Tag: نئی نسل

  • نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے نئی نسل کو ڈپریسڈ جنریشن قرار دیتے ہوئے ڈپریشن کی متعدد وجوہات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کرتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔

    نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ خود کشی کی بڑی وجوہات میں نفسیاتی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بےعزتی کا خوف اور منفی مقابلے کا رجحان بھی شامل ہیں۔

    دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں جس کا منطقی انجام خود کشی جیسے بہت بھیانک روپ میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

    مینٹل ہیلتھ ڈیلی نے خودکشی کے متعدد اسباب میں خاص طور پر 15 وجوہات کا ذکر کیا ہے، ان وجوہات میں ذہنی بیماریاں، ناخوشگوار تجربات، ایذا، ڈر، خوف، ناپختہ شخصیت، نشیلی ادویات کا استعمال، غذائی مسائل، بے روزگاری، اکیلا پن، رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل، جینیاتی امراض، خواہشات کی عدم تکمیل، جان لیوا امراض، دائمی جسمانی اور ذہنی درد و تکلیف، معاشی مسائل اور ڈاکٹرز کی جانب سے تجویز کردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔

    امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، گھریلو تشدد اور لڑائی کی کو بھی خود کشی کے اسباب میں شامل کیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا سماجی نظام ہے جہاں اولاد یا رشتوں سے زیادہ روایات، رسوم اور باہر والوں کی آرا کو اہمیت دی جاتی ہے۔

    ڈپریشن ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، یہ مرض واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

    اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے جو اس کی سوشل اور پروفیشنل زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق سنہ 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

    تاہم نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن کیوں بنتی جارہی ہے؟ اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔

    جنریشن گیپ: ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ سال میں آنے والے ٹیکنالوجی کے طوفان نے نئی اور پرانی نسل کے درمیان بے تحاشہ فاصلہ پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے دونوں نسلوں کے درمیان گفت و شنید کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔

    سوشل میڈیا: ڈپریشن کی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی ہے جس پر لوگ اپنی مصنوعی شخصیات پیش کرتے ہیں نتیجتاً دیگر افراد احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال: موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھی ہے مگر ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا ہیں۔

  • ورزش کے مثبت اثرات آنے والی نسل میں بھی منتقل ہوسکتے ہیں: جدید تحقیق

    ورزش کے مثبت اثرات آنے والی نسل میں بھی منتقل ہوسکتے ہیں: جدید تحقیق

    برلن: جسمانی اور ذہنی ورزش سے نہ صرف آپ خود کو صحت مند اور تروتازہ رکھتے ہیں بلکہ اس کے مثبت اثرات آپ کی آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یہ حیرت انگیز انکشاف جرمنی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ جسمانی اور ذہنی ورزش نہ صرف ہمارے دماغ اور صحت کے لیے بہت اچھی ہے بلکہ اس کے مثبت اثرات بچوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔

    جرمن سینٹر فار نیورو ڈیجنریٹیو ڈیزیزز (ڈی زیڈ این ای) کی جانب سے ورزش کے اثرات سے متعلق تحقیق کی گئی جس کے لیے چوہوں کا استعمال کیا گیا، جہاں چوہوں کو ایسا ماحول دیا جس میں انہیں ورزش کے مواقع حاصل تھے، بعد ازاں ان چوہوں کے بچوں پر جب تجربات کیے گئے تو پتہ چلا کہ ان کے بچوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچا ہے۔

    بغیر ورزش فٹ رہنے کے طریقے

    چوہوں پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ دیگر چوہوں کے مقابلے پر ان میں سیکھنے کی صلاحیت زیادہ تھی اور ورزش سے حاصل ہونے والے فوائد ڈی این اے کے ذریعے اگلی نسل تک منتقل ہو گئے، تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا یہ اثرات انسانوں میں بھی قابلِ عمل ہیں۔

    صحت کے لیے غیر ضروری ان عادات سے چھٹکارہ پائیں

    تحقیق سے متعلق ڈی زیڈ این ای کے پروفیسر آندرے فشر کا کہنا تھا کہ جسمانی اور ذہنی ورزش ممکنہ طور پر دماغی خلیوں کے درمیان ربط کو بہتر بناتے ہیں اور اس سے بچوں کو دماغی فائدہ پہنچتا ہے، اور یہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت مفید ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔