں برطانیہ کے لاک ڈاؤن کے دوران 3 گنا اضافہ ہوا، حالانکہ سابقہ ورژن کے کیسز میں ایک تہائی کمی آئی۔

    برطانیہ میں حالیہ دنوں کے دوران کرونا وائرس کے کیسز کی شرح میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس 20 سال سے کم عمر نوجوانوں خصوصاً اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

    مگر اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی قسم ہر عمر کے گروپس میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    محققین کے مطابق ابتدائی ڈیٹا کی ایک ممکنہ وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ نومبر کے لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے جبکہ بالغ آبادی کی سرگرمیوں پر پابندیاں تھیں، مگر اب ہم نے ہر عمر کے افراد میں اس نئی قسم کے کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھا ہے۔

    تحقیق میں جو چونکا دینے والی بات دریافت کی گئی وہ یہ تھی کہ نومبر میں برطانیہ میں لاک ڈاؤن لوگوں کے لیے ضرور سخت تھا مگر اس سے وائرس کی نئی قسم کا پھیلاؤ رک نہیں سکا۔

    حالانکہ ان پابندیوں کے نتیجے میں وائرس کی سابقہ اقسام کے کیسز کی شرح میں ایک تہائی کمی آئی، مگر نئی قسم کے کیسز کی شرح 3 گنا بڑھ گئی۔

    ابھی اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ جاننا ممکن ہوسکے کہ یہ نئی قسم اتنی تیزی سے کیسے پھیل رہی ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسینز اس کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اس نئی قسم میں 14 میوٹیشنز موجود ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں ہوئیں۔

    یہ وہی پروٹین ہے جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں تبدیلیاں دنیا بھر میں گردش کرنے والے اس وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کافی نمایاں ہیں۔

  • کیا کرونا وائرس کی نئی قسم کے لیے بچے آسان ہدف ہیں؟

    کیا کرونا وائرس کی نئی قسم کے لیے بچے آسان ہدف ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم بچوں کو زیادہ آسانی سے متاثر کرسکتی ہے، کرونا وائرس بچوں کو متاثر کرنے کے حوالے سے زیادہ مؤثر نہیں رہا تھا تاہم اب کرونا وائرس کی نئی قسم اس سے مختلف نظر آرہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں بچوں کو زیادہ آسانی سے متاثر کر سکتی ہے۔ ماہرین نے اب تک کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم بچوں میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

    برطانیہ کے امپریئل کالج لندن کے پروفیسر نیل فرگوسن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ساؤتھ ایسٹ لندن میں اس نئی قسم کے کیسز کا ڈیٹا دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر اقسام کے مقابلے میں یہ بچوں کو زیادہ بیمار کر رہی ہے۔

    ان کے مطابق برطانیہ میں لاک ڈاؤن کے دوران ہم نے بچوں میں وائرس کے حوالےسے عمر کی تقسیم کو دیکھا تھا، یہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بالغ افراد کی سرگرمیاں محدود کی گئی ہیں مگر تعلیمی ادارے ابھی کھلے ہیں، ہم نے 5 یا 6 ہفتوں کے دوران 15 سال سے کم عمر بچوں میں اس نئی قسم کے تسلسل کو دیکھا ہے۔

    برطانوی حکومت کے نیو اینڈ ایمرجنگ ریسپیٹری وائرس تھریٹ ایڈوائزری گروپ کی رکن پروفیسر وینڈی بارسلے کا کہنا ہے کہ ہم شروع سے دیکھتے آرہے ہیں کرونا وائرس بچوں کو متاثر کرنے کے حوالے سے زیادہ مؤثر نہیں ہے تاہم اب کرونا وائرس کی نئی قسم اس سے مختلف نظر آرہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایک خیال یہ ہے کہ نئی قسم بچوں میں ان خلیات کو متاثر کرنے میں زیادہ کامیاب ثابت ہورہی ہے، جس میں پرانی اقسام کو مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔

    سائنسدانوں کی جانب سے اس نئی قسم پر تحقیق کر کے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مجوزہ ویکسینز اس کی روک تھام میں کس حد تک مؤثر ہوں گی۔